وجود

... loading ...

وجود

فصل کی برداشت اور تابع دار

بدھ 22 جون 2016 فصل کی برداشت اور تابع دار

urdu words

پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل آباد کے ڈائریکٹر نے کسانوں کو ہدایت کی ہے کہ ’’گندم کی فصل برداشت کے مرحلے میں داخل ہوگئی، بروقت کٹائی کا انتظام کرلیں‘‘۔ اسی طرح لاہور سے محکمہ زراعت کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ ’’چنے کی فصل برداشت کے لیے تیار ہے، برداشت میں تاخیر سے پیداوار متاثر ہوسکتی ہے۔‘‘

تابع دار کی اصطلاح بہت عام ہے، خاص طور پر اخبارات میں۔ مطلب لیا جاتا ہے اطاعت کرنےوالا۔ مثلاً جب یہ کہا جائے کہ ’’میں آپ کا تابعدار ہوں‘‘ تو یہی سمجھا جائے گا کہ میں آپ کا تابع اوراطاعت گزار ہوں۔ حالانکہ مطلب اس کے بالکل الٹ ہے، یعنی تابع رکھنے والا‘‘۔

ان ہدایات سے یہ تو ظاہر ہوگیا ہے کہ ’’برداشت‘‘ کٹائی کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن کیا یہ اصطلاح کسانوں کے علم میں بھی ہے یا زرعی تحقیقاتی ادارے کے ماہرین اور محکمہ زراعت تک محدود ہے۔ ویسے برداشت کے مقابلے میں ’’کٹائی‘‘ استعمال کرنے سے کیا فصل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے؟ اب تک تو فصل کی کٹائی ہی سنتے بلکہ دیکھتے بھی آئے ہیں۔ یہ اصطلاح کہاں سے آئی؟

برداشت فارسی کا لفظ اور مونث ہے۔ مطلب ہے صبر، تحمل، بردباری، سہنا، اٹھانا، جانوروں کی پرورش و پرداخت، قرض، ادھار لینا وغیرہ۔ لیکن جانوروں کی پرورش، دیکھ بھال اور قرض ادھار کے معنوں میں بھی برداشت کا استعمال نہیں دیکھا۔ کیا کوئی قرض مانگتے ہوئے کہتا ہے کہ تھوڑی سی برداشت دے دو۔ البتہ فارسی ہی میں ’’برداشت خانہ‘‘ ہوتا ہے جس کا مطلب ہے گودام، وہ کمرا جس میں سامان رکھیں۔ گندم کی کٹائی کے بعد اگلا مرحلہ اس کو محفوظ رکھنے کے لیے گودام، خرمن اور کھتّے کا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ خرمن اور کھیت کو ہم معنیٰ سمجھتے ہیں۔ جب کٹائی کے لیے برداشت استعمال کیا گیا ہے تو گودام کے لیے برداشت خانہ بھی برداشت کرلیا جائے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ کسان پوچھتے ہی پھریں گے کہ یہ کہاں سے ملے گا؟

برداشت ہی سے فارسی کا ایک اور لفظ ہے برداشتہ۔ یعنی اٹھایا ہوا، ہٹایا ہوا، لے جایا گیا۔ بعض لوگ قلم برداشتہ لکھ ڈالتے ہیں۔ لیکن برداشتہ یعنی گندم اٹھانے کا مرحلہ اس برداشت کے بعد ہی پیش آئے گا۔ برداشتہ مرکبات میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے دل برداشتہ۔ داشتہ کا مطلب ہے رکھی ہوئی چیز۔ جیسے ’’داشتہ آید بکار‘‘۔ یعنی رکھی ہوئی چیز کام آجاتی ہے۔ لیکن اردو میں صرف داشتہ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتی۔ برداشت کی تکرار سے قارئین ’’برداشتہ خاطر‘‘ نہ ہوں بلکہ برداشت کرلیں۔ زراعت کے حوالے سے باردانہ کی اصطلاح تو عام ہوگئی ہے، جانے بوری کہنے میں کیا قباحت ہے!

تابع دار کی اصطلاح بہت عام ہے، خاص طور پر اخبارات میں۔ مطلب لیا جاتا ہے اطاعت کرنے والا۔ مثلاً جب یہ کہا جائے کہ ’’میں آپ کا تابعدار ہوں‘‘ تو یہی سمجھا جائے گا کہ میں آپ کا تابع اور اطاعت گزار ہوں۔ حالانکہ مطلب اس کے بالکل الٹ ہے، یعنی تابع رکھنے والا‘‘۔

تابع دار عربی و فارسی کا مرکب ہے۔ تابع عربی ہے جس کا مطلب ہے فرماں بردار، ماتحت، پابند۔ افعال میں تابع کرنا، تابع ہونا۔ اور تابع دار کا مطلب ہے تابع رکھنے والا۔ لیکن معنوی لحاظ سے اس کا استعمال فرماں بردار، مطیع، ماتحت، نوکر کے لیے ہوتا ہے جو بالکل غلط ہے۔ عربی میں طابع بھی ہے۔ اس کا ایک مطلب فرماں بردار ہے اور دوسرا چھاپنے والا، پرنٹر۔

اب یہ تابع دار غلط کیوں ہے؟ اس کی وجہ ’’دار‘‘ ہے۔ یہ لاحقہ فاعلی ہے اور داشتن مصدر سے صیغہ امر، جو کسی اسم کے بعد آکر اسے اسم فاعل ترکیبی بنادیتا ہے اور رکھنے والا کے معنی دیتا ہے، مثلاً دلدار، آب دار، قرض دار، طرح دار وغیرہ۔ بہتر ہے کہ تابع دار کی جگہ صرف تابع سے کام چلایا جائے۔
دار پھانسی یا سولی کو بھی کہتے ہیں اور درخت کو بھی۔ میر تقی میرؔ کا شعر ہے:

موسم آیا تو نخلِ دار پہ میرؔ
سر منصور ہی کا بار آیا

برسبیل تذکرہ، منصور کے نام سے شہرت پانے والے کا نام حسین تھا، منصور اس کے والد کا نام تھا یعنی حسین ابنِ منصور۔ بدنام یا نیک نام باپ ہوگیا۔ اسی طرح وہابی یا وہابیت کا معاملہ ہے جس کی نسبت محمد بن عبدالوہاب سے ہے۔ عبدالوہاب کو تو پتا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی نسبت سے ایک مسلک کی بنیاد پڑجائے گی۔ وہاب اﷲ کا نام ہے۔ اگر بیٹے کی نسبت سے کہا جاتا تو یہ ’’محمدی‘‘ مسلک ہوتا جو ہر مسلمان کا ہے اور ہونا چاہیے۔ چنانچہ تائید یا مخالفت کرنے والوں نے باپ سے نسبت جوڑ دی۔ پاکستان میں لوگ پرویز کے بجائے مشرف پر تبرا بھیجتے ہیں، حالانکہ مشرف اُن کے والد کا نام ہے۔ دار عربی میں گھر، محل، قصر، مقام، محلہ، کوچہ، شہر، قصبہ، علاقہ، ملک کو بھی کہتے ہیں۔ دارالآخرت، دارالادب، (درسگاہ، یونیورسٹی جہاں آج کل ادب کا گزر نہیں)، دارالاقامت ہوسٹل کو کہتے ہیں، دارِفانی سے آئے دن لوگ کوچ کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کے لیے رحلت کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب سفر کرنا ہے۔

غلہ رکھنے کے گودام کے لیے کھتّے کا لفظ استعمال کیا تھا۔ اس کی تصغیر ’’کھتّی‘‘ ہے، یعنی زیر زمین غلہ بھرنے کا ذخیرہ۔ لغت نویس پلیٹس کے مطابق خزانہ، اسٹور، نقد رقم اور ذخیرہ وغیرہ۔

زراعت کے حوالے سے بات ہوئی ہے تو ابوالفضل صدیقی (مرحوم) کی متوازی فرہنگ کا ایک بار پھر تذکرہ ہوجائے۔ انہوں نے ایک لفظ ’’ٹھنٹھی‘‘ دیا ہے۔ خریف کی فصل میں سے دانہ نکالنے کے بعد جو بھوسا یا کوڑا کرکٹ بچتا ہے اُس کو ٹھنٹھی کہتے ہیں۔ اس میں خال خال دانہ رہ جاتا ہے۔ مزید کٹائی پٹائی سے پھر کچھ نکل آتا ہے۔ ربیع کی فصل کے لیے انہی معنوں میں لفظ گانٹھا ہے۔ ہمیں تو یہ عوام پر عائد کردہ طرح طرح کے بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کی تعریف لگتی ہے۔ کٹائی، پٹائی عوام ہی کی ہورہی ہے اور جو کچھ نکل آئے وہ ’’آف شور‘‘ ہوجاتا ہے۔ لیکن جس طرح ہم نے فصل کی کٹائی کے لیے برداشت کی اصطلاح نہیں سنی، اسی طرح ابوالفضل صدیقی کی یہ ٹھنٹھی اور گانٹھا سننے یا پڑھنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ ممکن

ہے یہ اصطلاحات یوپی کے گاؤں، دیہات میں کبھی استعمال کی جاتی ہوں۔ اب تو وہاں بھی سنسکرت ملی ہندی کا راج ہے۔


متعلقہ خبریں


خودرا فضیحت اطہر علی ہاشمی - اتوار 12 جون 2016

فارسی کی ایک مثل ہے ’’خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘۔ یعنی خود تو غلط کام کرنا، دوسروں کو نصیحت کرنا۔ فضیحت کا مطلب رسوائی، ذلت، بدنامی بھی ہے۔ یہ محاورہ یوں یاد آیا کہ کچھ قارئین غلطیوں کی نشاندہی کرکے یہی مثل سنا دیتے ہیں۔ اب ہم کیا کریں کہ اپنے جن صحافی ساتھیوں کی زبان درست کرن...

خودرا فضیحت

’’غیر معمولی ترقیاں و مراعاتیں‘‘ اطہر علی ہاشمی - بدھ 20 اپریل 2016

ایک ہفت روزہ کے سرورق پر سرخی ہے ’’پیپلزپارٹی تتّر بتّر ہوسکتی ہے‘‘۔ یعنی دونوں جگہ ’ت‘ پر تشدید ہے۔ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، کیونکہ عموماً لوگ بغیر تشدید کے تتربتر کردیتے ہیں جب کہ تشدید کے ساتھ ہی صحیح ہے۔ فرہنگ آصفیہ، فیروزاللغات وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے، اور اردو کی کلاسیکی ...

’’غیر معمولی ترقیاں و مراعاتیں‘‘

دار۔و۔گیر پر پکڑ اطہر علی ہاشمی - بدھ 03 فروری 2016

گزشتہ تحریر میں ہم نے ’دارو‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یاد رہے دارو گیر میں بھی دارو موجود ہے لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے۔ دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے، یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں‘‘۔ یہ معاملہ ازراہِ تفنن ہم نے ماہرین پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو جسارت کے پروف ریڈر گزجن...

دار۔و۔گیر پر پکڑ

’’مولک‘‘ اور ’’ایلم‘‘ اطہر علی ہاشمی - جمعه 29 جنوری 2016

علامہ طاہر اشرفی علماء کے سرخیل ہیں۔ انہوں نے غالباً عربی بھی پڑھی ہوگی، ورنہ اردو تو ضرور پڑھی ہوگی۔ اب اگر اتنے کلّے‘ ٹھلے کے اور جسیم عالم بھی ملک کو ’’مولک‘‘ کہیں تو تھوڑی سی حیرت تو ہوگی۔ اگر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ علم کو ’’ایلم‘‘کہیں تو یہ اُن کو زیب دیتا ہے بلکہ ا...

’’مولک‘‘ اور ’’ایلم‘‘

یہ وطیرہ کیا ہے؟ اطہر علی ہاشمی - پیر 16 نومبر 2015

جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...

یہ وطیرہ کیا ہے؟

پرشکوہ بروزن جوابِ شکوہ اطہر علی ہاشمی - هفته 07 نومبر 2015

ہمارے وفاقی وزیر چودھری نثار تو ذمہ داری کو ذمہ واری کہتے رہیں گے، انہیں ان کی ذمہ واری پر چھوڑتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف شمسی توانائی کی کارکردگی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے ’’اوسط‘‘ کو بروزن دوست‘ گوشت وغیرہ کہتے رہے اور بار بار کہتے رہے۔ لیکن یہ تو حکمران طبقہ ہے۔ اسے ز...

پرشکوہ بروزن جوابِ شکوہ

لالچ مذکر یا مونث؟ اطہر علی ہاشمی - جمعرات 05 نومبر 2015

آئیے، آج ایک بچے کے خط سے آغاز کرتے ہیں جو غالباً بچوں کے رسالے ’ساتھی‘ کا قاری ہے۔ برخوردار نے لکھا ہے کہ ’’انکل‘ آپ ہمیں تو سمجھاتے ہیں کہ ’’لالچ‘‘ مونث نہیں مذکر ہے، لیکن سنڈے میگزین (6 تا 12 ستمبر) میں ایک بڑے قلمکار نے صفحہ 6 پر اپنے مضمون میں کم از کم چھ بار لالچ کو مونث لک...

لالچ مذکر یا مونث؟

نقص ِامن یا نقضِ امن اطہر علی ہاشمی - هفته 31 اکتوبر 2015

عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ 1973ء کے آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے غالباً 10 سال کی مدت طے ہوئی تھی۔ ایسے کئی دس سال گزر گئے۔ لیکن اب عدالت نے نہ صرف حکم جاری کیا ہے بلکہ نئے منصفِ اعلیٰ نے اپنا...

نقص ِامن یا نقضِ امن

امرت سر اطہر علی ہاشمی - جمعرات 15 اکتوبر 2015

محترم عمران خان نیا پاکستان بنانے یا اسی کو نیا کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک نیا محاورہ بھی عنایت کردیا ہے۔10 اگست کو ہری پور میں خطاب کرتے ہوئے سانحہ قصور کے حوالے سے انہوں نے پُرجوش انداز میں کہا ’’میرا سر شرم سے ڈوب گیا‘‘۔ انہوں نے دو محاوروں کو ی...

امرت سر

اینچا تانی کی کھینچا تانی اطہر علی ہاشمی - پیر 12 اکتوبر 2015

عزیزم آفتاب اقبال معروف شاعر ظفر اقبال کے ’’اقبال زادے‘‘ ہیں۔ اردو سے محبت اپنے والد سے ورثے میں پائی ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر پروگرام کرتے ہیں۔ پروگرام کی نوعیت تو کچھ اور ہے تاہم درمیان میں آفتاب اقبال اردو کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات بھی کر جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ...

اینچا تانی کی کھینچا تانی

بیرون ممالک اطہر علی ہاشمی - بدھ 16 ستمبر 2015

چلیے، آغاز اپنی غلطی سے کرتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ کہ آئندہ بھی کریں گے۔ پچھلے شمارے میں سرزد ہونے والے سہو کی نشاندہی روات سے ایک ذہین شخص ذہین احمد نے کی ہے۔ روات اسلام آباد کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، ممکن ہے اب بڑا شہر ہوگیا ہو، اسلام آباد کی قربت کا فائدہ ضرور ہوا ہوگا۔...

بیرون ممالک

رفاعی یا رفاہی اطہر علی ہاشمی - اتوار 06 ستمبر 2015

صوبہ خیبرپختون خوا کے شہر کرک سے ایک اخبار ’’دستک‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ زبان کے حوالے سے یہ سلسلہ وہاں بھی شائع ہورہا ہے، جس کا فائدہ یہ ہے کہ پشتو بولنے والے اُن بھائیوں سے بھی رابطہ ہورہا ہے جو اردو میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو کو قومی سطح پر تو اب تک رائج نہیں کیا گیا لیکن ا...

رفاعی یا رفاہی

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر