وجود

... loading ...

وجود

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26

هفته 13 اگست 2016 دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26

مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر

مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر


سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔


مجھے احساس ہوا کہ اسرائیلوں سے پاکستان کی پہلی جنگ میں جو عبد القادر فلسطینی کو چھڑانے کے لیے ہوئی تھی اس میں میرے منہ پر ایک عدد زور دار مکا لگ گیا تھا جس کی وجہ سے مسوڑھوں سے ذرا خون آرہا تھا سو میں نے دوبارہ وضو کرنا ہی بہتر سمجھا۔ ویسے تو حنفی فقہ میں شہید کو غسل معاف ہے، میں وضو کرکے ایک مقدس مقبرے میں چلا گیا۔ یہاں 1994 سے اب ایک تقسیم کردی گئی ہے۔ مسلمانوں کی طرف مسجد ابراہیمی ہے اور اہل یہود نے اپنا ایک Synagogue بنالیا ہے۔ موجودہ احاطہ بادشاہ ہیروڈ نے ان غاروں کے اوپر بنایا تھا جن کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں انبیائے علیہما السلام اور ان کی ازواج مدفون ہیں۔ ان تک رسائی نا ممکن بھی اور ممنوع بھی ہے۔ ایک طویل عرصے سے کھوجی، نوادرات اور مذہبی جنونی ہمہ وقت اس جستجو میں رہتے ہیں کہ کسی طرح ان غاروں تک چاپہنچیں۔ ان کی دخل اندازی کو روکنے کی خاطر اب علامتی طور پر دو عدد سوراخ اس طرح چھوڑ دیے گئے ہیں کہ ایک ٹرے کے ذریعے ان سے زیر زمین مقابر پر پھول نچھاور کیے جاسکیں، تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بمشکل 28 سینٹی میٹر کی گول رسائی ہے۔ ایک سوراخ مسجد میں سے دوسرے یہودی معبد میں موجود ہے۔

hole over graves


ایک روایت کے مطابق یہاں حضرت اسحقؑ، حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسفؑ کی قبور مبارکہ بھی ان ہی زیر زمین غاروں میں موجود ہیں۔ ان تک رسائی ناممکن ہے۔ ان تک رسائی کا راستہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے فتح یروشلم کے موقع پر پتھروں سے سیل کردیا تھا۔ ہر نبی محترم کی قبر کے پہلو میں ان کی زوجہ محترمہ کی قبر بھی ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی احاطہ صلوۃ میں آپ کی نگاہ ان تعویذات ( وہ مقابر جو اصل قبر کے اوپر تعمیر کیے جاتے ہیں ) پر پڑتی ہے۔ یہ تعویز حضرت اسحقؑ اور ان کی اہلیہ بی بی ربیکا کے ہیں۔ مسجد کے مین ہال میں داخل ہونے سے پہلے حضرت ابراہیم ؑکی زوجہ محترمہ بی بی سارہ کی قبر آتی ہے۔ آپ حضرت اسحقؑ کی والدہ محترمہ تھیں۔ موشے دیان جو 1967 کی جنگ میں اسرائیل کے وزیر دفاع تھے وہ خیر سے ایک شوقیہ ماہر آثار قدیمہ بھی تھے۔ انہیں اس مقام کے بارے میں جان کاری کا بہت ہوکا تھا سو انہوں نے بارہ برس کی ایک نازک بدن لڑکی Michal کو ایک پیمائشی فیتہ، سر پر ایک کھوجی بتی اور نوٹ بک کے ساتھ اس شہتیر والے سوراخ سے غار مزار کے اندر اُتارا تھا۔ اس موقع پر سرکار کے اہم افسران، اسرائیل کے بڑے یہودی ربائی اور وہ خود بھی موجود تھے۔ خود اسرائیلی فوج میں باقاعدہ طور پر ایک میجر جنرل شولوم گورین کو ربائی کو چیف ربائی کا عہدہ ملا ہوا تھا۔ وہی سب سے پہلے یہاں جھنڈا لہرانے پہنچا تھا۔

شولومو گورن، اسرائیلی افواج کے چیف ربائی، اسرائیلی پرچم لہراتے ہوئے

شولومو گورن، اسرائیلی افواج کے چیف ربائی، اسرائیلی پرچم لہراتے ہوئے


جب وہاں موجود مفتی صاحب نے کہا کہ وہ اسے باقاعدہ طور پر حرم ابراہیمی کی چابیاں سونپ دیں گے اگر وہ اس مقام کو اس کی اصل حیثیت میں رکھنے کا معاہدہ کرے تو وہ تکبر کا مارا کہنے لگا کہ مفتی صاحب کا عہدہ ان کے کپتان سے بھی نیچے ہے۔ مفتوحین کو معاہدے کی شرائط منوانے کا کوئی اختیار نہیں۔ تصویر میں آپ اسے خود جلدی میں سیا ہوا جھنڈا لہراتا دیکھ سکتے ہیں۔ مشل اندر چلی گئی اور خوب جائزہ لیا۔ باہر آن کر اس نے بتایا کہ سولہ عدد سیڑھیاں اتر کر ایک راہداری آتی ہے۔ اس راہدری سے آگے جائیں تو تین عدد بڑے پتھر ہیں جن میں سے وسطی پتھر پر آیت الکرسی درج ہے۔ لڑکی کو وہاں کرنسی نوٹ، کاغذ پر لکھی دعائیں اور جلی ہوئی موم بتیاں ملیں۔ شہر الخلیل دو ہزار سال سے یہودیوں کے قبضے میں نہ تھا۔ مسلمانوں نے اسے یروشلم کے ساتھ حضرت عمر ؓ کے دور میں عیسائیوں سے فتح کیا تھا۔ اس سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے تک ایرانی رومی عیسائی سب ہی اس پر قابض تھے۔

میں اس وقت سر جھکائے حضرت ابراہیمؑ کے مزار عالیہ پر کھڑا تھا دوسری جانب یعنی بلٹ پروف گلاس کے اس طرف مغربی سیاح اور یہودی عبادت گزار موجود تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا کے تینوں بڑے مذاہب یعنی یہودی، عیسائیت اور اسلام میں بڑی جلیل القدر ہستی سمجھے جاتے ہیں۔

1967سے سات سو سال پہلے تک یہودی صرف ساتویں سیڑھی تک جاسکتے تھے۔ یہ مملوک بادشاہوں کا حکم تھا جس پر اتنے عرصہ تک عمل ہوتا رہا۔ لڑکی پر تا حال انٹرویو دینے کی پابندی ہے۔ اس کے گھروالوں کا بیان ہے کہ اس لڑکی کی نفسیاتی کیفیت اس واقعے کے بعد پہلے جیسی نہ رہی۔

موذن حسن نے مجھے یہ کہانی سنائی، اُن کا خیال تھا کہ جن جگہوں کی حفاظت اللہ کرتا ہے وہاں انسانی مداخلت محض رسوائی، ذلت اور پریشانی کا سبب بنتی ہے۔ میں اس وقت سر جھکائے حضرت ابراہیمؑ کے مزار عالیہ پر کھڑا تھا دوسری جانب یعنی بلٹ پروف گلاس کے اس طرف مغربی سیاح اور یہودی عبادت گزار موجود تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا کے تینوں بڑے مذاہب یعنی یہودی، عیسائیت اور اسلام میں بڑی جلیل القدر ہستی سمجھے جاتے ہیں۔ مجھے میری دوست اور موجودہ میزبان ڈاکٹر کلور لی یاد آئی جو مجھے اکثر کہا کرتی تھی۔ تم اس قبر عالیہ پر دیکھنا جو ہمارے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کی ہے ان کے دو بیٹے، دو بھائی تھے، اسحق اور اسمعیل۔ اب وہاں ایک شیشے کی دیوار ہے جس کے آر پار ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں سن اور سمجھ نہیں سکتے۔ سمجھے!جب تک میں یہ سمجھنا چاہتا صلوۃ الجمعہ کی ساعت آگئی تھی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مزار، جس پر بلٹ پروف شیلڈ نصب ہے

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مزار، جس پر بلٹ پروف شیلڈ نصب ہے


حرم ابراہیمی میں صلوۃ الجمعہ میرے لیے ادراک اور شعور سے پرے، بہت انوکھا سا تجربہ تھا۔ صف بندی کی وجہ سے میرا سیدھا کندھا حضرت اسحق ؑکے مزار عالیہ کے تعویز کو چھو رہا تھا۔ صف بندی کے دوران میں نے جب نمازیوں کی تعداد گنی تو وہ بمشکل پچاس تھی۔ میرا موجودہ وطن جنوبی افریقاگو کہ مسلمان ملک نہیں اور یہاں مسلمانوں کی تعداد دو فیصد سے بھی کم ہے مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ وہاں گجراتی اور ملائی مسلمان جنہیں گورے بطور غلام لائے تھے، ایسے مسلمان ہیں کہ وہاں بعض محلوں میں تہجد کی نماز بھی لوگ مسجد میں اسی کثرت سے پڑھنے آتے ہیں اور فرض نمازوں میں جماعت کی خاطر خواتین کی بھی کثیر تعداد محلوں کی مساجد میں آتی ہے۔ صلوۃ الجمعہ میں تو دور دراز کے گاؤں کی مساجد میں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ یہاں معاملہ بہت کرب کا تھا۔ اسلام کا چوتھا اہم مقدس شہر اور نمازیوں کی تعداد بمشکل تین درجن کے قریب۔ ایسا نہیں کہ یہاں کہ لوگ جذبۂ ایمان سے محروم ہیں مگر پناہ گیروں اور اسرائیلی افواج کے جبر مسلسل کے ہاتھوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی بے حسی کی باعث اب وہ کچھ نڈھال سے ہوچلے ہیں۔ ایسے اجتماعات عام طور پر فسادات کا بہانا بن جاتے ہیں۔ اسرائیلی گولیاں مارنے میں اور نوجوانوں کو قید میں اذیت دینے سے باز نہیں آتے۔ الخلیل کے ایسے کئی سو نوجوان قید ہیں جن کی عمر بیس سال بھی کم ہے۔


صلوۃ سے فارغ ہوکر باہر نکلے تو عبدالقادر اور میں ابو صبیح حلوائی کی دکان کی طرف چل پڑے جہاں کار کھڑی تھی۔ یہ فاصلہ ذرا طویل تھا مگر مجھے یہ چہل قدمی یوں بھلی لگی کہ مجھے اس بہانے شہر کو دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ ہم ایک تنگ سی مارکیٹ میں داخل ہوگئے۔ یہاں کاروبار چل رہا تھا۔ ہیبرون والے فلسطین بھر میں اپنی کاروباری مہارت کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ جب ان کا کاروبار کنگ ڈیوڈ اسٹریٹ یعنی شہدا اسٹریٹ سے بزور جبر و استبداد لپیٹ دیا گیا تو وہ یہاں سوق میں اٹھ آئے۔ یہاں ایک جگہ انار کا جوس نکالا جارہا تھا۔ ویسے تو ہیبرون کے سبھی پھل بہت ذائقے دار ہیں مگر ان کے انار اور انگوروں کا کیا کہنا۔ سرخ میٹھے اور پھولوں کی خوشبو کو مات کرتے تازہ انار کا جوس دیکھ کر میری طبیعت مچل گئی۔

بازار اور گھروں پر یہودی جو کچرا پھینکتے ہیں، وہ دیکھا جا سکتا ہے

بازار اور گھروں پر یہودی جو کچرا پھینکتے ہیں، وہ دیکھا جا سکتا ہے


ہم جوس پی کر آگے بڑھے تو اچانک میرے سیدھے کاندھے پر کوئی شے آکر گری۔ کسی حرامزادی نے مجھ پر اپنے بچے کا غلیظ پوتڑہ پھینک دیا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ اوپر جاکر ایک چانٹا اسے رسید کروں مگر قادر نے میرے ارادے کو بھانپ لیا اور مجھے کھینچ کر ایک طرف لے گیا۔ ’’ایسے موقع پر الحمد للہ کہتے ہیں‘‘۔ اس نے مجھے نئی سناونی دی۔ ’’کیا کوئی مجھ پر گندگی اُچھالے اور میں اس کو سبق سکھانے کی بجائے ایک بزدل کی طرح اللہ کا شکر اداکرنے میں لگ جاؤں‘‘۔ میں غصے سے کھول رہا تھا۔ اس نے مجھے اوپر دیکھنے کو کہا سارے بازار پر ایک جالی لگی تھی۔ اس جالی کے اوپر بازار کے دونوں طرف رہائشی عمارتوں کی تنگ کھڑکیاں قطار در قطار چلی گئی تھیں۔ ان کھڑکیوں سے ہر طرح کا کچرا پھینکنے کی علامات اس جالی کے اوپر موجود تھیں، پرانے جوتے، گندے کپڑے، پتھر، تھیلیاں جو ان عمارات کے مکینوں کے ذوق سلیم اور سماجی شعور کی نشانی تھیں۔

یہودی جو زبردستی مسجد میں داخل ہوگئے

یہودی جو زبردستی مسجد میں داخل ہوگئے


ان عمارتوں میں دنیا کے سب سے کمینے اور بے رحم یہودی پناہ گیر رہتے ہیں۔ جب لوگ مسجد ابراہیمی سے نماز پڑھ کر آتے ہیں تو اُن پر غلاظت باری بڑھ جاتی ہے۔ شراب کی بوتلیں تک پھینکی جاتی ہیں، ہم اسے مکہ المکرمہ میں ہمارے نبی ﷺکے ابتدائی ایام میں کفار مکہ کے ہاتھوں پہنچائی گئی اذیت پر آپ کی برداشت سمجھ کر اس طوفان گندگی پر اللہ کا شکر ادا کرنا سنت نبوی مانتے ہیں۔ اسٹیل کی جالی کی یہ چھت بے چارے دکانداروں نے تانی ہے تاکہ گندگی کے ان میزائلوں سے بچت ہوجائے۔ مجھے یہ بات سن کر ایسی طمانیت ہوئی کہ میں نے اسی وقت درودشریف پڑھ کر شکر الحمد ﷲ کہا۔ ذرا آگے بڑھے تو ایک بہت بڑا کچن نظر آیا جہاں لوگ برتن تھامے قطار میں کھڑے تھے۔ یہ سوپ ابراہیمی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ سلام کو غریبوں کو کھانا کھلانا بہت اچھا لگتا تھا۔ یہ ان کی سنت ہے۔ ہر دن مختلف قسم کا سوپ یہاں سے تقسیم ہوتا ہے۔ پیر کو مرغی اور جمعہ کو گوشت، باقی دنوں میں سبزی کا سوپ۔ پچاس ہزار سے ساٹھ ہزار لوگ جو بے حد غریب اور ضرورت مند ہیں ان کا اس اسکیم سے پیٹ بھر جاتا ہے۔ اس پریشان حال بستی میں جہاں غربت ہر طرف عیاں ہے، لوگوں کا تین ہزار سال پرانی سنت کو اس لیے زندہ رکھنا کہ اس سے کمزور اور معاشی طور پر مفلوک الحال افراد کا پیٹ بھر جائے، منتظمین کے حق میں بے شمار د عاؤں کا حق دار ہے۔ یہ نہ بھولیے کہ دنیا میں ہندوستانی، روہینگیا، چینی یوغور، شامی، وسطی افریقا اور فلسطینیوں سے زیادہ مظلوم کوئی اور مسلمان اقلیت نہیں۔

ایک یہودی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مزار پر عبادت کرتے ہوئے

ایک یہودی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مزار پر عبادت کرتے ہوئے


“ہم آگے بڑھتے رہے۔ کہیں فلسطین کی آزادی کے نعرے تھے تو کہیں الخلیل شہر آسیب کے۔ ہم چلنے لگے تو وہاں پر موجود دونوں قبائل ابوصبیح اور ابو سنانا والے بضد تھے کہ بغیر لنچ کے نہ جائیں۔ سفر لمبا تھا اور ہماری منزل ذرا دور، سو ہم بمشکل اس وعدے پر کہ اگلی بار موقع ملاتو ایک ایک دن دونوں کا مہمان رہیں گے، ان سے گلو خلاصی مل سکی۔

شاہ بلوط کے درخت کو “Ibrahim’s Oak” یا بلوط ابراہیمی بھی کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑنے اسی کی چھاؤں میں ایک خیمہ میں اپنی عمر کا بڑا حصہ گزارا۔ یہیں آپ کو یہ بشارتیں ہوئیں کہ آپ کے دو عدد صاحبزادوں اور ایک کزن حضرت لوط ؑکو نبوت سے سرفراز کیا جائے گا۔

سڑک پر آن کر اچانک عبدالقادر کو یاد آیا کہ الخلیل چھوڑنے سے پہلے وہ مجھے کسی سے ملوائے۔ میرے جواب کا انتظار کیے بغیر اس نے تیزی سے بائیں جانب گاڑی موڑ لی۔ ڈیرھ میل کی مسافت کے بعد ہم ایک ایسی خانقاہ کے پاس پہنچے جو بند تھی۔ اس کے کھلنے کے اوقات صبح نو بجے سے بارہ بجے واضح طور پر درج تھے مگر عبدالقادر کہاں باز آنے والا تھا۔ وہاں موجود نوجوان گارڈ کے باپ کا رشتہ اللہ جانے کہاں سے ڈھونڈ نکالا۔ اُسے بتایا کہ وہ تو پیدا بھی نہیں ہوا تھا جب اس کا باپ اور وہ سامنے والے باغ سے انگور چُراچُراکر کھاتے تھے۔ ایسا پرانا اور گھناؤنا تعلق۔ گارڈ نے خاندانی کمزوری کو مزید تشہیر سے بچانے کی خاطر خانقاہ کے دروازے پھٹ سے کھول دیے۔ دروازہ کھلتے ہی ایک پلیٹ فارم پر نگاہ پڑی جس کے وسط میں شاہ بلوط کا درخت تھا اسے “Ibrahim’s Oak” یا بلوط ابراہیمی کہتے ہیں۔ اسے چاروں طرف سیاہ اینٹوں کی ایک دیوار نے گملے کی صورت میں گھیرا ہوا تھا۔ اس درخت کے حوالے سے کئی روایات مشہور ہیں۔

baloot e ibrahimi

بلوط ابراہیمی


حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی کی چھاؤں میں ایک خیمہ میں اپنی عمر کا بڑا حصہ گزارا۔ یہیں آپ کو یہ بشارتیں ہوئیں کہ آپ کے دو عدد صاحبزادوں اور ایک کزن حضرت لوط ؑکو نبوت سے سرفراز کیا جائے گا اور یہ سلسلہ آپ کی دعا کے نتیجے میں سرزمین حجاز میں ہمارے محترم نبی آخر الزماںﷺ کی صورت میں محسن انسانیت کا روپ دھار کر پورا ہوا۔۔ آپ ہی نے حضرت لوط علیہ السلام کو یہیں سے صدوم اور گمراہ کی بستیوں کی جانب رخصت کیا تھا۔ رشد و ہدایت کے پیغام کے ساتھ جب حضرت لوط ؑ رخصت ہورہے تھے اور صحرائے یہودا کی مسافت سامنے تھی تو آپ کی آنکھیں بڑے بھائی ہونے کے ناطے اشکبار تھیں۔ یہاں یہ خیال بھی بہت عام ہے کہ گو اس درخت کی عمرلگ بھگ ساڑھے تین ہزار برس ہے، لیکن ہر سال اس میں کوئی نہ کوئی ہری شاخ پھوٹ پڑتی ہے۔ جس سال کوئی شاخ نہیں پھوٹے گی، اس سال دجال دنیا میں قتال اور فساد کے لیے قرب و جوار سے نمودار ہوجائے گا۔ ہم نے گارڈ کا شکریہ ادا کیا اور باہر چلے آئے۔ (جاری ہے)

مسجد ابراہیم کا ایک منظر

مسجد ابراہیم کا ایک منظر


متعلقہ خبریں


انڈر ٹیکر کاشف مصطفیٰ - پیر 19 ستمبر 2016

جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...

انڈر ٹیکر

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط کاشف مصطفیٰ - پیر 12 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32 کاشف مصطفیٰ - بدھ 07 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31 کاشف مصطفیٰ - جمعه 02 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 30 کاشف مصطفیٰ - منگل 30 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس  - قسط 30

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29 کاشف مصطفیٰ - هفته 27 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28 کاشف مصطفیٰ - هفته 20 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27 کاشف مصطفیٰ - بدھ 17 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25 کاشف مصطفیٰ - منگل 09 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 04 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23 کاشف مصطفیٰ - منگل 02 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 28 جولائی 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر