... loading ...
میرا خیال ہے کہ سال 1990ء ابھی تک لوگ بھولے نہیں ہوں گے جب پوری کشمیری قوم سڑکوں پر نکل آئی تھی، بھارت کے خلاف کھلم کھلا نفرت کا اظہار ہر طرف ہورہا تھااوربھارت کا سارا انٹلیجنس کا نظام تتر بتر ہوچکا تھا۔ بھارتی پالیسی ساز اس صورتحال کو دیکھ کر دم بخود تھے۔ انہیں اس بات پر حیرانی تھی کہ اچانک اس حد تک یہ عوامی غم و غصے کا لاوا کس طرح پھٹ پڑا؟ان کی انٹلیجنس ایجنسیاں کہاں تھیں۔ دنیا بھر کے میڈیا نے اس عوامی مزاحمت کو دہشت گردی سے تعبیر نہیں کیا۔ انہوں نے اسے کشمیریوں کی بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف ایک جدوجہد قرار دیا۔
برطانوی اخبار “گارجین” 29جنوری1990ء کے شمارے میں یوں حالات پر تبصرہ کرتا ہے:
’’بھارتی صحافیوں پر یہ سرکاری مؤقف تسلیم کرنے کیلئے بڑا دباؤ ہے کہ ریاست کی موجودہ سال کی پر تشدد کاروائیوں میں وہ جنگجو ملوث ہیں جنہیں پاکستان نے تربیت دی ہے اور ہتھیار بھی دے رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس حقیقت کے بھاری شواہد موجود ہیں کہ کشمیر میں ایک مقبول عام تحریک چل رہی ہے جہاں مسلمانوں کی غالب اکثریت یا توایک آزاد ریاست کے طور پر رہنا چاہتی ہے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چا ہتی ہے۔ ”
اخبارانڈیپنڈنٹ لندن نے 30جنوری 90کے شمارے میں حکومت ہند کو یوں آڑے ہاتھوں لیا۔
“بھارتی حکومت نے پھر بیرونی مداخلت کا واویلا مچانے کی اپنی معروف ترکیب کی طرف رجوع کیا جیسا کہ وہ بحران کے وقت اکثر کیا کرتی ہے بھارت کا پاکستان پر یہ الزام لگانا کہ وہ کشمیر میں افرا تفری کو ہوا دے رہا ہے اس حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے کہ آزادی کشمیر کی تحریک کو یہاں مقامی طور پر قبول عام حاصل ہے”
نیو یارک ٹائمز کا تبصرہ جو 22جنوری 1990کے شمارے میں موجودہے:
“کشمیر میں افرا تفری کو بھڑکانے میں پاکستان کو قصور وار ٹھہرانے کیلئے کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی کی جڑیں عوام میں ہیں”
بھارتی اخبار دی سنڈے آبزرور 25؍فروری کی اشاعت میں یوں اپنے قارئین سے مخاطب ہورہا ہے :
“کشمیر کے معاملات میں پاکستان کا رول صفر ہے یا بہت کم۔ کشمیری عوام کی مایوسیوں کی ذمہ داری مختلف ریاستی سرکاروں اور بھارت کی مرکزی سرکار پر عائد ہوتی ہے”
لیکن پھر کیا ہوا، اس عوامی مزاحمت کو عروج کی انتہاوں سے زوال کی انتہاوں تک کس طرح پہنچایا گیا اور اس عمل میں کس طرح ہماری سیاسی قیادت اور پاکستانی قیادت استعمال ہوتی رہی۔ کس طرح مفادات کی بھینٹ چڑھی۔ چوراہوں پر بیٹھ کے کس طرح اس تحریک کا مذاق اڑاتے رہے، من پسند فارمولے دیتے رہے، اس تحریک کو خود ہی دہشت گرد تحریک ثابت کرنے پر مصر رہے۔ اپنی سرزمین اور اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں اس تحریک کی بنیادوں کو ہلانے کیلئے ہر وہ طریقہ اپنایا گیا جو ان کے بس میں تھا۔ سیاست کے نام پر اپنی دُکانیں چمکاتے رہے۔ بھارت کے سامنے امن و رحم کی بھیک مانگتے رہے، تحریک رسوا ہوتی رہی، لیکن ان لوگوں کی جبینوں پر شکنیں بھی نہ آئیں۔
ریاست جموں و کشمیر کی سب بڑی مقامی آزادی پسند تنظیم حزب المجاہدین کو جدید تقا ضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنے، عسکری جدوجہد کو ایک نئی جہت دینے کاکردار نبھانے والے اور کشمیری عوام کے محبوب ترین جواں سال مجاہد رہنماکمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں ایک بار پھر بھارت کے خلاف ایک نئی عوامی تحریک شروع ہوگئی ہے۔ پوری کشمیری قوم اپنے اس جواں سال ہیرو کیلئے گھروں سے باہر نکل آئی ہے۔ لاکھوں لوگوں نے ان کے جنازے میں شرکت کی۔ ریاست کے چپے چپے پر ہزاروں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئیں۔ لاکھوں لوگ جن میں بچے، خواتین، بزرگ اور جوان شامل ہیں، بھارتی فورسز اور بھارتی قبضے کے خلاف مظا ہرے کررہے ہیں۔ 50دنوں سے کرفیو جاری ہے۔ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے 2004ء میں جس خاتون کو کشمیر کا مستقبل قرار دیا تھا، اسی خاتون یعنی پی ڈی پی کی سربراہ اور مقبوضہ ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی ہدایات پر بھارتی فورسز کی فائرنگ سے 70لوگ اب تک شہید ہوچکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد آٹھ ہزار کا ہند سہ عبور کرچکی ہے۔ سینکڑوں بچوں کی بینائی متاثر ہوچکی ہے۔ لیکن اس سب کے با وجود جدوجہد میں روز بروز تیزی آرہی ہے۔ 90کا منظر نامہ پھر ایک بار نظر آرہا ہے۔
پورا بھارت ہل چکا ہے، کٹھ پتلی محبوبہ مودی حکومت مفلوج ہوچکی ہے۔ ایک برہان کی شہادت ہزاروں برہانوں کو جنم دے چکی ہے۔۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کشمیر کی سیاسی و عسکری قیادت اس نئی تحریک کو سنبھالنے اور اسے ایک رخ دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔ کیا ان برسوں میں اس قیادت نے کچھ سبق حاصل کیا ہے، کیا کوئی ایسی منصوبہ بندی ترتیب دی گئی ہے جس کے نتیجے میں کل کوئی اور مشرف اس تحریک کو سبو تاژ نہ کرسکے۔ فلسطینی تحریک حماس نے اپنی کا میاب سیاسی و سفارتی مہم سے نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکاکو بھی دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ وہی حماس جسے امریکانے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے لیکن اپنی کامیاب اور مخلصانہ کوششوں کے نتیجے میں انہوں نے یورپی عوام کو متحرک کیا ہے۔ کیا کشمیری قیادت نے ان سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے؟کیا کشمیریوں کاسفارتی محاذ فلسطینیوں کے سفارتی محاذ سے کچھ سیکھ سکاہے؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جن کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہے۔ میرا خیال ہے کہ ٹھوس بنیادوں پر ایک واضح پالیسی ترتیب دینے کی فوری ضرورت ہے، ورنہ چند دن، چند مہینے، چند سال یہ ہنگامہ رہے گا، اور پھر کہیں سے ڈور ہلائی جائیگی، اور پھر تاجرانہ ذہنیت کے حامل لوگ تحریک کی لگام سنبھالیں گے اور پھر وہی ہوگا جو ازل سے اب تک اس تحریک کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔۔۔ اللہ رحم فرمائے!
برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج کا خیال تھا کہ وہ انتہائی مطلوب حریت پسند رہنماکی موت کا جشن منا ئیں گے، مٹھا ئیاں با نٹیں گے اور نئی کشمیری نسل کو یہ پیغام دیں گے کہ بھارت ایک مہان ملک ہے اور اس کے قبضے کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو وہ ختم کرنا جا نتے ہیں۔ لیکن انہیں کشمیر...
اڑی حملے کے بعد نریندر مودی سرکار اور اس کے زیر اثر میڈیا نے پاکستان کیخلاف ایک ایسی جارحا نہ روش اختیار کی، جس سے بھارتی عوام میں جنگی جنوں کی کیفیت طاری ہوگئی اور انہیں یوں لگا کہ دم بھر میں پاکستان پر حملہ ہوگا اور چند دنوں میں اکھنڈ بھارت کا آر ایس ایس کا پرانا خواب پورا ہوگا...
معروف کشمیری دانشور و صحافی پریم نا تھ بزاز نے 1947ء میں ہی یہ پیش گوئی کی تھی کہ اگر مسئلہ کشمیر، کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہ ہوسکا، تو ایک وقت یہ مسئلہ نہ صرف اس خطے کا بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے خرمنِ امن کو خا کستر کردے گا۔ 1947ء سے تحریک آزادی جاری ہے اور تا ایں دم ی...
پاکستان اور چین کی ہمالیہ سے بلند ہوتی ہوئی دوستی کی جڑیں نہ صرف تاریخ میں موجود اورتجربات میں پیوست ہیں بلکہ مستقبل کے امکانا ت میں بھی پنہاں ہیں،کئی ایک ملکوں کے سینوں پر مونگ دلتی چلی آرہی ہے ۔وہ جن کا خیال ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں اور روایتی دوستوں کے درمیان گہرے ہوتے ہوئے تع...
تاریخ گواہ ہے کہ 2002 ء میں گجرات میں سنگھ پریوار کے سادھو نریندر مودی (جو اس وقت وہاں وزیر اعلیٰ تھے) کی ہدایات کے عین مطابق کئی ہزار مسلمان مرد عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ عورتوں کی عزت کو داغدار کرنے کے علاوہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے گئے تھے۔ ہزاروں رہائشی مکا...
سقوط ڈھاکا ہوا۔ کشمیری درد و غم میں ڈوب گئے۔ ذولفقار علی بھٹو کو سولی پر چڑھایا گیا تو کشمیری ضیاء الحق اورپاکستانی عدالتوں کے خلاف سڑکوں پرنکل آئے۔ پاکستان نے ورلڈ کپ میں کامیابی حاصل کی تو کشمیر یوں نے کئی روز تک جشن منایا۔ جنرل ضیاء الحق ہوائی حادثے میں شہید ہوئے تو کشمیر یوں ...
۲مئی۲۰۱۶کو میری تحریر)وہ ورق تھا دل کی کتاب کا!!!(کے عنوان سے پاکستان کی معروف ویب سائٹ (http://wujood.com/) میں شائع ہوئی۔اس کا ابتدائی پیراگراف ان جملوں پر مشتمل تھا۔ ’’تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنما اور مقبول بٹ شہید کے دست راست امان اﷲ خان طویل علالت کے بعد ۲۶اپریل کو ہ...
باور یہ کیا جا رہا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ کشمیری عوام حالات سے مایوس ہو کر تھک جائیں گے ،انہیں پُلوں ،ہسپتالوں ،ریلوے ٹریک ،سڑکوں کے نام پر ایک نئی اقتصادی ترقی کا سراب دکھا کر نظریات سے برگشتہ کر دیا جائے گا۔کشمیر کی نئی نسل اپنے بزرگوں کے مقابلے میں زیادہ عملیت پسندی کا مظاہر...
فروری کا مہینہ پاکستان میں کشمیریوں سے یک جہتی کا پیغام لے کر آتا ہے ۔پانچ فروری کو پاکستان میں کراچی سے خیبر تک اہل پاکستان کشمیری عوام اور تحریک آزادیٔ کشمیر سے یک جہتی کا اظہار جلسے جلوس کے ذریعے کرتے ہیں۔یہ سلسلہ 1990ء سے جاری ہے اور اس کی ابتداء قاضی حسین احمد مرحوم کی کال س...