... loading ...
ایدھی صاحب سے اپنی پیشہ ورانہ ملاقاتوں کا سلسلہ(15 اپریل 1985 کی اس رات جس دن صبح سویرے بہاری ڈرائیور راشد حسین روٹ این ون کی منی بس نے سرسید کالج کے سامنے بشری زیدی نجمہ زیدی اور ان کی پاپوش نگر کی پڑوسن کو کچل دیا تھا) کے بعد بھی کئی دفعہ جاری رہا۔ ان کا اپنا گھر (ایدھی ویلفیئر ہوم) جو گلبرگ سہراب گوٹھ کے نزدیک تھا، وہ لیاقت آباد سب ڈویژن میں واقع تھا۔دوران مصروفیت کبھی اچھی چائے پینی اور مزے مزے کی گفتگو سننی ہوتی تو میں اور ڈی ایس پی عبدالستار شیخ وہیں چلے جاتے تھے۔
ایک ملاقات اس لیے یاد ہے کہ اس دن سر شام ہی سے لیاقت آباد میں ہم پورا دن علاقے میں رہے تھے۔گھر گئے۔شادی کی سالگرہ تھی ،بیوی کو کھانے پر لے گئے۔ وہ ہر ایسی سالگرہ پر ہمیں جتاتی تھی کہ یہ ہم دونوں کا نجی دکھ ہے۔ اسے Celebrate بھی صرف ہم دونوں کو کرنا چاہیے۔شام کو ذرا ہنگامے تھمے تو پولیس موبائل میں علاقہ گشت پر مامور سب انسپکٹر شکیل زیدی نے دو پیگ جلدی چڑھا لیے۔ دس نمبر کی امام بارگاہ کے نزدیک کسی بیٹر ( وہ بدمعاش ایجنٹ جو پولیس کے لیے بھتہ جمع کرتا ہے )کی دعوت پر یہ پولیس پارٹی کیفے دولت سے خریدے ہوئے تکے موبائل میں بیٹھ کر اڑا رہے تھے کہ چار نمبر لیاقت آباد جہاں غلام فرید صابری بردارن اور ایم کیو ایم کے رہنما شاہد لطیف، عابد شریف اور عامر خان کے گھر تھے، اس گلی سے لڑکے آئے، موبائل پر چھیڑ چھاڑ کی خاطر پتھراؤ کیا تو جیالا پولیس والا بدک گیا، آؤ دیکھا نہ تاؤ خود کلاشنکوف سے فائرنگ کی اورتین لڑکے لٹا دیے۔لیاقت آباد والے ہمیشہ سے اپنے رہنما الطاف حسین کے پسندیدہ شعر کے متوالے پیروکار تھے۔
وفا کروگے ، وفا کریں گے ،جفا کرو گے ، جفا کریں گے
ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے، جو تم کرو گے، وہ ہم کریں گے
جواباً وہ فائرنگ شروع ہوئی کہ سب انسپکٹرشکیل زیدی اور اس کی نفری سوزوکی موبائل( جسے تھانے والے علاقے کی تنگ اور پرپیچ گلیوں سے گرفتار شدگان کو ٹھونس ٹھانس کر لانے کی وجہ سے کتا گاڑی کہتے تھے) اور اسلحہ چھوڑ کر اپنی گیلی پتلونیں سنبھالتے ہوئے روڈ کراس کرکے تھانے میں گھس کر چھپ گئے۔
ڈی سی فیصل سعود صاحب کو علم تھا کہ ہم کچھ دیر پہلے ہی علاقے سے گئے ہیں ،لہذا ہمیں ڈیوٹی کے لیے دوبارہ نہ بلایا جائے مگر شاہد عزیز جو اس وقت کمشنر تھے انہیں یقین تھا کہ ہماری موجودگی کا ہنگاموں کی روک تھام پر خاطر خواہ اثر پڑے گا۔
حکم کی تعمیل تو کریں مگر کیسے ؟وائرلیس پر مسلسل خراب حالات اور فائرنگ کی اطلاع تھی۔ہم نے لمبا چکر کاٹا اور راشد منہاس روڈ سے ہوتے ہوئے سہراب گوٹھ پر ایدھی صاحب کے اپنا گھر پہنچے۔ اتفاقاً ایدھی صاحب وہاں موجود تھے۔ہم نے کہا کہ ایک ایمبولینس میں ہمیں کفن اوڑھا کر لٹا دو اور تھانے بھیج دو۔ہم نے یہ ڈرامہ اس وقت رجسٹر کرلیا تھا جب 20 نومبر1979 ء کو خانہ کعبہ پر قبضے کا منصوبہ بنا تھا ۔ مفسدین اور اسلحہ جنازوں کی صورت میں حرم پاک میں لایا گیا تھا۔
ایدھی صاحب ہماری تجویز پر متفکر ہوئے مگرکراچی کے علاقے کھارادر کے میمن ہونے کے ناطے بہت Street Smart تھے۔کہنے لگے ایمبولنس میں چلاتا ہوں، دو عورتوں کو ساتھ بٹھالیتے ہیں۔آپ کفن اوڑھ کر لیٹ جاؤ۔ روکیں گے تو میں بولوں گا کہ پی آئی بی میں میت چھوڑنے جارہا ہوں، فاروق ستار کے کوئی عزیز ہیں۔ فاروق بھائی تو ملک سے باہر ہیں ،نہیں تو وہ بھی موجود ہوتے۔ایدھی صاحب کی ترکیب کارگر ہوئی، انہیں اور خواتین کو سر نیہوڑائے بیٹھا دیکھ کر لڑکوں نے ایمبولینس نہ روکی ۔ تھانے پہنچ کر ہم نے آپریشن سنبھالا۔
اس کے بعد جو سب سے قابل ذکر ملاقات ہوئی ۔قصہ طویل ہے وہ ان لوگوں کے لیے جو نصیب اور قدر کو نہیں مانتے ایک سبق آموزقصہ ہے۔خاتون دوست کا نام نازلی مان لیں۔ماں گوری تھی۔باپ دل پھینک۔بنی نہیں ۔ وہ چلی گئی۔نازلی شکل صورت میں واجبی مگر دماغ اور رویوں میں بہت اعلیٰ۔تعلیم مکمل کرکے لندن چلی گئی ۔کام ایسا تھا کہ کہیں ٹک کر ہی نہ بیٹھتی تھی۔دوران مسافت ایک یورپی مرد ملا اور اس پر ریجھ گیا۔ پاکستانیوں سے نالاں تھی اور ہم شادی شدہ تھے۔ وہ ان پاکستانی خواتین میں سے تھی جن کی اکثریت کا خیال ہے کہ پاکستان کے سب اچھے مرد یا تو شادی شدہ ہیں، یا پھانسی کے منتظر ہیں یا میانی صاحب اور میوہ شاہ کے قبرستانوں میں قیامت کے برپا ہونے کے منتظر۔ مرد کا نام تو کچھ اور تھا مگر ہم اسے رچرڈ شیردل کہیں گے۔ لندن کی ریجنٹ مسجد میں مسلمان بھی ہوا اور نکاح بھی پڑھا نام بھی بدلا ۔رچرڈ سے سلمان بن گیا، تین ممالک کی شہریت تھی۔ خانوادہ کچھ یہودی اور کچھ کیتھولک عیسائی۔ہم اسے رچرڈ شیر دل ہی پکارتے رہے۔ شیردل اس لیے کہ نازلی مزاجاً ایسی عور ت تھی کہ اس کے نام کا تعویذاگر ہاتھی کے گلے میں ڈالدیں تو وہ بھی اس کی نازک مزاجی کا لحاظ کرتے کرتے گھل کر خرگوش بن جائے۔ دونوں یہاں پاکستان آئے تو کئی خواتین نے سوچا کہ مجبور مشرقی عورت ہونے کے ناطے میں انہوں نے کن فضول مردوں کی بیوی بننے کی ہاں کردی ۔ ان میں اکثریت ان کی تھی۔ جن کی شادی اپنے کزنوں سے ہوئی تھی ۔ مرد ہو تو رچرڈ سا وجیہہ ، بیوی کو پیر و مرشد مان کر ہر بات پر توجہ دینے والا،ہم نے بمشکل سمجھایا کہ ع
ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں
کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی
سو خود کو مزار مناکحت کا گُلِ تقدیس سمجھ کر میاں کو خاموشی سے بھگتو اور جنت میں بہتری کی امید رکھو۔ مان گئیں۔
یہاں آئے تو رچرڈ شیردل کو پاکستان اچھا لگا۔سوات اور نتھیا گلی وغیرہ۔ کراچی دیکھ کر اس کی طبیعت اُوب گئی۔ کام کے سلسلے میں وہ مختلف منازل پر دوبئی سے روانہ ہوئے تو ائیر پورٹ پر فیصلہ کیا کہ پاکستان سے ایک بچہ گود لینا چاہیے۔2004 کا زلزلہ تازہ تازہ تھا۔دونوں کا فیصلہ تھا کہ بچی ہو، ماں با پ دونوں طرف سے یتیم ہو تاکہ بلوغت پر جائیداد کے نویلے حصہ دار سینہ ٹھوک کر نہ کھڑے ہوجائیں۔جلد کیا اور آنکھوں کی رنگت رچرڈ شیردل جیسی ہو یا کم از کم نازلی جیسی۔نازلی کی رنگت گوال منڈی لاہور کی دھندلی شام اور آنکھیں ٹھنڈی ایکسپریسو کافی کی طرح لگتی تھیں۔نازلی کا فون فرانس سے آیا تو ہم نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے بچی کیوں گود لینی ہے ۔ابھی تو شادی کو بمشکل دس سال ہوئے ہیں۔روہانسی ہوکر کہنے لگی کہ ع حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں۔
فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ بچی پاکستان سے لے کر بطور بیٹی پالنے کی ضد اصل میں رچرڈ شیردل کی ہے۔ میں تو اداکارہ انجلینا جولی کی طرح ملاوی ، صومالیہ اور نائیجر کی بیٹی بھی گود لینے پرخوش ہوں۔ رچرڈ کہنے لگا کہ انجلینا جولی نے شوہر بھی پانچ چھ پالے ہیں تم نے اس کی کچھ اور مثالوں کو بھی نہیں اپنایا تو اسے بھی جانے دو۔
اگلے دن ہم نے گاڑی نکالی، اپنے ایک جگارو ماتحت اور خوش اطوار سیکرٹری کو ساتھ لیا اور ایدھی صاحب کے مرکز بلقیس ایدھی ہوم ، میٹھا در پہنچ گئے ۔ ایدھی صاحب موجود نہ تھے۔مسز بلقیس ایدھی بہت No-Nonsenseقسم کی خاتون ہیں۔اچھے اچھوں کو خاطر میں نہیں لاتیں۔بتانے لگیں بچوں کو گود لینے والی لائن میں ہمارا نمبر دس سال بعد آئے گا۔ہم نے بچی کے جسمانی کوائف کے حوالے سے تفصیلات درج کرائیں تو چڑ کر کہنے لگیں کہ’’ بچہ گود لینے آئے ہو کہ مہندی کی رسم کی ڈیکوریشن اور کیٹرنگ کرانے‘‘۔
ہم نے میمنی بولی ، میاں سے پرانی واسطے داری کے قصے چھیڑے تو بتدریج نرم پڑتی گئیں۔ ہم نے مزید رجھانے کے لیے اپنی نانی دادی کی بات چھیڑی تو کہنے لگیں کہ’’ پاکستان بنا تو میں تو بہت چھوٹی تھی ۔ہم نے کہا ملکہ نورجہاں اور تاج محل والی ممتاج (ممتاز ) کا نام سنا ہے۔ تب تو آپ پیدا بھی نہیں ہوئیں تھیں۔ ان کو کیسے پہچانتی ہیں اس دوران ہماری سیکرٹری عنبرین بھی ان کی وہاں موجود کسی ذمہ دار خاتون سے اپنی بھابھی کی پھوپھی کی بیٹی کے میاں کے حوالے سے نہ صرف تعلق نکال چکی تھی بلکہ سیل فون نمبروں کا بھی چپکے چپکے تبادلہ ہوچکا تھا۔چلتے وقت مسز ایدھی نے کہا ’’وعدہ نہیں کرتی۔ میاں سے پوچھوں گی۔وہ بادشاہ آدمی ہے بولے گا تو اسپیسل (اسپیشل) کیس بنے گا۔ ہم کرتے نہیں ۔ مگر کیا ہے کہ نو گھر تو موئی ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے نا۔‘‘
تین دن بعد اس کے سیل فون پر ادارے کی جانب سے فون آیا کہ ان کے پاس گود لینے کے لیے فوری طور پر ایک بچی موجود ہے وہ آن کر لے جائے۔اس نے نازلی کو فوراً ای۔میل کی مگر نازلی کا جواب آیا کہ وہ کسی طور پندرہ دن سے پہلے پاکستان نہیں آسکتی، وہ خود اس وقت مراکش میں ہے اور رچرڈ شیردل کہیں ویت نام میں بیٹھا ہے۔ ہم نے خود بچی لینے میں اس لیے عجلت نہیں دکھائی کہ ایسے مواقع پر جو فارم وغیرہ بھرے جاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بچی کی آئندہ قومیت پاسپورٹ دیگر دستاویزات اور ملکیت میں حصہ داری کے مسئلے کھڑے ہوجاتے۔
بات آئی گئی ہوگئی۔ نازلی اور رچرڈ ایک ماہ بعد پاکستان آن پہنچے۔ خاکسار انہیں لے کر اس ادارے کے دفتر جب اگلی صبح پہنچا ۔ مسز ایدھی نے انہیں خوب ڈانٹا اور وہ فارم دکھایا جس پر خاکسار کے نام کے آگے سرخ روشنائی سے انگریزی میں لکھا تھا “Non-Serious” یعنی درخواست گزار غیر سنجیدہ ہے۔ چند دن بعد ہم نے ایک ملاقات میں ایدھی صاحب کو شکوہ کیا کہ ہمارے نام کے آگے آپ کی بیگم نے لال انک سے رجسٹر میں Non-Serious” لکھا ہے تو کہنے لگے کہ بلقیس نے تو میرے نام کے آگے بھی نکاح نامے میں Non-Serious” لکھا ہے۔ آپ بولو اس گھیلی(پاگل) کا میں کیا کروں۔آپ کا کام ہوگا۔ ہر بات دل پر لینے کی نہیں ہوتی۔‘‘
ادارے میں اسوقت کافی لوگ اسی مقصد کے تحت آئے ہوئے تھے۔ اکثریت بیرون ملک مقیم پاکستانی نژاد جوڑوں کی تھی۔ وہاں انہیں بتایا گیا کہ ادارے کو روزانہ نو سے دس نوزائیدہ بچوں کی لاشیں مختلف مقامات سے ملتی ہیں اور اتنے ہی نو مولود بچے انہیں شہر میں جو ان کے مختلف مقامات پر سینٹر ہیں وہاں پر باہر رکھے ہوئے جھولوں میں زندہ حالت میں ملتے ہیں۔ خاکسار چونکہ ان بچوں کی لاشیں چھوٹے سفید کفنوں میں لپٹی پہلے بھی ان کے سہراب گوٹھ والے ایدھی ہوم میں دیکھ چکا تھا لہذا اسے اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی مگر وہاں موجود لوگوں کے لئے یہ ایک جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا انکشاف تھا۔
جب سب لوگ چلے گئے تو مسز ایدھی نے انہیں کہا کہ وہ ایک چودہ سال کی بہت خوبصورت لڑکی سے ملوانے اندر لے جائیں گی، یہ بچی سات ماہ کی حاملہ ہے۔وہ اس سے کوئی سوال نہ پوچھیں، جب اس کے ولادت ہوجائے گی تو وہ اس کا بچہ نازلی اور رچرڈ کو دے دیں گی۔اسکے ساتھ ہی اس نے خاکسار کے ہاتھ میں ایک فائل سے نکال کرایک خط دیا کہ وہ انہیں پڑھ کر سنائے۔ خط میں لکھا تھا۔”میڈم صاحبہ۔ہم غیرت مند لوگ ہیں بچی کو میرا ارادہ قتل کرنے کا تھا۔مگر اس کی ماں نے بہت واسطے دیئے، یہ ہماری ایک ہی اولاد ہے،حالات کچھ ایسے ہیں کہ ہم دوسرا بچہ پیدا نہیں کرسکتے۔میری بیوی اور اس کی ماں نے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے اسے قتل کیا تو وہ خودکشی کرلے گی اسطرح میری گردن پر تین لوگوں کا خون ہوگا، میں اس آدمی کو بھی قتل کرنا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا، مگر نہ توبچی اس کا نام بتاتی ہے نہ ماں،میں کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔بچی کی جان اور میری عزت اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔”
ہم نے خط پڑھ کر جب سنایا تو سبھی رو رہے تھے حتی کہ رچرڈ شیر دل بھی۔اس لئے کہ نازلی اس خط کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ کرتی جارہی تھی۔
نازلی نے پوچھا اس نے آپ کو بتایا کہ’’ یہ کس کی حرکت تھی؟‘‘۔ تو مسز ایدھی نے جواب دیا کہ وہ اس کی ماں کا قریبی رشتہ دار ہے۔وہ لوگ ایک شادی میں گاؤں گئے تھے جہاں یہ سب کچھ ہوگیا،بیٹی نے ماں کو بھی بہت بعد میں پتہ چلنے دیا۔اب آپ لوگ اسکو دیکھ لیں یہاں اور بھی بچے ہیں مگر ایک تو ان میں لڑکے ہیں اور زیادہ تر ذہنی طور پر معذور ہیں۔آپ کو تو لڑکی چاہئے نا اور وہ بھی صحتمند۔
ماہرہ نے کہا کہ ایک تو میرے میاں کو بیٹی کا شوق ہے اور دوسرے وہ خود بھی اتنی مصروف ہوتی ہے کہ ایک ذہنی طور پر معذور بچّے کو پالنا شاید اس کے لئے ممکن نہ ہو۔
مسز ایدھی انہیں اند رلے گئیں،یہاں بچے کھیل رہے تھے۔ معصوم اور اپنے والدین کے پیار سے محروم دنیا کی زیادتیوں سے بے خبر، ایک استانی نے گھیرا بناکر کچھ بچوں کو کھیل کھیل میں تعلیم دینے کا بھی انتظام کر رکھا تھا۔انہیں یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ بچے کافی آرام سے تھے اور قدرے خوش بھی۔شاید یہ سب اتنے چھوٹے اور معصوم تھے کہ انہیں ماں کے وجود کا اور اپنی موجودہ حالت کا شعور ہی نہ تھا۔ان بچوں کے کمرے سے لے کروہ انہیں ایک ایسے ہال میں لے گئی جہاں کچھ لڑکیاں اور عورتیں سلائی اور دیگر امور میں مصروف تھیں۔انہی میں وہ لڑکی رافعہ بھی تھی۔ نازلی کو لگا کہ وہ ہندوستانی اداکارہ پریٹی زینٹا کا سراپا دیکھ رہی ہے، جامنی رنگ کے ایک ڈھیلے فراک اور گہری سبز رنگ کی شلوار پر بڑا سا چنری کا دوپٹہ اوڑھے وہ کوئی کپڑے پر گوٹا ٹانک رہی تھی۔وہ ایک نظر اس پر ڈال کرکچھ بات کیے بغیر آگے بڑھ گئے۔ نازلی اور اس کا میاں کچھ اداس تھے۔بچی کی موجودگی اورشایدیہ سوچ کر کہ وہ اس کے آنگن میں کھلنے والا پھول اس کو بتائے بغیر توڑ کر کہیں ایسے ملک میں لے جائیں گے جس کا اس بے چاری نے نام بھی نہ سنا ہو، اس کا بچہ ایک ایسے گھر میں پلے گا جس کا ہر دروازہ ، ہر کھڑکی ماں کے لئے بند ہوگی۔
خاکسار سوچنے لگا کہ کیا وہ خواتین جو کسی زیادتی کا شکار ہو کر بچوں کو جنم دیتی ہیں، انہیں بھی اس بچے سے اتنا ہی پیار ہوتا ہے،اسے بوسنیا کی وہ مسلم خواتین بھی یاد آئیں جنہیں وہاں کے عیسائی سپاہیوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حاملہ کیا جسے وہاں نسلی صفائیEthnic Cleansing کا نام دیا۔ کیا ان عورتوں کو جن کے بچے ایک نفرت کے تحت ان کے وجود کا زبردستی حصہ بنادئیے گئے انہیں بھی ان کی مائیں اسی طرح چاہیں گی جس طرح وہ اپنے سماجی طور پر مروجہ اور محبت کے واسطوں سے پیدا ہونے والے بچوں کو چاہتی ہیں۔ میرے ذہن میں اس بچی کو دیکھ کر سوالات کا ایک سونامی پھٹ گیا۔ ان بیچارے بچوں کا جانے کیا بنا ہوگا اور ان کی ماؤں کا کیا ہوا ہوگا۔؟
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...