... loading ...
چرچل نے کہا تھا: رویہ بظاہر ایک معمولی چیز ہے مگر یہ ایک بڑا فرق پیدا کرتا ہے۔ ‘‘دہشت گردی کے متعلق ہمارا رویہ کیاہے؟ اگر اس ایک نکتے پر ہی غور کر لیاجائے تو ہماری قومی نفسیات ، انفرادی عادات اور اجتماعی حرکیات کا پورا ماجرا سامنے آجاتا ہے۔
پاکستان دہشت گردی کا شکار آج سے تو نہیں ہے۔1971 میں سقوط ڈھاکا کے بعد یہ طے ہو گیا تھا کہ اب پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے روایتی جنگوں میں نہیں بلکہ غیر روایتی میدانوں میں مقابل ہوں گے۔ غیر واضح چہروں اور نامعلوم ہاتھوں کی لڑائی کا رجحان ہرگزرتے دن تقویت پکڑتا گیا۔ یہ لڑائی اب تقریباً نصف صدی پر محیط ہوچکی ہے اور اس نے اپنی تاریخ ، نفرت اور جڑیں بنا لی ہیں۔ یہاں تک کہ اس لڑائی میں دونوں طرف استعمال ہونے والے غیر ریاستی جتھے اور گروہ خود بھی اتنی مہارت اور طاقت حاصل کرچکے ہیں کہ وہ ہاتھ سے بڑھ کر اب اپنی ہی جنگ کا دماغ بن چکے ہیں اور اپنے پالنے والوں سے بے نیاز رہ کربھی بقا کی لڑائی لڑنے کی سکت رکھتے ہیں۔مگر عملاً ان گروہوں کو اُن کی پالنے والی ریاستوں سے الگ کرنے اور خود اُن کے ہی خلاف استعمال کرنے کا کامیاب راستا امریکا نے نوگیارہ کے بعد پاکستان کے خلاف ڈھونڈا۔ امریکا افغانستان کی جنگ تو نہیں جیت سکا، مگر اُس نے پاکستان کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں اس طرح مبتلا کردیا ہے کہ پاکستان میں استعما ل ہونے والے مختلف گروہوں کو اُن کے اصل پالنے والوں سے چھین لیا۔ اور اُنہیں ردِ عمل کی نفسیات سے دوچار کرنے کے لئے عسکری اداروں کو اُن کے خلاف بتدریج اور آہستہ آہستہ ایسے اقدامات پر مجبور کیا کہ وہ گروہ اُن سے نفرت کرنے لگیں۔ کسی بھی لڑائی میں نفرت سے بڑھ کر اثاثہ اور اسلحہ کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ اب یہ نفرت اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ یہ گروہ پاکستان کے کھلے دشمنوں سے بھی ساز باز اور گانٹھ سانتھ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔ اس خوف ناک رجحان کے لیے ہمارے پاس کسی بھی سطح پر کوئی تجزیہ موجود نہیں۔ یہی نہیں اس رجحان کے معمولی ادراک کی بھی صلاحیت کا بھی ہم کوئی مظاہرہ نہیں کرسکے۔ چہ چائیکہ اس حوالے سے کوئی دورس اور کثیر الجہتی حکمت عملی بنائی جاتی۔
آگے بڑھیں! چلیں ہم قومی ریاست پر صحیح اور غلط کے معروف معیارات کو تج دیتے ہیں اور اس پر ایمان لے آتے ہیں کہ جب بھی ریاست جو کچھ کرتی ہے، درست کرتی ہے۔نشاۃ ثانیہ اور نام نہاد تحریک اصلاح کے بطن سے برآمد ہونے والی بتدریج قومی ریاستوں کی موجودہ شکل وصورت 1919ء میں لیگ آف نیشن اور بعد ازاں اقوام متحدہ کی تشریحات نے بنائی ہے، پھر بھی اس سے قبل کی دنیائے انسانیت کو جہالت کی مخلوق مانتے ہوئے ایک ڈیڑھ صدی کی قومی ریاست کے اس تصور پر مکمل ایمان ہی لے آتے ہیں۔ اب کیا ایسی ریاست اپنے گزشتہ کل سے نجات پانے کی جدوجہد میں ہو، اور ایسے کل سے جس نے ایمان، عقیدہ اور نظریئے کے امتزاج سے کچھ جھوٹی سچی تشریحات پر گزارہ کیا ہو، تو ایسا فیصلہ قوم پر کیا وقت لائے گا؟ اس کا کوئی درست جائزہ لیا گیا تھا۔ اس کے لیے ریاست کو کس کس سطح پر کہاں کہاں بروئے کارآنا پڑے گا، کیا اس پر کوئی غورکیا گیا تھا؟مسئلہ یہ ہے کہ جدید ریاستوں میں فوج ملکوں کا ہاتھ ہوتی ہے، دماغ نہیں۔ اور پاکستان میں دماغ کا کام بھی ہاتھوں کے سپرد کردیا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں دماغوں نے کبھی بھی کسی اعلیٰ درجے کی ذہانت کا مظاہرہ ہی نہیں کیا۔ اب ہاتھ جسم میں سوچنے کا کام کتنا کرسکتے ہیں ، بس اُتنا ہی ریاست میں عسکری ادارے بھی کررہے ہیں۔اس ’’بندر کی بلاطویلے کے سر ‘‘ والی ناموزوں مشقت نے پاکستان کو ایک ایسی صورتِ حال میں دھکیل دیا ہے کہ یہاں ہر نیا دن پہلے سے زیادہ پُرخطر بن کر سامنے آتا ہے۔
ریاست کو خطرات تو نظری ، فکری اور وجودی سطح کے ہیں مگر ریاست تو اس سکت کا بھی مظاہرہ نہیں کرپارہی کہ وہ روزمرہ کے عملی مسائل سے ہی نبر د آزما ہولے۔ اگر دہشت گرد ہمارے لیے روز ایک نئی طرز کی موت ایجاد کریں تو اُن کے اس طرزِعمل پر تو ادارے اور حکومت گنجائش کی ڈھال استعما ل کرسکتی ہے۔ مگر دہشت گرد اگر ایک ہی طرح سے بروئے کار آتے ہو، اور اُن کے اندازواطوار میں ایک’’ پیٹرن ‘‘ یا نمونہ موجود ہو، اور ہم پھر بھی اپنی قوم اور اداروں کو اس سے نبرد آزما ہونے میں ناکام پائیں ۔ تو اس کی کوئی معافی نہیں ہو سکتی۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ایک خاص طرح کی ذہنیت کارفرما ہوتی ہیں۔ دہشت گردی کے لیے استعما ل ہونے والے ہاتھ تو اہداف پورے کرنے میں لگے رہتے ہیں مگر اس کے دماغ خاص طرح سے حرکت میں آتے ہیں ۔ مثلاً عام طور پر دہشت گردی کے لیے دسمبر اور اگست کی تاریخوں کا انتخاب سقوط ڈھاکا اور ماہ آزادی کی مناسبت سے کیا جاتا ہے۔ ان مہینوں میں اداروں کو زیادہ مستعد اور چوکس ہونا چاہئے، مگر افسوس ناک طور پر ہمارا طرزِ عمل حفظ ماتقدم یا پھر اقدامی نہیں بلکہ بعد از اقدام ردِ عمل سے عبارت ہوتا ہے۔سانحہ کوئٹہ کے ہی تناظر میں اس کا جائزہ لے لیں۔ ایساہی ایک واقعہ بالکل اسی انداز میں ٹھیک اسی تاریخ کو اسی شہر میں رونما ہو چکاہے۔ کوئٹہ میں ہی ایس ایچ او محب اللہ داؤی کو 8 اگست 2013ء کو نشانا بنایا گیا۔ جب اُن کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے لوگ جمع ہوئے تو اس پر خودکش حملہ کردیا گیا، جس کے نتیجے میں تیس افراد لقمہ اجل بن گیے۔ اسی طرح ایک بینک مینجر کے اہدافی قتل( ٹارگٹ کلنگ) کے بعد جب ہزارہ کمیونٹی کے لوگ اسی سول اسپتال کوئٹہ میں جمع ہوئے تو اُنہیں ماضی میں اسی طرح نشانا بنایا گیا۔ اس طریقہ واردات کو’’ بوبی ٹریپ‘‘(Booby trap)کہتے ہیں، جس میں پہلے ایک چھوٹا واقعہ کرکے لوگوں کو اُس کی طرف دھکیلا جاتا ہے ، اور پھر ایک زیادہ بڑی کارروائی میں اُنہیں نشانا بنا لیا جاتا ہے۔ نوگیارہ کے بعد کراچی میں ہونے والے ابتدائی دھماکوں میں اس طرز کو متعدد مرتبہ استعمال کیا گیا۔ میٹروول کے علاقے میں ایک امریکن کلچر سینٹر کے قریب اس نوع کی کامیاب واردات ہوئی تھی۔ جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چوکنا ہو کر واردات کے بعد ردِ عمل کے طریقے وضع کر لینے چاہئے تھے۔ یہ بات تو مانی جاسکتی ہے کہ پہلی کارروائی اچانک ہوتی ہے ،مگراس کے بعد ہونے والی کارروائی کے لیے کوئی حیلہ اور جواز نہیں مانا جاسکتا۔ کوئی کچھ بھی کہے ، سانحہ کوئٹہ میں اسپتال میں ہونے والا دھماکا دراصل قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی نااہلی ہے۔
حیرت انگیز طور پرسرکاری ادارے اپنی ہر ناکامی کو زیادہ اختیارات کے مطالبے میں چھپالیتے ہیں۔ اور ہر حادثے کے بعد جواب دہی کے بجائے زیادہ طاقت حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ایسی اُلٹی خوراک سے صرف پاکستان ہی چل سکتا ہے۔ دنیا کا کوئی دوسرا ملک نہیں ۔
اس رویئے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں ہر حادثے کو زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی جنگ میں کیوں تبدیل کردیا جاتا ہے؟ آخر کیوں ہم دہشت گردی کے متعلق اپنے فرسودہ رویوں پر غور نہیں کرتے؟اور کیوں ہر دہشت گردی کے بعد ہمارا ردِ عمل نہایت پست سطح کی گروہی تعبیرات کا آئینہ دار ہوتا ہے؟ ان سوالات پر غور اگلی تحریر پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ابھی تو صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ رویہ ہی فرق ڈالتا ہے۔ مگرہمارا رویہ دہشت گردی کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کا فرق ڈالنے والا ہرگز نہیں۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
فروری میں دہشت گردی میں کمی کے بعد مارچ میں جنگجو حملوں میں بھی دو گنا اضافہ ہوا ، دہشت گردی کے رجحانات پر نظر رکھنے والے اسلام آباد میں قائم آزاد تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ماہ مارچ میں ملک میں سلامتی کی صورتحال ...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
انار کلی بازار سے ملحقہ پان منڈی میں ہونے والے دھماکے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کر لیا گیا ۔ مقدمہ سی ٹی ڈی کے انسپکٹر عابد بیگ کی مدعیت میں درج کیا گیا ۔ مقدمے میں سیون اے ٹی اے،3/4ایکسپلو زو ایکٹ ، 302،324،بی 120اور 109کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ۔مقدمے کے متن میں کہا گیا...
افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں جمعے کے روز ایک شیعہ مسجد میں ہوئے بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 37 ہو گئی ہے جبکہ ستر سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ بم دھماکا ٹھیک اس وقت ہوا جب مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق اس بم دھماکے کا ہدف صوبے کی سب سے بڑی شیعہ م...