... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
مجھے احساس ہوا کہ اسرائیلوں سے پاکستان کی پہلی جنگ میں جو عبد القادر فلسطینی کو چھڑانے کے لیے ہوئی تھی اس میں میرے منہ پر ایک عدد زور دار مکا لگ گیا تھا جس کی وجہ سے مسوڑھوں سے ذرا خون آرہا تھا سو میں نے دوبارہ وضو کرنا ہی بہتر سمجھا۔ ویسے تو حنفی فقہ میں شہید کو غسل معاف ہے، میں وضو کرکے ایک مقدس مقبرے میں چلا گیا۔ یہاں 1994 سے اب ایک تقسیم کردی گئی ہے۔ مسلمانوں کی طرف مسجد ابراہیمی ہے اور اہل یہود نے اپنا ایک Synagogue بنالیا ہے۔ موجودہ احاطہ بادشاہ ہیروڈ نے ان غاروں کے اوپر بنایا تھا جن کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں انبیائے علیہما السلام اور ان کی ازواج مدفون ہیں۔ ان تک رسائی نا ممکن بھی اور ممنوع بھی ہے۔ ایک طویل عرصے سے کھوجی، نوادرات اور مذہبی جنونی ہمہ وقت اس جستجو میں رہتے ہیں کہ کسی طرح ان غاروں تک چاپہنچیں۔ ان کی دخل اندازی کو روکنے کی خاطر اب علامتی طور پر دو عدد سوراخ اس طرح چھوڑ دیے گئے ہیں کہ ایک ٹرے کے ذریعے ان سے زیر زمین مقابر پر پھول نچھاور کیے جاسکیں، تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بمشکل 28 سینٹی میٹر کی گول رسائی ہے۔ ایک سوراخ مسجد میں سے دوسرے یہودی معبد میں موجود ہے۔
ایک روایت کے مطابق یہاں حضرت اسحقؑ، حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسفؑ کی قبور مبارکہ بھی ان ہی زیر زمین غاروں میں موجود ہیں۔ ان تک رسائی ناممکن ہے۔ ان تک رسائی کا راستہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے فتح یروشلم کے موقع پر پتھروں سے سیل کردیا تھا۔ ہر نبی محترم کی قبر کے پہلو میں ان کی زوجہ محترمہ کی قبر بھی ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی احاطہ صلوۃ میں آپ کی نگاہ ان تعویذات ( وہ مقابر جو اصل قبر کے اوپر تعمیر کیے جاتے ہیں ) پر پڑتی ہے۔ یہ تعویز حضرت اسحقؑ اور ان کی اہلیہ بی بی ربیکا کے ہیں۔ مسجد کے مین ہال میں داخل ہونے سے پہلے حضرت ابراہیم ؑکی زوجہ محترمہ بی بی سارہ کی قبر آتی ہے۔ آپ حضرت اسحقؑ کی والدہ محترمہ تھیں۔ موشے دیان جو 1967 کی جنگ میں اسرائیل کے وزیر دفاع تھے وہ خیر سے ایک شوقیہ ماہر آثار قدیمہ بھی تھے۔ انہیں اس مقام کے بارے میں جان کاری کا بہت ہوکا تھا سو انہوں نے بارہ برس کی ایک نازک بدن لڑکی Michal کو ایک پیمائشی فیتہ، سر پر ایک کھوجی بتی اور نوٹ بک کے ساتھ اس شہتیر والے سوراخ سے غار مزار کے اندر اُتارا تھا۔ اس موقع پر سرکار کے اہم افسران، اسرائیل کے بڑے یہودی ربائی اور وہ خود بھی موجود تھے۔ خود اسرائیلی فوج میں باقاعدہ طور پر ایک میجر جنرل شولوم گورین کو ربائی کو چیف ربائی کا عہدہ ملا ہوا تھا۔ وہی سب سے پہلے یہاں جھنڈا لہرانے پہنچا تھا۔
جب وہاں موجود مفتی صاحب نے کہا کہ وہ اسے باقاعدہ طور پر حرم ابراہیمی کی چابیاں سونپ دیں گے اگر وہ اس مقام کو اس کی اصل حیثیت میں رکھنے کا معاہدہ کرے تو وہ تکبر کا مارا کہنے لگا کہ مفتی صاحب کا عہدہ ان کے کپتان سے بھی نیچے ہے۔ مفتوحین کو معاہدے کی شرائط منوانے کا کوئی اختیار نہیں۔ تصویر میں آپ اسے خود جلدی میں سیا ہوا جھنڈا لہراتا دیکھ سکتے ہیں۔ مشل اندر چلی گئی اور خوب جائزہ لیا۔ باہر آن کر اس نے بتایا کہ سولہ عدد سیڑھیاں اتر کر ایک راہداری آتی ہے۔ اس راہدری سے آگے جائیں تو تین عدد بڑے پتھر ہیں جن میں سے وسطی پتھر پر آیت الکرسی درج ہے۔ لڑکی کو وہاں کرنسی نوٹ، کاغذ پر لکھی دعائیں اور جلی ہوئی موم بتیاں ملیں۔ شہر الخلیل دو ہزار سال سے یہودیوں کے قبضے میں نہ تھا۔ مسلمانوں نے اسے یروشلم کے ساتھ حضرت عمر ؓ کے دور میں عیسائیوں سے فتح کیا تھا۔ اس سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے تک ایرانی رومی عیسائی سب ہی اس پر قابض تھے۔
1967سے سات سو سال پہلے تک یہودی صرف ساتویں سیڑھی تک جاسکتے تھے۔ یہ مملوک بادشاہوں کا حکم تھا جس پر اتنے عرصہ تک عمل ہوتا رہا۔ لڑکی پر تا حال انٹرویو دینے کی پابندی ہے۔ اس کے گھروالوں کا بیان ہے کہ اس لڑکی کی نفسیاتی کیفیت اس واقعے کے بعد پہلے جیسی نہ رہی۔
موذن حسن نے مجھے یہ کہانی سنائی، اُن کا خیال تھا کہ جن جگہوں کی حفاظت اللہ کرتا ہے وہاں انسانی مداخلت محض رسوائی، ذلت اور پریشانی کا سبب بنتی ہے۔ میں اس وقت سر جھکائے حضرت ابراہیمؑ کے مزار عالیہ پر کھڑا تھا دوسری جانب یعنی بلٹ پروف گلاس کے اس طرف مغربی سیاح اور یہودی عبادت گزار موجود تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا کے تینوں بڑے مذاہب یعنی یہودی، عیسائیت اور اسلام میں بڑی جلیل القدر ہستی سمجھے جاتے ہیں۔ مجھے میری دوست اور موجودہ میزبان ڈاکٹر کلور لی یاد آئی جو مجھے اکثر کہا کرتی تھی۔ تم اس قبر عالیہ پر دیکھنا جو ہمارے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کی ہے ان کے دو بیٹے، دو بھائی تھے، اسحق اور اسمعیل۔ اب وہاں ایک شیشے کی دیوار ہے جس کے آر پار ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں سن اور سمجھ نہیں سکتے۔ سمجھے!جب تک میں یہ سمجھنا چاہتا صلوۃ الجمعہ کی ساعت آگئی تھی۔
حرم ابراہیمی میں صلوۃ الجمعہ میرے لیے ادراک اور شعور سے پرے، بہت انوکھا سا تجربہ تھا۔ صف بندی کی وجہ سے میرا سیدھا کندھا حضرت اسحق ؑکے مزار عالیہ کے تعویز کو چھو رہا تھا۔ صف بندی کے دوران میں نے جب نمازیوں کی تعداد گنی تو وہ بمشکل پچاس تھی۔ میرا موجودہ وطن جنوبی افریقاگو کہ مسلمان ملک نہیں اور یہاں مسلمانوں کی تعداد دو فیصد سے بھی کم ہے مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ وہاں گجراتی اور ملائی مسلمان جنہیں گورے بطور غلام لائے تھے، ایسے مسلمان ہیں کہ وہاں بعض محلوں میں تہجد کی نماز بھی لوگ مسجد میں اسی کثرت سے پڑھنے آتے ہیں اور فرض نمازوں میں جماعت کی خاطر خواتین کی بھی کثیر تعداد محلوں کی مساجد میں آتی ہے۔ صلوۃ الجمعہ میں تو دور دراز کے گاؤں کی مساجد میں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ یہاں معاملہ بہت کرب کا تھا۔ اسلام کا چوتھا اہم مقدس شہر اور نمازیوں کی تعداد بمشکل تین درجن کے قریب۔ ایسا نہیں کہ یہاں کہ لوگ جذبۂ ایمان سے محروم ہیں مگر پناہ گیروں اور اسرائیلی افواج کے جبر مسلسل کے ہاتھوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی بے حسی کی باعث اب وہ کچھ نڈھال سے ہوچلے ہیں۔ ایسے اجتماعات عام طور پر فسادات کا بہانا بن جاتے ہیں۔ اسرائیلی گولیاں مارنے میں اور نوجوانوں کو قید میں اذیت دینے سے باز نہیں آتے۔ الخلیل کے ایسے کئی سو نوجوان قید ہیں جن کی عمر بیس سال بھی کم ہے۔
صلوۃ سے فارغ ہوکر باہر نکلے تو عبدالقادر اور میں ابو صبیح حلوائی کی دکان کی طرف چل پڑے جہاں کار کھڑی تھی۔ یہ فاصلہ ذرا طویل تھا مگر مجھے یہ چہل قدمی یوں بھلی لگی کہ مجھے اس بہانے شہر کو دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ ہم ایک تنگ سی مارکیٹ میں داخل ہوگئے۔ یہاں کاروبار چل رہا تھا۔ ہیبرون والے فلسطین بھر میں اپنی کاروباری مہارت کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ جب ان کا کاروبار کنگ ڈیوڈ اسٹریٹ یعنی شہدا اسٹریٹ سے بزور جبر و استبداد لپیٹ دیا گیا تو وہ یہاں سوق میں اٹھ آئے۔ یہاں ایک جگہ انار کا جوس نکالا جارہا تھا۔ ویسے تو ہیبرون کے سبھی پھل بہت ذائقے دار ہیں مگر ان کے انار اور انگوروں کا کیا کہنا۔ سرخ میٹھے اور پھولوں کی خوشبو کو مات کرتے تازہ انار کا جوس دیکھ کر میری طبیعت مچل گئی۔
ہم جوس پی کر آگے بڑھے تو اچانک میرے سیدھے کاندھے پر کوئی شے آکر گری۔ کسی حرامزادی نے مجھ پر اپنے بچے کا غلیظ پوتڑہ پھینک دیا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ اوپر جاکر ایک چانٹا اسے رسید کروں مگر قادر نے میرے ارادے کو بھانپ لیا اور مجھے کھینچ کر ایک طرف لے گیا۔ ’’ایسے موقع پر الحمد للہ کہتے ہیں‘‘۔ اس نے مجھے نئی سناونی دی۔ ’’کیا کوئی مجھ پر گندگی اُچھالے اور میں اس کو سبق سکھانے کی بجائے ایک بزدل کی طرح اللہ کا شکر اداکرنے میں لگ جاؤں‘‘۔ میں غصے سے کھول رہا تھا۔ اس نے مجھے اوپر دیکھنے کو کہا سارے بازار پر ایک جالی لگی تھی۔ اس جالی کے اوپر بازار کے دونوں طرف رہائشی عمارتوں کی تنگ کھڑکیاں قطار در قطار چلی گئی تھیں۔ ان کھڑکیوں سے ہر طرح کا کچرا پھینکنے کی علامات اس جالی کے اوپر موجود تھیں، پرانے جوتے، گندے کپڑے، پتھر، تھیلیاں جو ان عمارات کے مکینوں کے ذوق سلیم اور سماجی شعور کی نشانی تھیں۔
ان عمارتوں میں دنیا کے سب سے کمینے اور بے رحم یہودی پناہ گیر رہتے ہیں۔ جب لوگ مسجد ابراہیمی سے نماز پڑھ کر آتے ہیں تو اُن پر غلاظت باری بڑھ جاتی ہے۔ شراب کی بوتلیں تک پھینکی جاتی ہیں، ہم اسے مکہ المکرمہ میں ہمارے نبی ﷺکے ابتدائی ایام میں کفار مکہ کے ہاتھوں پہنچائی گئی اذیت پر آپ کی برداشت سمجھ کر اس طوفان گندگی پر اللہ کا شکر ادا کرنا سنت نبوی مانتے ہیں۔ اسٹیل کی جالی کی یہ چھت بے چارے دکانداروں نے تانی ہے تاکہ گندگی کے ان میزائلوں سے بچت ہوجائے۔ مجھے یہ بات سن کر ایسی طمانیت ہوئی کہ میں نے اسی وقت درودشریف پڑھ کر شکر الحمد ﷲ کہا۔ ذرا آگے بڑھے تو ایک بہت بڑا کچن نظر آیا جہاں لوگ برتن تھامے قطار میں کھڑے تھے۔ یہ سوپ ابراہیمی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ سلام کو غریبوں کو کھانا کھلانا بہت اچھا لگتا تھا۔ یہ ان کی سنت ہے۔ ہر دن مختلف قسم کا سوپ یہاں سے تقسیم ہوتا ہے۔ پیر کو مرغی اور جمعہ کو گوشت، باقی دنوں میں سبزی کا سوپ۔ پچاس ہزار سے ساٹھ ہزار لوگ جو بے حد غریب اور ضرورت مند ہیں ان کا اس اسکیم سے پیٹ بھر جاتا ہے۔ اس پریشان حال بستی میں جہاں غربت ہر طرف عیاں ہے، لوگوں کا تین ہزار سال پرانی سنت کو اس لیے زندہ رکھنا کہ اس سے کمزور اور معاشی طور پر مفلوک الحال افراد کا پیٹ بھر جائے، منتظمین کے حق میں بے شمار د عاؤں کا حق دار ہے۔ یہ نہ بھولیے کہ دنیا میں ہندوستانی، روہینگیا، چینی یوغور، شامی، وسطی افریقا اور فلسطینیوں سے زیادہ مظلوم کوئی اور مسلمان اقلیت نہیں۔
“ہم آگے بڑھتے رہے۔ کہیں فلسطین کی آزادی کے نعرے تھے تو کہیں الخلیل شہر آسیب کے۔ ہم چلنے لگے تو وہاں پر موجود دونوں قبائل ابوصبیح اور ابو سنانا والے بضد تھے کہ بغیر لنچ کے نہ جائیں۔ سفر لمبا تھا اور ہماری منزل ذرا دور، سو ہم بمشکل اس وعدے پر کہ اگلی بار موقع ملاتو ایک ایک دن دونوں کا مہمان رہیں گے، ان سے گلو خلاصی مل سکی۔
سڑک پر آن کر اچانک عبدالقادر کو یاد آیا کہ الخلیل چھوڑنے سے پہلے وہ مجھے کسی سے ملوائے۔ میرے جواب کا انتظار کیے بغیر اس نے تیزی سے بائیں جانب گاڑی موڑ لی۔ ڈیرھ میل کی مسافت کے بعد ہم ایک ایسی خانقاہ کے پاس پہنچے جو بند تھی۔ اس کے کھلنے کے اوقات صبح نو بجے سے بارہ بجے واضح طور پر درج تھے مگر عبدالقادر کہاں باز آنے والا تھا۔ وہاں موجود نوجوان گارڈ کے باپ کا رشتہ اللہ جانے کہاں سے ڈھونڈ نکالا۔ اُسے بتایا کہ وہ تو پیدا بھی نہیں ہوا تھا جب اس کا باپ اور وہ سامنے والے باغ سے انگور چُراچُراکر کھاتے تھے۔ ایسا پرانا اور گھناؤنا تعلق۔ گارڈ نے خاندانی کمزوری کو مزید تشہیر سے بچانے کی خاطر خانقاہ کے دروازے پھٹ سے کھول دیے۔ دروازہ کھلتے ہی ایک پلیٹ فارم پر نگاہ پڑی جس کے وسط میں شاہ بلوط کا درخت تھا اسے “Ibrahim’s Oak” یا بلوط ابراہیمی کہتے ہیں۔ اسے چاروں طرف سیاہ اینٹوں کی ایک دیوار نے گملے کی صورت میں گھیرا ہوا تھا۔ اس درخت کے حوالے سے کئی روایات مشہور ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی کی چھاؤں میں ایک خیمہ میں اپنی عمر کا بڑا حصہ گزارا۔ یہیں آپ کو یہ بشارتیں ہوئیں کہ آپ کے دو عدد صاحبزادوں اور ایک کزن حضرت لوط ؑکو نبوت سے سرفراز کیا جائے گا اور یہ سلسلہ آپ کی دعا کے نتیجے میں سرزمین حجاز میں ہمارے محترم نبی آخر الزماںﷺ کی صورت میں محسن انسانیت کا روپ دھار کر پورا ہوا۔۔ آپ ہی نے حضرت لوط علیہ السلام کو یہیں سے صدوم اور گمراہ کی بستیوں کی جانب رخصت کیا تھا۔ رشد و ہدایت کے پیغام کے ساتھ جب حضرت لوط ؑ رخصت ہورہے تھے اور صحرائے یہودا کی مسافت سامنے تھی تو آپ کی آنکھیں بڑے بھائی ہونے کے ناطے اشکبار تھیں۔ یہاں یہ خیال بھی بہت عام ہے کہ گو اس درخت کی عمرلگ بھگ ساڑھے تین ہزار برس ہے، لیکن ہر سال اس میں کوئی نہ کوئی ہری شاخ پھوٹ پڑتی ہے۔ جس سال کوئی شاخ نہیں پھوٹے گی، اس سال دجال دنیا میں قتال اور فساد کے لیے قرب و جوار سے نمودار ہوجائے گا۔ ہم نے گارڈ کا شکریہ ادا کیا اور باہر چلے آئے۔ (جاری ہے)
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...