... loading ...
دستر خوانی قبیلے کی یہ خواہش ہے کہ عام لوگ اس نظام کی حفاظت کے لیے ترک عوام کی طرح قربانی دیں۔ اُس نظام کی حفاظت کے لیے جس کے وہ دراصل فیض یافتہ ہیں مگر عام لوگ اسے جمہوریت کے نام پر بچائیں۔ حریتِ فکر وہ سرشار کرنے والا جذبہ ہے جسے انسان اپنے شرف کے ساتھ منسلک کرکے دیکھتا ہے۔ سرمائے کے منتر پر چلنے والے ذرائع ابلاغ نے جمہوریت کے دھوکے کو اس شرف کا محافظ نظام باور کرادیا ہے۔ دھوکا ہے! دھوکا! صرف دھوکا!!!یہ سرمایہ داروں، دولت مند میڈیا سیٹھوں اور شریفوں کی جمہوریت ہے، اور کسی کی نہیں اور کسی کے لیے نہیں۔ ان کے پروردہ جمہوریت کا راگ ہر ماہ اپنے دولت کے گوشواروں میں اضافہ دیکھ کر الاپتے ہیں۔ پاکستان نے بددیانتوں کا ایسا مکروہ دور کبھی نہیں دیکھا، جب لوگ اپنے بنیادی عقائد بھی فروخت کرنے کو تیار ہو گئے ہوں۔
عام لوگ کیا چاہتے ہیں۔ امن وامان، منصفانہ معاشی سرگرمیاں اور انصاف۔ کیا یہ تینوں چیزیں موجودہ جمہوری نظام مہیا کر سکتا ہے؟ امن وامان کے لیے مکمل انحصار فوج پر ہے۔ عملاً وہ تین صوبوں میں موجود ہے۔ اور باقی بچ جانے والا ایک صوبہ وہ ہے جسے دستر خوانی قبیلے کے سب سے حریص تجزیہ کار نے گزشتہ دنوں’’ جنت‘‘ کہا تھا۔ جی ہاں! اُس جنت سے اب تک سرکاری اعداوشمار کے مطابق 652 بچے اغوا ہو چکے۔ غیر سرکاری اعداوشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سب سے زیادہ بچے جنت کے دارالحکومت لاہور سے اغوا ہوئے۔ پھر راولپنڈی اور سرگودھا کا نمبر آتا ہے۔ یہ وسطی پنجاب کے علاقے ہیں، جہاں نون لیگ کا سیاسی غلبہ سب سے زیادہ ہے۔ ابھی ابھی پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ جانبدار اسپیکر سردار ایاز صادق گویا ہوئے ہیں کہ اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ بچے تو اغوا ہوتے رہتے ہیں۔ بچے ہی کہاں حیا اور ضمیر بھی اغوا ہو گئے؟ سردار ایاز صادق اور دستر خوانی قبیلے میں بس ایک جیسی خوبو ہے۔ اسی جنت سے سلمان تاثیراور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے بھی اغوا ہوئے۔ مگر وہ جنت کے خوش قسمت بیٹے تھے جو گھروں کو لوٹ آئے۔ باقی بچوں کے اماں ابا میٹرو میں سفر کریں اوراورنج لائن سے دل بہلائیں۔ تاجروں کی جنت میں سواریاں اور سڑکیں بچوں سے زیادہ قابل محبت اور قابل توجہ ہوتی ہیں۔ کیونکہ وہ زیادہ نفع بخش ہوتی ہیں۔
یہ وہی جنت ہے جہاں قصور کا سانحہ ہوا۔ جس پر سب نے’’ مٹی پاؤ‘‘ والا رویہ اختیار کیا۔ سینکڑوں لڑکوں کی عصمت دری بلیک ملینگ کے لیے کی گئی۔ پس پردہ ایک منظم گروہ تھا، جس کی سرپرستی مسلم لیگ کے ایک رکن صوبائی اسمبلی کرتے تھے۔ اگر اکا دکا واقعات میں کہیں کوئی داڑھی والا نظر آئے تو آسمان سر پر اُٹھا لیا جاتاہے۔ موم بتی مافیا سے لے کر لبرل فاشست سب ہی حرکت میں آجاتے ہیں۔ مگر اس منظم واقعے کو اپنی موت آپ مرنے دیا گیا۔ دستر خوانی قبیلے کی زبانوں کو لقوہ رہا۔ جنت کا داروغہ، ذمہ داران کو بس انگلی اُٹھااُٹھا کر عبرت کی مثال بنانے کے دعوے کرتا رہا۔
یہی داروغہ پنجاب کی صحت کی سہولتوں کو بھی بنفس نفیس دیکھتا ہے۔ ریلوے کے ہزار داستان وزیر خواجہ سعد رفیق کے بھائی سلمان رفیق کو تو بس مشیر پر قانع رکھا گیا ہے۔ پنجاب میں دل کے سب سے’’ اچھے‘‘ اسپتال پی آئی سی(پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی) میں جعلی ادویات کا فضیتہ (اسکینڈل) اُٹھاتو دستر خوانی قبیلے کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ مریض کو علاج کے لیے جو دوا دی جائے وہ اُسے کھا کر مرجائے۔ درجنوں لوگ جعلی ادویات کھانے سے مرگئے۔ سنا ہے جنت میں تو موت کو بھی موت آجائے گی۔ مگر یہ ایسی جنت ہے جہاں زندگی کی دوا موت بانٹتی پھرتی تھی۔ حریص تاجر وں کی حکومت میں موت پر بھی لین دین ہو سکتی ہے۔ اور حریص تجزیہ کاروں کے لئے ایسی جگہ بھی جنت نشان ہو سکتی ہے۔
جنت کے ایک تھانے سے ذاتی جیل چلائے جانے کی خبر بھی منکشف ہوئی ہے۔ یہ وہی جنت ہے جہاں ماڈل ٹاؤن ہوا، جس میں چودہ جیتے جاگتے انسان دن دِہاڑے گولیوں کی تڑ تڑ میں بھون دیئے گئے۔ وہیں سے ایک گلوبٹ کا انکشاف ہوا۔ شاید حریص تجزیہ کار کی جنت کے داروغہ کا نام ہوتا ہوگا۔ پنجاب کی سی ٹی ڈی (انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ) مقابلوں میں جن گمناموں کو لہولہان کرتی ہیں، اُن کی کوئی فردِ عمل ہے، نہ الزامات کی فہرست۔ بس وہ پولیس کے بیان کے مطابق دہشت گرد ہیں۔ کہیں کوئی آواز تک نہیں۔ اب لاہور کے صحافی کہہ رہے ہیں کہ بعض قتل تو ایسے بھی ہوئے جس میں سی ٹی ڈی کے اہلکار فرقہ وارانہ جذبے کے ساتھ بروئے کار آئے۔ سنا یہ ہے کہ جنت یا جہنم میں بھیجنے سے پہلے انسانوں کو ان کا نامۂ اعمال دکھا یا جائے گا۔ حریص تجزیہ کار کی ’’جنت‘‘ میں ایسی کوئی سہولت بھی نہیں۔ یہ وہی جنت ہے جہاں برادرم روف طاہر کے گھر پر دو بار ڈکیتیاں ہوئیں۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف خوداُن کے گھر تشریف لے گئے اور یقین دہانی کرائی تھی کہ مجرم پکڑے جائیں گے مگر مجرم پکڑے نہ گئے۔ کیا جنت میں ڈکیتیاں بھی ہوتی ہیں؟ اور ہنسنے کی بات نہیں ابھی بارشوں میں جنت پوری ڈوب گئی تھی تب پتہ چلا تھا کہ جنت میں نکاسی آب کا انتظام بھی بہتر نہیں۔ بس سڑکوں، میٹرو، اورنج اور داروغہ جنت کی اُنگلی اُنگلی اُٹھا اُٹھا کر تقریروں سے دل بہلائیں۔ تاجر وہی کام کرتے ہیں جس میں فائدہ ہو۔ اور حریص وہی بولتے ہیں جس سے فائد ہ ہو۔ ازلی بھوکوں کا مسئلہ یہ ہے کہ جب کھانا سامنے آئے تو وہ پیٹ کو نہیں کھانے کو دیکھتے ہیں۔ اور بس کھاتے ہی رہتے ہیں۔ سیاست دان ہی نہیں حریص تجزیہ کار اور دانشور بھی اس جمہوریت کے فیض یافتگان ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے فیض کو جمہوریت کی حفاظت کے نام پر جاری رکھنے میں وہ عوام مدد کریں جن کا یہ استحصال کررہے ہیں۔ سرمایہ پرست جمہوریت کا دھوکا اِسی لیے تو خطرناک ہے کہ یہ قیدیوں سے آزادی کے گیت سُنواتی ہے۔ اور مفلسوں سے افلاس کی توقیر کرواتی ہے۔
اگر چہ وہ آوازیں صرف رائیونڈ کی سنتے ہیں، مگر کوئی ہے جو بادشاہی مسجد سے چیخ کر اُنہیں بتائیں کہ تم اپنی زندگی میں ہی اپنے شاندار ماضی کا مزار بنا بیٹھے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
لاہور میں بتی چوک کے قریب پولیس کی شیلنگ سے علاقہ میدان جنگ بن گیا، آنسو گیس کے گولوں کے بھرپور استعمال کے باوجود پی ٹی آئی کارکنان نے پیش قدمی جاری رکھی، پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔ لاہور کا بتی چوک پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس کے مابین میدان جنگ بن گیا۔ پولیس نے کارکنان پر لاٹھی چا...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
صوبائی دارالحکومت لاہور کے قدیم تجارتی مرکز انارکلی بازار سے ملحقہ پان منڈی میں دھماکے کے نتیجے میں بچے سمیت 3 افراد جاں بحق جبکہ 28زخمی ہو گئے جن میں سے 6کی حالت تشویشناک ہے، دھماکے کے بعد آگ بھی لگ گئی ، دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی جبکہ قریبی ع...
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ آئین انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، معلومات اور خواتین کی تعلیم کا حصول اہم بنیادی حقوق ہیں، عدالتی فیصلہ ہے وزیراعظم بطور پارٹی لیڈر سرکاری میڈیا پر بات کرے تو اپوزیشن کو برابر کا وقت ملنا چاہیے۔ لاہور میں انسانی حقوق کی ع...