وجود

... loading ...

وجود

آزادی سے بیگانگی

اتوار 14 اگست 2016 آزادی سے بیگانگی

mazar-e-quaid

تاریخ پر اب تاریخ گزرتی ہے مگر کبھی تاریخ کے اوراق کھنگالے جائیں تو ایک رائے بہادر یار جنگ کی ملتی ہے، جسے اُنہوں نے کسی اورسے نہیں خود قائداعظم محمد علی جناح کے سامنے ظاہر کیا تھا:’’پاکستان کو حاصل کرنا اتنامشکل نہیں جتنا پاکستان کو پاکستان بنانا مشکل ہو گا۔”

اب دہائیاں بیت گئیں اور ایک آزاد ملک کا مطلب کیا ہوتا ہے اس کا وفور بھی کہیں غتربود ہو گیا۔ گستاخی معاف کیجئے گا، 14؍ اگست اب کچھ اور نہیں، بس عادتوں کی ایک ورزش ہے۔یومِ آزادی کے ہر شہری پر دو حق ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اس کی خوشی منائے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ اس کے حقیقی تصور کے ساتھ خود کو متعلق اور تازہ رکھے۔ جب آزادی کے حقیقی تصور سے کوئی قوم خود کو نظری طور پر وابستہ رکھتی ہے تو وہ اس دن کو تجدیدِ عہد اور احساسِ ذمہ داری کے طور پر مناتی ہے۔ جو یومِ آزادی، ذمہ داری کا مستقل شعور اور پائیدار احساس پیدا نہیں کرتا وہ ایک عارضی رسم کی شکل میں تو منایا جاسکتا ہے مگر حقیقی خوشی کا موقع نہیں بن سکتا۔ مکر ر عرض ہے کہ 14 اگست اب کچھ اور نہیں، بس عادتوں کی ایک ورزش ہے۔

آزادی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس ایک سینہ تو ہے، مگر اس میں دھڑکتا ہوا دل نہیں، مگر آج یہ بات اُسی دھڑکتے ہوئے دل میں نہیں اُترتی۔ داغستان کی آوار قوم کی ایک لوک کتھا کو کافی شہرت ملی ہے جسے اب مصور لکیروں میں کھینچتے اور تصویریں اُبھارتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک آدمی نے ایک مرتبہ کسی چڑیا کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر دیا۔ چڑیا پنجرے میں رات دن روتی اور چلاتی رہتی کہ ’’میرا وطن، میرا وطن، ہائے میرا وطن۔‘‘ایک دن اُس آدمی نے سوچا کہ آخر اس چڑیا کاوطن کہاں اور کس قسم کا ہے؟ وہ یقیناًکسی خوبصورت وادی میں سرسبزوشاداب جگہ پر ہوگا۔ جہاں خوبصورت قدآور اور پھل دار درخت ہوں گے اور اس جیسی بہت ہی خوبصورت چڑیائیں وہاں چہچہا رہی ہوں گی۔ایسی فردوس گمان وادی کا نظارہ ضرور کرنا چاہئے، چنانچہ اُس آدمی نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا اور مشاہدے کے لئے اُس کا تعاقب کیا، مگر چڑیا دس قدم اڑ کر ایک ننگی پہاڑی پر اُگی اجاڑ سی جھاڑی پر جا بیٹھی جہاں اس کا گھونسلہ تھا،جو بات ہمارے دانشور ہزاروں صفحات پڑھ کر نہیں سمجھتے ، آوار قوم کے اُس آدمی نے وہی بات ایک چڑیا سے سمجھ لی۔ آزادی زرق برق لباسوں، اونچی اونچی عمارتوں اور لمبی لمبی شاہراؤں کا نام نہیں۔ یہ ایک باطنی وفور ہے، جس میں کوئی بھی شخص طے شدہ تحدید وتوازن میں اپنے شعور کو ارادے کی طاقت دے سکتا ہو۔

اُس شخص کی اپنے مُلک سے محبت ادھوری ہے جو اپنے مُلک کو اپنا چہرہ نہ سمجھتا ہو۔ کوئی بھی شخص اپنے چہرے سے کسی کو چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر ہم نے اپنے مُلک سے اس کی اجازت کیوں دے رکھی ہے؟ کسی نے کہا تھا کہ آزادی کی قدر صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو کبھی غلام رہے ہو،مگر سوال یہ ہے کہ آزادی کی قدر کامطلب کیا ہے؟وہ آدمی ہرگز آزاد نہیں، جس نے ابھی تک یہ نہیں سمجھا کہ اُس کی طرح دوسرا بھی آزاد ہے۔ آزادی کاکوئی مطلب بھی شخصی نہیں ۔ اس لئے ایک آزاد آدمی ہی دوسرے کی آزادی کا احترام کر سکتا ہے۔ ایسا ہی شخص اس سوال کا جواب جانتا ہے کہ آزادی کی قدر کامطلب دراصل کیا ہے۔اس تصورِ آزادی سے اجتماعی زندگی کا آہنگ ترتیب پاتا ہے اورباہمی تعلقات کی وہ بنیادی مساوات قائم ہوتی ہے جسے منصفانہ کہاجاتا ہے،پھر محنت اور اجر کے درمیان استحصال کاکوئی درمیانی پھندا باقی نہیں رہتا۔آخر کھیتوں میں ہل چلاتا کسان پھول اور غنچوں کے بجائے خاروخس کیوں پاتا ہے؟ امرا کے گھر تعمیر کرنے والا مزدور اپنے گھر سے کیوں محروم ہے؟ کھلونوں کی فیکٹری میں کام کرنے والے محنت کش کے بچے کھلونوں سے کیوں محروم ہیں؟ خوراک سے گودام اور خزانے بھرنے والا محنت کش لہسن اور ساگ پات کے لئے کیوں ترستا ہے؟ ریشم وکم خواب بُننے والے ہاتھوں کے ہاتھ میں تن ڈھانپنے کے لئے چیتھڑے بھی کم کیوں پڑ جاتے ہیں؟آخرآزادی کی نیلم پری اپنی چھب انہیں کیوں نہیں دکھاتی، جن کے بربط ہائے ہستی کے تار حسرتوں سے ٹوٹے جاتے ہیں،جن کے دلوں میں محبت کے بجائے اب نفرت کی بھٹیاں سلگنے لگی ہیں۔پاکستان کو حقیقی خطرہ دہشت گردی سے نہیں دراصل ایسے حالات سے ہے۔ جہاں ہر روز ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے،جو مملکت سے اپنے تعلق میں مکمل بیگانگی اختیار کر چکے۔ وہ وطنِ عزیز کے کم سے کم تعلق دار بنتے جارہے ہیں، جن کی زندگیوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑ تاکہ وہ آزاد رہیں یا نہ رہیں؟جن کے لئے چڑیا کی مانند ایک ننگی پہاڑی پر اُگی اجاڑ سی جھاڑی پر قائم گھونسلے جتنا تصورِ آزادی بھی ایک وجودی حالت میں کہیں پایا نہیں جاتا۔ اگر ایسے حالات میں ترانۂ آزادی خود ہمیں شرمندہ نہیں کرتا تو اس کامطلب یہ ہے کہ ہمارے تصورِ آزادی میں کہیں کوئی کجی ہے۔

حکمران اشرفیہ کا یہ کج رو تصورِآزادی کہیں ان محروموں ، مجبوروں، لاچاروں اور بیکسوں کو اپنا 14 اگست تخلیق کرنے کی ضرورت پر نہ اُکسا دے۔پھر ان کی محنت کا محور کھیت نہیں تخت ہوگا۔ طبقۂ اشرافیہ کو اندازا ہونا چاہئے کہ یومِ آزادی اُن کے لئے خطرہ اور کمزوروں کے لئے ایک موقع بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر وہ اپنے تصورِ آزادی سے حقیقی طورپر وابستہ ہو تو پھر اُنہیں دُکاندار نہیں دیانت دار ہونا چاہئے۔ اُنہیں اپنے گھوڑوں پر دوسروں کی زینیں نہیں کسنی چاہئیں۔ وگرنہ اُن کا حال ہمیشہ یہی ہوگا کہ وہ دروازوں پر تب بھاری تالے لگا پائیں گے جب اُن کے بیل چوری ہوچکے ہوں گے۔ بلاشبہ یومِ آزادی آج بھی ہمارے حافظوں میں پوری آب وتاب سے برقرار ہے۔ اس کاتاریخی سفر ہمارے نظری وجود کا مستقل حصہ ہے، مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یومِ آزادی ہمارے عمل کا فعال حصہ اب تک نہیں بن سکا۔یومِ آزادی تب ہی ہمارے عمل میں ایک فعال روپ میں جلوہ گر ہوگا جب اس کے تقاضے حکمران اشرافیہ پورے کریں گے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ اس دن سے وابستہ عوامی جذبات کو خود عوام سے قربانی مانگنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس مملکت کو دھوکا عوام نہیں ، وہی قوتیں دیتی ہیں جو اس دن عوام سے تجدیدِعہد کے وعدے لیتی ہیں۔ ایک عام آدمی کے لئے تو یہ ضروری ہے کہ وہ آزادی کے اس ناقابلِ انکار واقعے کو حقیقت کا روپ دے اور اس کے لئے اُسے چاہئے کہ وہ یومِ آزادی کو عادتوں کی ورزش نہ بننے دے۔ یاد رکھیں بہادر یار جنگ نے کہا تھا کہ ’’پاکستان کو حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا پاکستان کو پاکستان بنانا مشکل ہو گا”۔


(نوٹ: 14 اگست 2015 کو لکھا گیا)


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر