... loading ...
دنیا کے ہر مذہب میں خدا کے تعارف، اس کے اقرار، اس سے انسان کے تعلق اور اس تعلق کے حامل انسان کی خصوصیات کو مرکزیت حاصل ہے۔ مختصراً، مذہب خدا کا تعارف اور بندگی کا سانچہ ہے۔ جدید عہد مذہب پر فکری یورش اور اس سے عملی روگردانی کا دور ہے۔ لیکن اگر مذہب سے حاصل ہونے والے تعارفِ خدا اور تصورِ خدا سے انکار بھی کر دیا جائے، تو فکری اور فلسفیانہ علوم میں ”خدا“ ایک عقلی مسئلے کے طور پر پھر بھی موجود رہتا ہے۔ خدا کے مذہبی تصور اور اس سے تعلق کے مسئلے کو ”حل“ کرنے کے لیے جدیدیت نے اپنی ابتدائی تشکیل ہی میں ایک ”مجہول الٰہ“ (deity) کا تصور دیا تھا جس کی حیثیت ایک فکشن سے زیادہ نہیں تھی۔ جدیدیت نے آدمی کو یہ مژدہ سنایا تھا کہ وہ اس مفروضہ ”خدا“ سے تعلق طے کرنے میں بھی آزاد ہے۔ جدیدیت نے خدا کے مذہبی تصور کا مکمل انکار کیا، لیکن ایک افسانوی اور عقل ساختہ ”خدا“ کا تصور پیش کر کے خدا پرستی اور آزاد روی کا التباس باقی رکھا۔ اس طرح جدیدیت نے انسان کو مذہب سے لاتعلق ہونے کا راستہ اور جواز فراہم کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ صنعتی ترقی، صنعتی کلچر، جدید تعلیم، سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ، اور جدید سیاسی اور معاشی نظام نے اس سوال کو بالکل ہی غیر اہم بنا دیا۔ جدید دنیا میں مذہب کے مطابق خدا کو ماننے والوں کی حیثیت اب پسماندہ ذہن اور کلچر رکھنے والے ریڈ انڈینز کی طرح ہو گئی ہے۔
الحاد سے عام طور پر خدا کا انکار مراد لیا جاتا ہے، اور دہریت اس کی فکری تشکیلات اور تفصیلات پر مبنی ایک علمی مبحث اور تحریک ہے۔ آج کی دنیا میں الحاد فرد کی داخلیت میں مستحکم ہو گیا ہے اور دہریت ایک بڑی تحریک کی صورت اختیار کر گئی ہے جو خدا کو ماننے کے مذہبی عقیدے اور غیر مذہبی رویے کے خلاف جارحانہ لائحہ عمل رکھتی ہے۔ الحاد اور دہریت اب کوئی علمی یا عقلی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک سماجی اور ثقافتی صورت حال بن گئی ہے، جس نے کہیں کہیں ایک تحریک کی شکل بھی اختیار کر لی ہے۔ اب دہریت اپنے پھیلاؤ اور دفاع کے لیے ”تحریکی“ ذرائع استعمال کر رہی ہے اور سیاسی طاقت اور سرمائے کی بڑی قوتیں اس کی پشت پر ہیں۔
دہریت کی تحریک میں شدت کی ایک بڑی وجہ اسلام ہے۔ مغربی تہذیب نے ”ترقی“ کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب کاری (ویسٹرنائزیزشن) اور جدید کاری (ماڈرنائزیشن) کو عالمی سطح پر فروغ دیا۔ ان دوعوامل کے پیدا کردہ نئے سماجی اور ثقافتی حالات میں دنیا کے مذاہب بخارات کی طرح تحلیل ہو گئے۔ مسلم دنیا میں مغرب کاری اور جدید کاری کے منصوبوں کو جزوی کامیابی تو یقیناً ہوئی لیکن وہ اسلام کی بیخ کنی کرنے میں نہ صرف ناکام رہے، بلکہ انہیں ہر سطح پر مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جو الحادی اور اباحتی مقاصد معاشی ترقی، سیاسی پالیسی اور ثقافتی تبدیلی سے بالواسطہ حاصل نہ کیے جا سکے، دہریت کی تحریک اب انہیں جعلی علوم، سیاسی دھونس اور معاشی دباؤ سے براہ راست حاصل کرنا چاہتی ہے۔
الحاد کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں لیکن ہماری ناقص رائے میں ان میں کم از کم تین اقسام اہم ہیں جن کو ہمارے کلچر اور معاشرے میں بھی زیر بحث لانا ضروری ہے۔ یہ اسباب (۱) عقلی، اور (۲) نفسی ہیں، اور یہ (۳) استعماری غلامی کے نتیجے میں بھی سامنے آئے ہیں۔
اگر الحاد کا مرکز ذہن ہو تو اس کے اسباب عقلی ہوتے ہیں، یا دوسرے لفظوں میں الحاد کے اسباب علمی اور عقلی ہوں تو اس کا مرکز ذہن ہوتا ہے۔ عقلی الحاد کا شجرہ نسب براہ راست تحریک تنویر سے مل جاتا ہے۔ جدید عہد انسانی ذہن کی ایک نئی ساخت سے پیدا ہوا ہے اور اس نئی ساخت کو مسلسل صیقل کر کے یہ عہد خود کو تسلسل دیتا ہے۔ جدید ذہنی ساخت میں ”جاننے“ کو مرکزیت حاصل ہے اور ”ماننے“ کا عمل معیوب و مطرود ہے۔ جس طرح بیداری اور نیند انسانی شعور کا فطری اور معمول کا وظیفہ ہے، اسی طرح ”جاننا“ اور ”ماننا“ بھی انسانی شعور کا فطری معمول ہے۔ ”ماننے“ کی قیمت پر ”جاننے“ کی پرورش کرنا جدید انسان کے ساتھ خاص ہے۔ الحاد ایک جدید موقف کے طور پر اس نئی شعوری ساخت سے جنم لیتا ہے۔ انسانی شعور کی ساخت، اس کے دائرۂ کار، اس کی فاعلیت اور انفعالیت کے نادرست تناطر اور علم کے بارے میں سرتاسر غلط موقف کا براہ راست نتیجہ الحاد اور دہریت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ دراصل انسانی شعور کے بارے میں مجموعی طور پر غلط موقف ہی الحاد کی بنیاد میں کارفرما ہے۔ جدید شعور کا وحی اور امکان وحی سے ارادی انکار اس کی سرشت میں بہت پختہ ہو چکا ہے، اور جو تاریخی سفر میں فی نفسہٖ علم کے انکار کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ امکانِ علم کے خاتمے کی صورت حال میں جدید انسان میں عقیدے کے خلاف ایک سماجی اور سیاسی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ کسی بھی طرح کے ”مذہبی عقیدے“ یا ”نظریاتی موقف“ کی موجودگی جدید ذہن اور عقل کی المناک نارسائی اور غیرمعمولی ناکامی کا استعارہ بن گیا ہے، کیونکہ جدید ذہن انسان سے عقیدہ چھین کر اسے کوئی ”علم“ دینے کے قابل بھی نہیں ہو سکا۔ اس مشکل سے نکلنے کے لیے جدید ذہن انسان کو پوسٹ ہیومن ہونے کی تھپکیاں دے رہا ہے۔ پوسٹ ہیومن کا سادہ مطلب انسان کو یہ باور کرانا ہے کہ اسے پیاس تو بالکل بھی نہیں لگتی، بس برگر کی بھوک ہی لگتی ہے۔ پوسٹ ماڈرنزم کے احوال میں جدید انسانی شعور ملبے کا ڈھیر ہے، اور قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ یہ دنیا کو بھی ملبے کا ڈھیر بنانے والا ہے۔ انسانی شعور کے فکری حاصلات اور علمی انتاجات تاریخی تحقق لازماً حاصل کرتے ہیں، اور جدید شعور کا یہ ملبہ تاریخی تحقق کی طرف تیز تر سفر میں ہے۔
جدید عقل وسائلِ شعور سے پوری طرح خودآگاہ ہے، اور ”جاننے“ کے عمل میں ان وسائل کا ناکافی ہونا اب عقل کے تجربے میں ہے۔ جدید عقل کو جس شے کے جاننے کا مسئلہ درپیش ہے یعنی کائنات، وہ اس کے حسی ادراک، وقوفی گھیر اور کمندِ فہم سے فزوں تر ہے، یعنی یہ کائنات اس کے تجربے اور ذہن دونوں کی سمائی سے زیادہ ہے۔ جدید انسان جاننے والے ”فاعل“ اور جانے گئے”مفعول“ کی دوئی میں رہتے ہوئے علم کے قیام میں ناکام ہو چکا ہے، اور اب اس پیراڈائم سے دستبردار ہو گیا ہے۔ جدید انسان کا آخری سہارا اب وقوف اور فہم ہے اور اب وہ فہم کی تقدیس سے فاعل و مفعول کی دوئی اور ذہن و شے کی ثنویت کو پاٹنے کی کوشش میں ہے جس کا نتیجہ ایک شدید اور گہری موضوعیت کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ جدید اور منہدم انسانی شعور خارج از ذہن کسی چیز کے امکانِ ادراک و علم ہی سے انکاری ہے۔
صرف جاننے کی پوزیشن پر کھڑے ہونے والے جدید شعور کا ایک بہت بڑا مسئلہ اقدار ہیں۔ خدا کو ماننے یا نہ ماننے کا موقف اپنی اصل میں ”دی گئی اقدار“ کو ماننے یا نہ ماننے کا مسئلہ ہے، اور ”خدا“ محض عنوان ہے۔ خدا کو ماننے کا ”معنی“ علمی نہیں ہے، اقداری ہے۔ خدا کا انکار یک بیک اقدار کا انکار بھی ہے۔ وجود باری کے انکار سے پیدا ہونے والے احوال میں انفرادی اور سماجی سطح پر اَہوائی پسند ناپسند انسان کی اخلاقیات بن جاتی ہے۔ ”جاننے“ کے عمل میں اگر خدا غیر اہم، غیرممکن اور غیر موجود ہے تو اقدار بھی غیر اہم، غیرممکن اور غیر موجود ہیں۔ خدا پر یقین اقدار ہی کی سربلندی ہے، اور اس یقین کا مطلب بہت سادہ ہے۔ خدا اور اقدار کو مان کر انسان یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ نہ میں خود سے ہوں نہ خود کے لیے ہوں۔ اگر انسان اس غیرمذہبی اور فطری موقف کو مان لے کہ وہ نہ خود سے ہے، اور نہ خود کے لیے ہے، تو وہ ہدایت کا مخاطب بننے کی اہلیت سے متصف ہو جاتا ہے۔ جونہی انسان اس بات کا انکار کرتا ہے کہ وہ نہ خود سے ہے اور نہ خود کے لیے ہے، تو وہ اپنے انسان ہونے سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ جدیدیت انسان کے عین اسی وجودی موقف کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور اسے ایک خود مختار و خودمکتفی وجود قرار دیتی ہے، اور اس کا انسان رہنا اور انسان ہونا ممکن نہیں رہتا۔
”جاننا“ انسانی شعور کی فاعلیت ہے اور ”ماننا“ اس کی انفعالیت۔ اگر ”جاننا“ انسانی شعور کا واحد فعل قرار دے دیا جائے، اور ”ماننے“ کی انفعالیت سے انکار کر دیا جائے تو انسانی شعور کی اساس فہم پر منتقل ہو جاتی ہے۔ فہم اساس شعور بھی جدید ذہن ہی کی ایک قسم ہے، جو اپنے لب لباب میں مذہبی نہیں ہے۔ فہم جدید ڈوبتے شعور کو تنکے کا سہارا ہے۔ ”فہم“ کے غلبے میں انسانی شعور کی انفعالیت کا انکار آسان ہو جاتا ہے، اور اقدار کی قبولیت اور ان سے تعلق کمزور پڑ جاتا ہے، یہاں تک کہ ”فہمی شعور“ جلد یا بدیر اقدار سے منقطع ہو جاتا ہے۔ ”جاننے“ کا عمل اور ”فہم“ کی سرگرمی انسانی ذہن کو مکمل طور پر نیچرلائز کر دیتی ہے اور وہ مذہب کے ماورائی معانی کا مخاطب نہیں بن پاتا۔ اگر ”جاننے“ والے ذہن اور ”فہم“ میں نسبتیں گہری ہو جائیں تو ایسا شعور ایک ململی ردائے عقلی کی پٹی میں ملفوف ہو جاتا ہے جس میں خبرِ غیب بار نہیں پا سکتی۔ فہم کا بنیادی مقصد حیات ارضی میں موضوعیت اور معروضیت کی دوئی سے پیدا ہونے والی کھائی کو پاٹنا اور شعور کی سرگرمی کو بامعنی بنانا ہے۔ ”فہم“ کا تعلق تجربی موضوعیت اور شہودی معروضیت سے ہے، اور غیب سے غیر متعلق ہے۔ اس لیے فہم پر زور دینے والا مذہبی ذہن بھی دراصل جدید ذہن ہی کی ایک شکل ہے۔
خالص عقلی اور علمی بنیادوں پر الحاد تک پہنچنے والے ذہن اور افراد ہمارے ہاں بہت کم اور خال خال ہیں، کیونکہ الحادی علمی نتائج تک پہنچنے کے لیے ذہن کی آزاد فعلیت لازمی ہے۔ ہمارے ہاں تو فعلیت ہی نہیں ہے، آزاد فعلیت کیا ہو گی۔ لیکن بہرحال ایسے الحادی ذہن کو “انگیج”کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد خدا کے موجود یا غیر موجود ہونے کے ”عقلی“ دلائل نہیں ہوں گے بلکہ اس کی بنیاد انسانی شعور کی ساخت، اس کے مجموعی ادراکی اور علمی وسائل، شعور اور علم کا باہمی تعلق اور شعور کے داخلی اور فطری اقتضآت ہوں گے۔ اگر انسانی شعور کے کل وسائل کو حتمی تو کجا کافی بھی ثابت کیا جا سکے تو الحاد کا موقف قابل غور ہو سکتا ہے۔ ہماری گزارش ہےکہ ”علم“ کے حصول کے لیے انسانی شعور کے وسائل حتمی تو یقیناً نہیں ہیں ان کو کافی ثابت کرنا بھی ممکن نہیں۔ پھر جدید ذہن کے ”کارناموں“ کا اس کے اپنے قائم کردہ علمی تناظر میں تجزیہ بھی ضروری ہے۔ جدید ذہن اپنے انکاری علم، آلاتی اخلاقیات اور فطرت ارضی پر غلبے سے جس طرح کی دنیا تشکیل دے چکا ہے وہ انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہی، اور اس کے لیے پوسٹ ہیومن نامی ایک نئی آرگنزم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو حیوان اور مشین کا مجموعہ ہو گی۔ جدید ذہن اپنی ہی بنائی ہوئی جنت ارضی میں محصور ہو کر وسائل حیات کو بھی معرض خطر میں ڈال چکا ہے۔ جدید ذہن کے کارنامے اور کرتوت اس کے کھاتے میں رکھ کر ہی اس کے موقف کو زیربحث لایا جا سکتا ہے۔ ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ ہمیں جدید ذہن کے کارنامے تو ازبر ہیں، کرتوت معلوم نہیں، اس لیے بات شروع ہونے سے پہلے ہی دھونس میں آ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں روایتی عقلی علوم کے خاتمے اور جدید عقلی اور نظری علوم سے لاتعلقی کی وجہ سے الحاد کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ جدید الحادی عقل کا سامنا جدید مذہبی عقل سے ہی کیا جا سکتا ہے، اور مذہبی مرادات پر جدید عقل کی نظری اور فکری تشکیل ہمارے ہاں نامعلوم ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہماری متداول مذہبی روایت عقل اور علم کی دشمنی کو مذہبی ذمہ داری کے طور پر فروغ دے رہی ہے، اور جدید الحادی عقل کے سامنے کھڑے ہونے کی داخلی کوششوں کو نہ صرف شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے بلکہ ان کے خلاف صف آرا ہے۔ اس صورت حال میں جدید عقلی الحاد وبا کی طرح پھیل رہا ہے اور مسلمانوں کے لیے اس کا سامنا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
اگر الحاد کے اسباب نفسی ہوں تو اس کا مرکز طبیعت ہوتی ہے، اور الحاد کے نفسی اسباب پر ہمارے ہاں گفتگو معدوم ہے۔ عقلی اسباب کی نسبت جدید عہد میں الحاد کے نفسی اسباب کی کثرت ہے۔ ان کا تجزیہ دقتِ نظر کا متقاضی ہے اور ان کا توڑ بھی زیادہ مشکل ہے، کیونکہ عقلی الحاد صرف ذہنی ہوتا ہے جبکہ نفسی الحاد وجودی ہے۔ نفسی الحاد کے ”وجودی“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ذہن اور شعور کے احوال انکار پر ہوتے ہیں اور نفس کے احوال بغاوت پر ہوتے ہیں، اور ارادہ اہوا کے تابع ہوتا ہے۔ مناسب تیاری کے بغیر، مذہبی آدمی کے لیے انکار اور بغاوت کا بیک وقت سامنا کرنا مشکل ہے۔ الحاد کے نفسی احوال میں علم اور اقدار کا التباس بہت عام ہے کیونکہ یہ بنیادی طور پر ایک(سائیکک کنڈیشن) ہے۔
الحاد کے نفسی اسباب کا شجرہ نسب براہِ راست پوروپی رومانویت کی تحریک سے مل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں رومانویت کی تحریک کے جو اثرات مرتب ہوئے، وہ کسی علمی اور فکری تجزیے کا موضوع نہ بن سکے۔ مغرب میں پیدا ہونے والی رومانوی تحریک کے اظہارات صرف ادب اور فنون وغیرہ تک محدود نہیں ہیں۔ مغربی رومانویت کے طاقتور ترین مظاہر یورپ کے سیاسی عمل میں سامنے آئے ہیں۔ تحریک تنویر سے جڑے ہوئے سیاسی عمل میں مرکزیت ”ریفارم“ کو حاصل تھی، جبکہ رومانویت سے جڑے ہوئے سیاسی عمل میں مرکزیت ”انقلاب“ کو حاصل ہے۔ ”ریفارم“ کے لیے عقل کی ضرورت پڑتی ہے، جبکہ ”انقلاب“ کے منہ زور اور سینہ زور طبیعت اور بے دماغی کافی ہوتی ہے۔ تحریک تنویر ماضی اور روایت سے بنی ہوئی دنیا کو ”ریفارم“ کے عمل سے ختم کرنا چاہتی تھی، جبکہ رومانویت اس کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کرتی اور ”انقلاب“ کے ایک ہی ہلے میں اسے مٹا دینا چاہتی تھی۔
اس تناظر میں دیکھیں تو ہم اپنے استعماری تجربے کی وجہ سے اس وقت ایک بہت بڑے تہذیبی تذبذب اور علمی اشکال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں ”مذہبی سیاست“ کی پوری شناخت، عمل اور طریقۂ کار مغرب کی سیاسی رومانویت کا انتہائی گھٹیا چربہ ہے۔ جمہوریت، تنظیمی ریاست، قانون سازی، حقوق انسانی کے جدید تصورات، سیاسی ریفارم، معاشی ترقی وغیرہ مغرب کی غیر رومانوی سیاسی فکر کے نتائج اور اس کا ایجنڈا ہیں، جبکہ انقلاب مغربی سیاسی رومانویت کا معبد اعظم ہے۔ ہمارے ہاں بھی مذہبی سیاست بنیادی طور پر ”تحریکی“ اور ”انقلابی“ نوعیت کی ہے، جو مکمل طور پر مغربی رومانویت کی نقالی ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی سیاسی رومانویت نے تاریخی شعور، دینی روایت اور عقلی علوم کا بالکل صفایا کر دیا ہے، اور پوری دینی روایت کی عامیانہ فہم اور استعماری رومانوی جدیدیت پر تشکیل نو کی ہے جس نے دینی روایت کے تہذیبی تناظر کو بالکل فنا کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں ”مذہبی“ بنیادوں پر جمہوریت کے خلاف سامنے آنے والے زیادہ تر مواقف سیاسی رومانویت سے حاصل ہوئے ہیں۔ ان کی بنیاد نہ استنادی ہے اور نہ عقلی اور ان کا مذہبی یا غیر مذہبی ہونا محض التباس ہے۔ رومانوی الاصل ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں ”مذہبی سیاست“ کا پورا مبحث اخلاقی بیانات کا مچرب مجموعہ، تاریخی شعور سے عاری اور سیاسی ادراک سے بالکل تہی ہے۔ ”مذہبی سیاسی کلچر“ میں پروان چڑھنے والی طبیعت الحاد کا تر نوالہ ہوتی ہے۔ رومانوی مذہبی تصورات پر کیے گئے سیاسی تجربے میں ناکامی کا غالب رجحان الحاد کی طرف پھر جاتا ہے۔
تحریک تنویر، مذہب اور خدا کے مذہبی تصور کے روبرو عقل کے موقفِ انکار کو سامنے لاتی ہے۔ رومانویت انکار نہیں ہے۔ تنویری عقل نے خدا کے انکار کے بعد خود خدا کی جگہ پر قبضہ جمانے کی کوشش کی تھی اور یہ ابھی سکون سے بیٹھنے بھی نہ پائی تھی کہ اس کے اپنے حرم میں بلوہ ہو گیا۔ رومانویت دراصل تنویری عقل کا انکار نہیں، اس کے خلاف بغاوت ہے۔ رومانویت مجسم بغاوت ہے جس میں انکار بائی ڈیفالٹ شامل ہے۔ رومانویت کی وجودی پوزیشن پر کھڑے ہو کر مذہب تو دور کی بات ہے عقل کا اثبات بھی ممکن نہیں ہوتا۔ رومانویت کسی عقل، دلیل، روایت، کسی اخلاقیات، کسی فلسفۂ حیات، کسی تاریخ، کسی تقدیر وغیرہ کو نہیں مانتی، پس یہ اپنا راستہ چاہتی ہے، کیونکہ اس کے نزدیک ”ہونے“ کا سب سے بڑا اظہار غضب (wrath) ہے۔ رومانویت کی سرشت میں فنا گندھی ہوئی ہے اور یہ اپنی فنا سے پہلے انسان کو، اس کے معاشرے کو، تاریخ کو، فطرتِ ارضی کو، اور بس چلے تو پوری کائنات کے بخیے اُدھیڑ کے ان کو اپنی مرضی کے مطابق نئے سرے سے بنانا چاہتی ہے تاکہ اپنے نئے روپ میں یہ سب چیزیں اس کے سامنے سر بسجود ہو جائیں۔ رومانویت نفس انسانی کی ایک ایسی نئی تشکیل ہے جس میں عبد و معبود یکجا ہے، یعنی رومانوی انسان کی تجلیل ذات ایسی ہے کہ وہ ساجد و مسجود خود ہی ہے، اور ”عظمت انسانی“ کے لیے ”شہید“ ہونا اس کی بنیادی رسومیات میں شامل ہے۔
رومانویت اپنا تحقق عمل پیہم میں حاصل کرتی ہے جو سونامی صفت ارادے سے تحریک پاتا ہے اور آخر کار انقلاب پر منتہی ہوتا ہے۔ رومانویت وجودِ انسانی میں آئے ہوئے مستقل بھونچال کی طرح ہے اور یہ خود میں جل کر اور اپنے گردوپیش کو جلا کر اپنا تحقق کرتی ہے۔ رومانویت کا چیزوں سے تعلق جاننے یا فہم وغیرہ کا نہیں ہے بلکہ یہ تعلق براہِ راست غلبے اور فنا کا ہے۔ عقل، مذہب، اخلاقیات، فلسفہ وغیرہ رومانوی ترتیب میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ رومانویت میں راستہ پہلے سے نہیں ہوتا، ارادے سے پیدا ہوتا ہے اور علم بھی ارادے سے پھوٹتا ہے۔ ادبی اور ثقافتی رومانویت نفسی خود مختاری کی علم بردار ہے جبکہ سیاسی رومانویت انقلاب پسند ہوتی ہے۔ رومانوی تصورات پر تشکیل پانے والی انسانی شخصیت مذہب یا خدا کا انکار نہیں کرتی کیونکہ انکار بھی اسے اہمیت دینے کے مترادف ہے۔ عقلی الحاد ایک پہلے سے موجود اثبات کے روبرو انکار کا رویہ ہے۔ رومانویت اثبات و انکار ہی سے لا تعلق ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں الحاد اور دہریت کا غالب سانچہ رومانویت ہے جسے دنیا کو تبدیل کرنے کے عظیم الشان سائنسی اور سیاسی منصوبے کی پشتیبانی حاصل ہے۔ رومانوی آدمی فطرت اور تاریخ کے خلاف جنگ میں خود کو ایک بطل جلیل کے طور پر دیکھتا ہے اور مذہب وغیرہ کو خاطر میں لانا بھی کسر شان سمجھتا ہے۔
رومانوی الحاد کے نفسی اسباب میں ایک بہت بڑی وجہ فطری اخلاقیات کی مرکزیت ہے۔ یہ اخلاقیات بوقت ضرورت رومانوی ارادے کے لیے دستانے کا کام کرتی ہے، اور دیکھنے میں خوشنما، اپنی اصل میں آلاتی اور مذہب پر ضرب میں کاری ہوتی ہے۔ تحریک تنویر نے مذہب کے خاتمے اور اس کے تصورِ خدا سے نجات کے لیے ایک افسانوی ”الٰہ“ کا تصور عام کیا تھا، اور حق و باطل کے مذہبی تصورات ہی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ رومانویت نے مذہب کو اخلاقیات کا ناقص مجموعہ قرار دیا اور اس کے مقابلے میں ایک فطری اور آفاقی اخلاقیات کا تصور دیا۔ تنویری عقل، عقلی تصورات کو مذہبی تصورِ خدا پر حکم سمجھتی ہے۔ رومانوی انسان فطری اخلاقی تصورات کو مذہبی تصورِ خدا پر حکم خیال کرتا ہے۔ دونوں کا مقصد مذہب اور مذہبی تصور خدا کو رد کرنا ہے۔ گزارش ہے کہ جدید علمی مواقف کی رسائی محدود ہے، اور وہ مذہب پر کاری ضرب لگانے کے باوجود اسے مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن جدید رومانوی اخلاقیات اپنے ہر ہر پہلو میں زیادہ مؤثر بھی ہے اور مسموم بھی۔ جدید انسان پر رومانوی اخلاقی شعور کا غلبہ انکاری علم سے زیادہ خطرناک ہے، اور مذہب اپنی جدید تعبیرات میں بہت تیزی سے اس کے سامنے ہتھیار ڈال رہا ہے۔ اخلاقی شعور ”درست“ اور ”غلط“ میں ظاہر ہوتا ہے، اور مذہب میں یہ شعور ”حق“ اور ”باطل“ کے تصور کے تابع ہے۔ اگر حق و باطل کا اساسی شعور باقی نہ رہے، اور اخلاقی شعور کا غلبہ ہو جائے تو ”دجل“ کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔ مذہبی شعور میں حق و باطل کا دائرہ مابعد الطبیعیاتی، تہذیبی اور تاریخی ہے۔ فطری اخلاقیات رومانوی شعور کی مابعد الطبیعیات ہے۔ رومانوی شعور نے اخلاقیات کو تہذیبی اور تاریخی دائروں تک وسعت دے کر مذہب کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا ہے، اور الحاد ایک ثقافتی مظہر کے طور پر عام انسانی زندگی پر مؤثر ہو گیا ہے۔ رومانوی الحاد اور دہریت سے گفتگو کے لیے مذہبی آدمی کو نہایت تنگ اور محدود جگہ میسر ہے، جو ہمارے خیال میں یہ سوال ہے کہ ”انسان ہونے سے کیا مراد ہے؟“ رومانوی دہریت میں فطری اخلاقیات ایک نہایت پیچیدہ مسئلہ کے طور پر شامل ہے اور اس سوال کے ضمن میں رومانوی انسان کے نفسی احوال اور اس کی اخلاقیات کو زیربحث لایا جا سکتا ہے۔
الحاد کے عقلی اور نفسی اسباب کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک اعادہ ضروری ہے۔ عقلی الحاد کا سامنا کرنے کے لیے نظری علوم ضروری ہیں، تاکہ وسائل فراہم ہوں اور یہ بھی معلوم ہو کہ لڑائی کا میدان کہاں ہے۔ اب تو ہماری حالت یہ ہے کہ لڑائی کے لیے نکلتے ہیں اور سیدھے گھر کے تہہ خانے میں پہنچ جاتے ہیں اور اپنے ہی نعروں اور ان کی گونج کو سن کر فاتحانہ لوٹتے ہیں۔ اسی طرح نفسی الحاد کا سامنا کرنے کے لیے عرفانی سلوک کی نئی ترتیب لازم ہے کیونکہ نفسی الحاد کا مقابلہ صرف عقلی علوم سے نہیں کیا جا سکتا۔ نفسی اور رومانوی الحاد میں ذہن اور طبیعت کو بیک وقت مخاطب کرنا ضروری ہے جس کا واحد ذریعہ عرفانی سلوک ہے۔ نظری علوم کے بغیر عقلی الحاد کا اور عرفانی سلوک کے بغیر نفسی الحاد کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ محض خام خیالی ہے۔ ہمارے ہاں جدید تعلیم اور دین کی جدید استعماری تعبیرات نے جس طرح عقلی الحاد کو فروغ دیا ہے، بعینہٖ ہمارے ثقافتی تصوف اور شعبدہ جاتی سلوک نے نفسی الحاد اور شرک کو وبا کی صورت دے دی ہے۔ اور ان کا تجزیہ اور تزکیہ لازم و ملزوم ہیں۔ یہاں ضمناً ایک بات عرض کرنا ضروری ہے کہ رومانویت میں الحاد اور شرک کے امکانات یکساں موجود ہوتے ہیں۔ جدید عقل نے تو صرف شعور پر غلط موقف کو فروغ دیا ہے،جبکہ رومانویت شعور اور وجود دونوں کے بارے میں غلط موقف پر کھڑی ہوتی ہے۔ عرض ہے کہ جدید دنیا کے گھمسان میں سرمایۂ ملت کی نگہبانی کا کام آج بھی درپیش ہے، اور ہم اس کی تیاری سے بالکل غافل ہیں۔
غلامی ایک تاریخی ادارے کے طور پر یہاں زیربحث نہیں ہے۔ جدید استعماری عہد میں غلامی اور محکومی میں فرق کرنا ضروری ہے۔ سیاسی طاقت سے مغلوبیت، محکومی ہے، اور محکومی کا شعور تاریخی اور سیاسی ادراک بن کر مزاحمت کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ محکومی ایک سیاسی مظہر ہے جبکہ غلامی ایک تہذیبی مظہر ہے۔ غلامی میں محکومی کا شعور باقی نہیں رہتا اور محکومی ایک مفید مطلب معروف کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ مزاحمت کی شرط اول محکوم کی تہذیبی شناخت کا باقی رہنا ہے۔ محکومی میں شناخت کے تہذیبی وسائل علمی روایت سے فراہم ہوتے ہیں۔ ان وسائل سے انقطاع غلامی کا بڑا سبب بنتا ہے۔ ایسی صورت حال میں محکوم حاکم سے شناخت کی عینیت پیدا کر کے غلامی میں داخل ہو جاتا ہے۔ حاضر و موجود سیاسی طاقت کا جبر محکوم میں تاریخی انقطاع کا باعث بنتا ہے اور تاریخ کسی ولولے کا منبع نہیں رہتی بلکہ ایک “گِلٹ “بن جاتی ہے۔ دینی روایت سے ملنے والے علمی شعور اور تاریخی شعور کا بیک وقت خاتمہ غلامی کا باعث بنتا ہے۔
اس میں اہم پہلو یہ ہے کہ انسانی معاشرہ جن اقدار پر قائم ہوتا ہے، سیاسی طاقت اس معاشرے کی شہر پناہ اور ان اقدار کی محافظ ہوتی ہے۔ سیاسی طاقت ختم ہوتے ہی بیرونی طاقت کے غلبے میں معاشرہ اقدار کے بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر یہ بحران گہرا ہو تو محکوم معاشرہ بیرونی سیاسی طاقت سے تہذیبی عینیت پیدا کرنا شروع کرتا ہے۔ برصغیر میں مسلم معاشرہ استعماری دور میں اپنی تہذیبی شناخت اور ورلڈ ویو کو باقی نہیں رکھ سکا۔ اس وجہ سے مسلم ذہن تاریخی اور دینی روایت کے وسائل سے محروم ہو کر عصری تاریخ سے بھی کوئی بامعنی تعلق پیدا نہ کر سکا۔
عقیدے اور اقدار کا تاریخ اور معاشرے سے تعلق دو سطحوں پر ظاہر ہوتا ہے، ایک کردار میں اور دوسرے علم میں۔ کردار قدر اور تاریخ میں فاصلہ نہیں پیدا ہونے دیتا، اور علم ذہن کو تاریخ اور معاشرے سے حالت انکار میں جانے پر روک لگاتا ہے۔ ہمارے ہاں روایتی علوم کے خاتمے اور جدید علوم سے لاتعلقی نے ہمارے عقیدے اور اقدار کے پورے نظام کو متحجر بنا دیا ہے۔ عقیدے کی حفاظت بھی علوم کی زندہ روایت میں رہ کر ممکن ہوتی ہے۔ اقدار اگر تاریخ سے غیرمتعلق ہو جائیں تو کلچر کے میوزیم میں داخل ہو جاتی ہیں۔ ان کو صرف کردار اور نظری علوم کے ذرائع سے ہی تاریخ سے متعلق رکھا جا سکتا ہے۔ دینداری کے مظاہر میں کمی اور نظری علوم کے خاتمے کی صورت حال میں جدید تعلیم نے الحاد کے راستے صاف کر دیے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہماری اقدار اور تاریخ میں فاصلہ بڑھ رہا ہے، اور ہماری دینی اقدار عصری دنیا کے لیے اجنبی ہوئی جاتی ہیں۔ جب اقدار اور تاریخ میں فاصلہ زیادہ ہو جائے تو اسے پاٹنے کے لیے ثقہ علوم اور کردار کی ضرورت شدید ہو جاتی ہے۔ ہمیں الحاد سے مقابلے کے لیے ان دونوں پہلوؤں پر غور کرنے اور لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق اسلام دنیا کے کسی بھی مذہب کے مقابلے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق درحقیقت 2050ء تک دنیا کے تمام ہی مذاہب آگے بڑھیں گے، لیکن اسلام بالآخر عیسائیت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 2070ء تک دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ کسی بھی مذہب...