... loading ...
بات ہے ستر کی دہائی کی ، ہمارے ابا ایک بڑا ڈبہ گھر لے کر آئے۔جسے گھر کی بیٹھک میں رکھ دیا گیا، ابا خود اس روز بیٹھک میں براجمان ہوگئے گویا اس ڈبے کی رکھوالی کر رہے ہوں۔ سب گھر والے اس ڈبے کو حیرت اور دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہے تھے ، لگتا تو لکڑی کا ہے مگر اس میں ہے کیا ، سب کی آنکھوں میں یہی سوال گھوم رہاتھا۔ اباسے پوچھنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی، اس لئے اما ں سے پوچھا ابا جی کیا لائے ہیں۔ اماں بھی ہمارے جتنی ہی حیران تھیں، کہنے لگیں میں نے پوچھا تھا لیکن انہوں نے کہا شام تک انتظار کرو سب کو پتہ چل جائے گا ۔اس ڈبے میں کیا ہے، اب ہم سب گھر والوں کو شام ہونے کا بے چینی کے ساتھ انتظار شروع ہو گیا۔
اس روز دن گزر کر ہی نہیں دے رہا تھا۔ اسکول سے آئے ، کھانا کھائے کتنی دیر گزر چکی تھی ۔ اس روز ہم کھیلنے کیلئے بھی نہیں گئے۔ بس سب کو اس ڈبے کے کھلنے کا انتظار تھا۔ دن گزر نہیں رہا تھا، انتظار کے ساتھ شوق بھی بڑھتا جا رہا تھا۔کچھ ہی دیرمیں محلے کے بچے ہمارے گھر میں جمع ہونے لگے ۔انہیں بھی اس ڈبے کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی، آہستہ آہستہ محلے کے بڑے بھی ہمارے گھر میں جمع ہونے شروع ہو گئے۔کچھ بزرگ ابا کے ساتھ بیٹھک میں ہی ٹک گئے ، شاید سب ہی کو اس ڈبے کے کھلنے کا انتظار تھا۔ اس انتظار میں اماں کا کام بڑھ چکا تھا ۔اتنے لوگوں کے لئے چائے بنانا ان ہی کی ذمہ داری تھی ، پھر محلے بھر کی خواتین بھی ہمارے گھر میں بھر گئیں۔ رش سے لگ رہا تھا کسی دعوت کا اہتما م ہے لیکن ہمارے گھر میں نہ تو کھانے پک رہے تھے نہ اور ایسا کچھ ہو رہا تھا جس سے لگے کوئی دعوت ہو رہی ہے۔۔
شام ہونے سے کچھ پہلے ابا اور چچا جان نے ایک ڈبے سے المونیم کے کچھ پائپ نکالے نہیں ایک بانس پر لگایا گیا اور پھر اس بانس کو گھر کی چھت پر ذرا بلندی پر باندھ دیا گیا۔ سارے محلے بلکہ آس پاس کے محلوں سے بھی لوگ اس منظر کو دیکھنے کے لئے ہمارے گھر کے باہر جمع تھے۔ بانس کی کامیاب تنصیب کے بعد ابا نے بتایا اس چیز کو انٹینا کہتے ہیں ۔ اس انٹینا سے ایک تار لگائی گئی جس کے دوسرے سرے کو چھت سے کھڑکی کے راستے بیٹھک میں پہنچا دیا گیا۔ ابا اور چچا چھت سے نیچے اُترے تو گویا کسی بڑے معرکے کو سر کر کے لوٹے ہوں۔ بڑوں کی واہ واہ اور بچوں کی تالیوں سے لگا جیسے واقعی ابا جی نے کوئی اہم کام سرانجام دے لیا ہو۔
اب صورتحال یہ تھی کہ سب لوگ بیٹھک میں جمع تھے، ابا جی نے اس بڑے ڈبے سے کپڑا اتار دیا تھا جس کے بعد اس ڈبے کے ایک سائڈ پر لگی نوبیں اور بٹن نظر آ رہے تھے جبکہ درمیان میں شیشہ لگا ہوا تھا۔ چچا جان نے انٹینا کا دوسرا سِرا اس ڈبے سے جوڑدیا۔ ابا نے ٹائم دیکھنا شروع کیا ، اور پانچ بجے سے کچھ دیر پہلے اس ڈبے کے ساتھ لگی تار کو بجلی کے ساکٹ میں لگا دیا ۔ تمام لوگوں کو پہلے ہی اس ڈبے سے کچھ فاصلے پر قطاروں میں بٹھا دیا گیا تھا، گویا کوئی تماشاہے جو شروع ہونے جا رہا تھا۔
بیٹھک میں لگے پنڈولم کلاک نے پانچ بجے کا اعلان کیا ، کلاک کی ٹن ٹن کے ساتھ ہی ابا نے بجلی کا بٹن دبایا اور ڈبے کا شیشہ روشن ہو گیا ، ایک ساتھ لاکھو ں مکھیاں اس شیشے پر بھنبھناتی نظر آئیں اور تیز سیٹی کے شور نے لوگوں کو کان بند کرنے پر مجبور کردیا۔ہم سب حیران تھے ان مکھیوں کے لئے سارا دن اتنا انتظام اتنا اہتمام کیا گیا تھا ،پتہ نہیں ابا جی کو کیا ہو گیا ہے۔ ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اتنے لوگ جو ہمارے گھر میں جمع ہیں وہ کیا سوچیں گے۔۔ اتنے میں ابا نے چچا جان کو چھت پر جانے کیلئے کہا ، چچا چھت پر پہنچے اور بانس پر لگے انٹینا کا کھول کر گھمانا شروع کیا۔ سب لوگ گھر سے باہر جمع ہو کر چچا کی کارروائی دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں بیٹھک سے ابا کی زور دار آوازآئی ، تصویر آگئی ،بس انٹینا یہیں روک دو۔۔ ابا کی آواز پر ہم سب بیٹھک کی طرف بھاگے ۔ جہاں ایک جہانِ حیرت ہم سب کا منتظر تھا ۔ لکڑی کے ڈبے میں ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی ، وہ خبریں سنا رہی تھی ۔ اس کی آواز بھی اچھی تھی ۔ کانوں کو بھا رہی تھی، کسی کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا کسی کی آنکھیں گویا باہر آنے کو تیار تھیں۔ بیٹھک میں بالکل خاموشی تھی ،صرف ڈبے والی عورت کی آواز گونج رہی تھی۔ابا خود بھی ڈبے کے بالکل سامنےکھڑے ڈبے والی عورت کو حیرت اور خوشی سے دیکھ رہے تھے۔۔عورت نے خبریں ختم کیں، جس کےبعد ڈراما شروع ہو گیا، آدھے گھنٹے بعد ڈراما ختم ہوا تو پھر خبریں شروع ہو گئیں۔ سب حیرت سےدیکھے جا رہے تھے گویا گنبد بے صدا میں قید ہو گئے ہوں۔
یہ قید آج بھی جاری ہے ۔ فرق یہ پڑا ہے کہ اس وقت اس ڈبے میں سیاہ و سفید تصویریں آتی تھیں، آج ہائی ڈیفی نیشن کلر ٹرانسمیشن ہے۔ پہلے ایک چینل آتا تھا آج سو چینل آپ کی نظروں کے منتظر ہیں ۔ گانے کھیل ڈرامے فلم دیکھنے کے لئے اتنی ورائٹی ہے کہ وقت کم پڑ جاتا ہے۔ لوگ سر شام ٹی و ی کے سامنے بیٹھتے ہیں اور آدھی رات تک بے مصرف اور فضول پروگرام دیکھتے رہتے ہیں یا سیاسی ٹاک شوز دیکھ کر اپنا بلڈ پریشر بڑھاتے ہیں ۔ ٹی وی کے بعد اب کمپیوٹر بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے، جہاں دیکھنے دکھانے کیلئے ایک سو چینلز سے کئی گنا زیادہ آپشنز موجود ہیں۔ لوگوں نے زندگی کی کھڑکی بند کردی ہے۔ چلیں یہی وقت ہے اپنے ٹی وی یا کمپیوٹر کا سوئچ آف کریں اور زندگی کی کھڑکی کھول کر ایک گہری سانس لیں آپ زندگی کی جانب لوٹنےلگیں گے۔
آپ نے لاہور دیکھ لیا، مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔ شائد معاملہ یہ رہا ہ...
کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے، کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی ...
سرحد پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لالہ جی کے لیے اس سچائی کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ نظریں ملانے کے بجائے زبان چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال کا درست ادراک نہ رکھنا لالہ جی سمیت بھارتیوں کی عادت ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات...
ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے...
آپ نے شادی کر لی مبارک ہو۔ آپ کو دنیا کی سب سے اچھی بیوی مل گئی بہت بہت مبارک ہو۔آپ خود کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ کی بیوی بھی بالکل اسی طرح محسوس کرے جیسا آپ محسوس کررہے ہیں، وہ بھی خود کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھے جتنا آپ سمجھ ر...
کہا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت کرنی ہے۔ ہمارے یہاں تو خود اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کرنے کو سیاست کہا جاتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جمہوریت جمہور پر جمہور کے ذریعے حکومت کرنے کو کہتے ہیں، ملک پاکستان میں عام شہریوں کو بچہ جمہورا...
کہانی ہے ایک پہاڑی گاؤں کی جہاں لوگ خوشی خوشی رہتے ہیں، پہاڑوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں سبزہ وافر اور پانی کی فراوانی ہے، پھل سبزیا ں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، گایوں بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی کمی نہیں۔اس گاؤں میں ایک گھر پی کے کا ہے، اپنے گھر کوترتیب سے چلان...
انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، موبائل فونز ،بلیک بیریز ، جی پی آر ایس ، اور ٹیکنالوجی کے اور کئی شاہکار آج ہم جن کے بغیر شایدخود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان تمام آلات نے انسان کو مواصلات کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ،اورمعلومات کی باآسانی فراہمی کو نئے مفہوم سے آشنا کی...
ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جو چیز ایجاد کر رہا ہے وہ موبائل فون بن کر اکیسویں صدی میں کیا کیا گل کھلائے گی۔ موبائل کی بہاریں چار سو پھیلی ملیں گی۔ جس کس و ناکس کو دیکھ لیں ہاتھ میں موبائل فون ضرورہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ موبائل فون نے زندگی میں کسی ...
زندگی نام ہے جینے کا، یعنی زندہ رہنے کا اور زندہ رہنے کے لئے کھانا پڑتا ہے۔ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کھانے کے لئے بھی جیتے ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بڑی چیز ہے، پیٹ بھر جاتا ہے لیکن نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے تقریبا ہر شہر میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں چٹوروں...
میں سڑک کے چوک پر لگی لال بتی پر رکنا چاہتا ہوں لیکن میرے پیچھے والے شاید بہت جلدی میں ہوتے ہیں، ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پھر گاڑی ریورس کرکے دائیں بائیں سے نکلنے والی گاڑیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ بظاہر معزز نظر آنے والےبھی جاتے ہوئے زور سے چلاتے...
سطح زمین پر حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کوئی دو ارب سال پہلے حیات کےپودے کی کونپل پانی ہی میں پھوٹی تھی۔ امینو ایسڈ سے شروع ہونے والی یک خلوی زندگی نے نے اربوں سال کے ارتقائی عمل میں ڈائینوسار جیسے دیوقامت جاندار بھی پیدا کیے اور امیبا جیسے خوردبین سے دیک...