... loading ...
پروفیسر منور علی ملک میرے انگزیری کے اُستاد اور عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے دوست ہیں ۔ اپنی کتاب ’’ درد کا سفیر ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ اُونچے سُروں کی شاخوں میں اُلجھ کر جب یہ آواز کسی زخمی پرندے کی طرح پھڑپھٹراتی ہے تو روح کا شجر جڑوں تک لرز اُٹھتا ہے ۔ اور پھر جب اس بلندی سے کسی زخمی پرندے ہی کی طرح یہ آواز ایک ہچکی کے ساتھ نیچے کو آتی ہے تو ہارمونیم پر عطاء کی انگلیوں کی لرزش رقصِ بسمل کا منظر بن جاتی ہے ‘‘۔۔۔ پروفیسر صاحب اسی پر اکتفا نہیں کرتے وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ یہ آواز وہ آواز ہے جو حلق کی کمان سے تیر کی طرح سنسنا کر نکلتی ہے اور تیر ہی کی طرح دل میں پیوست ہو جاتی ہے بشرطیکہ دل کسی انسان کا ہو ۔ اس آواز کو کوئی نام دینا چاہیں تو موسیقی کی لغت کی تنگی داماں کا بھرم کھلتا ہے کہ اتنی موثر اور مقبول آواز کیلئے کوئی لفظ سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ شاید اسی لیے کہ ایسی کوئی آواز پہلے موجود ہی نہ تھی ۔ یوں لگتا ہے کہ اس آواز کو تخلیق کرکے قدرت نے سات سُروں کی کائنات میں ایک آٹھویں سُر کا اضافہ کیا ہے ۔ اور اسطرح یہ ثابت کردیا ہے کہ سُروں کا خالق بھی انسان نہیں بلکہ وہ خالقِ عالم خود ہے ۔‘‘
باکمالوں کی دھرتی میانوالی کے اکثر بیٹوں کوحاصل ہونے والا کمال جغرافیائی سرحدوں سے ماورانظر آتا ہے ۔ عیسیٰ خیل پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے سنگم پر آباد ایک ایسا علاقہ ہے جس کے اکثر علاقوں پر ابھی تک اٹھاوریں صدی کا گمان ہوتا ہے ۔ لیکن اس دور آباد علاقے نے ادب اور موسیقی میں بے پناہ شہرت حاصل کی ۔ یہ علاقہ اب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے آبائی حلقہ انتخاب این اے 71 کا حصہ ہے ۔ اس سے پہلے مولانا عبد الستار خان نیازیؒ اس حلقہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہواکرتے تھے ۔ مولانا عبد الستار خان نیازی ؒبھی اسی علاقے میں پیدا ہوئے تھے ۔ نامور شاعر تلوک چند محروم اور ان کے فرزند ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد عیسیٰ خیل کے نواحی قصبہ ’’ کلور شریف ‘‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ انڈیا چلے گئے تھے ۔ انڈیا میں اقبالیات کے حوالے سے ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کی شناخت سے دنیا واقف ہے۔ ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ چودہ اگست1947 ء کو جس وقت قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تو ریڈیو پاکستان لاہور سے ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کا لکھا ہوا قومی ترانہ نشر ہوا ۔
’’ ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک ۔۔۔۔۔۔۔ اے سر زمینِ پاک ـ‘‘
عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی بھی اسی دھرتی کے بیٹے ہیں ۔ عیسیٰ خیل جیسے پسماندہ علاقوں سے نکل کر اُن کی آواز نے عالمگیر شہرت حاصل کی اور اپنے فن کی بدولت لوک گائیکی کی دنیا میں ایک لیجنڈ کی حیثیت سے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔۔۔ عیسیٰ خیل کی مٹی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں سیاسی شعور بہت زیادہ پایا جاتا ہے ۔ پسماندگی اور درماندگی کی آندھی کے باوجود اس علاقے میں حریتِ فکر کا چراغ بھی کبھی گل نہیں ہوا ۔ بے مایہ مولانا نیازی ؒ یہاں سے ایم این اے منتخب ہو جایا کرتے تھے ۔ساٹھ کی دہائی میں یہاں کے لوگوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان اور نواب آف کالاباغ کے مقابلے میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒ کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ انتہائی خوش دلی کے ساتھ انہیں خوش آمدید بھی کہا تھا ۔ 1996 ء میں عمران خان نے سیاست کا آغاز کیا تو اسی علاقے کے بیابانوں اور کہساروں کے لوگ ان کی پشتیبانی کے لیے آگے بڑھے ۔
یہ عیسیٰ خیل کی مٹی کی تاثیر ہی ہے کہ کچھ سال پہلے شہنشائے لوک موسیقی عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے سیاست میں عملی طور پر دوبارہ حصہ لینا شروع کر دیا ۔ سرائیکی کو دنیا بھر میں متعارف کروانے والا یہ عظیم فنکار اس سے پہلے بھی عملی سیاست میں سرگرم رہا تھا ۔ اپنی گلوکاری کے آغاز کے دنوں میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ اور اپنی تحصیل کے صدر تھے ۔ بعد میں انہوں نے سیاست سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی پوری توجہ موسیقی پر مرکوز رکھی ۔ 2013 ء کے عام انتخابات سے پہلے انہوں پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک گیت گایا ۔ انتخابی مہم میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی پرسوز آواز نے ایک رنگ بھر دیا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی وہ عملی سیاست میں واپس لوٹ آئے ۔۔۔ ’’ ان کا کہنا ہے کہ میں نے ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے سیاست چھوڑ دی تھی اب عمران خان کی وجہ سے سیاست میں واپس آگیا ہوں ۔ ‘‘انہوں نے اپنے علاقے میانوالی کو وقت دینا شروع کر دیا ۔کہتے ہیں کہ جب میں یہ گیت گاتا ہوں کہ ’’ تینوں لے کے جانا ہے میانوالی ‘‘ تو ایسا لگتا ہے کہ میں کسی دوشیزہ سے مخاطب ہوں ۔ لیکن اپنے شعور میں دنیا کی ہر خوبصورتی میانوالی لانا چاہتا ہوں ۔ میانوالی کی پسماندگی مجھے رُلاتی ہے ۔۔۔ عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی جیسا حساس فنکار جب عملی سیاست میں دوبارہ سرگرم ہونے جا رہا تھا تو اس کے چاہنے والوں کا سینہ دھک دھک کر رہا تھا ۔ سیاست کی بے رحمی ان کے سامنے تھی اور لالہ عطاء ہی کی گائی ہوئی غزل کا یہ شعر بار بار یاد آتا تھا کہ
لوک گلوکاری کی بلندیوں کو تسخیر کرنے والے عطاء سیاست کے میدان میں مشکلات کا شکار ہو گئے ۔ نرم خو، حلیم اطبع ، دوسروں کا درد محسوس کرنے والا اور اپنے علاقے کی پسماندگی کا رونا رونے والا یہ لیجنڈ گذشتہ پانچ ماہ سے سیات کی تلخیوں کا شکارہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ منظم مخالفت سرگرم ہونے لگی ہے۔ ایک ہفتہ قبل سوشل میڈیا پر ان خبروں کی گردش میں اضافہ ہو گیا کہ عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی راہیں عمران خان سے جُدا ہونے والی ہیں ۔ وہ ان دنوں ملک سے باہر ہیں اس لیے ان کی جانب سے وضاحت آنے میں کچھ تاخیر ہوئی ۔ اب ان کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ’’ وہ کسی عہدے یا منصب کے لالچ سے بے نیاز ہو کر عمران خان کے مشن کے ساتھی ہیں وہ پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہیں اور رہیں گے ‘‘ یہ بیان ان کی سیاسی پختگی کا مظہر ہے ۔ انہوں نے موسیقی کے سُروں کو قدرت کی عطا کردہ آواز سے مسخر کیا ۔ لیکن ’’سیاست کی بھیرویں ‘‘ پر آ کر اٹک گئے ۔ یہاں مجھے ریڈیو پاکستان کے ممتاز سارنگی نواز محمد حسین کی یہ بات یاد آتی ہے کہ ’’ سارنگی کا سب سے اہم تانت چمڑے کا تانت ہوتا ہے ۔ مگر عطاء کی آواز میں نہ جانے کیا بات ہے کہ چمڑے کا تانت ان کی آواز کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ ایک آدھ مرتبہ ان کے ساتھ سنگت کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ چمڑے کے تانت سے وہ تاثرپیدا نہیں ہوتا جو ہونا چاہئے۔ لہذا ان کے ساتھ سنگت کے لیے ا سٹیل کا تار استعمال کرتا ہوں اورا سٹیل کے تار سے انگلیوں کو زخمی ہونے سے بچانے کے لیے ان پر پلاسٹر ٹیپ لپیٹ لیتا ہوں ۔ ‘‘
ہمارے ہاں کی سیاست حرص و ہوس کی وادی ہے ۔ کلاسیکل لوگوں کے لیے اس میدان میں بہت مشکلات ہیں ۔ لالہ عطاء کی سیاست میں سرگرمی پر ان کے کپتان عمران خان کا کہنا تھا کہ اس میدان میں لوگ کپڑے بھی اُتار لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کو چاہیے کہ سارنگی نواز محمد حسین کی طرح سیاسی میدان میں لوہے یاا سٹیل کا ’’ تانت ‘‘ استعمال کریں ۔ اپنی انگلیوں کو زخمی ہونے سے بچانے کے لئے پلاسٹر ٹیپ لپیٹے رہیں کیونکہ ہماری سیاست میں ’’ یار ‘‘ اور ’’ اغیار ‘‘ بدلتے رہتے ہیں ۔۔
پاکستانی نژاد ویژول آرٹسٹ لاریب عطا نے ایک اور بڑے بجٹ کی ہالی وڈ فلم میں اپنی خدمات پیش کردی ہیں۔ لاریب عطا نے باکس آفس پر تہلکہ مچانے والی ہالی وڈ فلم جیمز بونڈ 007 میں بطور ویژول آرٹسٹ کام کیا ہے، اس وقت یہ فلم برطانوی اور امریکی باکس آفس پر چھائی ہوئی ہے۔معروف گلوکارعطا اللہ ...
جولائی 2013 ء کے آخری عشرے کی ایک حبس زدہ شام میں موسیقی کی گہری جڑیں اپنی سرزمین میں پیوست کرنے والے عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کو ملاقات کا ایک پیغام بھجوایا ۔ ان دنوں عمران خان کے آبائی حلقہ انتخاب میں ضمنی الیکشن کا مرحلہ درپیش تھا ۔ جواب ملا کہ مان لو عشق کی صدارت میں ایک...
راولپنڈی کی لال حویلی کے مکین شیخ رشید احمد نے جب سے’’ اپنی ‘‘ سیاست شروع کی ہے۔ اُس وقت سے لے کر اب تک انہوں نے خود کو سیاست میں ’’ اِن ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ اُن کی سیاسی کہانی مدو جذر اور پلٹنے جھپٹنے سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود راولپنڈی کے...
میں جب بھی یہ نعرہ سنتا ہوں ’’ دیکھو دیکھو کون آیا ۔ شیر کا شکاری آیا ‘‘ تو مجھے قیامِ پاکستان سے پہلے ’’کپتان ‘‘ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ کی ایک خونخوار شیر سے ’’ ہاتھا پائی ‘‘ کا واقعہ یاد آ جاتا ہے ۔ تاریخی حوالوں کے مطابق پاکستان بننے سے پہلے ضلع میانوالی اور ...
کراچی کے نو منتخب میئر وسیم اختر نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں ـ’’ جئے بھٹو ‘‘ اور ’’ جئے عمران خان ‘‘ کے نعرے لگائے تو ماضی کے دھندلکوں سے 12 ستمبر2007 ء کا منظر میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ مری یادوں کے خزانے چٹیل ویرانوں اور کچلے ہوئے خوابوں کے ریزوں جیسے ہیں۔ تپاں جذبوں سے ...
جیل یا عقوبت خانے کا تصور یا تاثر کبھی خوشگوار نہیں ہوتا۔۔۔ پھانسی گھاٹ تو ہوتا ہی خوف اور دہشت کی علامت ہے۔انسان کو اپنا سکون اور جان بہت عزیز ہوتی ہے۔ اس لئے جیل جانا کسی کو بھی پسندیا قبول نہیں ہوتا۔۔ 31 ؍ اکتوبر غازی علم دین شہید کی برسی کے موقع پر سینٹرل جیل میانوالی کے دورے...
محمد منصور آفاق شاعر ، ادیب، ڈراما نگار اور کالم نگار کی حیثیت سے ہمہ جہت شخصیت کا مالک ہے ۔ وہ اپنی ہر غزل، نظم ،شعر ، مصرعے، ڈرامے اور کالم سے پہچانا جاتا ہے ۔ میں محمد منصور آفاق کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب وہ تخلیقی عمل میں پوری طرح گرفتار ہونے کے لئے ’’قلبی وارداتیں ‘‘ کرنے ک...
نیازی قبائل کی برصغیر میں آمد کا سلسلہ ہندستان پر سلطان محمود غزنوی کی ’’ دستک ‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔لیکن ان قبائل کی باقاعدہ منظم شکل میں اس علاقے میں آمد بہت بعد کی بات ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ نیازیوں کی اکثریت اوائل میں غزنی کے جنوبی علاقے میں آباد تھی ۔ اس علاقے پر انڈروں اور خلجیو...
پاکستان کے انحطاط پزیر معاشرے کی صحافت کے رنگ نرالے ہی نہیں مایوس کُن بھی ہیں۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے غیر تربیت یافتہ اینکرز کی صحافت ایک ایسی موج کی طرح رقص کناں ہے جسے ہر دم یہ گماں رہتا ہے کہ اُس کا عین اگلا اُچھال اُسے ساحلِ مراد سے ہمکنار کر دے گا۔ لیکن حقائق کی منہ زور ہو...
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ عمران خان اپنی اہلیہ ریحام خان کے ہمراہ’’نمل شہر علم ‘‘ میں موجود تھے۔ عمران خان نے شوکت خانم جیسا سماجی خدمت کا ادارہ قائم کیا ۔ کراچی اور پشاور کے شوکت خانم ہسپتال بھی تکمیل کے مراحل کے قریب ہیں ۔میں نے ان عظیم الشان اداروں کے حوالے سے عمران خان کو کبھی...
دریائے سندھ کے شمالی کنارے اور سلاگر پہاڑ کی ڈھلوان پر آباد سینکڑوں سال پرانے شہر کالاباغ کامحنت کش اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ بھرنے کے لئے ’’ سائیکل رکشہ‘‘ کے ذریعے جانوروں کی طرح انسان کا بوجھ کھینچنے پر مجبور ہے۔عظیم مسلمان فاتح سلط...
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس جوادایس خواجہ بطور چیف جسٹس اپنی بائیس روزہ تعیناتی مکمل کرکے ریٹائر ہو گئے ہیں ۔ 18 ؍ اگست 2015 ء کو اپنا منصب سنبھالتے ہوئے اُنہوں نے قوم کے ماضی کے حسین البم سے نغمہ عشق و محبت کی کہانی کے طور پر اردو زبان کو نطق و تکلم کے جواں عالم ...