... loading ...
فارسی کی ایک مثل ہے ’’خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘۔ یعنی خود تو غلط کام کرنا، دوسروں کو نصیحت کرنا۔ فضیحت کا مطلب رسوائی، ذلت، بدنامی بھی ہے۔ یہ محاورہ یوں یاد آیا کہ کچھ قارئین غلطیوں کی نشاندہی کرکے یہی مثل سنا دیتے ہیں۔ اب ہم کیا کریں کہ اپنے جن صحافی ساتھیوں کی زبان درست کرنے کی سعیٔ نامشکور کرتے ہیں وہی پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے اور طعنہ ہمیں سننا پڑتا ہے۔
مثال کے طور پر منگل 3 مئی کے اخبار میں کھیلوں کے صفحے پر صحافیوں ہی سے متعلق خبر میں کراچی پریس کلب کے سیکرٹری کا نام ’’علاؤ الدین‘‘ چھپا ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے! جو صاحب اس صفحے کے نگران ہیں انہوں نے کبھی یہ پڑھا ہی نہیں ہوگا کہ علاء الدین میں واؤ نہیں آتا۔ ہمیں یقین ہے کہ خود علاء الدین خانزادہ بھی یہ غلطی نہیں کرتے ہوں گے۔ اسی خبر میں ’’سپر سیکس‘‘ کرکٹ ٹورنامنٹ کا حوالہ ہے۔ اب کون پوچھے کہ یہ سپرسیکس کیا ہے اور کیا یہ فحش نہیں ہے! یعنی اردو بھی غلط اور انگریزی بھی غلط۔ کھیلوں کے صفحے کے نگران کے پاس تو یہ دلیل ہوسکتی ہے کہ کھلاڑیوں یا کھیل کے صفحے کے نگران کا زبان سے کیا تعلق! دورۂ انگلستان کے لیے 35 کھلاڑیوں کے انتخاب کی خبر میں بار بار یہ بتایا گیا ہے کہ انضمام الحق چیف سلیکٹر ہیں۔ غالباً ایک بار لکھنے سے تسلی نہیں ہوئی۔ یہ الفاظ کی فضول خرچی ہے جو دیگر خبروں میں بھی نظر آتی ہے۔ رکن کو ممبر لکھنا تو شاید کوئی مجبوری ہے۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ یہ سطور بھی متعلقہ افراد نہیں پڑھیں گے۔
’’ہائے‘‘ کا استعمال عموماً جمع بنانے کے لیے کیا جاتا ہے، جیسے مرزا غالب کا مصرع ہے
یا ’’شب ہائے جدائی‘‘ وغیرہ۔ لیکن جہاں جمع کا صیغہ ہو وہاں ’’ہائے‘‘ استعمال نہیں کی جاتی، جیسے یہ جملہ ’’رشحات ہائے قلم‘‘۔ رشحات خود جمع ہے اس لیے یہاں ہائے ہائے کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ رشحات ’’رشحہ‘‘ کی جمع ہے، عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ٹپکنا، قطرہ، پسینہ وغیرہ۔
آج کل ٹی وی چینلوں اور بیانات میں اے ٹی ایم مشین کا بڑا تذکرہ ہے۔ وزیراعظم ہوں، وزیراطلاعات ہوں یا دیگر وزراء، حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن بھی…… سب اے ٹی ایم مشین کی بات کررہے ہیں اور اتنا نہیں معلوم کہ اس میں ’’ایم‘‘ مشین ہی کے لیے ہے۔ لیکن شاید صرف ATM کہنے سے بیان میں زور پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح بارہا کراچی کے علاقے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کا نام نظر سے گزرا۔ اس میں بھی آخری ایس (S) سوسائٹی ہی کے لیے ہے۔ چنانچہ آخر میں سوسائٹی لکھنا، کہنا غلط ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، ان کا خیال رکھنے سے کچھ نہیں بگڑتا۔
’’تمغا‘‘ صحیح ہے یا ’’تغما‘‘؟ کئی لغات میں تغما کو صحیح قرار دیا گیا ہے، تاہم فرہنگ آصفیہ کے مطابق ترکی میں صحیح تمغا ہے، جب کہ اردو میں تغما ہے۔ یہ بات بالکل الٹ گئی ہے کیونکہ اردو میں عموماً تمغا بولا اور لکھا جارہا ہے۔ لیکن اخبارات میں تمغہ بھی نظر سے گزرتا ہے جو بالکل غلط ہے اور اسے غلط العام بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ایک اور مزے کا لفظ اخبارات میں نظر آتا ہے ’’پانی والا تالاب‘‘۔ تالاب میں تو پہلے ہی پانی موجود ہے۔ یہ دو الفاظ کا مرکب ہے یعنی تال۔آب۔ تالاب کے لیے صرف تال بھی مستعمل ہے جیسے ’’تالوں میں تال بھوپال تال باقی سب تلیاں‘‘۔ سنا ہے کہ بھارتی ریاست بھوپال میں بہت بڑا تالاب ہے۔
حکمران اپنے جلسوں کو تو بہت بڑا بناتے ہیں تاہم دوسروں کے جلسوں کو ’’جلسی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ حکمرانوں کا حق ہے۔ لیکن عربی میں ایک لفظ ’’جلوسی‘‘ ہے۔ یہ صفت ہے اور منسوب بہ جلوس ہے۔ مطلب ہے سامانِ جلوس، شاہی جلوس کے ملازم۔ اب اگر اردو میں ’جلوس‘ شان و شوکت، کروفر کے جلوس نکلنے اور نکالنے کے معنوں میں آگیا ہے تو ’’جلوسی‘‘ بھی لے لینا چاہیے، اور سامان جلوس کے بجائے اسے کسی چھوٹے جلسے کے لیے بطور طنز استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سنڈے میگزین یکم تا 7 مئی کے شمارے میں صفحہ دو پر ایک سرخی ہے ’’آلاتِ موسیقی سنبھال کر رکھیں جائیں گے‘‘۔ سرخی سجانے والے صاحب اگر ’’رکھیں‘‘ کی جگہ ’’رکھے‘‘ لکھ دیتے توکوئی حرج نہیں تھا۔ جب آگے جمع آرہی ہو تو اس سے پہلے واحد آتا ہے یعنی ’’رکھے جائیں گے‘‘ ہونا چاہیے تھا۔
’’ہبہ‘‘ عطیے وغیرہ کو کہتے ہیں۔ لڑکیوں کے نام بھی رکھے جاتے ہیں کہ وہ بھی عطیۂ خداوندی ہیں۔ لیکن جانے کیوں یہ نام ’’حبہ‘‘ لکھا جانے لگا ہے۔ سنڈے میگزین میں بچوں کے صفحہ پر ایک نام ’حبہ‘ ہے جب کہ اس کا مطلب کچھ اور ہی ہے۔ عربی میں حَب گولی، قرص یا گول ڈھکن کوکہتے ہیں۔ حب ہی حبہ ہے جو بطور نام کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ ایک دواخانے کی مشہور دوا ہے ’’حب کبد نوشادری‘‘۔ یہ گولیاں ہیں اور کبد جگر کو کہتے ہیں، نوشادر اس کا ایک جزو ہے۔
حب کی ’ح‘ پر اگر پیش لگا دیا جائے تو یہ حُب ہوجائے گا جس کا مطلب ہے محبت۔ حُب اﷲ تو سنا ہی ہوگا۔ اسی سے محب، محبت، محبوب وغیرہ الفاظ بنتے ہیں۔ محب اﷲ بھی نام ہوتا ہے۔
سہ ماہی ’بیلاگ‘ کراچی کے جنوری تا مارچ کے شمارے میں محترم عزیز جبران انصاری نے وہ الفاظ درج کیے ہیں جن کا استعمال تشدید اور بغیر تشدید دونوں طرح جائز ہے مثلاً کیفیت۔ بطور دلیل دو شعر دیے ہیں:
داغ دہلوی
دوسرا شعر اشرف کا ہے:
اسی طرح حیثیت اردو میں بغیر تشدید کے مستعمل ہے:
انسانیت کا معاملہ بھی یہی ہے، گو کہ آج کل انسانیت تشدید کے ساتھ ہی نظر آرہی ہے اور انسان متشدد ہوگیا ہے۔
پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل ...
ایک ہفت روزہ کے سرورق پر سرخی ہے ’’پیپلزپارٹی تتّر بتّر ہوسکتی ہے‘‘۔ یعنی دونوں جگہ ’ت‘ پر تشدید ہے۔ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، کیونکہ عموماً لوگ بغیر تشدید کے تتربتر کردیتے ہیں جب کہ تشدید کے ساتھ ہی صحیح ہے۔ فرہنگ آصفیہ، فیروزاللغات وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے، اور اردو کی کلاسیکی ...
گزشتہ تحریر میں ہم نے ’دارو‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یاد رہے دارو گیر میں بھی دارو موجود ہے لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے۔ دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے، یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں‘‘۔ یہ معاملہ ازراہِ تفنن ہم نے ماہرین پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو جسارت کے پروف ریڈر گزجن...
علامہ طاہر اشرفی علماء کے سرخیل ہیں۔ انہوں نے غالباً عربی بھی پڑھی ہوگی، ورنہ اردو تو ضرور پڑھی ہوگی۔ اب اگر اتنے کلّے‘ ٹھلے کے اور جسیم عالم بھی ملک کو ’’مولک‘‘ کہیں تو تھوڑی سی حیرت تو ہوگی۔ اگر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ علم کو ’’ایلم‘‘کہیں تو یہ اُن کو زیب دیتا ہے بلکہ ا...
جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...
ہمارے وفاقی وزیر چودھری نثار تو ذمہ داری کو ذمہ واری کہتے رہیں گے، انہیں ان کی ذمہ واری پر چھوڑتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف شمسی توانائی کی کارکردگی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے ’’اوسط‘‘ کو بروزن دوست‘ گوشت وغیرہ کہتے رہے اور بار بار کہتے رہے۔ لیکن یہ تو حکمران طبقہ ہے۔ اسے ز...
آئیے، آج ایک بچے کے خط سے آغاز کرتے ہیں جو غالباً بچوں کے رسالے ’ساتھی‘ کا قاری ہے۔ برخوردار نے لکھا ہے کہ ’’انکل‘ آپ ہمیں تو سمجھاتے ہیں کہ ’’لالچ‘‘ مونث نہیں مذکر ہے، لیکن سنڈے میگزین (6 تا 12 ستمبر) میں ایک بڑے قلمکار نے صفحہ 6 پر اپنے مضمون میں کم از کم چھ بار لالچ کو مونث لک...
عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ 1973ء کے آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے غالباً 10 سال کی مدت طے ہوئی تھی۔ ایسے کئی دس سال گزر گئے۔ لیکن اب عدالت نے نہ صرف حکم جاری کیا ہے بلکہ نئے منصفِ اعلیٰ نے اپنا...
محترم عمران خان نیا پاکستان بنانے یا اسی کو نیا کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک نیا محاورہ بھی عنایت کردیا ہے۔10 اگست کو ہری پور میں خطاب کرتے ہوئے سانحہ قصور کے حوالے سے انہوں نے پُرجوش انداز میں کہا ’’میرا سر شرم سے ڈوب گیا‘‘۔ انہوں نے دو محاوروں کو ی...
عزیزم آفتاب اقبال معروف شاعر ظفر اقبال کے ’’اقبال زادے‘‘ ہیں۔ اردو سے محبت اپنے والد سے ورثے میں پائی ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر پروگرام کرتے ہیں۔ پروگرام کی نوعیت تو کچھ اور ہے تاہم درمیان میں آفتاب اقبال اردو کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات بھی کر جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ...
چلیے، آغاز اپنی غلطی سے کرتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ کہ آئندہ بھی کریں گے۔ پچھلے شمارے میں سرزد ہونے والے سہو کی نشاندہی روات سے ایک ذہین شخص ذہین احمد نے کی ہے۔ روات اسلام آباد کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، ممکن ہے اب بڑا شہر ہوگیا ہو، اسلام آباد کی قربت کا فائدہ ضرور ہوا ہوگا۔...
صوبہ خیبرپختون خوا کے شہر کرک سے ایک اخبار ’’دستک‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ زبان کے حوالے سے یہ سلسلہ وہاں بھی شائع ہورہا ہے، جس کا فائدہ یہ ہے کہ پشتو بولنے والے اُن بھائیوں سے بھی رابطہ ہورہا ہے جو اردو میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو کو قومی سطح پر تو اب تک رائج نہیں کیا گیا لیکن ا...