... loading ...
پچھلی قسط میں مدر ٹریسا اور ان کی خدمات کا جو ہیولا ابھرتا ہے وہ سر تاسر کیتھولک چرچ کی فرنچائز والا ہے۔ ان کی تنظیم Missionaries of Charity ہندوستان کے علاقائی صدر دفترArchdiocese of Calcutta کا ذیلی ادارہ تھی۔کلکتہ کے بنگالی جو طبیعتاً فنون لطیفہ کی طرف مائل تھے اور مذہباً کشادہ دل اور سیکولر تھے وہ بخوبی جانتے تھے کہ نرمل ہردے ہسپتال جہاں لاعلاج غریب بنگالی ہندو مریضوں کو اپنی زندگی کے آخری ایام میں یسوع مسیح کی مالا جپپنے پر آمادہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ سایۂ صلیب کے تلے دم توڑتے وقت منتظمین کے لیے ذریعۂ نجات بنیں۔ ان کا یہ غریب غربا کی امداد کا سوانگ در اصل اس بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔میکالے جب1837 میں بھارت سے واپس انگلستان لوٹا تو اس کے ذہن میں تخریب کاری کے بہت منصوبے تھے۔اسی منصوبے کے تحت مغرب سے عیسائی مشنریوں کی یلغار شروع ہوگئی۔اسی یلغار کا نتیجہ ہے کہ میزو رام ، ناگا لینڈ اورگوا کی ریاستوں میں عیسائی ہندووں سے زیادہ بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ جب کہ آندھرا پردیش، تامل ناڈو اور کیرالہ میں بھی ان کا بہت زور ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت جن سنگھی ان کی مخالفت پر اترے ہوئے ہیں۔
مدر ٹریسا سے منسوب یہ دو ا قوال بھی ان کے مخالفین کی نوک زبان پر رہتے ہیں کہ
’’میرا خیال ہے غربت میں بہت حسن ہے۔غریب اسے اللہ کا انعام سمجھیں۔ مال و منال سے محرومی حضرت عیسیؑ کا وصف حمیدہ ہے۔دنیا کا سارا حسن کاروبار غریبوں کی مشکلات کی وجہ سے ہی چل رہا ہے۔‘‘
اور دوسرا قول یوں ہے کہ
“We are not nurses, we are not doctors, we are not teachers, we are not social workers. We are religious, we are religious, we are religious.”
ایدھی، مدر ٹریسا کے مقابلے میں سو فیصد قلندر تھے، صوفی منش ۔ویسے تو کوئی مسلمان اس وقت تک اچھا مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ اچھا انسان نہ بن جائے۔ا یدھی صاحب نے خدمت کو شعار زندگی بنا لیا ۔ باقی تقاضوں سے وہ کچھ لاتعلق سے ہوگئے ۔ا یک فقیر بے درکی مانند ، نہ کسی کا راستہ روکتے تھے۔ نہ دامن تھامتے تھے۔ جب کہ مدر ٹریسا کو چرچ کی جانب سے انسانیت کی خدمت کرنے کے معاملے میں مکمل تعاون حاصل تھا ۔ وہ تمام مشہور لوگ Celeberetiesجو ان کے ساتھ فوٹو سیشن کرنا چاہتے تھے جن میں دہشت گرد، ڈکٹیٹر اور منشیات کے بڑے اسمگلروں کے علاوہ ضمیر کے کسی وقتی دباؤ کا شکار مشہور ہستیاں بھی تھیں ان کی جیب بھی وہ راہ عیسیؑ میں ٹھیک ٹھاک انداز میں جھاڑ لیتی تھیں۔
ایدھی اس کے برعکس مکمل طور پر سادہ لوح آدمی تھے۔ کسی نے ایک چھوٹی سی ڈبہ گاڑی دی تو وہ اسے پینتالیس سال پہلے ایمبولنس بنا بیٹھے۔ ادھر ادھر سے میمن لوگوں سے عطیات لے کر ایک کمرے کا ویلفیئر ہوم میٹھا در میں بنا ڈالا۔پاکستان میں یا باہر جب کبھی آفات اور ہنگامی امداد کی ضرورت ہوتی ایدھی صاحب چپ چاپ وہاں پہنچ جاتے تھے۔انہیں زور اور ضابطوں سے روکنا پڑتا تھا۔وہ ستر کے اوائل میں نائیجریا کے علاقے بیافرا میں قحط میں گئے،مشرقی پاکستان کے بلاخیز طوفانوں میں، بیروت کے صابرہ اور شتیلہ کیمپوں،نیپال کے زلزلہ میں ، ہر جگہ پہنچے، ان کا ارادہ تو بوسنیا، بھوج ، کشمیر ،غزہ اور فلسطین میں بھی ہنگامی امداد لے کر جانے کا تھا مگر مختلف قسم کی دشواریاں اجازت ملنے کے حوالے سے پیش آئیں۔
یہ ایدھی صاحب کا کارنامہ ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن اب دنیامیں کسی فرد واحد کی جانب سے قائم کردہ سب سے بڑی این جی او ہے جس کے زیر انتظام گونا گوں قسم کی خدمات کا ایک بڑا سا پورٹ فولیو کھلا ہے۔ یہ کسی مذہبی تنظیم، فرقے یا کسی ادارے کی طفیلی نہیں۔مکمل طور پر خود مختار ہے ،گوپچھلے بیس برسوں سے اس کے مالی معاملات پر بھی دبے دبے الفاظ میں تنقید ہوتی رہتی ہے بالخصوص اس کے بیرون ملک اکاؤنٹس کے بارے میں ۔ اس کے باوجود اس کی زمینی خدمات اس قدر بے لوث اور بے نظیر ہیں کہ اعتراضات خدمات کی پھوار میں دُھل جاتے ہیں۔
ایدھی صاحب کو سب سے زیادہ لائم لائٹ میں ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق لائے۔ضیا الحق کے دور میں ان کے معیار پر پورا اترنے والے معتبر اور قابل تقلید لوگوں کا یکایک کال پڑگیا تھا۔فلم،فن اور آرٹ سے وابستہ خواتین و حضرات اس رزم حق باطل میں فولاد ہے مومن ، والے ضیا الحق کے معیار تحریم و تقدیس پر Trampoline کرتے تھے۔ (Trampoline کینوس کا وہ تنا ہوا پلیٹ فارم جس پر بچے کود پھاند کر کلکاریاں کرتے ہیں)۔اید ھی صاحب اس معیار پر ایسے پورے اترتے تھے جیسے ٹیلوپ نما پتلی ڈنڈی کے کرسٹل جام شمپین۔ اب انہیں ہر جگہ بلایا جاتا ۔پی ٹی وی کے ایوارڈ میں بھی،مارشل لاء کی ٹیسٹ ٹیوب بے بی مجلس شوریٰ میں بھی ۔اس سے بھی بڑھ کر مرد مومن ، مرد حق نے ایک عدد بلینک چیک بھی انہیں بھجوایا۔مدر ٹریسا ہوتیں تو انہیں اس عطیۂ فیض کے عوض ضیا الحق کو مسلمانوں کا نومولود مسیحا قرار دینے میں ذرا تامل نہ کرتیں۔ایدھی صاحب نے وہ عطیہ شکریے کے ساتھ لوٹا دیا تھا۔ وہ پیسے کے معاملے میں بالکل میمن تھے۔نو نان سینس۔سرکار یا کسی خاص تنظیم کی جانب سے عطیہ انہیں قبول نہ تھا اور کوئی عطیہ دینے والا اگر اس کے ساتھ یہ شرط لگاتا تو کہ یہ صرف اس مد یا اس گروپ کے اوپر خرچ ہوگا تو یہ رقم بھی واپس کردی جاتی ۔اس کے برعکس جب لاہور میں شوکت خانم میموریل ہسپتا ل کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو عمران خان کی شخصیت کے احترام میں سب سے بڑا عطیہ ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے دیا گیاتھا۔
ان کی جھولا اسکیم جس میں والدین نومولود بچے چھوڑ جاتے ہیں اسی وصف قلندرانہ کی مرہون منت ہے ۔ ہمیں محترمہ بلقیس ایدھی نے خود بتایا کہ انہیں روزانہ پچاس کے لگ بھگ ایسے نومولود بچے زندہ اور مردہ حالت میں ملتے ہیں۔ یہ تعداد ان بچوں سے علیحدہ ہے جنہیں ذہنی بیماریوں اور جسمانی معذوریوں کے سبب بے کس اور لاچار والدین ان سینٹرز پر تا عمر چھوڑ جاتے ہیں۔
ایدھی صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت برس پہلے وہ بولٹن مارکیٹ والی میمن مسجد میں بھولے بسرے فجر کی نماز پڑھنے پہنچ گئے۔اس وقت وہاں پر گرما گرم بحث ہورہی تھی کہ جو بچہ مسجد انتظامیہ کو مسجد کے صدر دروازے پر پڑا ہوا ملا ہے اس کا کیا کریں۔ اس کا نہ تو کوئی باپ ہے ، نہ زچہ۔کسی نے مشورہ دیا کہ یہ بچہ حرام کا ہے۔ گناہ کی پوٹ ہے۔ اسے مار ڈالنا ہی بہتر ہوگا ۔انہیں دنوں اداکار محمود کی فلم ’’کنوارا باپ ‘‘آئی تھی ۔فلم کے ایک سین میں غریب سائیکل رکشہ والے محمود کو بھی چھاجوں برستی برسات میں ایک بچہ مندر کے باہر پڑا مل جاتا ہے۔ وہ ترس کھاکر اسے اٹھاتا ہے عین اس وقت کوئی پانڈہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ اپنا بچہ مندر کے باہر پھینکنے آیا ہے ۔ اور اس کی مشکلات کا آغاز ہوجاتا ہے۔آپ کو اس حوالے سے محمد رفیع کا وہ گانا بھی یاد ہوگا جو پاکستان میں دلہنوں کے ناکارہ کزن دوپٹہ منھ پر ڈال کر عام طور پر مہندی کی تقریبات میں یا گھریلو محافل ڈھولکی میں ناچ ناچ کر گاتے ہیں کہ ع سج رہی میری اماں جان سنہری گوٹے میں۔ممکن ہے ایدھی صاحب کے کسی لیاری والے والنٹیئر نے ان دنوں کرائے کے وی سی آر پر یہ فلم دیکھی ہو اور نامعلوم لاشوں کو کفناتے وقت ایمبولنس چلانے کے دوران ایدھی صاحب کو اس کی اسٹوری سنائی ہو۔یہ نہ بھولیے کہ ایدھی صاحب بھی اپنی جوانی میں Movie Buff تھے ۔ہم نے تصدیق نہیں کی۔
ایدھی صاحب کی ادائیگی صلوۃ الفجر کے لیے مسجد میں آمد پر ایک تکا فضیحتی چل رہی تھی کہ بچے کو جان سے ماردیں کہ کوڑے پر پھینک آئیں۔عین اس لمحے وہاں موجودکسی خدا ترس بیوپاری نے سمجھایا کہ گناہ ہوا ہے تو ماں باپ سے ہوا ہے۔ بچہ تو معصوم ہے۔اس کو کیوں ہلاک کیا جائے ۔ ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ لوگ ڈاکٹر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دوائی کی گولی وہ خود کھا کر دکھائے ۔حاضرین نے بچہ اس کے سر مڑھنا چاہا ۔ اس بے چارے کے سر ہوگئے کہ انسانیت کا اگر اتنا ہی دل میں دکھ ہے تو وہ لے جائے اور پالے۔ان ہی لمحات بحث اور رد و کد میں ایدھی صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ بچہ اپنے ہاں لے جائیں گے ، اسے پالیں گے۔ وہ اور ان کی بیگم بلقیس اس کے والدین بن کر دکھائیں گے۔
یہ بچہ اب کسی بڑے مالیاتی ادارے میں بہت اہم عہدے پر فائز ہے۔(آپ سے درخواست ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بلا واسطہ ٹیکسوں سے ہراساں ہوکر آپ بلاوجہ اسے وزارت خزانہ اور اس کے ماتحت اداروں میں کھوجنے نہ لگ جائیں ) ۔ایسے بچوں کی جنہیں ان کے والدین ان جھولوں میں چھوڑ گئے تھے ان کی تعداد بھی اب ہزاروں میں جاپہنچی ہے۔ خود جھولوں کی تعداد پاکستان میں 335 ہے ۔ان میں سے بعض نونہال تو غیر ممالک میں اس راز سے بے خبر اپنے نئے والدین کی محبت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔جیسے ہماری دوست نازلی کی لے پالک بیٹی مبارکہ جو اب شیٹ لینڈ پونی کی سواری کرتی ہے اور بنارس سے لائی ہوئی چھوٹی ستار پر لتا کے پرانے گانوں کی گت بجاتی ہے۔ ان دنوں کسی Swiss Finish School میں تین عدد عرب شہزادیوں کی ہم جماعت ہے ۔اپنی یہودی نانی عیسائی دادا ،دادی،عیسائی نانی، مسلمان ماں اور باپ کی چار ممالک جن میں برطانیہ ، سوئزرلینڈ اور جرمنی بھی شامل ہیں، تنہا وارث ہے۔
پاکستان میں کچھ لوگ اس بات پر پر امید ہیں کہ ایدھی صاحب کو بعد از مرگ نوبل پرائز مل جائے گا۔ایسا نہیں ہوگا ۔ پاکستان میں نوبل انعام کے حقدار پانچ افراد ہیں دو ادب میں یعنی اقبال اور فیض ۔تین انسانی خدمت میں یعنی عمران خان، ایدھی اور ڈاکٹر ادیب رضوی مگر نوبل انعام دینے کا فیصلہ بہت سیاسی اور اکثر متنازع ہوتا ہے ۔ملالہ ،بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو (جنوبی افریقہ) ڈاکٹر شیرین عبادی(ایران) اورخان پامک (ترکی) نجیب محفوظ (مصر) کو یہ انعام اس لیے نہیں ملا کہ وہ اس کے بہت حقدار تھے بلکہ اس لیے ملا کہ وہ فیصلے کے وقت’’ درست طرف ‘‘کھڑے تھے۔اس کے برعکس یہ انعام شیخ احمد دیدات، ہارکو مراکامی( جاپان)، اروندھتی رائے (بھارت ) ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر ابو لالمظفر اول فاقر محی الدین ابوالکلام ( تعلیمی خدمات بھارت)،نذیر قحبانی (شام) اور ہمارے پانچ نمائندہ افراد یعنی اقبال اور فیض۔ آخر الذکر تین افراد یعنی عمران خان، ایدھی اور ڈاکٹر ادیب رضوی کو ملنا محال لگتا ہے گو یہ سب حضرات اپنے میرٹ،خدمات میں ان سب سے کہیں آگے ہیں۔
پیار اور انعام کا ایک ہی معاملہ ہے ۔ آپ اسے بھیک سمجھ کر مانگیں اور احتجاج کرکے حاصل کریں تو نہ یہ پیار ہے نہ انعام۔سو مٹی پاؤ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ کرنے والے مارمڈیوک پکتھال جن کو زندگی میں خاصی ناکامیوں اور مشنری گھرانے کا فرد ہونے کے ناطے بے حد مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ان کی قبر پر ایک عجب کتبۂ بے نیازی درج ہے۔
THOSE WHO DO GOOD THEIR REWARD IS WITH ALLAH ALONE.
وہ جو کار خیر کرتے ہیں ان کا جزا اور صلہ تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے۔
بھارتی حکمراں جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت نے نوبیل انعام یافتہ مدر ٹریسا کے فلاحی ادارے کے بھارت بھر میں تمام اکاؤنٹس منجمد کردئیے ۔ادھر مدر ٹریسا مشنری آف چیریٹی نے بھارت بھر میں اپنے تمام اداروں کو ہدایت کی کہ وہ تنظیم کے غیرملکی فنڈز کے اکاؤنٹ کو آپریٹ نہ کریں کیونکہ بھا...
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...