... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
ہم تینوں جب کار سے اتر کر حضرت موسیٰؑ کے مزار میں داخل ہوئے تو وہاں موجود لوگ مزار کے متولی کو دیکھ کر کھڑے ہوگیے۔ یہ احترام بڑا پر وقار تھا ، اس میں شرف انسانی کا بڑا لحاظ رکھا گیا تھا ۔میرے دماغ میں پاکستان کے ایسے مواقع پر دیکھے گئے مناظر آگئے جہاں درگاہوں اور خانقاہوں پر آنے والے پیرزادوں اور سجادہ نشینوں کی آمد پر غلامانہ، گرواٹ بھری اور غیرانسانی لگاوٹ کے مظاہرے مریدین ، معتقدین اور حاظرین بے دام میں عام دکھائی دیتے ہیں۔نہ کسی نے آگے بڑھ کر ہاتھ چومے ،نہ دامن تھاما، نہ قدم بوسی کی ۔پاکستان میں ان نام نہاد پیروں، اولیاء زادوں کے طرز ہائے زندگی شاہانہ ہیں،وسیع جاگیریں،دولت کے انبار اور انتہائی شرمناک غیر اخلاقی زندگی۔ اگر آپ ان کو قریب سے جانتے ہیں۔
اس بچارے امین الحسینی کا جس کے پر دادا یروشلم کے مئیر اس وقت رہے ہیں جب ہمارے مخدو م اور پیرزادوں کو شاید سونے کے لیے صحیح قسم کی چارپائیاں اور پاؤں کے لیے ثابت جوتیاں بھی نصیب نہ ہوتی ہوں۔ان کا اس قدر عظیم مزار کا متولی ہونا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس بے چارے امین الحسینی کا گھر تو ایک سو بیس میٹر پرگارے مٹی کی دیواروں کا بنا تھا ۔ جس میں ٹین کے دروازے تھے،بغیر فرنیچر، چھوٹے سے فرشی مہمان خانے والا جس میں کوئی مرید خدمت بجالانے کے لیے بھی مامور نہ تھا۔وہ خود ہی قہوے کی ٹرے اٹھائے چلے آئے تھے۔ خالی کپ بھی خود ہی لے گیے تھے۔ان کا ثوب بھی استری سے عاری مگر صاف ستھرا تھا۔ان کے پیروں کے سینڈلوں میں تسمے یا پٹیاں نہ تھیں۔
احاطۂ مزار میں داخل ہوتے ہی عبدالقادر مجھے ایک کونے میں لے کر بیٹھ گیا۔امین الحسینی سے معتقدین آ کرملتے رہے ۔وہ بھی خوش دلی اور عجز کا پیکر بنے رہے۔ کوئی جعلی بھرم یا بلاوجہ تحریم و تقدیس کا خول ان کے پورے وجود پر مسلط نہ تھا ۔ وہ ان میں سے ہی ایک تھے نہ کہ کوئی مخلوق غیر معمولی۔کچھ دیر بعد جب وہ وہاں موجود پندرہ بیس افراد سے مل چکے تو بہت نرم لہجے میں معذرت بھرے انداز میں عربی میں جانے کیا کہا کہ وہاں سے بلا چوں و چرا سب ہی کھسک لیے۔ انہوں نے کھڑکیوں پر پردے گراکر اپنے ثوب کی جیب سے چابیوں کا ایک گچھا نکالا۔ہمیں ساتھ لے کر وہ ایک چھوٹے سے ملحقہ کمرے میں داخل ہوگیے۔اس کمرے کی دائیں ہاتھ والی دیوار پر لکڑی کا ایک پرانا سا دروازہ تھا۔بالکل ویسا ہی جیسا کبھی آپ کو اندرون موچی گیٹ قدیم لاہور یا غالب کے دہلی والے محلے بلّی ماراں ( بلی ماراں بمعنی Shuttering کا کام کرنے والے) کے پرانے مکانوں میں دکھائی دیتے تھے۔اس دروازے کے نقش و نگار بہت اچھے اور نازک تھے۔اس پر لگے تالے کو انہوں نے ایک عجیب سی کنجی سے کھولا۔دروازے کے دوسری جانب مکمل اندھیرا تھا۔وہ اس اندھیرے سے آشنا تھے لہذا بلا تکلف آگے بڑھ گیے۔ہم رکے رہے تو انہوں نے پیچھے پیچھے آنے کا مشورہ دیا۔یا اﷲ تیری یہ کیسی عنایت ہے۔ مجھ پر کیا راز ہائے فسوں عیاں ہورہے ہیں،میرا دل دھڑک رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ اُچھل کر باہر آجائے گا۔
اس کمرے کے دروازے سے ذرا پرے ایک قدیم زینہ تھا جو بہت خاموشی سے کسی دھیمی آبشار کی مانند ایک تہہ خانے میں اُتررہا تھا۔اب میری آنکھوں کو اندھیرے میں کچھ کچھ نظر آرہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم تاریخ کے کسی انجانے اندھیارے غار میں اُتر گئے ہیں۔ کل چودہ زینے تھے۔ اس زینے کے ختم ہوتے ہی ایک موٹی سی دیوار میں نصب ایک اور دروازہ تھا۔بے حد چھوٹا سا دروازہ۔
اتنا چھوٹا کہ میں گھٹنوں کے بل ہی رینگ کر دوسری طرف جاسکتا تھا۔اس مرحلے سے فارغ ہوکر جائزہ لیا تو یہ بارہ فٹ لمبا اور اتنا ہی چوڑا ایک کمرہ تھا۔ جس کا فرش مٹی کا اور جس میں کوئی کھڑکی نہ تھی۔ اس کی چھت بھی کچھ اونچی نہ تھی مگر ایک بات کی بڑی حیرت ہوئی ۔ عام طور پر ایسی جگہوں پر جو اندھیری، بے دریچہ اور بند رہنے والی ہوں ایک عجیب سی بو ہوتی ہے یہاں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ بے حد ہوا دار اور تازہ تازہ بالکل ویسا ہی ماحول جیسا باہر کی کھلی ہوا میں تھا۔ باہر کی ہوا میں اور یہاں اندر ایک واضح فرق تھا۔ یہاں ایسا لگتا تھا جیسے من بھر مشک تاتار اور کئی من گلاب کو ملا کر پیہم کوئی اسپرے کیا جارہا ہو۔اس خوشبو کے بہاؤ میں ایک تقدیس ، ایک دھیما پن، ایک ٹہراؤ تھا۔ وقت اپنا دامن سمیٹ کر یہاں ایک طرف سر جھکا کر کھڑا ہوگیا تھا۔ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوکر لمحے اس عجیب طاقِ عقیدت کو تھام کر رک سے گیے تھے۔
کمرے کے انتہائی بائیں جانب حضرت موسی کلیم اﷲ کا ناپختہ مرقد مبارکہ تھا۔اس کے اوپر سرخ مٹی پڑی تھی اور یہ زمین سے بمشکل چھ انچ بلند تھا۔چند کنکر بھی اس مزار پر پڑے تھے۔لوح مزار خاصی قدیم تھی جس پر سیاہ حروف میں عربی زبان میں’’ نبی موسی کلیم اﷲ‘‘ لکھا تھا۔میرے معززقارئین کے لیے یہ اندازہ لگانا شاید مشکل نہ ہو کہ صحرائے یہودا کے اس سرخ پہاڑی کے دامن میں اس مرقد عالیہ کے پاس موجود ہونا کس قدر بہ لحاظ روحانی وزنی اور بہ لحاظ تقدیس بوجھل لمحہ تھا۔موسئی کو اﷲ سے کلام کی سعادت کئی مرتبہ ملی۔قرآن الحکیم میں سب سے زیادہ آپ ہی کا مجموعی طور پر 136 مرتبہ ذکر ملتا ہے۔ جو تعداد کے لحاظ سے کسی بھی نبی سے زیادہ ہے۔ گو اس پورے ذکر سمیت دیگر انبیا اور واقعات کا مخاطب بغرض پیغام و تربیت ہمارے نبی محمد مصطفے ﷺ کی ذات اقدس ہے ۔یہ فرق اس لیے بھی بتانا لازم ہے کہ نبی محترم کاقرآن پاک میں نام کل چار مرتبہ آیا ہے۔ قرآن بیشترمقامات پر ہمارے نبی کریمﷺ سے Second Person کے طور پر خطاب کرتا ہے۔اس صیغۂ کلام میں مخاطب کا نام لینا لازم نہیں ہوتا۔حضرت موسیٰؑ کو اﷲ نے ایک ایسا مقام فخر عطا کیا ہے کہ آپ نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ان سے منسوب معجزات بھی عجیب ہیں اور ان کے مخالفین جو دراصل اﷲ کی مخالفت پر اُترے تھے یعنی فراعنۂ مصر سے زیادہ کسی کی نشانیاں دنیا میں بطور اسباق عبرت اس قدر احتیاط سے محفوظ نہیں۔
میں حضرت موسیؑ کو باآواز بلند سلام پیش کرنے کے بعد مٹی کے فرش پر ہی براجمان ہوگیا اور ایک تواتر سے اس مرقد محترم کا جائزہ لینے لگا۔امین صاحب کہنے لگے کہ جب ہمارے نبی محترم ﷺ مکہ سے یروشلم آنے کے لیے یہاں پہنچے تو آپ نے حضرت موسیؑ کو اپنے عین اس مقام مرقد میں صلوۃ کی ادائیگی میں مصروف دیکھا۔اس مزار پرا نوار سے روشنی کی شعاعیں بلند ہورہی تھیں۔ میں ایک ایسی کیفیت سرور میں تھا جو خوابیدگی اور ہپناٹزم کا درمیانی فسوں تھی۔بہت خاموشی سے میں یہ بیانیہ سنتا رہا۔یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب آپ کے دماغ میں خیالات کے کئی چشمے ساتھ بہہ رہے ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اردگرد گھومتی کائنات کسی ایک مرحلے پر ایک نقطہ اجتماع پر ٹہری ہوتی ہے۔میری ہمت نہ پڑی کہ میں اس جگہ کی تصویر کشی کروں۔یہ حرکت کم از کم میرے نزدیک ایک طرح کی اس مقام تقدیس کی تحقیر ہوتی۔ بیس منٹ وہاں مراقبہ کرنے کے بعد امین صاحب ہمیں دوبارہ پہلی منزل پر لے گئے۔یہ مزار کا بڑا سا احاطہ ہے یہاں قریباً ایک سو بیس کمرے ہیں۔ان میں سے کچھ کی تعمیر سلطان صلاح الدین ایوبی نے کرائی تھی اور دیگر کی بعد کے مملوک سلاطین نے۔احاطے سے ملحق ایک وسیع قبرستان ہے اس میں ان شہداء کے مقابر ہیں جو سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شامل تھے۔ اس گورستان جرات کے پیچھے سے ایک سڑک جیرکو کی جانب دوڑے چلی جاتی۔ہم نے بھائی امین کا اس سعادت عظیم پر شکریہ ادا کرکے رخصت چاہی تو وہ کسی طور رضامند نہ ہوئے ۔ ہمارے عبدالقادر صاحب ان کے بچپن کے دوست تھے اور ملاقات بھی ایک طویل عرصے کے بعد ہوئی تھی لہذا طعام لازم تھا۔ان کے اس چھوٹے سے صحرائی گھر کے برآمدے میں بیٹھ کر مجھے لگا کہ اس کا سکون اس کی وسعت سے میرا مزاج بہت ملتا ہے۔
یہ میرے لوگ ہیں، میرے قبیلے کے میرے اپنے ساتھی۔کھانا سادہ سا تھا پھلی کا سالن اُبلے ہوئے چاول ، گاجریں اور گوبھی۔ یہ مجھے کئی مرتبہ بہت ٹونی قسم کے فیرینچ ریستورانوں میں کھائی ہوئی ڈشوں سے زیادہ من بھاتا اور لذیذ لگا۔رخصت ہوئے تو عبدالقادر کار آہستہ سے چلارہے تھے اور میں اپنی کچھ دیر پہلے کی کیفیات میں غلطاں و پیچاں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سفر میں اﷲ کریم نے مجھ پر میری توقعات سے بڑھ کر عنایات کی ہیں۔ میں ان مناظر اور مقامات کوخواب میں بھی نہیں سوچتا تھا۔حضرت موسیؑ کے مزار کا منارہ بہت دھیرے دھیرے صحرا کے اُفق پر معدوم ہوتا جارہا تھا۔میں بوجھل دل سے ان چھوٹے گنبدوں اور در ودیوار کو دیکھے جارہا تھا ۔بس یہ خیال دل کو چبھ رہا تھا کہ جانے اب یہ سب پھر سے دیکھنا نصیب ہو کہ نہ ہو۔ایک تعلق ، ایک یاد ، ایک پیار ہے جو ریت کے ان ٹیلوں سے پرے کہیں غائب ہوتا جارہا ہے۔میں سوچنے لگا کہ جانے عبدالقادر اب اور کیاچمتکار دکھائے گا۔اچانک اس نے میرے خیالات کا شیرازہ اپنی گرج دار آواز سے بکھیر دیا۔اب کہاں چلیں؟
’’جیریکو اگر وہ قریب ہے؟۔میں نے سوال نما تجویز پیش کردی!
’’ہا ں یہ ٹھیک ہے کیوں کہ وہ بہت قابل دید جگہ ہے۔‘‘
اس نے میری جانب دیکھتے ہوئے بڑی لبھاؤ بھری تائید کی۔
یروشلم سے باہر نکلتے ہی آپ بہت تیزی سے سطح سمندر سے نیچے اترنا شروع کردیتے ہیں۔حضرت موسیؑ کا مزار بھی سطح سمند رسے تین سو فٹ نیچے ہے ۔یہ حال شہر جیریکو کا ہے جو850 فٹ نیچے ہے۔یہ بلندی یہ پستی جغرافیہ کو بھی بہت تیزی سے بدل دیتی ہے۔ ریت کے ٹیلے اب اونچے ہوتے جارہے ہیں۔ارے یہ کیا، وہی اونٹ بدستور اسی بددلی اور بے نیازی سے اسی پیڑ کے نیچے بیٹھا تھا جو ہمیں مزار کی جانب جاتے ہوئے دکھائی دیا تھا۔نو کلو میٹر کے فاصلے کے بعد ہم شہر جیریکو میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جیریکو دریائے اردن کے مغربی کنارے پر ہے ۔اس کا شمار’’اے‘‘ کیٹیگری کے علاقوں میں ہوتا ہے جس کا مطلب یہ کہ یہودی یہاں نہیں داخل ہوسکتے۔شہر کے آغاز میں ہی ایک وارننگ بورڈ بھی ہے۔ شہر میں داخل ہوتے ہی ہم اس قدیم شہر کی ہماہمی میں پڑ جاتے ہیں۔جیریکو کا عربی نام اریحا بمعنی ’’ معطر‘‘ کے ہے۔شہر میں داخل ہوتے ہی آپ کو اس فضائے معطر کا احساس ہوجاتا ہے۔
یہ شہر میں نے عرض کیا تھا کہ حضرت عیسی ؑ کی پیدائش سے نو ہزار سال پہلے سے آباد ہے ۔ اس میں اور شہر دمشق میں ضد لگی ہوئی ہے کہ دونوں میں قدیم ترین شہر کونسا ہے جو مسلسل آباد چلا آرہا ہے۔قدیم شہر اتنے چھوٹے نہیں ہوتے لہذا میرا ووٹ دمشق کے حق میں جاتا ہے۔
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...