... loading ...
عالمی شہرت یافتہ عظیم پاکستانی سماجی کارکن عبدالستار ایدھی بھی جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کا جنازہ کسی نیک دل اور خوش خصال شہنشاہ سے کم نہیں تھا۔ پاکستان کے صدرمملکت ممنون حسین‘ تینوں مسلح افواج کے سربراہان جنرل راحیل شریف‘ ایئرمارشل سہیل امان‘ ایڈمرل ذکاء اﷲ‘ سندھ وپنجاب کے وزرائے اعلیٰ قائم علیشاہ اور شہبازشریف‘ گورنر ڈاکٹر عشرت العباد‘ کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نویدمختار‘ ڈی جی رینجرز میجرجنرل بلال اکبر‘چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی اوروفاقی وزیر احسن اقبال سمیت لاکھوں عوام نے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پڑھائی گئی نمازجنازہ میں شرکت کی۔ مولانا احمد خان نیازی نے اس عظیم شخصیت کی نمازجنازہ پڑھائی۔
عبدالستار ایدھی کسی سلطنت کے بادشاہ‘ صدر یا وزیراعظم نہیں تھے لیکن اپنی سماجی خدمات کے ذریعے کروڑوں عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ ان کے قریبی دوست اور المصطفےٰ ویلفیئر سوسائٹی کے روح رواں حاجی حنیف طیب کہتے ہیں کہ ہر انسان اوربالخصوص سیاستدانوں کو سماجی کارکن بھی ہونا چاہئے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کے لیے اس قول میں بڑا سبق پنہاں ہے۔ پورا قومی خزانہ اور ریاستی وسائل ان کے دسترس میں ہوتے ہیں لیکن وہ لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ ملکی سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے گلچھرے اڑاتے ہیں۔ عوام کے دکھ دور کرنے کی بجائے انہیں دردوالم بانٹتے ہیں۔ غربت وافلاس میں مبتلا کرتے ہیں‘ ان کا سکھ اور چین چھینتے ہیں۔ اسی لئے جب وہ مرتے ہیں تو کوئی آنکھ اشکبار نہیں ہوتی۔
ہندوستان کے آخری مغل تاجدار بہادرشاہ ظفر کو 1857ء کی ناکام اور کسی جنگی حکمت عملی کے بغیر جنگ آزادی کے بعد گرفتار کرکے شاہی خاندان کے 35 مرد و خواتین کے ہمراہ بحری جہاز میں سوار کرکے رنگون پہنچادیاگیا جہاں انگریز کیپٹن نیلسن ڈیوس انچارج تھا۔ اس نے دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے فرمانروا بہادرشاہ ظفر کو اپنی کوٹھی کے گیراج میں بند رکھا جہاں ہوا اورروشنی کاگزر بھی نہیں تھا۔ پورے ہندوستان کا شہنشاہ 7نومبر1862ء تک چار سال اس قفس میں قید رہا اور سسک سسک کر دم توڑ گیا۔ اس نے اپنی بیچارگی اور کسمپرسی پر یہاں اپنی مشہور زمانہ غزل لکھی
لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں
کسی کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
شہنشاہ ہند کے اس عبرتناک انجام کی وجہ عوام کی حالات سے اس کی مجرمانہ غفلت اور بے خبری تھی۔ اس کے جنازے میں صرف دو افراد شریک تھے۔ ایک شہزادہ جوار بخت اور دوسرے حافظ محمد ابراہیم دہلوی جو 30 ستمبر 1837ء کو بہادرشاہ ظفر کی تخت نشینی کے عینی شاہد بھی تھے۔ جب دہلی کے لال قلعہ میں 62 برس کے بہادر شاہ کو سلطنت کا تاج پہناگیا اور سات دن تک جشن جاری رہا تھا لیکن بادشاہ کے دو بیٹوں نے سلطنت آپس میں تقسیم کرلی اور خوب لوٹ مار کرنے لگے‘ مہنگائی آسمان کو چھونے لگی‘ غریبوں کی حالت پتلی ہونے لگی‘ ٹیکسوں میں اضافہ ہوتا چلاگیا‘ کبوتروں کے دانے تک پر ٹیکس لگادیاگیا۔ طوائفوں کی کمائی کا ایک حصہ بھی شہزادوں کی جیبوں میں جانے لگا۔ ثواب اور صوبیدار شاہی دربار کے اثر سے آزاد ہوگئے۔ عوام بادشاہ اور سلطنت سے بیزار ہوگئے۔ بھرے بازاروں میں گالیاں دینے لگے۔ انگریزوں نے جب یہ حال دیکھا تو معمولی سی لڑائی کے بعد پورے ہندوستان پر قبضہ کرلیا اور مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کا عبرتناک انجام یہ بتاتا ہے کہ اصل حکمران عبدالستار ایدھی کی طرح دلوں پر راج کرنے والے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف تو ایک بار 1999-2000ء میں لانڈھی جیل کی کال کوٹھڑی میں سزا بھی برداشت کرچکے ہیں جہاں کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں تھا اور عام قیدیوں کی گاڑی میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں لایا لے جایا جاتا تھا۔ وہ عبدالستار ایدھی کے تدفین کے دن ہی لندن سے لاہور پہنچے تھے۔ وہ چاہتے تو کراچی آکر جنازے میں شرکت کرسکتے تھے ان کے حریفوں نے سوال اٹھایا کہ جب وہ لندن کے بازاروں میں شاپنگ کرسکتے ہیں‘ گھوم پھر سکتے ہیں تو کراچی آنے میں کیا قباحت تھی؟ وہ لندن سے براہ راست بھی کراچی کا رخ کرسکتے تھے کہ پی آئی اے کا طیارہ ان کے حکم پر پاکستان سے خالی لندن گیا تھا اور پوری طرح سے ان کے تصرف میں تھا۔ کاش! کہ وہ عبدالستار ایدھی کا تاریخی جنازہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور نیشنل اسٹیڈیم سے35کلو میٹر دور ایدھی ولیج تک دو رویہ احتراماً کھڑے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کی نظروں سے گزرتا تو شاید ان کے دل میں بھی ’’سماجی خدمت‘‘ کا جذبہ جاگ جاتا۔ وہ بھی پاکستان کے 20 کروڑ عوام (جن میں سے نصف تعداد غربت کے خط سے نیچے زندگی گزار رہی ہے) کی بھوک وافلاس اور بیماریاں دور کرنے کی جستجو کرتے‘ بادشاہ وقت اشوک اعظم کی طرح تخت وتاج اور اقتدار سے زیادہ دکھی انسانیت کا غم بانٹنے کی کوشش کرتے۔
عبدالستار ایدھی نے اپنی جمع پونجی پانچ ہزار روپے سے کراچی کے علاقے کھارادر میں چھوٹی سی ڈسپنسری قائم کرکے فلاحی کاموں کا آغاز کیا تھا اور مرتے دم تک دو ہزار ایمبولینسوں سمیت سینکڑوں فلاحی اداروں کا نیٹ ورک دکھی انسانیت کے لیے چھوڑگئے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کے پاس کھربوں روپے کا خزانہ ہوتا ہے۔ اگر اسے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جائے تو پاکستان باآسانی فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکمرانوں کو اپنے مرنے اور اللہ تعالیٰ کے آگے جوابدہ ہونے کا اتنا ہی احساس ہو جتنا عبدالستار ایدھی کو تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی 25سال قبل ایدھی ولیج میں اپنی قبر خود اپنے ہاتھوں سے تیار کردی تھی اور اسی میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی۔
پاکستان عوامی تحریک کے رہنما خواجہ محمداشرف نے بھی کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں اپنی قبر کے لیے برسوں پہلے جگہ مقرر کردی ہے۔ اللہ کے نیک اور خداترس بندوں کو ہر لمحہ یہ خیال رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی بھی وقت بلاوا آسکتا ہے۔ زندگی میں کتنے ہی ایکڑوں پر مشتمل محلات تعمیر کرلیں‘ آخری مقام6فٹ کی قبر ہی ہوتی ہے‘ کتنے ہی ریشم وکم خواب زیب تن کرلیں‘ موت کے بعد لباس کفن ہوتا ہے جس کی نہ جیب ہوتی ہے اور نہ قبر میں تجوری میسر آتی ہے‘ عبدالستار ایدھی نے تو جو جوتا20برس قبل خریدا تھا‘ وہی ان کے زیراستعمال تھا۔
لیجنڈری فنکار معین اختر مرحوم نے ایک ٹی وی پروگرام میں ان کے حوالے سے کہا تھا کہ عبدالستار ایدھی لباس کے معاملے میں بہت بخیل ہیں۔ ان کے تن پر ہمیشہ ملیشیا کا شلوارقمیض ہی زیب تن رہا۔ ان کا سب کچھ غریبوں اور دکھی انسانیت کی خدمت تھا۔ انہوں نے ایک ہر دلعزیز لیڈر کی زندگی پائی اور کروڑوں عوام کے ہیرو کی طرح موت کو گلے لگالیا۔ وہ11سال کے تھے تو والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔ والدہ ذیابیطس کی مریضہ تھیں‘ ان کی خدمت سے عوامی خدمات کا آغاز کیا اور پھر اس میدان میں آگے بڑھتے ہی چلے گئے۔ آج جب حسین نواز اور سندھ کے وزیر شرجیل میمن کو عام راہگیر لندن کی سڑکوں پر روک کر سوال کرتے ہیں کہ بیرون ملک جائیدادیں خریدنے اور کاروبار کے لیے تمہارے پاس پیسہ کہاں سے آیا تو ان سے کوئی جواب نہیں بن پاتا اور تیز قدموں سے دوڑتے ہوئے اپنی راہ لیتے ہیں‘ جان بچاتے ہیں‘ منہ چھپاتے ہیں‘ عبدالستار ایدھی کی زندگی اور تاریخی جنازہ حکمرانوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔
ہمارے حکمران اور افسران قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر کے نیچے بیٹھ کر رشوت لیتے اور بدعنوانیاں کرتے ہیں اور گمنام قبروں میں جاسوتے ہیں۔ اپنے پیچھے بددعاؤں کے ڈھیر چھوڑ جاتے ہیں۔ یقین نہ ہو تو اسلام آباد میں ضیاء الحق کی قبر جاکر دیکھ لیں جہاں ویرانی اور وحشت کا راج ہے۔ عبدالستار ایدھی بانی پاکستان قائداعظم کے سچے پیروکار تھے ان کا جنازہ بھی اپنے قائد کی طرح اٹھا۔ محمد علی جناح کے بعد وہ دوسری سویلین شخصیت ہیں جن کا جنازہ فوجی اعزاز اور برٹش رائل آرمی کی روایات کے ساتھ ’’گن کیریئر‘‘ گاڑی میں لے جایا گیا۔ 68 سال قبل سب سے پہلے قائداعظم کا جنازہ بھی گن کیریئر میں لے جایاگیا تھا اور برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کے جنازے میں بھی یہی گاڑی استعمال ہوئی تھی‘ پاکستان کے کسی دوسرے حکمران کو یہ اعزاز نصیب نہیں ہوا۔ دوسری اہم بات یہ کہ عبدالستار ایدھی کا انتقال پر ملال 9 جولائی کو ہوا ہے جو قائداعظم کی ہمشیرہ مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کا یوم وصال ہے۔ اس طرح قائداعظم اور مادر ملت کے سچے عاشق عبدالستار ایدھی کو جو دو اعزاز نصیب ہوئے وہ تاریخ میں ہمیشہ رقم رہیں گے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے اپنے والد کا مشن جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ اور ان کی ہمشیرہ کبریٰ ایدھی پہلے ہی اپنے والد اور والدہ بلقیس ایدھی کے ہمراہ دکھی انسانیت کی خدمت میں ہاتھ بٹاتے تھے۔
عبدالستار ایدھی 1928ء میں غیر منقسم ہندوستان میں ریاست گجرات کے ایک علاقے ’’بانٹوا‘‘ میں پیدا ہوئے تھے اور1951ء سے دکھی انسانیت کا غم بانٹتے رہے۔ کراچی میں میمن برادری کی بہت بڑی تعداد فلاحی اورسماجی کاموں میں مصروف ہے۔ سیکڑوں ڈسپنسری‘ اسپتال‘ ٹرانسپورٹ اور اسکول اس برادری کے مخیر افراد کے تعاون سے چل رہے ہیں۔ آدم جی‘ داؤد‘ ولیکا خاندانوں کے تعاون سے کئی فلاحی ادارے چل رہے ہیں۔ محمد علی رنگون والا‘ حنیف طیب‘ حاجی مسعود پاریکھ‘ یحیٰی پولانی‘ شعیب میمن‘ ایچ ایم شہزاد‘ عزیز میمن جیسی درجنوں شخصیات سماجی اورفلاہی ادارے چلارہے ہیں‘ ان کی سرپرستی کررہی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ‘ چھیپا ویلفیئر ‘ سیلانی ویلفیئر‘ الرشید ٹرسٹ فلاح انسانیت‘ الخدمت اور کے کے ایف جیسے ادارے بھی بیمار انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں یہ سب ادارے محدودوسائل میں عظیم خدمات سرانجام دے کر حکمرانوں کو منہ چڑارہے ہیں جن کے قبضے میں کھربوں روپے کا قومی خزانہ اور اس سے بھی زائد مالیت کے وسائل موجود ہیں لیکن جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی امریکی امداد سے چلاکر حاتم طائی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔کیایہ ممکن نہیں کہ حکمران خود اپنے کھربوں روپے کے وسائل کے ساتھ عبدالستار ایدھی بن جائیں اور اُن کی طرح عزت‘ شہرت اور نیک نامی پائیں۔حکومت
فوری طور پر ایک کام ضرور کر سکتی ہے کہ اسلام آباد کے نئے ایئر پورٹ کا نام عبدالستار ایدھی انٹرنیشنل ایئر پورٹ رکھ دیا جائے‘ جو اب قومی مطالبہ بن چکا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے اس عظیم انسان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہ ایک حقیر سا نذرانہ ہوگا۔
منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...
بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...
کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...
کیا متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے واقعی کراچی چھن گیا ہے‘ ایم کیوایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیوایم کے نئے سربراہ کی حیثیت سے قبول کرلیاگیا ہے۔ کراچی کے ضلع ملیر میں سندھ اسمبلی کی نشست پر منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایم کیوایم کی نشست پر پیپلزپارٹی ک...
قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر اورقائد حزب اختلاف سیدخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کو قائم رہنا چاہئے تواس کا یہ مقصدہرگز نہیں ہوتا کہ انہیں سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی عشق یا وہ اسے جمہوریت کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اگ...
پاکستان میں اقتدار کی کشمکش فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ایک وسیع حلقہ اس بات کا حامی ہے کہ فوج آگے بڑھ کر کرپشن اور بدانتظامی کے سارے ستون گرادے اور پاکستان کو بدعنوانیوں سے پاک کردے۔ دوسرا حلقہ اس کے برعکس موجودہ سسٹم برقرار رکھنے کے درپے ہے اورمملکت کے انتظام وانصرام میں ...
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بالآخر پاکستان پیپلزپارٹی کے عقابوں کو مجبو رکر ہی دیا کہ وہ اپنے نشیمن چھوڑ کر میدان میں آجائیں اور مسلم لیگ (ن) کو للکاریں۔ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ ماڈل ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی کے عوض پی پی پی کی اعلیٰ قیادت ...
سندھ کا وزیراعلیٰ بننے سے سید مرادعلی شاہ کی ’’مراد‘‘ تو پوری ہوگئی لیکن صوبے کے عوام بدستور اپنے آدرش کی تلاش میں ہیں ۔رشوت اور بدعنوانیوں سے پاک ’’اچھی حکمرانی‘‘ تو جیسے خواب بن کر رہ گئی ہے۔ اوپر سے رینجرز کی تعیناتی کا تنازع‘ جو حل ہونے میں نہیں آرہا ہے‘ وزیراعلیٰ کے آبائی عل...
سندھ کے میدانوں‘ ریگزاروں اور مرغزاروں سے لہراتا بل کھاتا ہوا شوریدہ سر دریائے سندھ کے کناروں پر آباد باشندے اس عظیم دریا کو ’’دریابادشاہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دریائے سندھ نہ صرف صوبے کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے بلکہ ’’بادشاہت‘‘ بھی بانٹتا ہے۔ پہلے دریا کے دائیں کنارے پر آباد شہر خیرپور...
[caption id="attachment_39099" align="aligncenter" width="440"] مدر ٹریسا اور پوپ جان پال دوئم [/caption] پچھلی قسط میں مدر ٹریسا اور ان کی خدمات کا جو ہیولا ابھرتا ہے وہ سر تاسر کیتھولک چرچ کی فرنچائز والا ہے۔ ان کی تنظیم Missionaries of Charity ہندوستان کے علاقائی صدر د...
نپولین کاشمار دنیا کے مشہورترین جرنیلوں میں ہوتا ہے اس کی جرأتمندی اور بہادری مثالی تھی۔ ’’ناممکن‘‘ کا لفظ اس کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔ فرانس میں اس کی حکومت کے خلاف سازش کامیاب ہوئی‘ اقتدار سے محروم ہوا تو معزول کرکے جزبرہ ’’البا‘‘ میں قید کردیاگیا۔ لیکن جلد ہی وہاں سے بھاگ نکلا۔ ...
15 جولائی 2016 ء کی شب گزشتہ 48 سال کے دوران چوتھی مرتبہ ترکی میں ’’فوجی انقلاب‘‘ کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی۔ بغاوت کا المیہ ہے کہ اگر کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو تو غداری کہلاتی ہے۔ 15 جولائی کا فوجی اقدام چونکہ ناکام ثابت ہوا لہٰذا باغیوں کے سرخیل 5 جرنیل اور 29 کرن...