... loading ...
ترکی میں ۱۵؍ جولائی کو ہونے والی ناکام فوجی بغاوت داخلی، علاقائی اور عالمی تناظر میں ایک انتہائی اہم واقعہ ہے۔ جس طرح ہارٹ اٹیک کے بعد آدمی کا طرز زندگی، معمولات، میل جول، محلے داری سب کچھ اچانک بدل جاتا ہے، اسی طرح اس واقعے کا اثر پورے ترک معاشرے اور ریاست پر بہت گہرا ہوا ہے۔ اگر ہارٹ اٹیک کے جلو میں کابوس بھی چلا آتا ہو، تو جسم و جاں کے احوال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ہارٹ اٹیک تو اندر کا معاملہ ہے لیکن کابوس کہیں باہر سے آتے ہیں۔ اس وقت ترک معاشرہ داخلی حملے اور مغربی کابوس سے نمٹنے کے عمل میں ہے۔ ترکی کی سالمیت کو ختم کرنے اور ترک معاشرے کو ادھیڑنے کی جنگ کے اس پہلے مرحلے کے نتائج کیا ہوں گے، ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ابتدائی ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری ترک قوم کو اس واقعے کی سنگینی اور اس کے بھیانک مضمرات کا نہ صرف بخوبی اندازہ ہے بلکہ وہ اس سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ قومی عمل بھی سامنے لا رہی ہے۔
ہمارے ہاں بھی اس اہم سیاسی واقعے پر مختلف رد عمل اور اس کی کئی تعبیرات سامنے آئیں۔ یہ ردعمل اور تعبیرات اس واقعے کی جانکاری اور تفہیم کے حوالے سے عموماً غیر اہم تھے۔ انہوں نے واقعے کے بارے میں کم اور ہمارے اپنے قومی ذہن کے بارے میں زیادہ آگہی فراہم کی۔ اس سے نہ صرف یہ اندازہ لگانا آسان ہو گیا کہ ہم دنیا کو کیسے دیکھتے ہیں، بلکہ یہ بھی کہ ہم خود کیا ہیں۔ سیاسی ادراک چونکہ معاشروں کے اجتماعی عمل کی بنیاد ہے، اس لیے یہ براہ راست قومی سلامتی اور بقا سے جڑا ہوا ہے۔ میڈیا بھی اسی لیے اہم ہے کہ یہ کسی بھی معاشرے کے سیاسی ادراک پر اثرانداز ہونے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر قوموں کے سیاسی ادراک کو کمزور کر دیا جائے تو غالب قوتوں کے لیے ان پر اثرانداز ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے میڈیا میں ظاہر ہونے والا سیاسی ادراک نہ صرف منقسم اور منتشر ہے بلکہ وہ عصری دنیا کو معروف فکری شرائط پر دیکھنے کی استعداد نہیں رکھتا اور یہ امر صحت سیاسی عمل کا معاون نہیں۔
اس اہم سیاسی واقعے کو ہمارے ہاں جو میڈیا کوریج ملی، اس میں دو چیزیں بہت اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے تجزیہ نگاروں میں اہلِ معلومات تو بہت ہیں، لیکن صاحبِ مطالعہ یا صاحب علم لوگ اب خال خال ہیں، جو ان معلومات کو کسی تاریخی تناظر میں رہتے ہوئے سیاسی معنی دے سکیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ ماضی قریب تک کم از کم ہمارے پرنٹ میڈیا میں صاحبِ علم صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کی موجودگی کا سراغ ملتا ہے۔ تجزیے کا بنیادی مقصد کسی ”سیاسی صورت حال“ پر ایک تناظر میں رہتے ہوئے رائے قائم کرنا ہوتا ہے، جس کی معلومات پہلے ہی قارئین یا ناظرین تک پہنچ چکی ہوتی ہیں۔ تجزیہ ان معلومات کی تناظری نسبتوں کو واضح کر دیتا ہے۔ تجزیوں میں شخصیات کو ”سیاسی صورت حال“ کے ضمن میں زیربحث لایا جاتا ہے۔ شخصیات پر فرقہ وارانہ دم کرتے رہنے سے یا ان کے بارے میں اپنے تعصبات وغیرہ کا اظہار کرنے سے یا ان کو وعظ نصحیت کرنے سے تجزیہ جذبے کو تحریک تو دیتا ہے لیکن ذہن تک رسائی نہیں پاتا جو اس کی اصل منزل ہوتی ہے۔ سادہ لفظوں میں سیاسی تجزیہ طاقت کے نظام کو سامنے لائے بغیر ایک بے معنی بلکہ مضر سرگرمی ہے اور معاشرے کے سیاسی ادراک کے لیے مہلک ہے۔
ہمارے رد عمل اور تجزیوں کا دوسرا پہلو زیادہ اہم ہے اور جو ہمارے قومی ذہن کی مجموعی حالتِ انکار کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اس ناکام فوجی بغاوت کے تجزیوں میں اسے ایک معروضی سیاسی واقعے کے طور پر ہی تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس واقعے کو پاکستان کی داخلی صورتحال کے تناظر میں زیربحث لا کر اسے پہلے سے طے شدہ نتائج کے تابع رکھا گیا۔ یا کسی نجی تجربے کو بنیاد بنا کر اس کی تعبیر کی گئی۔ اس بے معنی اپروچ سے نہایت پوچ اور بودے نتائج اخذ کر کے قارئین کا دل بہلانے کی کوشش کی گئی۔ ہم نے یہ قطعاً فراموش کر دیا کہ ترکی کے داخلی اور علاقائی حالات پاکستانی قومی صورتحال سے یکسر مختلف ہیں، اور اس واقعے کی تفہیم پاکستانی داخلی حالات کے تناظر میں ممکن نہیں۔ سیاسی حالات و واقعات اور ان میں جہد آزما شخصیات کے مابین مماثلتیں تلاش کرتے رہنے سے سیاسی ادراک اور تاریخی بصیرت ہی کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ”تصویر“ امتیازات پیدا کرنے اور ان کو واضح رکھنے سے بنتی ہے۔ اگر تصویر میں ایک ہی رنگ ہو تو وہ تصویر نہیں رہتی۔ سیاسی حالات کا فکری تجزیہ بھی اسی طرح کی سرگرمی ہے۔
ہمارے ہاں لبرل اور سیکولر طبقے نے اس واقعے کو بہت ہی معمولی اہمیت دی، اور ان پر خاصی اداسی چھائی رہی۔ اداسی کے اثر کی وجہ سے ان کے تجزیے بھی روکھے پھیکے ہی رہے، جن کا مقصد اس واقعے کی سنگینی کو اجاگر کرنا نہیں تھا، بلکہ اسے ایک غیراہم واقعہ ثابت کرنا تھا۔ خیر ہمیں ان اصحابِ علم اور اعلیٰ اخلاقیات کے حاملین سے کوئی توقع بھی نہیں تھی، کیونکہ ان کی ترتیب ہستی میں یہ ایک غیراہم واقعہ ہی تھا۔ ان کا تو یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ دیکھو بھئی ہمارے ہوتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہونی چاہیے، قانون کی پاسداری ہونی چاہیے، مغربی اقدار کی بالا دستی ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ صاف ظاہر ہے یہ ناکام فوجی بغاوت ان اصولوں سے کہیں فروتر تھی۔ جب قاتلوں اور باغیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو ان کا ”اصولی اور انسانی“ موقف بڑی شد و مد سے سامنے آنا شروع ہوا۔ ان کے خیال میں حقوق صرف ان لوگوں کے ہوتے ہیں جن کی مغرب سے نسبتیں دوٹوک اور واضح ہوں۔ اور بچارے ترک عوام تو یہ شرط پوری نہیں کرتے، ہاں مغرب کے تنخواہ دار باغی ان اعلیٰ انسانی خواص کے مالک اور حقوق کے سزاوار ضرور ہیں۔
جہاں تک مارکسسٹوں کا تعلق ہے، اہل مغرب کی طرح ان کی خوشی بھی ادھوری ہی رہ گئی اور ان کی بڑی امیدیں ٹوٹ گئیں۔ یہ بات تو اندھوں کو بھی سجھائی دیتی ہے کہ ترک عوام اور ان کے رہنما نے عین اسی استعماری اور سرمایہ داری نظام کے خلاف مزاحمت کی ہے جس کے خلاف یہ لوگ دن رات شمشیر برہنہ رہتے ہیں۔ ہمارے مارکسسٹ دوستوں کا تاریخی شعور ہم سے کہیں گہرا ہے، اور جدید دنیا میں سیاسی عمل کو وہ تاریخ کے جس جدلیاتی تناظر میں دیکھتے ہیں، اس میں رہتے ہوئے ترک فوجی بغاوت کی اس کے علاوہ کوئی اور تعبیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر وہ اس کے علاوہ کوئی اور تعبیر کرتے ہیں وہ یقیناً جھوٹ بول رہے ہیں اور بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لیکن انہیں بغاوت ناکام ہونے کا بڑا رنج ہوا ہے۔ اس بدحواسی میں ان کا طبقاتی شعور کہیں سٹک گیا، یعنی ان کی عقل گھاس چرنے جا نکلی، اور جدلیاتی تاریخی تناظر کی عینک بھی کہیں کھو گئی۔ انہیں سجھائی دینا اور دکھائی دینا بیک آن موقوف ہو گیا۔ یہاں دراصل مسئلہ اور ہے جس کا ذکر ضروری ہے۔ مارکسسٹ مغربی تہذیب سے اپنی وجودی عینیت کے باعث سرمایہ داری نظام کو تو قبول کر سکتے ہیں لیکن وہ اسلام کو کسی طرح کی سیاسی یا تہذیبی گنجائش دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے ترکی کے معاملے میں ان کا موقف ہمارے نزدیک لغویات اور ہفوات کا مجموعہ بن گیا، بھلے وہ دانشوری بگھارتے ہی رہیں۔ مارکسسٹ سیاسی تناظر میں طبقاتی جدوجہد محض ایک تعصب کا اظہار بن جاتی ہے، اگر کسی تاریخی واقعے کی اسلام سے نسبتیں بالکل سامنے کی چیز ہوں۔ ہم ہیوگو شاویز کے بڑے قدردان رہے ہیں، اور جب ہمارے مارکسسٹ اس کے لیے نعرے بلند کرتے تھے تو ہم بھائی چارے میں ان کے لیے سبیلیں تو لگا ہی دیتے تھے۔ لیکن اس بار ان کی بینائی کا مسئلہ زیادہ سنگین رہا، اور قریب کی چیزیں دکھائی دینا چھوڑ گئیں، اور لاطینی امریکا ان کو گھر کے پچھواڑے میں دکھائی دیتا رہا۔ ان کی نام نہاد فکری صلابت اور عوام دوستی اس واقعے سے بالکل عیاں ہو گئی۔ فکری تفصیلات طے کیے بغیر، طبقاتی وژن کو مذہب کے خلاف استعمال کرنا محض تعصب کا اظہار ہے اور تاریخ سے حالتِ انکار کا ایسا معاملہ ہے جس سے جدلیاتی ادراک بھی انہیں باہر نہیں لا سکتا۔
چند ایک کے علاوہ، ہمارے ہاں دائیں بازو کے مذہبی اور غیر مذہبی دانشوروں نے اردوگان کے خلاف پوزیشن لی ہے، اور جو آوازیں اس کے حق میں ہیں وہ ہم جیسے عام لوگوں کی ہیں۔ اب اس طبقے اور گروہ سے کسی فکری تجزیے کی توقع تو نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ یہاں عقل سے زیادہ نقل کو اولیت حاصل ہے۔ ان کی نگاہ عاجزانہ اور دعائیہ انداز میں مغربی میڈیا پر جمی رہتی ہے۔ وہاں کا موقف ان کے لیے الہام اور دیدۂ بینا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب چونکہ پورا مغرب اور اس کا گماشتہ میڈیا اردوگان کی ”آمریت“ کی خلاف یک آواز ہے، تو ظاہر ہے کہ ہمارے دائیں بازو کے دانشوروں کے نزدیک بھی ”آمریت“ کا مسئلہ ہی اہم ہو گا۔ مغربی میڈیا کے تتبع میں انہوں نے بھی ”آمریت“ کے خلاف وعظ کرنا شروع کیا جیسا کہ الحمد للہ ضیا الحق اور مشرف کے دور میں ان کی ”آمریت دشمنی“ سامنے آ چکی ہے۔ چونکہ مغرب کا موقف ”اصولی“ ہے، تو صاف ظاہر ہے کہ ان کا موقف بھی عین ”اصولی“ ہی ہو گا۔ اس کے علاوہ بھلا کیا ہو سکتا ہے؟ اور یہ اس وقت تک اصولی ہے جب تک ادھر بھی اصولی ہے۔ یہ سارے اصولی ایک ساتھ طلوع ہوتے ہیں، اور ایک ساتھ غائب ہوتے ہیں۔
اردوگان کی ”آمریت“ دراصل ان کا اپنا موقف نہیں ہے کیونکہ جمہوریت کے لیے ہم ان کی عظیم الشان خدمات سے بخوبی واقف ہیں۔ مسلم دنیا میں ”آمریت“ کے خاتمے کے لیے یہ حضرات دانشور دراصل مغرب کے ساتھ ہیں، کیونکہ ”آمریت“ کے خاتمے کی اصل خدمات تو مغربی دنیا ہی کی ہیں، اور یہ صرف توجہ دلانے کے لیے ہیں۔ مثلاً مغربی دنیا نے افغانستان میں ملا عمر کی ”آمریت“ کا خاتمہ کیا، جیسا کہ مصر میں مورسی کی ”آمریت“ کا خاتمہ کیا، لیبیا میں قذافی کی ”آمریت“ کا خاتمہ کیا، الجرائر میں ”آمریت“ کو روکنے کے لیے خون خرابا کرایا اور عراق میں صدام کی ”آمریت“ کا خاتمہ کیا۔ الحمد للہ اب افغانستان، مصر، لیبیا، الجزائر اور عراق وغیرہ میں جمہوریت کا دور دورہ ہے، اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جمہوریت کی یہ خونیں بہار ہمارے دائیں بازو کے اصولی موقف ہی کو آگے بڑھاتی ہے۔ اب یہ تلے ہوئے ہیں کہ ترکی میں ”آمریت“ کا خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔ اللہ ہمیں ان سے محفوظ رکھے۔
ضمناً عرض ہے کہ ہم سے بھی یہ سوال کیا گیا ہے کہ دنیا کو دیکھنے کا ہمارا تناظر کیا ہے؟ ہمارا جواب بہت سادہ ہے۔ دنیا کو دیکھنے کا ہمارا تناظر سیاسی ہے۔ ہمارے نزدیک تجزیے کا مطلب سیاسی طاقت کے واقعاتی نظام اور اس کی امکانی حرکیات کا تجزیہ ہے، جس میں طاقت کو ایک لمحے کے لیے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے نزدیک مسلم دنیا کی سب سے بنیادی اور مرکزی سیاسی حقیقت غلبے کی صورتحال ہے۔ ”غلبے کی صورت حال“ سے مراد یہ ہے کہ مسلم دنیا کی سب سے بڑی ہم عصر سیاسی حقیقت مغرب کا مکمل اور ہمہ جہتی غلبہ ہے۔ اور مسلمانوں کی علاقائی اور عالمی سیاسی صورت حال کا کوئی تجزیہ اس حقیقت کو بنیادی حوالہ بنائے بغیر بدترین درجے کی بددیانتی ہے۔ ہاں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ایسی بات نہیں ہے، یعنی مسلم دنیا مغرب کے غلبے سے آزاد ہے، تو پھر ہماری بات غیراہم بلکہ غلط ہے۔
ہمارے نزدیک اسلام اور سیکولرازم کی بحث کا بنیادی تناظر یہی ”غلبے کی صورت حال“ ہے، جمہوریت اور عسکریت کی گفتگو کا بنیادی تناظر یہی ہے، ترقی اور پسماندگی کا بنیادی تناظر یہی ہے، جبر و استحصال اور امن و عدل کا بنیادی تناظر یہی ہے۔ مسلم دنیا اپنے ہونے سے جس بنیادی ترین سیاسی حقیقت کی مظہر ہے وہ یہی ”غلبے کی صورت حال“ ہے، اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک اس ”غلبے کی صورتحال“ سے حالت انکار میں رہ کر نہ کوئی سیاسی تجزیہ کیا جا سکتا ہے، نہ وہ درست ہو سکتا ہے، نہ وہ دیانتدارانہ ہے، اور نہ وہ انسانی ہو سکتا ہے۔ اگر مسلم ذہن کوئی سیاسی ادراک رکھتا ہے تو اس ادراک کا جزوِ اول یہی ہے۔ سیاسی تجزیے کی اول ذمہ داری اس غلبے کو ایڈریس کرنا ہے۔ اگر اس ”غلبے کی صورت حال“ کی یاد دہانی کے لیے بھی کسی سیاسی تجزیے کی ضرورت ہے، تو ہمارے نزدیک وہ ذہن سیاسی ادراک سے نہ صرف خالی ہے بلکہ وہ کسی سیاسی تجزیے کا مخاطب بھی نہیں ہے۔
ترکی میں فوج کی ناکام بغاوت کے بعد اب یہ بات ہرگزرتے دن پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہے کہ اس کی پشت پر فتح اللہ گولن اور امریکا کی مشترکہ منصوبہ بندی موجود تھی۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے میں خود فتح اللہ گولن کے بیانات نے بھی خاصا کردار ادا کیا ہے۔ اب فتح اللہ گولن نے العربیہ نیوز چینل سے ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
مروہ شبنم اروش ترجمہ: محمد دین جوہر تمہید [ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر ہمارے ہاں تبصرے اور اظہار خیال ابھی جاری ہے۔ ہم نے وجود ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے اپنے ایک گزشتہ مضمون میں قومی میڈیا کے ”تجزیاتی رویوں“ کا ایک مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی تھی۔ لبرل، سیکولر اور مارکسی تجز...
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے امریکی سابق وزیر خارجہ اور موجودہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن پر الزام لگایا ہے کہ وہ سعودی عرب کی ملی بھگت کے ساتھ ترکی میں میں بغاوت کی کوشش کر رہی تھیں، جو ناکام بنا دی گئی۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کے امریکا میں مقیم ترک رہنما فتح اللہ گولن کے...
ترکی میں 15 جولائی کی فوجی بغاوت سے لے کر اب تک ہر رات عوام سڑکوں پر بیٹھ کر جمہوریت کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اب 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے طاقت کے ایک عظیم الشان مظاہرے کے ساتھ اپنا فرض مکمل کردیا ہے۔ 15 جولائی کی شب ہونے والی بغاوت کے دوران 270 لوگ مارے گئے تھے لیکن ...
جس طرح ہمارے کچھ وزراء صاحبان ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر اپنے علاوہ سب کی بغلیں بجاتے ہوئے پائے گئے تھے ویسا ہی معاملہ ہمارے کسی عزیز کا بھی ہوا ۔وزیر تو بے چارے اپنے حاکم عالی مرتبت کے ہاتھوں مجبور ہیں، دکھانے کے لیے اپنے ہی منھ پر طمانچے مار کر گال لال رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں ...
ترک صدر رجب طیب اردوغان ترک عوام کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ جس قوم کے افراد اس رہنما کے لیے ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے تقریر کے دوران شہدا کی یاد میں ایک خوبصورت ن...
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ملک میں ناکام بغاوت کے بعد مغربی رہنماؤں کی جانب سے انقرہ کے ساتھ اظہار یکجہتی نہ کرنے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک جنہیں ترکی میں جمہوریت کے بجائے باغیوں کی فکر کھائے جا رہی ہے، ہر گز ترکی کے دوست نہیں ہو سکتے۔ انقرہ کے صدارتی محل م...
یہ ایک اوسط درجے سے بھی کم ذہانت کا مظاہرہ ہے کہ یہ سوال بھی اُٹھایا جائے کہ بغاوت تو فوج نے کی اور سزا ججوں کو کیوں دی جارہی ہے۔ اول تو کسی بھی بغاوت سے پہلے اُس کے معمار اسی پر غور کرتے ہیں کہ بغاوت کے بعد خود کو قانونی شکنجے سے بچانے اور آئینی خرخرے سے سنبھالنے کا طریقہ کیا ہو...
ترکی میں ناکام بغاوت کے منصوبہ ساز فتح اللہ گولن امریکا کی سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی (سی آئی اے) کے لیے کام کرچکے ہیں، یہ بات روس کی دوما کےنمائندے اور اس کی تعلیمی کونسل کے سربراہ ویاکیسلاف نکونوف نے بتائی ہے۔ سرکاری ٹیلی وژن پر جاری ہونے والی ایک تقریر میں نکونوف نے کہا کہ "گول...
امریکا کی کامیابی یہ نہیں کہ وہ دنیا کے حالات پر گرفت رکھتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ ان حالات کی جس طرح چاہے تفہیم پیدا کرانے میں کامیاب رہتا ہے۔ ترک بغاوت پر جتنے پراگندہ خیال و حال پاکستان میں پیدا ہوئے، اُتنے خود ترکی میں بھی دکھائی نہیں پڑتے۔ مگر امریکا کے لیے تقدیر ن...
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کےبعد ترک حکومت نے نہایت سنجیدگی سے بغاوت کے محرکین کے خلاف ٹھوس کارروائیوں کا سلسلہ جاری کررکھا ہے۔ ترک حکومت نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ترکی کی حالیہ ناکام بغاوت میں فتح اللہ گولن کا مرکزی کردار تھا۔ اور اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ اس ضمن میں ترک حکوم...