... loading ...
ایمان کو علم بنا دینا بے ایمانی ہے، اور علم کو ایمان بنا لینا، لاعلمی!
اس قول زریں میں احمد جاوید صاحب نے علم پر مذہبی موقف کو سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔ سب سے پہلے اس قول کی تہہ میں کارفرما موقف کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ گزارش ہے کہ علم کی ایسی تعریف کہیں میسر نہیں ہے، یعنی کہیں بھی میسر نہیں ہے، جس کے مطابق مثلاً فزکس اور وحی کا بیک وقت علم ہونا ثابت ہو جائے۔ اگر اس تعریف کے مطابق فزکس علم ہے تو وحی یقیناً اس تعریف سے خارج ہو گی۔ اور اگر اس تعریف پر وحی علم ہے تو فزکس کا علم ہونا محال ہے۔ اب یہ مسئلہ صرف سائنسی علوم تک محدود نہیں ہے۔ تمام تر جدید سیاسی اور سماجی علوم اور وحی کا باہمی تعلق بھی یہی ہے۔ یہ مسئلہ اتنا بنیادی اور بڑا ہے کہ اس کے جواب میں پوری تہذیب تشکیل پاتی ہے۔ جدید عہد میں ہمیں یہی مسئلہ درپیش ہے، اور ہم ابھی تک اس مسئلے کو دیکھنے کے درست تناظر کے قریب بھی نہیں پہنچ پائے، حل تو دور کی بات ہے۔ معتزلہ اور اشاعرہ کی علمی جدلیات میں اصل مسئلہ یہی تھا، اور ہمارے ہاں علم کی منقولی اور معقولی تقسیم کی بنیاد بھی اسی مسئلے کے حل کے نتیجے میں سامنے آئی تھی۔ لیکن جدید عہد میں یہ مسئلہ ایک نئے انداز میں پھر سے کھڑا ہو گیا۔ ہمارے اسلاف کی دینی اور علمی بصیرت گہری تھی، اور وہ اس مسئلے کی شدید اہمیت سے واقف تھے، اور اسی وجہ سے انہوں نے اس پر ایک طویل جنگ لڑی۔ ہم نے نہایت بھونڈے انداز میں ایمان اور جدید علوم میں تطبیق سے نہ صرف ہر طرح کے علوم ہی کا خاتمہ کر دیا بلکہ ایمان کو باقی رکھنے کے علمی اور فکری وسائل سے بھی محروم ہو گئے۔ جعلی تطبیق دینی شرائط پر ایمان کو ناممکن بنا دیتی ہے اور انسان کا عمل تاریخی قوتوں کا آلۂ کار بن جاتا ہے۔
جیسا کہ اس قول سے متبادر ہے کہ انسانی شعور میں ایمان اور علم دونوں اپنی اپنی شرائط پر باقی نہیں رہ سکتے۔ یہاں ایمان سے مراد ایمان بالغیب ہے جو صرف اور صرف خبر صادق سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ایمان وحی کے روبرو انسانی شعور کی مکمل انفعالیت ہے، اور علم دنیا و کائنات کے سامنے انسانی شعور کی مکمل فعالیت ہے۔ اگر انسانی شعور وحی کو ماننے کی بجائے اسے ”جاننے“ کے لیے ”زیر مطالعہ“ لا کر اس پر وہی مطالبات، تحدیدات اور منہاجات وارد کرتا ہے جو وہ شے سے رکھتا ہے تو ایمان ”بے ایمانی“ میں بدل جاتا ہے۔ یہاں ”بے ایمانی“ سے مراد کفر ہے، یعنی ایمان سرے سے باقی ہی نہیں رہتا۔ اگر ہمارے ہاں عقائد کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو خوب اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے اسلاف ایمان کو علم بنانے کے تمام انسانی داعیات کی پیش بندی کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان کی ”علمی“ تفصیلات پر بھی روک لگا رہے ہیں۔
اس قول زریں کے دوسرے حصے سے ایک بات فوراً واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان اور علم کا مسئلہ اٹوٹ ہے۔ اگر مذہبی آدمی اپنے ایمان کو علم بنانے کی غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے تو غیر مذہبی آدمی اپنے علم کو ایمان بنانے کا داعیہ رکھتا ہے۔ مذہبی آدمی یہ کام تاریخی دباؤ کے تحت کرتا ہے اور غیرمذہبی آدمی اپنے وجودی مطالبات کی تشفی کے لیے ایسا کرتا ہے۔ اپنے طریقۂ کار اور نتائج کے اعتبار سے یہ دونوں ایک ہی طرح کی چیزیں ہیں۔ علم کو ایمان بنانا ”لاعلمی“ یعنی جہالت ہے، اور اس سے مراد ہے حقیقت سے غیاب کو حقیقت کی جگہ دے دینا، اور اس حالت انکار کی اپنے شعور، ارادے اور نفس پر سائبانی تشکیل کرنا ہے۔ یہی وہ ”لاعلمی“ ہے جس سے عصر حاضر کی غیرمعمولی طاقتور تہذیب پیدا ہوئی ہے جسے مہائی نیڈن اپنی کتاب میں ”جہالت کی تہذیب“ قرار دیتا ہے۔
اندھیرے جو دل کو ظلمت خانہ بنا دیں وہ رات کو آتے ہیں اور جو ذہن کو تاریک کر دیں وہ دن کو پھیلتے ہیں۔ اندھیرے جو احوال بن جائیں وہ رات میں اترتے ہیں، اور ظلمت جو فکر بن جائے وہ دن کو بڑھتی ہے۔ آج دنیائے آفاق خود اپنے ایندھن سے اور انسانی کاوش سے روشن ہے۔ یہ دنیا انسان کا گھر تو ہے...
اگر اس قول زریں میں ”ذہانت“ کا مفہوم طے ہو جائے تو اشکال ختم ہو جاتا ہے۔ یہ اشکال ذہانت کے حوالے سے ”علم“ اور ”جہل“ کی ہم منصبی سے پیدا ہوتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ذہانت کا مفہوم کیا ہے یا درست تر معنی میں اس کی تعریف کیا ہے؟ علم کی عمارت دراصل تعریفات کی اینٹوں سے کھڑی ہوتی ہے۔ ای...
دیکھو تو ہم کیا بن گئے ہیں! دریا کی مخالفت پر کمربستہ بلبلہ، مٹی سے بغاوت پر آمادہ ذرہ اور تاریخ کو للکارنے والا ایک ضدی لمحہ اس سے احمق بلبلہ، اس سے نادان ذرہ، اس سے بے وفا لمحہ قابل تصور نہیں ہو سکتا۔ یہ اس مسخ شدہ، کارٹون نما بلبلے، ذرے اور لمحے کی کہانی ہے جو نہ خود سے وا...
"شاعری کا ذوق نہ ہو تو آدمی 'مولوی' تو بن سکتا ہے، عالم نہیں!" جمال کے آتش پیرہن جلوے آب معانی میں بسنے پر راضی ہو جائیں تو شاعری پیدا ہوتی ہے، اور اس ”آبدار پانی“ کا جرعہ نصیب ہونا ذوق ہے۔ ہمارے ہاں شاعری پر جھگڑا نہیں، اور وہ جو عظیم المرتبت یونانی استاد شاگرد کا جھگڑا ہے، ا...
"بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں" بعض اوقات اصل بات اس قدر اہم ہوتی ہے کہ اسے براہ راست کہنے سے مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس قول زریں کی تہہ داری ہمارے عصری حالات پر تبصرہ بھی ہے، اور اصل بات تک پہنچنے کے لیے مہمیز بھی ہے۔ اول تو اس قول میں ”بعض“ کا لفظ نہایت ...
سیکولرزم ایک سیاسی نظام کے طور پر دنیا میں عملاً قائم ہے، اور ایک فکر کے طور پر علوم اور ذہن میں جاری ہے۔ یہ ایک کامیاب ترین نظام اور موثر ترین فکر ہے۔ اب سیکولرزم دنیا کا معمول بھی ہے اور عرف بھی۔ عام طور پر یہ سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب کے خلاف ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات د...
احمد جاوید تنہ نا ھا یا ھو تنہ نا ھا یا ھو گم ستاروں کی لڑی ہے رات ویران پڑی ہے آگ جب دن کو دکھائی راکھ سورج سے جھڑی ہے غیب ہے دل سے زیادہ دید آنکھوں سے بڑی ہے گر نہ جائے کہیں آواز خامشی ساتھ کھڑی ہے لفظ گونگوں نے بنایا آنکھ اندھوں نے گھڑی ہے رائی کا دانہ یہ دنیا کو...
اونچی لہر بڑھا دیتی ہے دریا کی گہرائی تیرے غیب نے دل کو بخشی روز افزوں بینائی سات سمندر بانٹ نہ پائے موتی کی تنہائی ناپ چکا ہے سارا صحرا میری آبلہ پائی مالک میں ہوں تیرا چاکر مولا! میں مولائی دل ہے میرا گیلا پتھر جمی ...