... loading ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات ہے افغانستان کے حوالے سے ہیں۔سرتاج عزیز نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ بھارت کی دفاعی حکمت عملی کے پیش نظر پاکستان شارٹ رینج کے ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری انہیں ترقی دینے کے عمل کو رول بیک کرنے کے امریکی دباؤ کی مزاحمت کرتا رہیگا۔ بھارت اپنے جوہری اور دوسرے ہتھیاروں میں اضافہ کرے گا تو پاکستان خاموش نہیں رہیگا۔ پاکستان بھارت کے جوہری اور دیگر ہتھیاروں میں اضافے کی مخالفت کریگا۔ رائٹر سے انٹرویو میں سرتاج عزیز نے کہا تھاکہ ملک میں عسکریت پسندوں کیخلاف تیزترین کارروائی سے جوابی طور پر بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے بڑے حملوں کا خطرہ ہے۔ انہوں نے اس تنقید کو بھی مسترد کر دیا کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کیخلاف کافی کریک ڈاؤن نہیں کیا اور یہ کہ وہ ابھی تک افغان طالبان کو پناہ دے رہا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت پاکستان اور امریکاکے تعلقات میں کوئی کشیدگی ہے۔ بلاشبہ اختلافات ہیں لیکن کوئی بڑا تنازع نہیں، ہم صحیح سمیت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
عرصہ دراز کے بعد وزیر اعظم پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے منہ سے ایسی بات سامنے آئی ہے جسے قومی سطح پر تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں تک پاک امریکا کا تعلق ہے توپاکستان کے ساتھ امریکا کے نرم گرم تعلقات کا سلسلہ اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب امریکاکے اندر افغانستان میں بھارتی کردار کو بڑھانے کی خواہش نے سر اٹھایا تھا۔امریکاکا یہ کوئی اچانک فیصلہ نہیں تھا اور نہ ہی مغرب یا امریکا میں اس قسم کے فیصلے اچانک کرنے کی کوئی روایت ہے۔ اس قسم کے فیصلے طویل تزویراتی تجزیات اور حکمت عملی کے تحت بہت پہلے استوار کرلئے جاتے ہیں۔اس لئے اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جس وقت امریکا نے نائن الیون کے بہانے افغانستان میں مہم جوئی کا فیصلہ کیا تھا اسی وقت مستقبل میں خطے میں بھارتی کردار کا بھی تعین کرلیا گیا تھا لیکن دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان میں چونکہ ’’ون مین شو‘‘ کی کیفیت ہوتی ہے حکمران چاہے آمر ہوں یا جمہوری یہی ایک کیفیت نظر آئے گی ۔اس لئے جب اداروں اور تھنک ٹینکس کی بنیاد پر استوار پالیسیاں شخصی حکمرانی کے حامل ممالک پر لاگو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔امریکا جس وقت افغانستان میں اپنی صہیونی دجالی اتحادیوں کے ساتھ داخل ہوا تھا تو اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ پاکستان سے ہر قسم کی سہولیات حاصل کرنے کے باوجود اس نے مستقبل میں پاکستان کو کہاں رکھنا ہے اور اس مقابلے پر بھارت کو کہاں کھڑا کرکے اسے اپنا علاقائی وائسرائے بنانا ہے۔ یہی وہ بڑا تناظر تھا جس کے ایک چھوٹے سے پہلو یعنی پاکستان میں بدنام زمانہ این آر او کے ذریعے قائم کردہ نام نہاد جمہوری سیٹ اپ قائم کیا گیا تھا جس میں پہلے دور میں آصف زرداری کی ذمہ داری کابل میں اس وقت کی کرزئی انتظامیہ سے قریبی تعلقات استوار کرنا اور بعد میں نون لیگ کی حکومت پر مودی سرکار سے قربتیں بڑھانا شامل تھا۔اقتدار کی خاطر اس قسم کی پالیسیوں کو گلے کا طوق بنانے والے یہ نام نہاد ’’جمہوری علمبردار‘‘ نام نہاد شخصی پالیسی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے جس کی مثال بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف کی زبان کا بھارت کے خلاف مزاحمت میں ایک لفظ تک نہیں نکلا۔۔۔!! اس کا پس منظر یہی نظر آتا ہے کہ جو یقین دہانیاں اقتدار میں آنے سے پہلے ان قوتوں کو کرائی گئی ہیں اب اسی زبان سے ان ’’یقین دہانیوں‘‘ کے خلاف کیسے چلا جائے۔۔؟ یہی وجہ ہے کہ جب جوہری معاملات پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تقابلی جائزے کی نوبت آتی ہے تو امریکا کا وزن بھارت کے پلڑے میں ہوتا ہے دوسری جانب بدقسمتی سے سفارتی سطح پر اس کیفیت کا توڑ کرنے کے لئے اسلام آباد میں کوئی مستقل وزیر خارجہ نہیں ہے اور یہ قلمدان بھی وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی جیب میں رکھا ہوا ہے۔
ماضی میں بھی امریکی صدر بارک اوباما جوہری خطرات کی آڑ میں پاکستان کو پابند اور بھارت کو کھلی چھٹی دیتے نظر آئے ہیں جوہری سلامتی کے موضوع پر ہونے والی ماضی کی ایک کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے بارے میں اس حوالے سے پیشرفت ضروری ہے کہ یہ ضمانت دیں کہ وہ دونوں ایٹمی اسلحہ کے حوالے سے غلط راہ پر تو نہیں چل رہے۔ واشنگٹن میں جوہری سلامتی کانفرنس کے اختتام پر انکی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت برصغیر میں ایٹمی خطرہ کم کریں۔
امریکیوں کے خیال میں اہم معاملہ برصغیر میں پاکستان اور بھارت کا ہے جنہوں نے ملٹری ڈاکٹرائن بنا رکھے ہیں۔ ماضی میں بھی غیر قانونی جوہری پھیلاؤ کے حوالے سے امریکی صدر اوباما کے خدشات اپنی جگہ ٹھیک تھے لیکن یہ بھاشن دینے سے پہلے انہیں اس جانب بھی غور کرنا چاہئے تھاکہ برصغیر میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کس نے شروع کی تھی؟ بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکا تو 1974ء میں کیا تھا لیکن اس کی تیاری وہ ساٹھ کی دہائی کے اوائل سے جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس وقت امریکاکہاں سویا پڑا تھا؟ پاکستان نے تو اپنا جوہری دھماکا بھارتی دھماکے کے تین دہائیوں بعد کیا تھا اس لئے بھارت کا نام زبردستی شامل کرکے امریکی اصل بات پاکستان کو سناتے رہے۔
اس حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ امریکی اگر تاریخی حقائق سے منہ موڑنا چاہتے ہیں تو ہم بتا دیتے ہیں کہ بھارت نے کیوں اور کس کے ایما پر جوہری دھماکا کرکے پاکستان اور اسلامی دنیا کو کیا پیغام دیا تھا۔ہر محب وطن پاکستانی کو یاد رکھنا چاہئے کہ 1974ء کی لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس 1924ء کے بعد یعنی عثمانوی ترک خلافت کے زوال کے بعد یہ مسلمان ملکوں کا پہلا اور سب سے بڑا ایک چھت کے نیچے اجتماع تھا جس نے امریکا سے لیکر روس تک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کانفرنس کے روح رواں سعودی عرب کے شاہ فیصلؒ اور پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اس اجتماع کے کئی مقاصد تھے، سب سے پہلے سقوط ڈھاکا کے زخم کے بعد پاکستان کے ساتھ اسلامی ممالک کا اظہار یکجہتی، مسئلہ فلسطین اور اسلامی دنیا کے قضایات کے حل کے لئے باہمی کوششیں تھیں۔یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا تھا جب چار برس قبل سقوط ڈھاکا رونما ہوا تھا اور ایک برس قبل 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ، جسے جنگ رمضان بھی کہا جاتا ہے، میں عربوں کی اسرائیل پر جزوی فتح اور شاہ فیصلؒ کا امریکا اور مغربی ممالک کے خلاف تیل کی سپلائی کی بندش کا فیصلہ تھا۔تیل کی سپلائی کی بندش اور اسرائیل کی جزوی شکست نے امریکہ کی معاشیات کو زوال کے کنارے سے لگا دیا تھا لیکن امریکا کے صہیونی وزیرخارجہ ہنری کسنجر کی ’’شٹل ڈپلومیسی‘‘ نے اس قدر کام ضرور دکھایا کہ وہ شاہ فیصل ؒ جیسے درویش طبع شخص کو تیل کی قیمت ڈالر سے منسلک کرنے پر راضی کرگیا ۔ شاہ فیصل ؒ کی تیل پالیسی سے متاثر ہوکر ایران کے شاہ کا لہجہ بھی بدلنا شروع ہوگیا اور ایران بھی اب اپنے تیل کی قیمت میں اضافے کا مطالبہ کرنے لگا۔ اس پر طرہ یہ کہ بھٹو جیسے زیرک سیاستدان نے شاہ فیصل ؒ کو لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد پر راضی کرلیاتھا۔ان حالات میں جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے تمام مسلمان ممالک کے سربراہان کا پہلی مرتبہ ایک چھت تلے جمع ہوجانا عالم مغرب کے لئے کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں تھا۔ سوویت یونین نے اس وقت پاکستان کو باقاعدہ دھمکی آمیز لہجے میں اس اجتماع سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی لیکن بھٹو کی ضد کے آگے کسی کی کچھ نہ چل سکی اور یوں 1924ء کے سقوط خلافت کے بعد پہلی مرتبہ 1974ء میں یعنی نصف صدی کے بعد مسلمان حکمرانوں کا اجتماع ایک جگہ ہوا ۔
ان حالات میں پاکستان اور دیگر مسلمان ملکوں کو جواب دینے کے لئے بھارت کا انتخاب کیا گیا اور امریکا اور روس کی مرضی سے 1974ء میں بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکا کرکے پاکستان سمیت اسلامی دنیا کو واضح پیغام دے دیاتھا کہ عالمی معاملات کے حوالے سے مسلمانوں کی مشترکہ کوششوں کا کیسے جواب دیا جائے گا۔اس میں شک نہیں کہ یہ دھماکا درحقیقت خطے میں بھارت کی پاکستان پر بالادستی کا اعلان تھا جس میں اسے امریکا اور سوویت یونین کی مکمل حمایت حاصل تھی لیکن پاکستان نے اس جوہری دھماکے کے بعد دبکنے کی بجائے خود جوہری صلاحیت حاصل کرنے کا اعلان کردیا جس میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کوششوں کا بڑا دخل تھا اور جس کا ثمرایک طویل اور صبر آزما محنت کے بعد 1998ء میں بھارت کے دوبارہ جوہری دھماکوں کے بعد پاکستان کے ایٹمی دھماکے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس وقت بھی بدقسمتی سے بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کی خواہش مند نواز حکومت قائم تھی جو دھماکوں کے حوالے سے لیت ولعل سے کام لے رہی تھی لیکن جس وقت نوائے وقت گروپ کے معمار جناب مجید نظامی نے میاں نواز شریف کو یہ تاریخی جملہ کہا کہ ’’میاں صاحب دھماکہ کیجئے ورنہ قوم آپ کا دھماکا کردے گی‘‘کے بعد پاکستان نے چاغی کے مقام پر بھارت کا جوہری ادھار اتار دیا۔
امریکیوں کو اس تمام پس منظر کو سامنے رکھ کربرصغیر میں جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے سبق پڑھانا چاہئے تھا ۔ انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان دنیا میں واحد ایک ایسا ذمہ دار ملک ہے جس کی جوہری صلاحیتوں میں نقب لگانا آسان نہیں اگر امریکا سمیت پورا مغرب اور بھارت اس میں نقب نہ لگا سکے تو داعش یا دوسرے اس جیسی دیگر انتہا پسند تنظیموں کی اتنی اوقات ہی نہیں کہ وہ ایسا کرنے کا سوچ بھی سکیں۔امریکی حکمران اشرافیہ نے سرد جنگ کے نام پر اپنی ہی قوم کو سابق سوویت یونین سے خوفزدہ کیا اس کے بعد امریکا نے ہی اپنی اسلحہ ساز فیکٹریوں کو دنیا بھر کے لئے اسلحہ تیار کرنے کی راہ پر لگایا اور کئی بلین ڈالر کمائے اگر یہی سرمایہ انسانیت کی بھلائی کے لئے خرچ کیا جاتا تو آج انسانیت اس مقام پر کھڑی نہ ہوتی جس مقام پر اسے لاکھڑا کیا گیا ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ گزشتہ دنوں طورخم کے مقام پر پاکستانی چوکی پر کابل حکومت کے حملوں کے کیا مقاصد تھے اور امریکا اور بھارت کیوں خاموشی سے اس معاملے میں کابل انتظامیہ کی پشت پر کھڑے تھے۔یہ کارروائی پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش تھی۔ اس کے بعد وطن عزیز کے اندر سے ہی نقب لگانے کی کوشش کی گئی اور محمود اچکزئی نے کے پی کے کو افغانوں کی ملکیت قرار دے کر پختونستان کی بجھی ہوئی راکھ کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔ اچکزئی کا موجودہ نواز حکومت سے کتنا قریبی فکری اور سیاسی تعلق ہے، اس سے کوئی غافل نہیں لیکن اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ یہ تیس یا چالیس برس پرانا پاکستان نہیں ہے جب اس قسم کے ناموں سے چورن بک جایا کرتے تھے ۔اب ایک مضبوط پاکستان چین کے ساتھ ساتھ روس کی بھی ضرورت بن چکا ہے۔رہ گیا سینیٹر مکین کا حالیہ دورہ اسلام آباد اور امریکیوں کے مزید ’’ڈومور‘‘ کے مطالبات تو اس کا جواب اس دورے سے ایک روز قبل ہی دے دیا گیا تھا۔۔۔۔
پاکستان نے امریکا میں جمہوریت سے متعلق سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے،ڈیموکریسی ورچوئل سمٹ 9 اور 10 دسمبر کو ہوگا۔ امریکا کی جانب سے سمٹ میں شرکت کے لئے چین اور روس کو دعوت نہیں دی گئی۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم سمٹ برائے جمہوریت میں شرکت کے لیے پاکستان کو مدعو کرنے پر ...
امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے کہا ہے کہ افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کے لیے پاکستان اور امریکا کا موقف یکساں ہے ، پاکستان کے سرکاری ٹی وی(پی ٹی وی ) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اورامریکا کے گزشتہ کئی دہائیوں سے مضبوط اور بہترین تعلقات ہیں۔ ...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کولیشن فنڈ سپورٹ کے تحت ملنے والی 30 کروڑ ڈالر کی دفاعی امداد روک لی ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان کے مطابق پاکستان کو دی جانے والی دفاعی امداد امریکی کانگریس کو وزیردفاع کی سفارش نہ ملنے کی وجہ سے روکی گئی۔امریکی وزیردفاع کی جانب سے کانگری...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
یوں لگتا ہے کہ امریکا کے اندر پاکستان کے خلاف ایک منظم ماحول جنم دیا جارہا ہے۔ اور مختلف طریقوں سے پاکستان پر دباؤ پیداکیا جارہا ہے۔ رواں ہفتے امریکی ایوان نمائندگان کی دہشت گردی ، جوہری عدم پھیلاؤ، ، تجارت اور ایشیا پیسفک سے متعلق ذیلی کمیٹیوں نے ایک مشترکہ مباحثے کا عنوان ہی یہ...
پاکستان کے خلاف مختلف سرگرمیوں میں معروف سمجھے جانے والے امریکی قانون ساز ایک مرتبہ پھر پاکستان کے خلاف محاذ بنانے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ اور یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں ہو رہا۔ امریکا کے پاکستان مخالف قانون سازوں نے کیپٹل ہِل میں ایک مرتبہ پھر جمع ہو کر اپنا پسندیدہ سوال دُہرایا ہے کہ ...