وجود

... loading ...

وجود

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن

اتوار 04 ستمبر 2016 سیاسی اشرافیہ اور کرپشن

corruption

میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان کی پارٹی بدعنوان اور کرپٹ ترین لوگ ہیں اور یہ اداروں کو تباہ کر رہے ہیں‘‘ ۔ چونکہ اُس وقت زور فوج اور نواز لیگ ، دو اطراف سے لگایا گیا تھا اس لئے اندرونِ ملک کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک بھی اس بیانئے کی خوب پزیرائی ہوئی۔ بعد ازاں جب میاں صاحب کو اسی بدعنوان اور کرپٹ سیاسی جوڑے کو اپنی سیاسی ضروریات کے تحت گلے لگانا پڑا تو یہی بیانیہ ان کے گلے پڑ گیا۔

پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اتنی ہی بدعنوان اور نا اہل یا ایماندار ہے جتنی تیسری دنیا کے کسی بھی ترقی پزیر ملک کی ہو سکتی ہے۔ لیکن ہماری ایک پوری نسل کے اذہان میں آصف علی زرداری کرپشن کے ہم معنی کر دئیے گئے حالانکہ کرپشن کس نے نہیں کی اور کون نہیں کررہا؟ اصل میں بات یہ ہے کہ جب بھی آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی کو اقتدار کے مزے لوٹنے کا موقع ملتا ہے تو وہ اقتدار کے دسترخوان سے کچھ نہ کچھ بچا کھچا حصہ نہ صرف اپنی پارٹی کے نچلے کیڈر تک جانے دیتے ہیں بلکہ اپنے ناقدین اور مخالفین تک بھی پہنچانا نہیں بھولتے۔ وہ بڑے بڑے عہدوں سے لے کر چھوٹی چھوٹی نوکریوں تک پر بھی اپنے کارکنان یا پسندیدہ لوگوں کو گھسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجے میں وہ ایک جیالے کو نوکری دے کر یا کوئی ایک غلط الاٹمنٹ کر کے پورے محکمے اور علاقے میں اپنا تاثر خراب کر لیتے ہیں۔

دوسری طرف اقتدار کے یہ چند قطرے جب نچلی سطح تک پہنچتے ہیں تو ان کا کارکن ، جو عرفِ عام میں جیالے کہلاتے ہیں ، وہ بھی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور شراب کے مٹکے میں گر جانے والے چوہے کی طرح چوک میں کھڑے ہو کر بڑھکیں لگا رہے ہوتے ہیں کہ ’’کہاں گئی وہ بلی نامراد؟‘‘اس معاملے میں میاں نواز شریف بڑے عقل مند بلکہ اگر صحیح الفاظ میں کہیں تو چٹور واقع ہوئے ہیں۔ چونکہ ذات کے (کشمیری) شیخ ہیں اس لئے کسی کو ہاتھ سے دیتے ہوئے ان کو ہول اٹھنے لگتے ہیں۔ میاں برادران اقتدار صرف اور صرف اپنی ذات، اور اگر بچ جائے تو اپنے خاندان تک محدود رکھتے ہیں۔ پارٹی کارکن ، لیڈر، ہمدرد ،ووٹرز سب جائیں بھاڑ میں، ان کو میرٹ کا جھنجھناتھما دیا جاتا ہے جسے وہ اپنی سیاسی ضرورت کے باعث دن رات بجاتے پھرتے ہیں۔ یہ اپنے متاثرین شامل باجہ حضرات کے لئے ایک ہی پیغام ہوتا ہے کہ ’’اپنے لئے کھا نا اور ہمارے لئے لے آنا‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ اب کچھ عقل مندوں نے تو میاں صاحب کے اقتدار میں حصہ حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ ان کے خاندان کا حصہ بننے کے لئے بھی راستے ڈھونڈ لیے ہیں۔ بعض لوگ کیپٹن صفدر صاحب والا راستہ اپناتے ہیں ،بعض میاں منیر والا، بعض لوگ اسحاق ڈار والا اور بعض علی عمران (المعروف بیکری ملازم کو پھینٹی لگانے والے) والا راستہ اختیار کرتے ہیں اور دلی مراد پاتے ہیں ۔اب تک تو تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس طرح سے ہی ان لوگوں کی میاں صاحب کے اقتدار میں شراکت داری کی مراد ضرور برآتی ہے۔ ورنہ جاوید ہاشمی سے لے کر راجہ ظفر الحق، وہ تمام لوگ جنہوں نے میاں صاحب کے اقتدار کے راستے کے کانٹے اپنی پلکوں سے چنے ،اور ان کی غیر موجودگی میں ملک میں ان کی پارٹی کے لئے جدوجہد کرتے رہے، وہ آج کل سیاست کے عجائب گھر میں سجے پڑے ہیں۔ میاں برادران کی طرف سے مقامی حکومتوں کو اقتدار میں حصہ نہ دینا، شہباز شریف کا کابینہ کو اپنی ذات تک محدود رکھنا ، اسی پالیسی کا حصہ ہے۔

چونکہ میاں صاحب کے اقتدار کی ملائی کھانے والے تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں اس لئے معاملات نہ صرف کنٹرول میں رہتے ہیں بلکہ صفائی سے سرانجام بھی دئیے جا تے ہیں اور یوں بڑے چپکے سے ان کے سمدھی اسحاق ڈار کے دبئی میں پلازے اُگ آتے ہیں، سیٹھ حسین داؤد اور میاں منشاء کھربوں پتی ہو جاتے ہیں اور یوں میاں صاحبان ہر جلسے میں اسٹیج پر کھڑے ہو کر دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’اگر میرے خلاف ایک پائی بھی کرپشن ثابت ہوجائے تو آپ کا ہاتھ اور میرا گریبان ہوگا‘‘۔ ظاہر ہے سمدھی کو اتنی تگ و دو کے بعد اقتدار میں حصہ ملا ہوتا ہے، اس کا دماغ خراب ہے کہ وہ رولا ڈالے گا؟

ان دونوں روایتی پارٹیوں سے ہمارے خان صاحب کا طریقۂ واردات بہت الگ، منفرد اور الیکٹرانک ہے۔ پڑھے لکھے آدمی ہیں ، ایک جالندھر کے نیازی پٹھان اور اوپر سے یہودیوں کے داماد؟ توبہ توبہ ۔ فرض کریں ان کے ادارے کے لئے اگر خیرات اور صدقات وصول کرنے کے لئے ایک درجن اکاونٹس ہیں تو انتہائی اعلیٰ آڈٹ فرم سے پوری ایمانداری کے ساتھ جانچ پڑتال صرف ایک اکاونٹ کی ہوگی۔ باقی گیارہ اکاونٹس جو پاکستان سے باہر دیگر مختلف ممالک میں مشتہر کئے جائیں گے ، ان میں جمع کروائی گئی رقوم کو تو وہ ڈکار لئے بغیر ہضم کرجاتے ہیں۔ کوئی اعتراض کرے تو آڈٹ رپورٹ اس کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔ مزید برآں ان کے خیراتی ادارے کے لئے عطیات جمع کرنے والوں کو بیس فی صد تک باقاعدہ کمیشن دیا جاتا ہے۔ لیکن خان صاحب ایسی تمام جگہوں پر ،جہاں وہ خود مدعو کیے جاتے ہیں، جمع شدہ رقم کا کمیشن اپنی ذاتی جیب میں ڈالنا نہیں بھولتے۔ یہ ہوشربا معلومات ہمیں ان کے عطیات جمع کرنے والے شعبے کے ایک رکن نے بتائی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کا کوئی ملال بھی اس میں شامل ہے۔اوپر کے تینوں طبقہ ہائے اشرافیہ دیکھیں تو کہنا پڑے گا کہ اس قوم کی قسمت ہی خراب ہے۔ لیکن پھر یہ دیکھ کو دل کو سکون حاصل ہوتا ہے کہ ’جیسی روح ویسے فرشتے‘ کے مصداق اس قوم کے اعمال اسی لائق ہیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں کہاں ایسا نہیں ہوتا؟ بالکل بجا لیکن وہاں پر لیڈر یہ ساری لوٹ مار اقتدار کے حصول کے عمل کے دوران کرتے ہیں اور جب اقتدار کا ہما ان کے سر پر بیٹھ جاتا ہے تو پھر ایسی حرکات و سکنات سے تائب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ ساری حرکات اقتدار حاصل کرکے کی جاتی ہیں۔ بس اتنا سا فرق ہے۔


متعلقہ خبریں


بھارتی جنگی بیانیے کا جواب رضوان رضی - بدھ 05 اکتوبر 2016

کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب

انتخابی وٹا اور چند اشارے رضوان رضی - منگل 04 اکتوبر 2016

جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...

انتخابی وٹا اور چند اشارے

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا رضوان رضی - اتوار 25 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟ رضوان رضی - جمعه 16 ستمبر 2016

ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان رضی - هفته 10 ستمبر 2016

دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم !

اکھیاں دی لالی رضوان رضی - اتوار 18 اکتوبر 2015

سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈ...

اکھیاں دی لالی

سانحہ منیٰ اور ہمارے لیری کنگز رضوان رضی - بدھ 07 اکتوبر 2015

ہمارے حجاج کرام اﷲ کے گھر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس سانحہ منیٰ و جمرات کے سانحے کے بارے میں سنانے کے لئے بہت سی داستانیں ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے حج کے دوران پیش آنے والے واقعات پر ان کی سنے بغیر پہلے ہی اپنی رائے نہ صرف قائم کر لی ہے بلکہ اس کی تبلیغ ب...

سانحہ منیٰ اور ہمارے لیری کنگز

ایم آئی ٹی اور اس کا اعلیٰ مقام! رضوان رضی - منگل 22 ستمبر 2015

اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بنے بنائے دوستوں سے تعلقات خراب کرنے کی جس اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے۔ اس کے بعد ہمیں وہ ’’بھلی لوگ ‘‘ جنتی معلوم ہوتی ہے ،جو گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں برداشت کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس لئے آئندہ سطور اگر کچھ بزرگ دوستوں کو گراں گزریں تو ان سے پیشگی معذرت۔اس یقین د...

ایم آئی ٹی اور اس کا اعلیٰ مقام!

تعلیم اور جعل سازی رضوان رضی - هفته 19 ستمبر 2015

مملکتِ خداداد پاکستان میں وارد ہونے والے ہرمارشل لاء نے جہاں اس معاشرے کے اخلاقی و معاشرتی خدو خال کو مسخ کیا وہاں ہر آمریت جاتے ہوئے اس معاشرے کے معاشی و اقتصادی پہلووں کو بھی کچھ یوں نیست و نابود کر گئی کہ ملکی حالات اس کے بعد آنے والی کسی بھی حکومت کے قابو میں نہیں آئے اور بعد...

تعلیم اور جعل سازی

شکریہ راحیل شریف، کے پردے میں رضوان رضی - هفته 19 ستمبر 2015

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ سے پیوستہ ہفتے اسلام آباد میں ایک تقریب سے اپنے خطاب میں یہ کہا کہ ’’کچھ قوتیں ان کو ہٹانا چاہتی ہیں‘‘ تو مملکتِ خداداد پاکستان کے ایک جمہوریت پسند شہری کے طور پر ہمارا ماتھا ٹھنکا، لیکن چوں کہ ہمارے آزاد اور مادر پدر آزاد ’’ معزز‘‘ ...

شکریہ راحیل شریف، کے پردے میں

مرغی کے نرخ اور نقارۂ خدا رضوان رضی - جمعه 18 ستمبر 2015

جناب خلیق ارشد اور ان کے ہونہار صاحبزادے ، گلزار خلیق کا اس قدر محبت بھرا اصرار تھا کہ اپنی نیند قربان کر کے پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کی سالانہ نمائش کے لئے ناچار پہنچنا ہی پڑا۔ جب سے لاہور کا ایکسپو سینٹر بنا ہے اور جناب ضیاء المصطفیٰ اعوان جیسے لوگوں کے ہتھے چڑھا ہے اس میں تو...

مرغی کے نرخ اور نقارۂ خدا

سلمان دانش کی نئی ٹوپی رضوان رضی - بدھ 09 ستمبر 2015

چور جب آپس میں لڑنا شروع ہو جائیں تو چوری کا مال برآمد ہو ہی جاتا ہے تو کیا پاکستان کے برقی ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک میڈیا) کی تاریخ میں ہونے والی سب سے بڑی ڈکیتی اور جعل سازی کرنے والے میڈیا اداروں کی باہمی لڑائی کے نتیجے میں اب چوری کا مال برآمد ہونے کو ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جو...

سلمان دانش کی نئی ٹوپی

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر