... loading ...
احسان جتانے کے لئے کیا جاتا ہے نہ ہی جتانے کے بعد وہ احسان کہلاتا ہے ۔ویسے بھی مظلومیت کا خاصہ یہی ہے کہ ظلم ،دغا اورمکروفریب کو بھی احسان قرار دیا جاتا ہے۔ چند روز قبل بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں جموں و کشمیر کی خاتون وزیر اعلیٰ نے ساؤتھ کشمیر پر احسانات و اکرامات کی طویل فہرست پیش کی۔ میں چونکہ خود بھی ساؤتھ کشمیر کا رہنے والا ہوں بلکہ مفتی صاحب کے آبائی گھر سے چند کلو میٹر کی دوری پر پونے دو مہینے سے جاری مسلسل ہڑتال میں جینے پر مجبور ہوں ،اس لیے میں احسان کے اس تیر کو سہ نہ سکا لہذا میں آج اس حوالے سے چند گزارشات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ آج کل ساؤتھ کشمیر کا گرم ترین موضوع مفتی فیملی کے وہ احسانات ہیں جن کو گنوا کر وزیر اعلیٰ نے جنوبی کشمیر کے رہنے والے لوگوں کو شرمسار کردیا ہے۔ اس لئے کہ مفتی فیملی کا کوئی مغلیہ خاندان نہیں ہے جن کے احسانات یک طرفہ ہوں ۔جنوبی کشمیر کا ہی نہیں بلکہ پوری ریاست کا فردفرد اس بات سے واقف ہے کہ مفتی خاندان کو ’’کشمیر کے راج گاٹھ‘‘تک پہنچانے میں جو کردارجنوبی کشمیر کے سیدھے سادھے عوام کا ہے وہ مفتی خاندان کی سو نسلوں پر بھاری ہے مگر حکمران بننے کے بعد اکثر انسانوں میں فرعونیت عود کر آتی ہے لہذا وہ سچائی کے منکر ہو جاتے ہیں۔
مفتی خاندان کے ساتھ جڑا ’’مفتی‘‘کوئی ذات یا خاندانی نام نہیں ہے بلکہ یہ مرحوم مفتی محمد سعید کے داداؤں میں ایک نامی گرامی عالم دین کے ساتھ وہ علمی نسبت ہے جس پر ہر مسلمان فخر کرتا ہے ۔بدقسمتی سے بعد والوں نے اس ’’علمی فضیلت‘‘کو بطور ذات اپنے نام کے ساتھ جوڑ دیا حتیٰ کہ خواتین نے بھی اس کا استعمال مردوں ہی کی طرح کرنا شروع کردیا حالانکہ ’’مفتی‘محدث اورمفسر ‘‘تخصص فی العلوم میں ایک علامت ہے کوئی قبائلی یا خاندانی نسبت نہیں ہے ۔اس خاندان میں مرحوم مفتی محمد سعید کے’’ شمولیتِ سیاست‘‘ سے شرعی علوم کے سلسلے کا انقطاع ہوا اور یہ گھرانہ ہندنواز سیاست دانوں کے طور پر پہچانا جانے لگا ۔مفتی محمد سعید نے اُس وقت ’’کانگریس‘‘ میں شمولیت اختیار کی جب کشمیر میں شیخ محمد عبداﷲ نے ان کا مسلمان ہونا بھی مشکوک بنا کر ’’سوشل بائیکاٹ‘‘کا ماحول پیدا کردیا تھا ۔کشمیر میں جتنی نفرت اور بیزاری آج ’’سنگھ پریوار‘‘سے متعلق پائی جاتی ہے بالکل اتنی ہی بلکہ اسے بھی بڑھکر شیخ صاحب کے دور میں کانگریس کے تئیں پائی جاتی تھی ۔
مفتی سعید نے عملی سیاست میں جب شرکت کی اس وقت کشمیر میں شیخ صاحب کا راج قائم تھا جس کی وجہ جموں و کشمیر کو شخصی راج سے نجات کے بعد بھارت سے آزادی کی تحریک برپا کرنا تھا ۔1990ء تک مفتی سعید نے کئی مرتبہ کانگریس کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر ہر بار انھیں نیشنل کانفرنس کے ’’مڈل پاس اُمیدوار‘‘عبدالغنی ویری کے ہاتھوں سخت ترین مقابلے کے ساتھ شکست سے دوچار ہونا پڑتا تھا اس لئے کہ نیشنل کانفرنس کے امیدواروں کو لوگ شیخ صاحب کے امیدوار اور ترجمان سمجھ کر ووٹ دیتے تھے ۔حتیٰ کہ شیخ صاحب کے بعد فاروق عبداﷲ ،ان کے داماد غلام محمد شاہ اور پھر 1990ء سے قبل ایک مرتبہ پھر فاروق عبداﷲ اور بالاخر 1989ء کے اواخر میں عسکریت کا آغاز اور چھ برس تک مسلسل گورنر اور صدر راج اور1996ء میں الیکشن اور ان میں فاروق عبداﷲ کا برسرِاقتدار آجانا ایک نیا چلینج تھا ۔
مفتی سعید کو کشمیر کے لوگ ایک ناکام ہندنواز سیاست دان کے طور پر جانتے تھے جس کو کشمیرسے باہر وزیر اعظم وی پی سنگھ کے مینڈیٹ پر کامیابی ملی اور پھر اسی راستے ان کو وزارت داخلہ کا قلمدان تو ملا مگر جگموہن کی بطور گورنر تعیناتی اور بجبہاڈہ میں قتلِ عام نے انہیں خاصا بد نام کردیا تھا یہاں تک کہ ان کی بیٹی محبوبہ مفتی نے عملی سیاست میں شرکت اختیار کرتے ہو ئے مقامی سطح پر ایک نئی پارٹی ’’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘‘کی بنیاد ڈال کر کم وقت میں بڑی کامیابی حاصل کی ۔جس کے عوامل اور اسباب بہت زیادہ ہیں ۔سب سے پہلا اور اہم سبب ’’بعض عسکری کمانڈروں‘‘کا نیشنل کانفرنس کو ہٹانے کے لئے وہ خفیہ حمایت ہے جس کی وجہ سے اس پارٹی سے متعلق تحریک نواز حلقوں میں کنفیوژن پیدا ہوا کہ نیشنل کے برعکس اب کی بار پی، ڈی،پی کو ووٹ دینا چاہیے ۔عوام سیکورٹی ایجنسیوں کے بعد سر کار نواز اخوانیوں کے مظالم سے تنگ آچکی تھی ۔نیشنل کانفرنس کے ان مظالم پر روک لگانے میں ناکامی کے بعد عوام کی نگاہیں پی،ڈی،پی کی طرف اُٹھیں اس لئے کہ محبوبہ مفتی گاؤں گاؤں اور قصبہ قصبہ شہداء اور گرفتار شدہ افراد کے گھروں میں جاکر باضابطہ ان کے غم میں نڈھال ہوکر آنسوں بہانے کی عملی مشق بھی انجام دیتی تھی ۔
پہلے مرحلہ میں وہ خود جیتی اور اس کے بعد جب 2002ء میں پی ،ڈی ،پی نے جنوبی کشمیر میں اپنے نمائندے کھڑے کئے تو سولہ نشتوں پر کامیابی کے بعد مفتی محمد سعید الیکشن لڑے بغیر وزیر اعلیٰ بن گئے اور اس کے بعد بحیثیت وزیر اعلیٰ انھوں نے رفی احمد میر کے خلاف الیکشن لڑ کر جیت حاصل کی ۔مفتی سعید کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب وہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ بنے ۔کشمیر کا وزیر اعلیٰ بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں جو کردار ’’چند عسکری کمانڈروں ‘‘کا تھا وہ جنوبی کشمیر کے لوگوں کے لئے کوئی راز نہیں ہے مگر اس سچائی سے مفتی فیملی کے انکار ممکن نہیں ہے کہ جنوبی کشمیر کے ووٹروں کے طفیل ہی انھیں یہ سبھی آن بان نصیب ہوا ۔مگر اب معاملہ احسانات گنانے پر پہنچ چکا ہے ۔محبوبہ مفتی نے پریس کانفرنس میں جنوبی کشمیر کے لوگوں کو یہ طعنہ دیا کہ ان کے نوجوانوں کو فوجی کیمپوں میں گھاس کٹوانے اوربیگار لینے کے علاوہ حراست سے نجات میں نے دلوا دی ۔جنوبی کشمیر کے عوام کو اب اپنا محاسبہ خود کر کے آئینے میں اپنا چہرہ آپ دیکھنا چاہیے ۔
البتہ جو بات طعنے کے انداز میں’’ میڈم محبوبہ‘‘نے کہی اس کے چند پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے ۔پہلی اور اہم بات یہ کہ جنوبی کشمیر کے مسلمانوں سے یہ بیگار لینے کا ذلت آمیز کام کون کراتا تھا ؟پاکستانی فوج یا وہ انڈین آرمی جن کے ہوتے ہو ئے آپ اب تک کشمیر کی گدی پر براجمان ہو ؟طعنہ دینے کی یہ بات تب آپ کے منہ سے اچھی لگتی جب اس’’ شرمناک جرم‘‘میں خود جنوبی کشمیر کے لوگوں کا ہا تھ ہوتا ۔جنوبی کشمیر کے لوگوں نے تب کی ’’گمنام محبوبہ‘‘کو ’’شہداء کے گھروں ‘‘میں جا کر چندجھوٹے آنسو بہانے کے عوض ووٹ دئیے تھے جس پر چند نالائق عسکری کمانڈروں نے رنگسازی کرتے ہو ئے معاملات کو ’’مبہم اور مجمل ‘‘بنا دیا تھا اور یہ تاثر اُبھر کر سامنے آیا تھا کہ پی،ڈی،پی ایک وہ متبادل ہو گا جس میں حریت پسندوں کی ترجمانی ہو گی نہ کی اسی بھارت کی جس کے کیمپوں میں بیگار لینے اور نجات دلانے میں ہر طرح مین اسٹریم ہی ملوث ہے ۔محبوبہ جی یہ کیوں بھول گئی کہ ان کے والد کا ’’کشمیر کے وزیر اعلیٰ بننے کا خواب‘‘کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوتا اگرجنوبی کشمیر کے لوگ نیشنل کانفرنس کو رد کرتے ہو ئے ان کو ووٹ نہ دیتے !محبوبہ جی پارلیمنٹ سے لیکر وزارت اعلیٰ کی کرسی تک کیسے پہنچی ؟جنوبی کشمیر کے لوگوں کے ووٹ سے کامیابی یا بی جے پی کی سر پرستی سے؟
محبوبہ جی نے بیگار اور ذلت سے نجات کی جو بات کی ہے اس کے اس پہلو پر غور کرنا ہی بھو ل گئی ہے کہ اگر یہ احسان ’’دلی والوں‘‘کے برعکس آپ کا کرشمہ ہے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ تب کے کشمیر ہی نہیں بلکہ ڈوڈہ ،راجوری،پونچھ،کپواڑہ ،بارہمولہ ،سوپور،بانڈی پورہ ،گاندربل،بڈگام اورسرینگرکو اس مصیبت سے نجات کس نے دلائی ۔ایم ایل اے لنگیٹ انجینئر عبدالرشید( جو خود بھی بیگار کے بری طرح شکار ہو ئے ہیں) کے علاقے میں یہ ’’کرامت ‘‘کس کے ہاتھوں کی برکت تھی؟نیشنل کانفرنس ،پی ڈی پی یا نئی دہلی کی؟ سچائی یہ ہے کہ نئی دہلی کے پالیسی ساز ادارے ہی نہیں بلکہ خود جموں و کشمیر میں تعینات فوج ،بی ایس ایف ، سی آر پی ایف اور پولیس اس ’’ناکام ظالمانہ پالیسی‘‘سے تنگ آ چکے تھے یہ تمام تر تبدیلی دہلی میں بیٹھے مہاجنوں کا کمال تھا آ پ کا نہیں، اس لئے کہ ’’شدت کے بعد نرمی‘‘کی پالیسی ہر مقبوضہ علاقے میں اپنائی جاتی ہے ، مجھے یہ لکھنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہورہی ہے اور تاریخ انسانیت بھی اس بات کی تائید کر رہی ہے کہ ’’نرمی اور ہمدردی غضب‘‘پر ہمیشہ غالب رہتی ہے دہلی کی نایاب نرمی کی پالیسی کامیاب تھی، ہے، اور رہے گی ۔لہذا جنوبی کشمیر کا لکھا پڑھا طبقہ بخوبی جانتا اور سمجھتا ہے کہ 1989ء سے لیکر 2002ء تک ظلم و جبر کی پالیسی بھی نئی دہلی کی تھی اور اس کے بعد چند سال تک ایک کھوکھلی نرمی بھی دلی والوں کا نسخہ تھا کسی فرد یا پارٹی کا نہیں ۔
نرمی عوام کے علاوہ عسکریت پسندوں کے گھر والوں سے برتی گئی نہ کہ عسکریت پسندوں سے ؟پی،ڈی،پی اور کانگریس کولیشن سرکار کے دورمیں مذاکرات میں شمولیت اختیار کرنے والے تمام تر کمانڈران کو دورانِ حراست قتل کیا گیا ؟جس کی تفصیل عمر عبداﷲ کی اسمبلی میں بحیثیت وزیر اعلیٰ پہلی تقریر میں موجود ہے اور وہ تقریر اسمبلی کے ریکارڈ میں آج بھی موجود ہے ۔حیرت یہ کہ ’’نرمی کا یہ نسخہ حیات‘‘حریت کانفرنس کے لئے موت کا سامان ثابت ہو رہا تھا اگر 2008ء میں امرناتھ لینڈایشو پر ایجی ٹیشن شروع نہیں ہوتی ۔ حریت کانفرنس اور حریت سے باہر بہت ساری سیاسی تنظیموں میں کسی کے ساتھ بھی یہ نرمی نہیں برتی گئی !’’کشمیر کی تحریک آزادی کی علامت محترم سید علی شاہ گیلانی صاحب‘‘ کے ساتھ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے کبھی بھی نرمی نہیں برتی ، تمام تر ناتوانی اور بزرگی کے باوجود برسوں سے ان کے گھر کو عملاََ جیل خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہندنواز سیاستدانوں کے نزدیک سیاست دانوں کے لئے کوئی نرمی نہیں ہے تو پھر نرمی چہ معنی دارد؟
پی ،ڈی ،پی کے سر پرست کی سیاسی غلطیوں کو شیخ صاحب کی سیاسی غلطیوں ہی کی طرح سیاسی غلطیاں گردانا جا نا چاہیے ۔شیخ مرحوم نے کرسی قبول کرتے ہو ئے غلامی کا طوق ہماری گردنوں میں ڈالا اور آج ہمیں اس طوق کو اُتارنے کے لئے لاکھوں کی قربانی اور جوانیاں دیکر بھی نجات نہیں مل رہی ہے۔ پی،ڈی،پی کے سر پرست نے اس طوق کو مستحکم کرنے کے لئے کانگریس کے بعد بی جے پی کو ہم پر مسلط کردیا !شیخ صاحب نے ہری سنگھ کی’’مددگار فوج‘‘ کو آباد کردیا جبکہ مفتی صاحب نے ’’دلی کی فوج ‘‘کے بعد ’’دلی اوراب ناگپور ی سیاسی‘‘تصورات کو درآمد کیا ۔پی ڈی پی والوں کو جنوبی کشمیر پراپنی کی ہوئی مہربانیاں گناتے وقت یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جہاں نیشنل کانفرنس نے کشمیر کو 2010ء میں سو سے زیادہ شہیدوں کی لاشیں اس قوم کی کوکھ میں ڈالیں وہی پی ،ڈی،پی نے 2016ء میں اسی(80) کے قریب شہید ،پانچ سو (500)نابینا اور دس ہزار سے زیادہ زخمی اس کمزور اور لاغر قوم کے سپرد کئے اور تادم تحریر یہ سلسلہ جاری ہے ۔اور ہاں احسان وہ نہیں ہوتا ہے جودکھاوے اور روحانی تکلیف پہنچانے کے لئے کیا جاتا ہے نہ وہ احسان کہلاتا ہے جس کو انجام دینے والا کوئی اور ہو اورنظر کوئی اور آتا ہو ۔جموں و کشمیرمیں پھیلے سینکڑوں ٹرسٹس کو صاحب ثروت حضرات زکوٰۃ و خیرات جمع کر کے یتیموں اور غریبوں تک پہنچاتے ہیں جس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ سخاوت ’’ٹرسٹ کا ناظم‘‘انجام دیتا ہے اور غربا اسی کے احسانات کے گیت گا کر دینے والوں کو نظر انداز کردیں ۔ناظم صاحب ایک ٹرسٹی ہے اگر ان کی دیانت سے متعلق ادنیٰ سا شبہ بھی پیدا ہو جائے تو کوئی بھی فردِ بشر ’’مالِ زکوٰۃ‘‘جیسی عبادت انجام دینے کے لئے ان پر کبھی بھی بھروسا نہیں کرے گا نہ ہی اپنا مال ان کے سپرد کرنے کی غلطی کرے گا ،ہاں اگر نظم و نسق میں دیانت کے ساتھ ساتھ وہ ثواب کی امید رکھیں گے تو شاید انھیں نہ ہی اﷲ مایوس کرے گا نہ ہی قوم ۔افسوس پی ڈی پی احسان کیے بغیر ہی اس طرح اپنے احسانات گنانے لگی گویا کہ حاتم طائی کی اولاد ہو، ان حضرات نے اپنی تنگ نظری وقلبی سے نیشنل کانفرنس کو مات دیدی ۔
پاکستان کی میزبانی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس آج(منگل کو) پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں شروع ہو گا، اجلاس میں مسئلہ کشمیر، مسلم امہ کو درپیش معاشی، سیاسی اور ثقافتی چیلنجز کیساتھ اسلامو فوبیا کے حوالے سے بھی غورکیا جائے گا۔ کانفرنس میں 150سے زائد قراردادیں منظور ہ...
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کبھی نہ کبھی تو افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا، عالمی براردی کو افغان حکومت کے ساتھ ''کچھ لو اور دو'' کی بنیاد پر کام کرنا چاہیے۔امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان افغانستان اور طالبان حکومت سے متعلق بات ک...
حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی میں دفاع ، داخلہ، خارجہ اور معیشت جیسے شعبو ں پر مستقبل کا تصوردینے کی کوشش کی گئی ہے۔قومی سلامتی پالیسی میں سی پیک سے متعلق منصوبوں میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے، نئی پالیسی کے مطابق کشمیر ب...
وادیٔ نیلم میں مسافر بس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایاگیا ، تین شہری موقع پر شہید ، زخمیوں میں شامل سات افراد ہسپتال میں دم توڑ گئے گزشتہ روز ہندوستانی فوج نے اپنے 3 فوجیوں کی ہلاکت تسلیم کی تھی اور ٹوئٹ میں اس کارروائی پر شدید ردعمل دینے کی دھمکی دی تھی بھارتی افواج کی...
پاکستان بار بار یہی بات دہرارہا ہے لیکن بھارت فوجی قبضے اورتسلط پراَڑاہوا ہے ،نتیجہ آنے تک مقد س اورجائزجدوجہد جاری رکھیں گے بھارتی مظالم کے آگے سینہ سپر87سالہ ناتواں بزرگ لیکن جواں عزائم اورمضبوط اعصاب کے مالک چیئرمین آل پارٹیز حریت کانفرنس انٹرویوپینل:شیخ امین ۔مقصود من...
ظلم و جبر پر عالمی برادری کی خاموشی افسوس ناک ہے،پاکستانی قیادت کو سمجھنا چاہیے مذاکرات اور قراردادوں سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، مجاہدین کو وسائل مہیا کیے جائیں جب دنیا ہماری آواز نہیں سن رہی تو پھر ہمارے پاس آزادی کے لیے مسلح جدوجہد ہی آخری آپشن ہے،سید صلاح الدین کا ایوان صحا...
برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج کا خیال تھا کہ وہ انتہائی مطلوب حریت پسند رہنماکی موت کا جشن منا ئیں گے، مٹھا ئیاں با نٹیں گے اور نئی کشمیری نسل کو یہ پیغام دیں گے کہ بھارت ایک مہان ملک ہے اور اس کے قبضے کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو وہ ختم کرنا جا نتے ہیں۔ لیکن انہیں کشمیر...
اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے گزشتہ روز وزیراعظم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور بھارت کے جنگی جنون سے نمٹنے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی بھرپور مدد کرنے کے حوالے سے کوششوں کیلیے وزیر اعظم کابھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔اپوزیشن کے رہنماؤں نے اس ناز...
یوں توآج کل پورا برصغیر آپریشنوں اور اسٹرائیکوں کے شور سے پریشان ہے مگر کشمیر براہ راست ان کی زد میں ہے۔ یہاں حکومت نے آپریشن ’’کام ڈاؤن‘‘کا آغاز کرتے ہو ئے پورے کشمیر کو بالعموم اور جنوبی کشمیر کو بالخصوص سیکورٹی ایجنسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ انھیں مکمل طور پر کھلی چھوٹ ہے۔...
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ان دنوں زبردست سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو اہے ۔ گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی نے سفارتی حلقوں کو بہت زیادہ سرگرم کیا ہواہے ۔ پاکستان کے دفاعی اور سفارتی حلقوں کی شبانہ روز کاوشوں نے بھارت کو سفارتی اور دفاعی لح...
زندہ قوموں کی زندگی کارازصرف ’’خود احتسابی‘‘میں مضمر ہے۔ جو قومیں احتساب اور تنقید سے خوفزدہ ہو کر اسے ’’عمل منحوس‘‘خیال کرتی ہیں وہ کسی اعلیٰ اور ارفع مقصد کو حاصل کرنے میں بھی ناکام رہتی ہیں۔ احتساب ہی ایک ایسا عمل ہے جس سے کسی فرد، جماعت اور تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا صحیح...
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کو جو پذیرائی کشمیر میں حاصل ہوئی ہے ماضی میں شاید ہی کسی پاکستانی حاکم یا لیڈر کی تقریر کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ کشمیر کے لیڈر، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار، علماء، طلباء اور عوام کو اس تقریر کا...