... loading ...
آپ نے کبھی دنیا کا نقشہ غور سے دیکھا ہے ، پاکستان اور ایران کے درمیان پچکا ہوا سا ایک خطّہ دکھائی دیتا ہے ،اسی کا نام افغانستان ہے ، سرزمین ِافغانستان کے بارے میں خود پشتونوں میں ایک کہاوت ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ ساری دنیا بنا چکا تو اس کے پاس چٹانوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیا ، اس نے سوچا کہ اس سے ایک اور خطّہ کیوں نہ تخلیق کیا جائے چنانچہ افغانستان وجودمیں آیا ۔ کوہِ ہندوکش نے افغانستان کو شمالی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے ، شمال میں فارسی بولنے والے اور ترکی النسل لوگوں کی اکثریت ہے جبکہ جنوب میں پشتون اکثریت میں ہیں۔ اسی طرح پہاڑی سلسلے کے ساتھ ساتھ تاجک اور ہزارہ قبائل آباد ہیں جن کی ناک چپٹی اور خدوخال وسط ایشیائی ہیں ، یہ کل آبادی کا 19فیصد ہیں ۔ افغانی احمد شاہ ابدالی کو اپنا ’’بابائے قوم ‘‘مانتے ہیں جس نے اٹھارویں صدی میں باقاعدہ افغان ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔ اس سے قبل اس خطّے پر کوئی باقاعدہ حکومت کبھی نہ رہی ، کچھ مختلف النسل لوگ قلیل تعداد میں یہاں آباد ضرور رہے مگر یہ کوئی ایک قوم نہ تھے ۔
افغانستان گزشتہ صدی کی آخری چند دہائیوں سے اب تک جنگی حالت سے دوچار ہے ، پہلے روس کا قبضہ پھر خانہ جنگی اور پھر امریکی حملے ، کہتے ہیں 80ء کی دہائی میں افغانستان میں روسی و امریکی اسلحے کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود تھا ۔ ان حالات کے باعث گزشتہ کئی دہائیوں سے افغان شہری ترکِ وطن کرکے پاکستان کی طرف نقل مکانی کرتے رہے ، یہاں ان پناہ گزینوں کو نہ صرف سر چھپانے کی جگہیں دستیاب ہوئیں بلکہ ہر جائز و ناجائز کاروبار کے بلا روک ٹوک مواقع بھی ملے، اکثریت نے یہاں باضابطہ طریقہ کار کے برعکس ’’جُگاڑ‘‘ کے ذریعے قومی شناختی کارڈز بھی حاصل کئے اور اب یہاں نہ صرف کاروبار بلکہ باقاعدہ سیاست بھی کرتے ہیں ۔ نادرا کی تازہ ترین ڈیٹا اسکروٹنی کے مطابق بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں پختونخواہ ملی پارٹی کے پلیٹ فارم سے گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والوں میں سے کم از کم 27نمائندے باقاعدہ افغان شہری ہیں ۔ افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد انکی جلی ہوئی گاڑی کے نزدیک سے پاکستانی شناختی کار اورپاسپورٹ ملنے کو پاکستان کی عسکری اشرافیہ نے اپنے لئے باعث شرم سمجھا جبکہ یہ بھی درست ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی تمام بڑی وارداتوں میں دہشت گردوں کے قدموں کے نشانات پاکستان کے قبائلی علاقوں سے آتے ہوئے پائے گئے اور پھر اس سے بھی پَرے، یہ نشانات ہمیشہ افغانستان تک جا پہنچے۔ ٹی ٹی پی کا موجودہ سربراہ معصوم پاکستانیوں کا قاتل ملا فضل اﷲ بھی خود افغانستان میں قیام پزیر ہے لہذا جنرل راحیل شریف کی ہدایت پر افغانیوں کو انکے وطن واپس بھیجنے اور یہاں رہنے کے خواہشمندوں کو باضابطہ رجسٹریشن کرکے انہیں ’’ورک پرمٹ‘‘ دینے کی ایک مہم شروع کر دی گئی ہے اور نادرا نے پاکستانی پرچم کے سائے تلے چھپے بیٹھے افغانیوں کو کھوجنا بھی شروع کر دیا ہے ۔ پے در پے دہشت گردی کے واقعات سے تنگ خیبر پختونخواہ حکومت نے نہایت مستعدی کے ساتھ افغان شہریوں کو ڈھونڈ، ڈھونڈ کر پناہ گزینوں کے کیمپس تک محدود کرنے کیلئے ایک مہم شروع کی۔ جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی پائیدار امن کیلئے ناگزیر ہے لیکن ہماری پارلیمنٹ میں بیٹھے چند ’’معزز‘‘ اور جمہوریت کے چیمپئین ’’پاکستانیوں‘‘ کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے شروع ہو گئے ہیں ۔
بلوچستان میں نواز لیگ کے اتحادی پختونخواہ ملی پارٹی کے سربراہ ’’پاکستانی نما افغانی‘‘ محمود خان کا ایک انٹرویو شہ سرخی کے طور پر شائع ہوا، اخبار کے مطابق محمود خان نے کہا کہ افغانیوں کو پاکستان کی سرزمین پر تنگ کرنا مناسب نہیں ،انہوں نے مزید کہا کہ سندھ اور پنجاب وغیرہ میں جہاں بھی افعانیوں کو پریشان کیا جائے ان کو چاہیے کہ وہ خیبر پختو نخواہ چلے جائیں کیونکہ خیبر پختونخواہ تو ہے ہی افغانیوں کااور اگر انہیں وہاں بھی تنگ کیا گیا تو بھر پور احتجاج کریں گے ۔
اَچکزئی پختون قبیلہ ہے اور اس قبیلے کے افراد بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن ان کی اکثریت محب وطن ہے اسی لئے محمود خان کے انٹرویو کے مندرجات پڑھ کر خیال آیا کہ اَچک زئی قبیلے میں ایسا ’’اُچک‘‘زئی کیسے پیدا ہو گیا ۔ موصوف کی صورتحال موجودہ حکومت میں پنجابی کے محاورے ’’سسر وی تے بہنوئی وی ، بھائی تے بھرجائی وی ‘‘والی ہے ، ان کے سگے بھائی بلوچستان کے گورنر ہیں اور خاندان کے کم وبیش ڈیڑھ درجن افراد صوبے میں اہم ترین عہدوں پر تعینات ہیں گویا کھاتے پاکستان کاہیں مگر وفاداری افغانستان کی کرتے ہیں ۔ محمود خان نے اس انٹرویو کی اشاعت کے تین روز بعد وضاحت کی کہ ان کا مؤقف توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ۔انہوں نے یہ نہیں کہا کہ خیبر پختونخواہ افغانستان کا ہے بلکہ یہ کہا تھا کہ خیبر پختونخواہ تاریخی طور پر افغانستان کا حصّہ رہا ہے ، اگر وہ یہ وضاحت نہ کرتے تو شاید قلم شعلے اُگل رہا ہوتا لیکن اب اس تردیدی بیان کے بعد کم از کم اتنا ضرور ہو گیا ہے کہ انہیں اس خطّے کے حوالے سے تاریخ کے اوراق پلٹ کر کچھ سکھایا جائے ۔
خیبر پختونخواہ کا درّہ خیبر صدیوں سے غیر ملکی حملہ آوروں کیلئے برصغیر کا دروازہ رہا ہے ، یونانی ،ترک، عرب، منگول اور مغل سب کے سب یہیں سے برصغیر میں داخل ہوئے ، اٹھارویں صدی میں فارس کا عظیم فاتح باد شاہ بھی درّہ خیبر سے گزر کر اس خطّے میں داخل ہوا، اس وقت قندھار غلزئی قبیلے کے زیر اثرتھا، نادر شاہ نے یہ علاقہ فتح کیا پھر جلال آباد سے ہوتا ہوا پشاور آیا اور پھر لاہور جا پہنچا، اس دوران میں اس نے مرہٹوں کو بھی بدترین شکست دی اور مغلوں کے خزانے بھی لوٹے ، کہتے ہیں فتوحات کے اس سفر کے دوران میں ایک مرتبہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار چہل قدمی کر رہا تھا تو مفتوح علاقوں کے کچھ افراد نے اس پر چپلّیں پھنکیں جس پر وہ غضبناک ہو گیا اور تباہی مچاتا ہوا اپنی افواج لیکر واپس پلٹا، اُس نے مغلوں کا افسانوی تختِ طاؤس بھی لوٹ لیا جس پر 186قیراط کا پتھر’’کوہ ِنور‘‘ جڑا تھا، کوہِ نور کا مطلب ہے روشنی کا پہاڑ۔ وہ اس ہیرے کو اپنی پگڑی میں باندھے رکھتا تھا ، ہندوستان سے وہ واپس مغرب کی طرف گیا ، اسی نادر شاہ نے اپنے خلاف سازش کے شبہ میں اپنے سگے بیٹے رضا قولی کی آنکھیں نکلوادی تھیں، سن 1747میں مغرب کی طرف سفر کے دوران ایک رات وہ خیمے میں سویا ہوا تھا تو کسی نے اس کے سینے میں خنجر گھونپ کر اسے قتل کر دیا ، فوج میں بھگڈر مچ گئی اور اس کا اہم ترین کمانڈر احمد شاہ ابدالی اپنے چار ہزار سواروں کا دستہ لیکر قندہار چلا آیا اور یہاں کا بادشاہ بن بیٹھا ، وہ آتے ہوئے نادر شاہ کا بہت سا سونا ، جواہرات اور کوہ ِنورہیرا بھی اٹھا لایا تھا ۔ اسے کانوں میں سونے اور موتی کی بالیاں پہننے کا شوق تھا ، اسی مناسبت سے افغانستان کا بادشاہ بننے کے بعد وہ ’’دُرّ ِدُرّاں‘‘ کے لقب سے مشہور ہوا یعنی ’’موتیوں کا موتی‘‘۔ آگے چل کر اسی سے ’’درّانی‘‘ قبیلے کا بنیاد پڑی۔
احمد شاہ ابدالی نے مقامی پشتونوں کو فارغ بیٹھے رہنے سے انہیں جنگوں میں مشغول رکھنا بہترسمجھا ۔لہذا وہ کابل سے ہوتا ہوا پشاور اور پھر اٹک کے راستے لاہور سے دہلی تک جا پہنچا اس کے بعد واپس ہوا اور مغرب کی سمت بڑھتے ہوئے ہرات فتح کر لیا جہاں پہلے فارس کا قبضہ تھا۔ اس نے پلٹ پلٹ کر ہندوستان پر کم و بیش 11مرتبہ چڑھائی کی جبکہ چوتھی مرتبہ میں وہ کشمیر اور سندھ پر بھی قبضہ کر چکا تھا۔ اسکی سلطنت دریائے آمو کے کنارے سے دہلی تک اور پھر کشمیر سے لیکر سندھ وبلوچستان تک پھیل گئی تھی ، کسی جنگی مہم کے دوران اسکی ناک پر تلوار لگی اور زخم کینسر کی شکل اختیار کر گیا ، اس نے چاندی کی ناک بنوا کر لگائی مگر پھروہ سنبھل نہ سکا۔ اسکی موت 1772ء میں ہوئی، اس کے بعد اسکی اولادیں اور خاندان کے قریبی افراد محلّاتی سازشوں کے ذریعے اکھاڑ پچھاڑ کرکے 1978ء تک تھوڑے تھوڑے عرصے کیلئے حکمران بنتے رہے آخری حکمراں نادر شاہ تھا ۔ اس کے بعد وہاں کیمونسٹ پارٹی برسراقتدار آگئی تھی۔ اس سے قبل کے قابل ذکر حکمرانوں میں تیمور شاہ، امیر اکبر شاہ ، شجاع شاہ ، حبیب اﷲ شاہ وغیرہ شامل تھے، تیمور شاہ نے ہی دارالخلافہ قندہار سے کابل منتقل کیا تھا ، ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج نے 1788ء میں ایک زبردست جنگ کے بعد افغانستان پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا ، بعدازاں دوسال قیام کے بعد برطانوی افواج احمد شاہ ابدالی کے خاندان کے لوگوں سے خراج کی ادائیگی کے معاہدے کر کے وہاں سے نکل گئی تھیں اور وہاں شاہی خاندان کے اپنے پسندیدہ فرد حبیب اﷲ شاہ کو حکمراں مقرر کر دیا گیا تھا ۔
اس سارے تاریخی پس منظر کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی خطّے پر ’’تاریخی حق‘‘ کے فارمولے کو تسلیم کر لیا جائے تو پوری دنیا کا نیا نقشہ تیار کر نا پڑے گا ، سندھ اور لاہور کے بعض علاقے اور کشمیر بھی افعانستان کو دینا پڑیں گے مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی پھر تو پورا افغانستان ہی منگولوں کو دینا پڑ جائے گا کیونکہ اس خطّے کا پہلا باضابطہ فاتح چنگیز خان تھا جس نے بلخ، ہرات ، بامیان اور غزنی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ یہاں بیس ہزار افراد قتل کروا دئیے تھے اور کہاتھا یہاں انسانوں کی آبادی نہیں ہونی چاہیے یہ جگہ میرے گھوڑوں کی چرا گاہ کیلئے اچھی ہے ، اس خطّے میں ’’خان ‘‘ کا لقب اسی کی میراث ہے۔ وہ کہا کرتا تھا دنیا میں دو ہی خان ہو سکتے ہیں ایک آسمانوں پر اور دوسرا زمین پر لیکن ذرا ٹہرئیے ۔چنگیز خان بھی کیوں اس سے بہت پہلے عظیم یونانی فاتح سکندر اعظم بھی تو یہاں آیا تھا اور اٹک کے قلعے تک آکر لوٹ گیا تھا گویا افغانستان پر سب سے پہلا حق تو یونانیوں کا ہوا ۔ محمود خان ’’اُچک‘‘ زئی کے فارمولے پر چلیں تو معلوم نہیں دنیا کے باقی خطّوں کا بھی کیا ہو ۔
1809ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طر ف سے بعض معاملات طے کرنے کیلئے افغانستان آنے والے ماؤنٹ اسٹیوارٹ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا کہ افغان دلیر ، مہمان نواز ،جفا کش اور آزادی پسند ہو تے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ نہایت حریص، حاسد ، منتقم مزاج اور غارت گر بھی ہو تے ہیں ۔ محمود خان ’’اُچک‘‘زئی میں پہلی بیان کردہ صفات ہیں بھی یا نہیں معلوم نہیں مگر دوسری نوعیت کی’’خوبیاں‘‘ ان میں بدرجۂ اتم موجود ہیں ۔
گفتگو یہاں سمیٹی جا سکتی ہے مگر بات ختم نہیں ہوتی ، حکومتی اتحادی کا اس نوعیت کا بیان جو پاکستان کی سا لمیت اور وحدت کو چیلنج کرتا ہو اس پر حکومتی زعما کی خاموشی مایوس کن ہے ، دانیال عزیز، طلال چوہدری ، عابد شیر علی ، پرویز رشید اور سعد رفیق جانے کہاں جا سوئے ہیں ، کونسی گھونگھنیاں منہ میں ڈال لی ہیں ۔معلوم نہیں اور خواجہ آصف کو اب شرم و حیا کیوں نہیں آرہی، یہ بھی ایک سوال ہے ، دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ اگر اسی نوعیت کا بیان ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے دیا ہوتا تو منظر نامہ کیا ہو تا ، انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایم کیو ایم کو ختم کرنے والے پہلے بھی بہت آئے یہ جو اب ’’ہیں‘‘یہ بھی کل’’تھے‘‘ ہو جائیں گے ، بادی النظر میں تو یہ قدرت کے ایک نظم کی طرف اشارہ تھا مگر ان کے خلاف ایف آئی آرز کی پوری سنچری مکمل کی گئی تھی۔ حکمرانوں کے طرز عمل کے حوالے سے فیصلہ قارئین خود کریں بس اتنا یاد دلاتا چلوں کہ 1988کے انتخابات میں پختونخواہ ملی پارٹی نے ایک انتخابی نعرہ ایجاد کیا تھا ،وہ تھا ’’دابولا نہ چترال، پشتو نستان دی ‘‘ یعنی بولان سے چترال تک پشتونستان ہے۔ اس پر نواب اکبر بگٹی نے کہا تھا کہ چترال کا تو پتہ نہیں مگر بولان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی مت ۔ اس کے بعد بلوچستان میں بلوچ، پشتون فسادات بھی ہوئے تھے اور کرفیو لگانا پڑا تھا۔
محمود خان کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ تاریخ نے کبھی کسی ایک علاقے پر ہمیشہ کیلئے کسی دوسر ے کا حق تسلیم نہیں کیا ، تاریخ حملہ آوروں کی فتوحات ، قتل و غارت گری اور ہجرت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے ،بہتر ہے محمود خان افغانیوں سے کہیں کہ اب افغانستان کے حالات بہت اچھے ہو چکے، واپس چلے جاؤ اور اگر وہ خود بھی اپنا بوریا بستر باندھ کر اپنے ’’وطن ‘‘ کا قصد کر لیں اور قومی اسمبلی کی رکنیت اور قومی شناختی کارڈ ’’سرینڈر‘‘ کر دیں تب شاید پاکستانی قوم انہیں ایک سچا انسان سمجھنا شروع کر دے۔محمود خان دو کشتیوں کے سوار ہیں مبادا کہیں وہ مرزا صادق شرر کے اس شعر کے بمصداق نہ بن جائیں کہ
گئے دونوں جہان کے کام سے ہم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...
یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ قصور وار کون ہے سول حکمران یا فوجی آمر ۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی پر مبنی نظام کا نام ہے اور مارشل لاء ایک آمر کی اپنے چند حواریوں کے ہمراہ زبردستی قائم کی گئی نیم بادشاہت کا ۔ پاکستان جمہوریتوں اور آمریتوں کے تجربات سے بار بار گزر ا ہے مگر یہ ایک تلخ ح...
قومی اسمبلی کے 9؍اگست کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کی تقریر بہت ساروں پر بجلی بن کر گری ، برقی میڈیا پر محمود خان اچکزئی کی کچھ یوں گرفت ہوئی کہ جیسے سول ہسپتال جیسا ایک اور سانحہ رونما ہوا ہو۔اور تواتر کے ساتھ غداری کے فتوے آنے شرو ع ہو گئے۔ حالانکہ ملتے جلتے رد عمل کا اظہار ع...
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی متنازع گفتگو کا معاملہ سنجیدگی اختیار کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے محمود خان اچکزئی کی متنازع تقریر کے خلاف ایک شہری وحید کمال کی درخواست کی سماعت کی ۔ جس میں درخواست گزار نے یہ موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 19 کے تحت افواج پاکستا...
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جون کے مہینے کے آخری عشرے میں ایک غیر ملکی ریڈیو (مشال) کو انٹرویو میں کہا کہ’’ خیبر پشتونخوا تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان کڈوال (مہاجرین )سے پنجابی، سرائیکی، سندھی یا بلوچ تنگ ہیں تو انہیں پشتونخوا وطن کی طرف بھی...
طبیعت میں کسلمندی تھی ، گھرسے نکلنے کا موڈ بالکل نہ تھا مگر یکایک جنوبی افریقہ کا جوان العزم سیاہ فام بشپ دیسمند ٹوٹو(Desmond Tutu) یاد آیا جس نے زندگی غربت اورنسلی تعصب کے خلاف جدوجہد میں گزار دی اور نوبل انعام سمیت چھ عالمی اعزازات اپنے نام کئے ۔ اس نے کہا تھا If you are ne...
ڈاکٹر راحت اِندوری کا تعلق ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر ’’انِدور‘‘سے ہے ، یہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی ہیں اوراِندور یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں ، دنیا بھر میں جہاں بھی اردو شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہاں انہیں بخوبی جانا پہچانا جاتا ہے ، کچھ عرصے قبل مودی...
اپنے معمول کے کاموں میں مصروف، دکانوں پر مول تول کی تکرار کرتے ، قہوہ خانوں پر استراحت آراء اوربازار سے گزرتے سب ہی لوگوں نے پکار سنی ۔ ’’اے اہل قریش ادھر آؤ۔‘‘ بار بار پکار ا جا رہا تھا لوگ چل پڑے، جمع ہوئے تو دیکھا ،عبدالمطّلب کا پوتا محمدﷺ کوہ ِصفا پر چڑ ھا نِدا لگا رہا ...
ایک نشئی نے کہیں سے سن لیا کہ انسان مرنے سے قبل اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کر سکتا ہے ، اسکی موت کے بعد وہ اعضاء کسی مستحق کیلئے جینے کا سہارا بن سکتے ہیں اور اس طرح عطیہ کرنے والا مرنے کے بعد بھی نیکیاں کماتا رہتا ہے ، نشئی پوچھتا پوچھتا ایک ایسی این جی او کے دفتر جا پہنچا جو اعضاء ...
فیض حیات ہو تے تو کہتے .... آؤ کہ آج ختم ہو ئی داستانِ عشق اب ختم ِعاشقی کے فسانے سنائیں ہم گذشتہ دو ہفتوں سے ماجرا کچھ ایسا ہی ہے ، ’’خَتمِ عاشقی‘‘ کے فسانے ہی کہے جا رہے ہیں ، ہر تیسرے روز سہ پہر تین بجے کوئی نہ کوئی پتنگ کٹ کر ’’خیابان ِ سحر ‘‘پر آگرتی ہے ، اب ہا...
یہ کہانی اسلام آباد کے میلوڈی پارک سے شروع نہیں ہوتی۔ یہ لاہور کی زنانہ جیل کے ڈیتھ سیل سے بھی شروع نہیں ہوتی البتہ اس جیل کا صدر دروازہ وہ مقام ضرور ہے جہاں سے کہانی میں’’ ٹوئسٹ‘‘ آیا۔ کہانی شروع ہو تی ہے لاہور سے 30میل دور پنجاب کے ضلع شیخو پورہ کے نواحی علاقے’’اِتا...
بعض لوگ جب بھی بولیں احساس شدید تر ہو جاتا ہے کہ خاموشی اس سے کہیں بہتر تھی، شاید بعض صوفیاء اسی لئے خاموشی کو عبادت بھی قرار دیتے آئے ہیں واقعہ مگر کچھ بھی ہو یہ طے ہے کہ الفاظ کی حرمت تب ہی مقدم ہے جب ادا کنندہ کا اپنا عمل ان کے مفاہیم سے تال میل رکھتا ہو ۔وزیر اعظم نے ایک بار...