... loading ...
ہمارے Pager پر مختصر سا چیف سیکرٹری کے دفتر والا پیغام تو آپ کو یاد ہے نا۔Hang on airport .Call after 5.p.m.Our C.S now sleeping.
ساڑھے چار بجے پیجر نے بے قرار ہوکر ایک کوک ماریCall C.S in 7 minutes. Now in toilet .P.S۔۔ دیکھا آپ نے کیسے اچھے اور باصلاحیت پرائیوٹ سیکرٹری ہوتے تھے۔ اُنہیں یہ بھی پتا ہوتا تھا کہ سہ پہر کو خلاف معمول اچانک بیدار ہونے والے چیف سیکرٹری کا حاجت خانے میں قیام کتنے دورانیے کا ہوگا۔ انگریز نے غیر منقسم ہندوستان کی بیوروکریسی کو بلاوجہ تو Steel Frame of India نہیں کہا تھا ۔ یہ اور بات ہے کے آزادی کے تیس سال بعد اس کے Steel میں ایک E کی بجائےA لگ گیا۔
فون کیا تو پی ایس لائن پر تھا ہم نے پوچھا کہ’’ سندھ سرکار وقت سے آدھے گھنٹہ پہلے کیسے جاگ گئی۔ کہنے لگے کہ جس طرح کھانا اور بیوی کی ڈانٹ کھائی تھی۔ کک بھی کہہ رہا تھا بھائی جان پیٹ بھر گیا ہے اور دل ٹوٹ گیا ہے تو عالم پناہ لمبی تان کر سوئیں گے مگر اسلام آباد سے دھبا دھب فون آرہے ہیں لگتا ہے مارشل لگ گیا ہے۔ہم نے جتلایا کہ غلط! مارشل لاء لگتا ہے تو ٹی وی پر گھبرائے ہوئے جنرل اور دفاتر میں غصیلے میجر اور بے مروت کپتان آتے ہیں۔
فون پرسی ایس کا کہنا تھا کہ نو متعین وزیر اعظم کے لیے طیارہ اسلام آباد والے بھیجیں گے۔انہیں وصول کرکے ہم اسلام آباد والے عملے کو ہینڈ اوور کریں گے۔ہم نے پروٹوکول لائن اپ کا پوچھا تو بچوں کی طرح غوں غوں کرکے کہنے لگے You know today ,I am the highest state authority in the province ہمارا جی چاہا کہ انہیں اداکار شاہد کی بہنوں کا وہ جملہ بطور تعریف سنادیں جو اداکارہ بابرہ شریف سے شادی کے وقت انہوں نے اپنے بھائی کی شان میں کہا تھا کہ’’ساڈا بھا شاہد تو اگّے وی ہیرو سی‘‘۔ حد ادب مانع آگئی ۔وہ بتانے لگے کہ چونکہ صوبے میں وہ اور آئی جی وفاق کے سب سے بڑے زندہ نمائندے ہیں لہذا نو متعین وزیر اعظم کو مملکت خدا داد پاکستان میں سب سے پہلے وہ خوش آمدید کہیں گے۔وزیر اعظم کون ہیں تو انہوں نے None of your business کہہ کر فون پٹخ دیا۔
وزیر اعظم کون تھے؟ یہ تو اسلام آباد سے آئے ہوئے عملے کو بھی پتا نہ تھا۔ہمیں چنتا ہوئی تو ہم نے کہا جب تک ہمیں یہ نہ معلوم ہو کہ کس سرکار کی آمد ہے تو ہم مرحبا کیسے کہیں گے۔ان کا پروٹوکول افسر کہنے لگا کہ یہ سندھ حکومت کا سردرد ہے۔وہ ہمیں چنی لال کیسری بھائی امدا واد (گجراتی احمدآباد کو ایسے بولتے ہیں) والے کے حوالے کردیں ،وہ جہاز میں بٹھا کر اسلام آباد لے جائیں گے۔آگے سندھ حکومت جانے۔
کوئی ساڑھے چھ بجے پیجر پر پھر حکم آیا کہ سی ایس ہاؤس فون کریں۔پتاچلا کوئی معین قریشی صاحب ہیں۔ورلڈ بنک میں ہوتے ہیں۔سنگاپور سے براستہ بنکاک سے آرہے ہیں، تھائی ایرویز کی فلائٹ ہے۔اب سی ایس صاحب کو جہاز پارک کرانے کی فکر تھی۔
تھائی ایر ویز نے بمشکل ٹرمینل تھری کی اس وقت حامی بھری جب انہیں یہ خاطر جمع کرادی گئی کہ طیارہ وہاں آن کے رکے گا۔سارا مرحلہ پانچ منٹ سے زیادہ کا عرصہ نہیں لے گا۔پروٹوکول کے چونچلوں میں ان کی فلائٹ کو تاخیر کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ٹرمینل تھری تب ایک کارگو ٹرمینل تھا اور کھیپیوں کا پسندیدہ ہائیڈ آؤٹ بھی ۔ تھائی ایر ویز والوں کو وہاں روشنی کے ناکافی انتظامات کا گلہ تھا مگر ہم نے انہیں دھاڑس بندھائی کہ ایک اندھیارے دکھیارے ٹرمینل کی کیا بات کرتے ہیں آپ ،ہمارا امپورٹڈ وزیر اعظم ایسا ہوگا کہ سارے ایشیا میں اس کے افعال مبارکہ اور رخ روشن سے شمع اجالا ہوجائے گا۔ سرکار کی آمد مرحبا ۔ان کے افسر نے جب ہم سے سوال کیا کہ کیا ہم ان سے پہلے مل چکے ہیں تو ہمارا وہی حال تھا کہ دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں، تم کو نہ ہو خیال تو ہم کیا جواب دیں، کہنے سے ہو ملال تو ہم کیا جواب دیں۔
خدا خدا کرکے ٹرمینل ون جو وی آئی پی ٹرمینل ہے اس کی بتیاں روشن ہوئیں تو اس کی روشنی سے ٹرمینل تھری پر افسران ایک دوسرے کو منہ دکھانے کے قابل ہوئے۔ساڑھے سات بجے طیارہ ٹیکسی کرتا ہوا اس طرف آیا تو نیچے پروٹوکول میں سندھ کی ہائیسٹ سرکاری اتھارٹی۔ ان کے جلو میں آئی جی صاحب۔ذرا ہٹ کے سیاہ اور سفید شیروانیاں تھامے دوڑے دوڑے بھاگے سے ایک صاحب بھی آگئے ،جنہوں نے اعلان کیا کہ Barely managed with his sherwanis۔بعد میں اس نیک دل آدمی نے اپنا تعارف وزیر اعظم کا بھائی کہہ کر کر ایا۔ان سب سے شمع کی مانند اہل انجمن سے بے نیاز اپنی آگ میں چپ چاپ جلتا۔ اس نیم تاریک گوشے میں سیاہ ویلڈنگ کا چشمہ لگائے ، سفید شلوار قمیص میں ملبوس پیلے براؤن کالے چیک کی بٹن بند واسکٹ اور ویسی ہی کرسٹی گیلز کی انگلش کیپ،ہاتھ میں گولڈ لیف کا پیکٹ تھا اور اسی ہاتھ کی دوسری اور تیسری انگلی کے درمیان بند مٹھی میں سلگتا ہوا سگریٹ۔نہ اسے آئی جی کی دلداری اور منصب عالیہ کی پرواہ تھی نہ کارگو کی آتش پرستی کی۔ہمیں لگا کہ یہ ایم آئی سکس کا ملکہ برطانیہ کی اجازت خصوصی سے تعینات وہ لارنس آف چیچہ وطنی ہے جسے آب پارہ والوں نے ہم سب کی نگرانی کے لیے بھیجا ہے۔
نامزد وزیر اعظم کو جس قدر جلدی طیارے سے باہر آنے کی تھی ایسے ہی بوجھل قدموں سے ہم بھی انہیں وصول کرنے کے لیے چل پڑے۔ ان کی شناخت کا مرحلہ یوں طے ہوا کہ ائیر ہوسٹس نے ہمارے استفسار پر کہا کہ فرسٹ کلاس میں ایک ایسا شخص موجود ہے جو یقینا پاکستان کا ہونے والا وزیر اعظم ہے کیونکہ بنکاک سے چلنے کے بعد وہ ہزارہا مرتبہ پوچھ چکا ہے کہ کراچی کب لینڈ کریں گے۔ ہم نے بھی آہستہ سے کہا کہ تو اگر کبھی بدھا کی کرپا سے وزیر اعظم بنی تو تیرا بھی وہی حال ہوگا جو ہمارے ہاں گاؤں کی دلہنوں کا دوسرے پنڈ سے آنے والی بارات کی بے چینی سے انتظار میں اور ہمارے جادوگر کے ہیٹ سے خرگوش کی طرح برآمد ہونے والے وزیر اعظم کا ہے۔
ہم نے وزیر اعظم سے سرکاری تعارف کے دوران ہی ان کا پاسپورٹ اور سامان کے ٹیگ حفظ ماتقدم کے طور پر مانگے تو انہوں نے خوش دلی سے حوالے کردیے۔پاسپورٹ مشینی نہ تھا۔تب تک مشینی پاسپورٹ آیا بھی نہ تھا۔اسے سنگاپور سے جاری کیا گیا تھا۔ نام کی تصدیق کے لیے کھولا تو اس کے صفحات آپس میں یوں پیوستہ تھے جیسے چھوٹے بچے اجنبی مہمان کے تابڑ توڑ سوالات سے تنگ آن کر ایک دوسرے میں گھسے جاتے ہیں۔ہم نے معین احمد قریشی نام پڑھا۔ سکھ کا سانس لیا کہ گوہر مطلوب تک صحیح پہنچ گئے ہیں۔
دم رخصت ائیر ہوسٹس سے انہوں نے ہاتھ ملایا تو جھونگے ( چھوٹے علاقوں میں بچوں کو دُکان سے سودا خریدنے پر جو چھوٹا سا کھانے پینے کا تحفہ دیتا ہے اسے پنجابی میں جھونگا کہتے ہیں) میں ہمارے ہاتھ میں تھائی لینڈ کی رس ملائی جیسا ہاتھ آگیا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ نو تعینات وزیر اعظم کا پہلا سوال کیا تھا۔Has someone brought Sherwanis for me? ہم نے جواب دیا
Yes Two- A white and black one
تو انگریزی میں پوچھنے لگے کہ وہ کونسی پہنیں۔ ہم نے کہا اگر تقریب کو ولیمہ سمجھتے ہیں تو وہائٹ اور سوئم سمجھتے ہیں تو سیاہ۔ہنس کے کہنے لگے Nothing for honey moon? جواب ملا
We only have wedding bells and funerals here ۔انہوں نے ہمارے حس مزاح، گستاخانہ بے باکی کی تعریف کی اور وہ تین دفعہ جب کراچی آئے اور ہم ہی نے ان کے فرائض میزبانی نبھائے تو نام اور اپنا فقیرانہ عہدہ بتانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔
ہوائی جہاز کی سیڑھیوں کے ساتھ لگی ہوئی میزبان پر وقار کی قطار کی طرف انہیں لے جانے کی کوشش کی تو وہ پہلے تو اپنے شیروانی والے بھائی سے لپٹ گئے اور اس کے بعد وہ تیزی سے اس پیٹر جاسوس کی طرف بڑھے اور پیار والی جپھی ڈال کر دونوں ایک دوسرے پر ایسے وارے جانے لگے جیسے سندھی کشتی ملاکھڑا میں شلوار کو تھام کر مّل(پہلوان) ایک دوسرے کو زمین سے پٹخنے کے لیے اٹھاتے ہیں۔برما ٹیک کی لکڑی کی رنگت والے چیف سیکرٹری جو سیاہ شیروانی اور ٹرمینل تھری کی تاریکی میں بمشکل دکھائی دیتے تھے۔آئی جی صاحب بھی حیرت زدہ تھے کہ انگنا میں نیاز و ناز کا یہ کیسا حسین منظر ہے کہ معین الدین آئی جی کو چھوڑ کے ایک ڈی ایس پی کو یوں گلے لگاتے ہیں۔
پرانے ٹرمینل پر جب عملے نے اپنے گواچے ہوئے وزیر اعظم کو دیکھا تو سانس میں سانس آئی ورنہ وہ تو ڈبوں میں بند اورنج جوس کے جام پر جام لنڈھا کر ہمارے عملے کو گا گا کر کہہ رہے تھے نگاہ ماردا آئیں میرا لونگ گواچا۔وی آئی پی لاؤنج میں وزیر اعظم نے زیادہ گفتگو اپنے رشتہ داروں سے کی۔ سب کے سب بہت دھیمے مزاج کے شائستہ اور خوش مزاج تھے۔ کچھ مرد حضرات اور خواتین اور بھی تھے جو لگتا تھا ان سے بیرونِ ملک قیام سے ہی واقف ہیں۔
آئی جی صاحب سے انہوں نے زیادہ اور چیف سیکرٹری سے بہت کم بات کی البتہ ہمیں قریب بٹھا کر کہنے لگے کہ وہ جو صاحب کونے میں سگریٹ پھونک رہے ہیں کیا میں ا نہیں اور ایک پرانے زنگ آلود رنگت کے ملبوس والی گل تازہ قسم کی خاتون کو ان کے ساتھ جہاز میں بٹھا سکتا ہوں۔ ہم نے جب کہا کہ ان کی خواہش تو ہمارے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے تو چہرے کے تاثرات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ واشنگٹن میں ورلڈ بینک کی نوکری میں انہیں تابعداری کے شیرے میں لتھڑے ہوئے ایسے سرکاری ملازمین کہاں ملے ہوں گے۔وہاں تو ان کے بڑے افسر بھی میٹرو سے آتے جاتے ہیں۔ کیسا بھی موسم ہو دو بلاک پیدل چل کر پہنچتے ہیں، کافی کی مشین سے کاغذ کے گلاس میں کافی بھی خود ہی لانی پڑتی ہے۔امریکامیں تو آپ اپنی سیکرٹری کے لباس اور بدن کی بھی تعریف نہیں کرسکتے یہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کا فعل قبیحہ سمجھا جاسکتا ہے۔
ہماری اس مختصر سی گفتگو سے اصلی تے وڈے سی ایس پی چیف سیکرٹری کو بڑی دویدا ہوئی۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہم قربت شاہ کے نشے میں وزیر اعظم کے کسی حکم کی بجاآوری میں کوتاہی کے مرتکب ہوں خاموشی سے آرمانی کے گاؤن کی طرح شیروانی سمیٹی اور اور باتھ روم کی طرف چل دیے۔چلتے ہوئے ہمیں پیچھے سے انگلی سے ٹھونکا دیتے ہوئے گئے کہ ہم بھی پیچھے پیچھے آجائیں۔باتھ روم سے برآمد ہوئے تو Divider کے پیچھے کچن کاؤنٹر کی طرف بڑھ گئے۔یہ ساری احتیاط اس لیے تھی کہ وہ ابھی گریڈ اکیس میں تھے۔ جلد ترقی کے بے تحاشا خواہاں ۔ڈی ایم جی جو اب ہندوستان میں اپنے ہم منصب گروپ کی نقل میں پاکستان ایڈمنسٹرییٹو سروس کہلاتی ہے ایسے موقعوں کی تاک میں رہتی ہے۔انہیں جب دو افراد کو جہاز میں سوار کرانے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔اسے تو انہوں نے انگریزی میں May be personal کہہ کر نظر انداز کیا لیکن پیٹر جاسوس کو انہوں نے انگریزی میں ایک کراری سی گالی دی۔حسین معشوق اور سی ایس پی افسر گالی بکے تو لہجے کی شائستگی کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ کسی نے چائے میں الائچی ڈال دی ہو۔ہم نے پوچھا کہ یہ پیٹر جاسوس کون ہے۔ ہماری اس عدم واقفیت کی وجہ سے انہوں نے ہماری نوکری پر لعنت بھیجی۔وہ ان دنوں سندھ پولیس کی جانب سے ایف آئی میں ڈیپوٹیشن پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے۔
تین دفعہ اس کے بعد وزیر اعظم تشریف لائے تو کراچی میں اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں وہی ان کی خواب گاہ سے نکلنے والے آخری اور داخل ہونے والاپہلا افسر ہوتا تھا۔کسٹم کی گلابی فائلیں جن کے سرکاری فائل کور کلر کوڈنگ اور جلد شناخت کے لیے بدل دیے جاتے تھے۔ ایک دن وزیر اعظم باتھ روم میں تھے تو پنجابی میں کہنے لگا۔’’دسو کتھے جانا اے کسٹم کے ایف آئی اے۔ہن ہی اپلی کشن لکھو ہن ہی آرڈر کرانا آں۔’’ ہم نے کہا رہنے دیں ہمیں انگریزی نہیں آتی‘‘ تو کہنے لگا ’’مینوں کہیڑی آندی ہے‘‘۔ہم نے دامن بچانے کے لیے جب کہا کہ ہم تو صوبائی ملازمت کے معمولی سے افسر ہیں تو کہنے لگا میں وی شروع وچ ائر پورٹ تھانے وچ ہیڈ کانسٹبل ساں۔بادشاہو ہمت پکڑو نئیں تے پچھے رہ جاؤگے‘‘
ہمارے سی ایس پی چیف سیکرٹری وزیر اعظم کے جاتے جاتے گریڈ بائیس میں پہنچ گئے۔ معین قریشی کا دور افسران عالی مقام کی ترقیوں کا سنہری دور تھا۔وہ پیٹر جاسوس بھی ترقی پاکر ایف آئی اے میں ہی ضم ہوگیا ۔اس کے دور میں کسی کو سندھ میں کسی کو ایف آئی اے کا ڈائریکٹر لگنے کی جسارت نہ ہوئی۔
رہ گئے ہم تو ہمارے لیے ابن انشا مرحوم بہت پہلے کہہ گئے تھے ع
اس دل کے دریدہ دامن میں ، دیکھو تو سہی،سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...