... loading ...
15 جولائی 2016 ء کی شب گزشتہ 48 سال کے دوران چوتھی مرتبہ ترکی میں ’’فوجی انقلاب‘‘ کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی۔ بغاوت کا المیہ ہے کہ اگر کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو تو غداری کہلاتی ہے۔ 15 جولائی کا فوجی اقدام چونکہ ناکام ثابت ہوا لہٰذا باغیوں کے سرخیل 5 جرنیل اور 29 کرنل حراست میں لے کر فارغ کردیئے گئے اور 1500 کے قریب نچلے درجے کے افسر اور سپاہی گرفتار ہوگئے جن پر مقدمات چلیں گے اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے مطابق انہیں عبرتناک سزائیں دی جائیں گی اور ترک فوج کو غداروں سے پاک کیا جائے گا۔
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت سے پاکستان میں جعلی اور جاگیر دارانہ جمہوریت کے ڈھنڈورچیوں کے دل چوڑے ہوئے ہیں۔ وہ بغلیں بجا رہے ہیں پاکستان میں فوجی اقدام کے حامیوں کو ڈرا رہے ہیں‘ منہ چڑا رہے ہیں۔ ترکی کی مثال دے کر پاکستانی عوام سے توقعات بندھا رہے ہیں کہ جس طرح ترک عوام نے بے مثال بہادری اور جرأتمندی کے ساتھ ٹینکوں ‘توپوں اور بندوقوں کے آگے سینہ کھول کر جمہوریت اور منتخب حکومت کا دفاع کیا ہے اسی طرح پاکستانی عوام بھی کسی فوجی اقدام کی صورت میں سڑکوں پر نکل آئیں گے اور سخت مزاحمت کریں گے۔ ان بزر جمہروں کو تجزیہ اور موازنہ کرتے وقت یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ترک صدر طیب اردوان اور وزیر اعظم سے آخر ترکی کے عوام اس قدر والہانہ محبت کیوں کرتے ہیں۔ ماضی کا ترکی اور عوام ایسے نہیں تھے ‘ وہ بھی اپنے حکمرانوں اور طوطا چشم سیاستدانوں سے اتنے ہی نالاں تھے جتنے پاکستان کے عوام ہیں۔ ترکی میں پہلی فوجی بغاوت 1968ء میں ہوئی تو ترک عوام نے کسی مخالفت کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ ترک وزیر اعظم عدنان مندریس نے سیکولرازم کی الگ تشریح کی اور اسلام پر بے جا پابندیوں کو ہٹایا تو فوج بھڑک اٹھی۔ فوج جدید ترکی کے بانی مصطفےٰ کمال پاشا کے نظریات کی حامی تھی جو جمہوریت اور سیکولر ازم پر مشتمل تھے۔ مصطفےٰ کمال پاشا کے نام پر فوجی حکومت کو زیادہ مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ فوج نے وزیر اعظم عدنان مندریس کو گرفتار کرکے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح تختہ دار پر لٹکا دیا اور اپنی حکومت قائم کرلی۔ اس دوران سول ملٹری مشترکہ نظام چلانے کی کوشش کی گئی اور 1970 ء کا پورا عشرہ بدترین سیاسی بحرانوں میں گزرا۔ مخلوط حکومتیں امن وامان قائم رکھنے میں ناکام ہوئیں چنانچہ ستمبر 1980 ء میں فوج نے ایک بار پھر اقتدار پر مکمل قبضہ کرلیا۔ ساڑھے چھ لاکھ افراد کو گرفتار کرلیا گیا جن میں سے 50 سیاستدانوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔ نیا آئین تشکیل دیا گیا جس میں فوجی بغاوت کے ذمہ داروں کو ’’بخش‘‘ دیا گیا اور تحفظ مل گیا جس طرح 5 جولائی 1977 ء کو پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں کو آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت تحفظ دیا گیا تھا۔ بعدازاں ترکی میں اسلام پسند جماعت اے کے پی کی تحریک پر ریفرنڈم کے ذریعے یہ تحفظ ختم کردیا گیا تھا۔ 1980 ء کی فوجی بغاوت کے دو مرکزی کردار چیف آف جنرل اسٹاف جنرل کنعان ایورین اور ترک فضائیہ کے سربراہ تحسین شاھین تھے ان کے خلاف اپریل 2010 ء میں جب مقدمات شروع ہوئے تو اس وقت ان کی عمریں 80 سال سے زائد ہوچکی تھیں چنانچہ انہیں اپیلوں میں معافی مل گئی۔ 1989 ء میں طورغت اوزال ترکی کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے معاشی اصلاحات پر توجہ دی اور ترکی کے عام باشندوں کی حالت بہتر بنا کر ان کے دلوں میں اپنے لئے اہم مقام حاصل کرلیا لیکن 1993ء میں ان کے انتقال باعث ایک بار پھر اچھی قیادت کا خلا پیدا ہوگیا ان کے بعد وزیر اعظم سلیمان ڈیمرل ترکی کے صدر منتخب ہوگئے اور سابق وزیر خزانہ تانسو چیلر نے ترکی کی پہلی خاتون وزیر اعظم کی حیثیت سے عہدہ سنبھال لیا۔ وہ راہ حق پارٹی کی صدر تھیں۔ 1995 ء میں اسلام پسند رفاہ پارٹی ایک بڑی انتخابی قوت بن کر ابھری۔
1914 ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو ترکی ’’سلطنت عثمانیہ‘‘ کے نام سے مسلمانوں کی عظیم نشاۃ ثانیہ کہلاتا تھا اور اس کا سربراہ پوری مسلم دنیا کا خلیفہ تھا۔ اس جنگ کا اختتام مسلمانوں کی آخری خلافت کا خاتمہ ثابت ہوا۔ ترکی کے نئے قائد مصطفےٰ کمال پاشا نے ’’ترکی برائے ترک‘‘ اور سب سے پہلے ترکی کا نظریہ دیا اور ترکی کو باقی مسلم دنیا سے الگ کرلیا۔ عربی زبان میں نماز ختم کردی گئی اور ترک زبان میں رائج ہوگئی۔ یہ دور کم و بیش 18 سال تک جاری رہا لیکن دوبارہ عربی زبان کے لئے علماء کی تحریک بھی ساتھ ساتھ جاری رہی اور بالآخر علماء اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے‘ رفاہ پارٹی اسی جذبہ کا مظہر تھی۔ پارٹی کے سربراہ نجم الدین اربکان انتخابی جیت کے بعد ترکی کے وزیر اعظم بنے لیکن فوج اور سیاستدانوں پر مشتمل قومی سلامتی کونسل نے سخت مزاحمت کی جس کے باعث وزیر اعظم اربکان جون 1997 ء میں مستعفی ہوگئے۔ فوج نے اقتدار پر قبضہ کرکے نجم الدین اربکان کے تاحیات سیاست پر پابندی لگادی۔ پاکستان میں پہلے فوجی انقلاب کے بعد صدر جنرل ایوب خان نے ایبڈو کے تحت میاں ممتاز دولتانہ‘ ایوب کھوڑو اور دیگر کئی سیاستدانوں کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی تھی۔ ترکی میں اس پابندی کا فائدہ بلند ایجوت کی بائیں بازو کی پارٹی کو ہوا۔ انہوں نے مادر وطن اور راہ حق پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی۔ 18 اپریل 1999 ء کے قومی اور بلدیاتی انتخابات میں تین جماعتوں جمہوری پارٹی‘ مادر وطن پارٹی اور قوم پرست بائیں پارٹی نے انتخابی اکثریت حاصل کی اور 5 مئی 2000 ء کو حمد نجدتسیزر ترکی کے صدر منتخب ہوگئے۔ مئی 2002 ء میں وزیر اعظم کی اپنی جمہوری بائیں پارٹی کے 60 ارکان اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہوگئے جن میں نائب وزیر اعظم‘ وزیر خزانہ اور کئی وزراء شامل تھے چنانچہ عام انتخابات سے 18 ماہ قبل 3 نومبر 2002ء کو نئے انتخابات کا اعلان ہوا۔ رفاہ پارٹی سے نکلنے والا ایک دھڑا ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ کے نام سے انتخابی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی جسٹس پارٹی نے 2007 ء کے انتخابات میں بھی دوبارہ کامیابی حاصل کی اور اپنی زبردست معاشی پالیسیوں و اصلاحات کے ذریعے ترک عوام کی محبوب پارٹی بن گئی۔ عوام نے 15 جولائی کی شب اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر فوجی قبضہ سے جمہوریت کو بچالیا۔
ترکی کے صدر طیب اردوان نے 1999 ء کے بلدیاتی انتخابات میں استنبول کے میئر کی حیثیت سے اپنی سیاسی اننگ کا آغاز کیا تھا۔ میئر کی حیثیت سے دن رات اور انتھک کام کرکے انہوں نے استنبول کی حالت بدل دی اور اسے جدید ترقی یافتہ اور خوش حال شہروں کی فہرست میں شامل کردیا۔ وہ تیسری بار ترکی کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ترک عوام ان کی شاندار کارکردگی سے مطمئن ہیں اور فوج کے ایک گروہ نے جب انہیں معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کی کوشش کی تو عوام اپنے محبوب صدر اور وزیر اعظم کی ڈھال بن گئے۔ ترکی کے تناظر میں جب ہم پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں تو یکسر مختلف صورتحال نظر آئی ہے۔ 20 برس قبل ترکی کا سکہ لیرا پاکستانی روپے کے بالمقابل بہت کمزور تھا۔ اس وقت 125 لیرا 18 پاکستانی روپوں کے مساوی تھا۔ آج پاکستانی 46 روپے ایک لیرا کے برابر ہیں۔ پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی بمشکل 200 ڈالر ہے جبکہ ترکی کے عوام کی فی کس آمدنی 8 ہزار ڈالر سالانہ سے تجاوز کررہی ہے۔ پاکستان میں ہر سمت بدحالی‘ بے روزگاری‘ بے امنی‘ بیماریوں اور کرپشن کا دور دورہ ہے جبکہ رجب طیب اردوان کی پالیسیوں اور دیانتداری سے ترکی ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہے۔ وہ اور ان کے ساتھی رشوت‘ بدعنوانیوں‘ قومی خزانہ اور وسائل کی لوٹ مار‘ منی لانڈرنگ‘ سرے محل‘ پانامہ لیکس‘ بینکوں کے قرضوں کو ڈکارنا‘ کمیشن‘ بدانتظامی اور اس جیسی درجنوں خرابیوں سے پاک ہیں جبکہ پاکستانی حکمران اور ناعاقبت اندیش سیاستدان گردن گردن اس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے ظلم و استحصال کے باعث پاکستان کی 20 کروڑ آبادی میں سے آدھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بجلی‘ گیس کی لوڈ شیڈنگ اور جرائم نے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ان حالات میں اگر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو عوام مسیحا سمجھتے ہیں تو کیا برا کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام بھی جمہوریت پسند ہیں لیکن انہیں ایسی جمہوری حکومت درکار ہے جیسی ترکی میں ہے۔ انہیں جنرل راحیل شریف کے پیش رو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کوئی انسیت اور دلچسپی نہیں تھی کیونکہ انہوں نے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری سے گٹھ جوڑ کرلیا تھا۔ ان کے دور میں ڈالر 108 روپے تک جاپہنچا تھا۔ قومی و سائل اور خزانہ کی لوٹ مار عام تھی امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے جاری کردہ سیکڑوں ویزوں پر امریکی ایجنٹ اور بلیک واٹر کے کارندے پاکستان میں ہر جگہ دندناتے تھے۔ دہشت گرد پورے ملک میں دھماکے کرتے اور کوئی پکڑنے والا نہیں تھا۔ فوج‘ سیکورٹی ادارے‘ پولیس اور عوام کوئی محفوظ نہیں تھا لہٰذا سابق آرمی چیف جنرل (ر) کیانی سے عوام کو کوئی لگاؤ بھی نہیں تھا۔ جنرل راحیل شریف نے پاکستان کو بچانے‘ دہشت گردوں کو پھڑکانے‘ مجرموں کو پھانسی پر لٹکانے‘ کرپٹ عناصر کو کیفرکردار تک پہنچانے‘ عوام الناس کو سکھ‘ چین اور آرام فراہم کرنے‘ ظلم و استحصال کا قلع قمع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ شمالی وزیر ستان ہو یا وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کا لاڑکانہ‘ جنوبی پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان ہو یا پاکستان کی طویل سرحدیں‘ جنرل راحیل شریف نے ہر جگہ پہنچ کر اپنی ولولہ انگیز قیادت کے ذریعے فوج اور پاکستانی عوام کا حوصلہ بڑھایا ہے‘ جذبوں کو مہمیز دی ہے‘ مایوسی کی دلدل اور تاریکی سے باہر نکالا ہے۔ پاکستانی عوام کو ان میں ٹیپو سلطان‘ صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ صدیوں سے یوں بھی مسلمانوں کا یہ مزاج رہا ہے کہ وہ سپہ سالار اور بادشاہ کو ایک ہی شخصیت کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ یہ ڈیڑھ ہزار سال سے ان کی نفسیات رہی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے کبھی ’’بادشاہ‘‘ بننے کی کوشش نہیں کی ہے لیکن عوام کی اکثریت انہیں ملک کا ’’نجات دہندہ‘‘ سمجھتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ریفرنڈم ہو تو پوری قوم کا ووٹ ان کے حق میں ہوگا۔ پاکستان کو ان کی ضرورت ہے‘ خواہ اس کے لئے کوئی بھی راستہ اختیار کیا جائے اور سب سے آسان راستہ ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا ہے۔ ہمارے حکمران بھی رجب طیب اردوان بن جائیں ‘ پھر کوئی فوج کی طرف نہیں دیکھے گا۔
ترکی اور پاکستان کا مقابلہ کرنے والے ایک نظر ان اعداد وشمار پر بھی ڈالیں۔ موجودہ ترک قیادت کی کوششوں سے2002ء اور 2012ء کے درمیان جی ڈی پی میں64فیصد ریکارڈ اضافہ اور فی کس 43فیصد جی ڈی پی کا اضافہ ہوا ہے‘ صدر اردوان کو ساڑھے 23ارب ڈالر آئی ایم ایف کا قرضہ ورثہ میں ملا جسے وہ دس سال کے دوران9ء 0 ارب ڈالر پرلے آئے ہیں اور آئندہ قرضہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سخت شرائط پر ہر تین ماہ بعد آئی ایم ایف سے پچاس ہزار ڈالر کی قسط لے کر خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں اور غریب قوم کی پشت پر مزید قرضوں کا بوجھ لاد کر اس کی کمر اور جھکادیتے ہیں۔ ادھر صدر طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ اب آئی ایم ایف ہم سے قرضہ لے گا۔ ان کی یہ خودمختاری امریکا اور یورپ کو کھل رہی ہے۔ اس وقت ترکی کی معیشت روس اور یورپی ملکوں سے زیادہ مستحکم ہے۔2002ء میں ترکی کے مرکزی بینک کے پاس ساڑھے 26 ارب ڈالرکا زرمبادلہ تھا جو2011ء میں92.42 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے، جبکہ افراط زر32فیصد سے کم ہوکر 9فیصد پر آگیا ہے۔ اردوان دور حکومت میں ترکی میں ہوائی اڈوں کی تعداد26 سے بڑھ کر50 ہوگئی ہے جبکہ 2007ء سے2011ء تک13500 کلومیٹر طویل ایکسپریس وے تعمیر ہوچکی ہے۔ اسی دور حکومت میں ترکی کی تاریخ کی پہلی بار تیز رفتار ٹرین سروس 2009ء میں شروع کی گئی اور گزشتہ آٹھ سال چھ ماہ کے دوران 1076کلو میٹر طویل ریلوے لائن تعمیر کرنے کے علاوہ 5449 کلو میٹر ریلوے لائن کو نئی زندگی دی گئی۔ عام شہریوں کو صحت کی مفت سہولتیں فراہم کرنے کیلئے ’’گرین کارڈ‘‘ پروگرام شروع کیاگیا۔ صدر اردوان نے تعلیمی میدان میں بھی گرانقدر کارنامے سرانجام دیئے اور9سال کے دوران تعلیم کا بجٹ ساڑھے سات ارب ڈالر سے34ارب ڈالر تک پہنچادیا ( سندھ حکومت کی طرح جعلی اعدادوشمار‘جعلی بھرتیوں اور جعلسازی سے کام نہیں چلایا) ترکی میں 2002ء میں98یونیورسٹیوں کی تعداد 2012ء تک 186 تک پہنچادی گئی۔1996ء میں ایک ڈالر 222 لیرا کے برابر تھا جو2016ء میں2494 (تقریباً3) لیرا کی سطح پر آگیا ہے۔ یہ کرشماتی تبدیلی یورپ اور امریکا کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے‘ قومی خود داری کا یہ عالم ہے کہ بنا اطلاع روسی طیارہ ترکی کی فضاء کی حدود میں داخل ہوا تو اسے مار گرایا اور پھر عرصہ تک روسی مطالبہ کے باوجود معافی نہیں مانگی۔ ایسی شاندار فتوحات کے ذریعہ ہی صدر طیب اردوان نے ترکی کے عوام کے دل فتح کرلیے ہیں‘ ان احسانات کا قرض اتارنے کیلئے ترک عوام نے باغی فوجی ٹولے کی یلغار سے جمہوریت کو بچاکر تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے‘ پاکستان کے حکمرانوں کیلئے اس میں بڑاسبق پوشیدہ ہے۔
منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...
بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...
کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...
کیا متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے واقعی کراچی چھن گیا ہے‘ ایم کیوایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیوایم کے نئے سربراہ کی حیثیت سے قبول کرلیاگیا ہے۔ کراچی کے ضلع ملیر میں سندھ اسمبلی کی نشست پر منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایم کیوایم کی نشست پر پیپلزپارٹی ک...
قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر اورقائد حزب اختلاف سیدخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کو قائم رہنا چاہئے تواس کا یہ مقصدہرگز نہیں ہوتا کہ انہیں سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی عشق یا وہ اسے جمہوریت کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اگ...
پاکستان میں اقتدار کی کشمکش فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ایک وسیع حلقہ اس بات کا حامی ہے کہ فوج آگے بڑھ کر کرپشن اور بدانتظامی کے سارے ستون گرادے اور پاکستان کو بدعنوانیوں سے پاک کردے۔ دوسرا حلقہ اس کے برعکس موجودہ سسٹم برقرار رکھنے کے درپے ہے اورمملکت کے انتظام وانصرام میں ...
ترکی میں فوج کی ناکام بغاوت کے بعد اب یہ بات ہرگزرتے دن پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہے کہ اس کی پشت پر فتح اللہ گولن اور امریکا کی مشترکہ منصوبہ بندی موجود تھی۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے میں خود فتح اللہ گولن کے بیانات نے بھی خاصا کردار ادا کیا ہے۔ اب فتح اللہ گولن نے العربیہ نیوز چینل سے ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بالآخر پاکستان پیپلزپارٹی کے عقابوں کو مجبو رکر ہی دیا کہ وہ اپنے نشیمن چھوڑ کر میدان میں آجائیں اور مسلم لیگ (ن) کو للکاریں۔ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ ماڈل ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی کے عوض پی پی پی کی اعلیٰ قیادت ...
انقرہ اور مغرب کے درمیان تلخ کلامی کے بعد ترکی نے امریکی ڈالرز سے پیچھا چھڑانے اور نیٹو سے نکل جانے کے منصوبوں پر غور شروع کردیا ہے۔ نیٹو کی جانب سے ترکی کو یاددہانی کے صرف ایک روز بعد کہ وہ اب بھی نیٹو کا رکن ہے، ترک وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو نے کہا ہے کہ ملک دفاعی صنعت ک...
مروہ شبنم اروش ترجمہ: محمد دین جوہر تمہید [ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر ہمارے ہاں تبصرے اور اظہار خیال ابھی جاری ہے۔ ہم نے وجود ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے اپنے ایک گزشتہ مضمون میں قومی میڈیا کے ”تجزیاتی رویوں“ کا ایک مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی تھی۔ لبرل، سیکولر اور مارکسی تجز...
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے امریکی سابق وزیر خارجہ اور موجودہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن پر الزام لگایا ہے کہ وہ سعودی عرب کی ملی بھگت کے ساتھ ترکی میں میں بغاوت کی کوشش کر رہی تھیں، جو ناکام بنا دی گئی۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کے امریکا میں مقیم ترک رہنما فتح اللہ گولن کے...