... loading ...
اگست1988ء میں صدر جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد عنانِ اقتدار آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے ہاتھ میں تھی‘ پاک فوج کے دوسرے سینئر ترین افسر جنرل شمیم عالم خان‘ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حلیم احمد اور چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس نصرت حسین تھے۔ اتفاق سے ان چاروں کا تعلق اردو برادری سے تھا‘ کراچی کی انتہائی کشیدہ صورتحال میں پرامن عام انتخابات منعقد ہوئے‘ کراچی‘ حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں ایم کیوایم بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ مرکزی اقتدار پاکستان پیپلزپارٹی کو ملا جس میں ایم کیوایم نے نہایت اہم اور سرگرم کردار ادا کیا۔ انتخابات کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انعقاد کا سہرا جنرل اسلم بیگ کے سر بندھا اور وزیراعظم بینظیر بھٹو نے انہیں ’’تمغہ جمہوریت‘‘ عطا کیا۔ لیکن آج صورتحال بدل چکی ہے‘ اب سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ایم کیوایم کے میئر اورچیئرمین کو بلدیاتی اختیارات بھی دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ میئر اور چیئرمین کا الیکشن29جون کو ہورہا ہے۔ یہ تاریخ بھی الیکشن کمیشن نے دی ہے لیکن اس سے قبل صوبائی حکومت نے کراچی کے بلدیاتی منصوبوں کیلئے ایک عدد ’’پراجیکٹس ڈائریکٹوریٹ‘‘ قائم کردیا ہے۔ تمام مالیاتی اختیارات اور منصوبہ بندی اس ڈائریکٹوریٹ کو دے دی گئی ہے جو صوبائی محکمہ بلدیات کے تحت کام کرے گا۔ میئر کا کام صرف منصوبوں کی انسپیکشن ہوگا۔ مالیاتی امور سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ اس ڈائریکٹوریٹ کی سربراہی ممکنہ طور پر نیاز سومرو کو سونپی جارہی ہے جن کا تعلق اندرون سندھ سے ہے۔ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے مالیاتی امور اب وہ دیکھیں گے۔
قیادت کی سطح پر ایم کیوایم تین حصوں میں منقسم ہے۔ تازہ ترین تخلیق سابق میئر کراچی مصطفےٰ کمال کی سربراہی میں پاک سرزمین پارٹی ہے۔ جس نے انیس احمد قائمخانی اور انیس احمد خان ایڈوکیٹ کی قیادت میں اندرون سندھ بھی پر پھیلادیئے ہیں۔ کراچی کے علاوہ حیدرآباد اورمیرپورخاص میں بڑے سیکریٹریٹ قائم کئے گئے ہیں۔ ایک خاص علاقے میں مہاجر قومی موومنٹ کے آفاق احمد بھی مصروف عمل ہیں۔ فیصلہ اگلے انتخابات میں شہری علاقوں کے ووٹر کریں گے کہ وہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالتے ہیں۔ البتہ سندھ کے شہری علاقوں میں یہ خیال ضرور تیزی سے پرورش پارہا ہے کہ انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے اور حکومتی امور میں ان کی کوئی شمولیت نہیں ہے۔23 اگست1955ء کو آئین ساز اسمبلی میں مغربی پاکستان کے 12یونٹوں کو ملاکر ’’ون یونٹ‘‘ کا بل پیش ہوا تو اس کے مخالفین میں سابق وزیراعلی پختونخواہ سردار عبدالرشید ‘ عبدالغفار خان‘ شیخ عبدالمجید سندھی اور جی ایم سید وغیرہ شامل تھے۔30 ستمبر کو بل منظور ہوا اور14اکتوبر کو ون یونٹ قائم ہوگیا تھا اس کے مخالفین کا کہنا تھا کہ اس سے چھوٹے صوبوں کا تشخص ختم ہوجائے گا۔ کم وبیش ایسی ہی صورتحال اب درپیش ہے۔ سندھ حکومت کی کارروائیوں سے شہری علاقوں کا تشخص ختم ہوگیا ہے۔ ون یونٹ سے قبل سندھ کے علاقے خیرپور کو ریاست کا درجہ حاصل تھا۔ اس کی اپنی اسمبلی تھی جس کے ارکان کی تعداد 30 تھی‘ ممتاز حسین قز لباش خیرپور کے وزیراعلیٰ تھے جو آئی سی ایس افسر تھے اور انہیں ان کی قابلیت پر تالپور حکمران نے وزیراعلیٰ مقرر کیا تھا۔ موجودہ ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا کے نانا خیرپور اسمبلی کے رکن تھے۔ سید قائم علی شاہ بھی خیرپور ریاست کے باشندے ہیں ،جو اب پورے سندھ کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اس دور میں کراچی وفاقی علاقہ شمار ہوتا تھا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جولائی1948ء میں ایک حکم جاری کرکے اسے وفاقی علاقہ قرار دیا تھا۔ لسبیلہ اور ٹھٹھہ بھی اس میں شامل تھے۔ تمام اختیارات چیف کمشنر کے پاس ہوتے تھے۔ جغرافیائی طور پر سندھ تین حصوں میں منقسم تھا۔ جن میں وفاقی علاقہ کراچی‘ ریاست خیرپور اور باقی صوبہ سندھ شامل تھے۔ جب ون یونٹ بنا تو مغربی پاکستان کے تمام یونٹوں کو اس میں شامل کردیاگیا تھا۔1969ء میں ون یونٹ ختم ہوا تو کراچی اور خیرپور کو بھی سندھ میں شامل کرکے ایک صوبہ بنادیاگیا۔ انتظامی تقسیم یا کئی یونٹوں کو ملانے سے علاقے کے جغرافیہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ آج یورپ25ملکوں میں تقسیم ہے لیکن وہ یورپ ہی کہلاتا ہے اور وہاں ایک سکہ یورو چلتا ہے۔ پاکستان اور بھارت قومیتوں کے قید خانے ہیں۔ یہاں سیکڑوں قومیتیں آباد ہیں۔ بھارت نے کثیر صوبے بناکر بھارت کی یکجہتی کو برقرار رکھا ہے۔ بھارتی پنجاب تین حصوں میں تقسیم نہ ہوتا تو ممکن ہے کہ خالصتان تحریک کامیاب ہوجاتی اور مشرقی پنجاب کے سارے سکھ مل کر اپنا الگ خطہ حاصل کرلیتے۔ بالخصوص 1984ء میں سکھوں کے مقدس گوردوارہ کے انہدام اور وزیراعظم اندراگاندھی کے قتل سے جو صورتحال جنم پذیر ہوئی تھی اس میں بھارتی پنجاب کا بھارت میں شامل رہنا مشکل تھا۔ علیحدگی کی تحریک ہمیشہ حقوق سے محرومیوں کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔ وفاق میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ پیپلزپارٹی کے پاس ہے لیکن وہ یہی حق متحدہ قومی موومنٹ کو دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین سلیم رضا جلبانی ہیں جن کا تعلق اندرون سندھ اور پیپلزپارٹی سے ہے جبکہ اصولی طور پر یہ عہدہ اپوزیشن جماعت کے پاس ہوتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی سادہ اکثریت ہے جس کی بنیاد پر وہ من پسند قانون سازی کررہی ہے اور اپوزیشن جماعتیں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ موجودہ صورتحال سنجیدہ غوروخوض کی متقاضی ہے۔ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے تو یہ بات غیر سنجیدہ انداز میں کہہ دی ہے کہ ’’پنجابی‘ پٹھان اور بلوچ علیحدگی نہیں چاہتے اور علیحدگی کی بات کرنے والے مینٹل ہیں‘‘ لیکن انہیں یہ حقیقت ضرور مدنظر رکھنی چاہئے کہ 1947ء سے قبل کانگریسی سیاستدانوں کے اسی طرز عمل اور گفتگو نے برصغیر کو تقسیم کرادیا تھا۔ سندھ کے حکومتی اور بلدیاتی امور میں شہری علاقوں کی شمولیت وقت کا تقاضا ہے۔ صوبائی حکومت جن علاقوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے اور سب سے زیادہ ٹیکس شہری علاقے ہی دیتے ہیں‘ ان علاقوں کو اقتدار اور منصوبہ سازی میں نظر انداز کرنے سے مسائل جنم لیں گے۔ کوشش یہ کی جائے کہ ایسی نوبت ہی نہ آئے۔ سندھ کی یکجہتی کو آج بھی بچایا جاسکتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف ’’را‘‘ کا پروپیگنڈہ بھی رائیگاں گیا۔ آپریشن توگزشتہ ایک سال سے جاری ہے۔ ہزاروں کارکن ’’اِدھر اُدھر ‘‘ ہیں۔ سینکڑوں جیلوں میں بند ہیں۔ پھر بھی کراچی کے دو صوبائی حلقوں سے ایم کیوایم کے دو امیدوار محفوظ یار خان اور قمر عباس کی کامیابی حیران کن ہے۔ محفوظ یا...
خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘ نقارخانے کے شور میں ’’آف شور‘‘ کا شور شامل تھا تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ وزیراعظم میاں نوازشریف اس زور کے شور سے تنگ آکر لندن چلے گئے۔ ڈاکٹروں نے ان کی ’’اوپن ہارٹ سرجری‘‘ تجویز کی ہے۔ ان کی حریف پارٹی کے سرکردہ رہنما شاہ محمودقریشی ...