... loading ...
ملک میں جمہوریت یرغمال ہے۔ بلوچستان کے اندر سرے سے منظر نامہ ہی الگ ہے۔ جمہوریت کا ورد کر کے حکمران اتحادی جماعتیں قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہی ہیں۔سوچ سمجھ کر خطرناک کھیل کا حصہ بنی ہیں۔ جب حاکم اندھے، گونگے اور بہروں کی مثال بنیں تو لا محالہ تشہیر کسی کی ہی ہو گی۔ بالخصوص پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی اِسی گناہ کی مرتکب ہوئی ہیں کہ جس کا شائد ا زالہ آئندہ وقتوں میں ممکن نہ ہو۔
یہ جماعتیں جمہور کی حکمرانی کا راگ الاپتی ہیں اور بڑی آسانی سے جمہور کی حکمرانی کا سودا بھی کر رہی ہیں۔ بلا شبہ دو نوں جماعتیں طویل جد و جہد کی حامل بھی ہیں۔ چنانچہ اب ایسی جمہوریت کا کیا، کیا جائے کہ جس میں وزیر اعلیٰ، وزراء اور بیوروکریسی ڈکٹیشن لیتی ہوں؟ ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی اور عوام کی فتح پر تو ہمارے ہاں بھی ترک عوام و حکومت کو مبارکباد کے بیانات تواتر کے ساتھ جاری ہوئے۔ لیکن کسی کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔ کوئٹہ کی شاہراوں پر کئی ہفتوں’ ’موو آن‘‘ نامی تنظیم کی جانب سے بینرز لگے رہے۔ سوشل میڈیا میں اس جانب اُنگلی اُٹھائی گئی تب سیاسی جماعتیں بادل نخواستہ بولنے لگیں۔ کوئٹہ یا بلوچستان کے اندر تب بھی کسی جماعت کو اتنی توفیق یا ہمت نہیں ہوئی کہ وہ صوبائی حکومت اور میئر کوئٹہ سے شہر کی شاہراہوں پر آویزاں ان بینروز کو ہٹانے کی اپیل کرتی۔ اور خود فوج اور ان کے اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ کسی کو اس نوعیت کے تشہیری مواد شائع اور سڑکوں پر آویزاں کرنے کی اجازت نہ دیں۔ چند لوگ تو اس طرح کی تشہیر کو پسند کرتے ہوں گے مگر عوام کی اکثریت کے اعصاب پر اس کا اثر خوشگوار نہیں ہوتا اور عوام یہ سمجھ لیتی ہے کہ ایسا فوج کی مرضی و منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔ چند ماہ قبل بلوچستان اسمبلی کے قریب چوراہے پر کسی’’ صاحب‘‘ نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بڑے بڑے بینرز لگا دیئے تھے۔ کوئٹہ میں شاید ہی کبھی اتنے بڑے بینرز دیکھے گئے ہوں گے۔ پورا چوراہا ان بینروں سے ڈھک گیا تھا۔دیکھا جائے تو یہ اچھے لوگ نہیں ہوتے،ان کے مقاصد ہو تے ہیں، شہر کے اندر جس جس نے گاڑی پرآرمی چیف کی تصاویر لگا رکھی ہیں وہ دو نمبر بندہ ہوتا ہے۔ یہ خوشامدی لوگ دراصل ان ہتھکنڈوں سے ذاتی اور کاروباری فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس قماش کے لوگ فوج کے خیر خواہ ہر گز نہیں ہوتے۔ انہیں اپنی ذات کا نفع عزیز ہو تا ہے۔سچی بات یہ ہے کہ اس طرح کے لوگ شہریوں کی نظر میں بھی قدر و عزت نہیں ر کھتے۔
میں اس شہر کا قدیم باسی ہوں اور میں جانتا ہوں کہ شہری ایسے افراد کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں۔ ایک طرف ترک عوام جنہوں نے رات کی تاریکی میں ہی جانوں کے نذرانے دے کر جمہور کی حکمرانی پر ڈاکا ڈالنے والوں کو پسپا کردیا اور ایک ہم کہ جس میں جمہوریت کے خلاف ایک گمنام شخص کے لگائے گئے بینرز کے خلاف دو بول ادا کرنے کی ہمت نہیں۔ کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے میئر
ڈاکٹر کلیم اللہ ہیں اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اہم رہنماء ہیں۔ انہیں بھی توفیق نہ ہوئی کہ دیکھتے کہ آخر ان کی ناک کے نیچے ہو کیا رہا ہے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا تودعویٰ یہاں تک ہے کہ ملک میں جمہوریت بھی ان کے اکابرین کی قربانیوں کی بدولت بحال ہے اور بلوچستان اسمبلی کی عمارت انہی کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ مگر صد افسوس کہ جمہوریت کے علمبردار ’’ میئر‘ کو اتنی جرأت نہ ہوئی کہ شہر کی شاہراہوں پر لگے نامناسب بینرز اتارنے پر میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا عملہ مامور کر تے۔ حالانکہ اسکولوں اورکا رو باری کمپنیوں سے بینرز لگانے کی فیس وصول کی جاتی ہے۔ کیا میئر صاحب کے ہاں ’’مووآن‘‘ نامی تنظیم نے بینرز لگانے کی فیس اد اکی تھی؟ حتیٰ کہ جماعت اسلامی بلوچستان نے بھی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔
ایک اور گھناؤنا عمل سول بیورو کریسی کی تضحیک اور پستی کا ہورہا ہے گویا عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش ہورہی ہے کہ سول بیورو کریسی مطلق بد عنوان اور نا اہل ہے۔ ستم یہ ہے کہ بیورو کریسی خود اپنے بارے میں پھیلتی اس رائے پر یکسر خاموش ہے اور دن بدن اپنے اختیارات کھوتی جار ہی ہے۔ بلوچستان کی بیورو کریسی میں خامیاں و خرابیاں ہوں گی مگر بحیثیت مجموعی اہلیت اور فعالیت کا مجموعہ ہے۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کہ بیوروکریسی کووزراء اور سیاستدانوں کے اثر سے نکالا جائے تواس کی کارکردگی یقینا نمایاں ہو گی۔ اور پھر بلوچستان کے اندر طویل شورش میں یہاں کی سول بیوروکریسی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین نے صوبے کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ہر قسم کے نا مساعد حالات میں کام کیا ہے۔ قتل، اغواء، گو یا جرم اور دہشت گردی کے متنوع حالات میں حکومتی مشینری کو بند ہونے نہیں دیا۔ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹ تو بلوچستان میں پوسٹنگ پر نوکری کو خیر باد کہنے کوترجیح دیتے تھے۔ ایسی ہی صورتحال دیگر صوبوں کے ڈی ایم جی اور پی ایس پی گروپ کے افسران کی تھی۔ کئی بار سپریم کورٹ نے نوٹس لیا مگر وہ کسی صورت آنے پر آمادہ نہ تھے۔ الغرض جمہوریت، جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے والوں کے ہاتھوں بھی یرغمال ہے۔ جس میں بڑی قومی جماعتوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ ہمیں اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنی چا ہیے۔ بلوچستان حکومت کو اپنی سمت کے تعین پر ازسر نو غور کر نا چا ہیے۔ بجائے کسی کے، ہو نا یہ چا ہیے کہ اپنے قد کاٹھ کی بلندی کو مقدم رکھے۔
جوں جوں نومبر کامہینہ قریب آرہا ہے، پاک فوج کے ممکنہ نئے سربراہ کے حوالے سے قیاس آرائیوں کاسلسلہ بھی دراز ہوتا جارہاہے، تاہم بھارت کے موجودہ جنگی جنون کے بعد پیداہونے والی صورت حال میں عوام اور تجزیہ کاروں کی اکثریت کاخیال یہی ہے کہ وزیر اعظم اس نازک وقت میں آرمی چیف تبدیل کرنے ک...
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اپنی انتہا پر ہے ۔بھارت اس کشیدگی میں مزید اضافے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ممکن ہے کہ وہ کسی تصادم سے بھی گریز نہ کرے ۔چنانچہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اندر کے مسائل و تنازعات کے فوری حل پر تو جہ دے ۔بلوچستان کا مسئلہ بھی حل طلب ہے ۔ یہ سوچنا ہو گا کہ ا...
مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہ مولا کے ایک قصبے اڑی میں قائم بھارتی فوجی مرکز پر حملہ بھارت کے ایک بڑے منصوبے کا پیش خیمہ بنتا جارہا ہے۔بھارت نےا ِسے پروپیگنڈے کا ایک ہتھیار اور مقبوضہ کشمیر میں جاری اپنی ریاستی دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کی مذموم چالبازی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ گزشتہ ایک د...
چین پاکستان اقتصادی راہداری ہر لحاظ سے ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ ہے۔ دونوں ممالک یعنی چین اور پاکستان سنجیدہ ہیں اور سرعت کے ساتھ ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ پاک آرمی پوری طرح اس پر نگاہ رکھی ہوئی ہے اور یقینا اس بات کی ضرورت بھی ہے۔ فوج اور تحفظ کے ا دارے فعال نہ ہوں تو منفی ق...
ماہ ستمبر کے افسانے بہت ہیں۔ ہر گزرتے دن کوئی نہ کوئی کہانی دامن خیال کو کھینچتی اور اِسے تاریخ کی کہانیوں سے جوڑ دیتی ہے۔ یہ بات خاص طور پر ملک بھر میں محسوس کی گئی کہ یوم دفاع کے موقع پر وزیراعظم نوازشریف کی ملک بھر میں کوئی خاص مصروفیت ہی نہیں تھی۔ گزشتہ برس وزیر اعظم نوازشریف...
پاکستان پہلے مضبوط تھا اور اب ناقابل تسخیر ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے غیر روایتی جنگ کا شکار تھا تاہم قوم اور فوج نے اس کا بھر پور دفاع کیا۔ ان خیالات کااظہار پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں یوم دفاع کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اُ...
رواں مہینے کو ایک مرتبہ پھر ستمگر کہا جارہا ہے‘سیاسی نشیب وفراز پر نظر رکھنے والے اور ایوان اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والے تماشوں کے واقفان حال کہہ رہے ہیں ستمبر ستمگر ثابت ہوگا۔ اب ایسا وہ ستمبر ستمگر کے ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے کہہ رہے ہیں یا پھر واقعی اس کے پیچھے کچھ ہے۔ س...
پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان تمام تر رنجشوں کے باوجود ایثار اور محبت کا رشتہ ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ اگر چہ غنیم یہی چاہتا ہے ۔ یہ والہانہ تعلق صدیوں پر مشتمل ہے۔ برصغیر پر انگریز راج کے بعد بالخصوص برطانوی ہند کے مسلمان رہنماؤں کے ساتھ افغان امراء کا انس و قربت کا کوئ...
حکومت اور عسکری اداروں کے مابین تعلقاتِ کار میں پیدا ہونے والی ابتری تاحال برقرار ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق پاناما لیکس کے دنوں سے سیاسی اور عسکری تعلقات میں بڑھنے والی خلیج تاحال پاٹی نہیں جاسکی۔ اس تناظر میں عسکری اداروں کا پنجاب کی طرف رخ کرنا کافی معنی خیز قرار دیا جارہا ہے۔ و...
قومی اسمبلی کے 9؍اگست کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کی تقریر بہت ساروں پر بجلی بن کر گری ، برقی میڈیا پر محمود خان اچکزئی کی کچھ یوں گرفت ہوئی کہ جیسے سول ہسپتال جیسا ایک اور سانحہ رونما ہوا ہو۔اور تواتر کے ساتھ غداری کے فتوے آنے شرو ع ہو گئے۔ حالانکہ ملتے جلتے رد عمل کا اظہار ع...
کوئٹہ کے نوجوان باکسر محمد وسیم نے ورکنگ باکسنگ کونسل انٹرنیشنل سلور فلائی ویٹ ٹائٹل جیت کر عالمی شہرت حاصل کرلی۔ یہ مقابلہ جنوبی کوریا کے شہر سیؤل میں ہوا۔ مد مقابل فلپائن کا باکسر’’ جیتھر اولیوا‘‘ تھا جس کو آسانی سے مات دیدی گئی۔ محمد وسیم یہ ٹائٹل جیتنے والا پہلا پاکستانی باکس...
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے پاکستان کے موجودہ حالات میں ایک اہم موقع پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے غیر مناسب بیانات اور تجزیئے قومی کاز کو نقصان پہنچا رہے ہیں جب کہ اس طرح کے اکسانے والے ریمارکس قومی کوششوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہیں۔ پاک فوج کے ...