... loading ...
میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی منظوری سے کیا گیا ہے۔خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق طالبان رہ نما ملا اختر منصور کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقے میں بغیر پائلٹ کے ڈرون طیارے کے ذریعے نشانہ بنایا گیاتھا، جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ملا اختر منصور کی ہلاکت کی خبر درست ثابت ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری امن کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تاہم پینٹا گون کا دعویٰ ہے کہ ملا اختر منصور امن بات چیت میں رکاوٹ پیدا کرتے رہے ہیں۔
ملا منصور گزشتہ سال ملا عمر کی ہلاکت کی خبر آنے کے بعدجولائی2015 میں طالبان کے امیر بنے تھے تاہم طالبان کے بعض دھڑوں نے انھیں اپنا امیر ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کک نے ایک بیان میں کہا کہ ملا منصور طالبان کے سربراہ رہے ہیں اور وہ کابل اور افغانستان بھر میں حکومتی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی میں فعال طریقے سے حصہ لیتے رہے ہیں۔ وہ افغان شہریوں، سکیورٹی فورسز اور ہمارے عملے کے ارکان اور اتحادیوں کے لیے خطرے کا باعث بنے رہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ اخترمنصور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن اور مصالحت کی راہ میں رکاوٹ رہے اور انھوں نے طالبان رہنماؤں کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں حصہ لینے سے روک رکھا تھا۔ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس حملے کی منظوری امریکی صدر براک اوباما نے دی تھی اور اس میں ایک اور بالغ جنگجو بھی ہلاک ہوا ہے ۔
اب جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی مبہم انداز میں افغان طالبان کے رہنما ملا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کی خبر کی تصدیق کردی ہے اس وجہ سے کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں امن عمل کے مستقبل پر ایک مرتبہ پھر سوالیہ نشان لگا دیا گیاہے۔
نوشکی میں ہونے والے حملے میں طالبان رہنما جاں بحق ہونا ایک الگ بات ہے لیکن اس سارے کھیل کی ٹائمنگ دیکھی جائے تو بہت اہم ہے۔ سب پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کہ ملا اختر منصور ایران کیا کرنے گئے تھے؟ جبکہ ایران اور افغان طالبان کے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے ۔
دوسرے اس سارے معاملے میں سب سے عجیب بات پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی کہانی ہے جس پر ایرانی ویزا بھی لگا ہوا ہے۔ یہ ولی محمد کے نام سے جاری ہوا ہے جس میں پتہ صرف قلعہ عبداﷲ کے ایک گاؤں کالکھا ہوا ہے جبکہ اس علاقے میں دیگر آبادی بھی موجود ہے !! اس کے علاوہ بعض ذرائع نے یہاں تک بتایا ہے کہ جلنے والی گاڑی پر گولیوں کے نشانات بھی تھے، اس لحاظ سے تو یہ ’’ڈرون حملہ‘‘ کافی عجیب ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر لاشیں جل جانے کے باوجود یہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بالکل محفوظ رہے اور انہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے ۔۔۔!! جس طرح نائن الیون کے واقعے میں ملوث مبینہ ہائی جیکر کا پاسپورٹ ملا تھا جبکہ سارا ورلڈ ٹریڈ سینٹر جل کر تباہ ہوگیا تھا سوائے اس پاسپورٹ کے۔۔۔ یہ کھیل اس وقت کھیلا گیا جب حزب اسلامی کے رہنما انجینئر گلبدین حکمت یار کے ساتھ اشرف غنی حکومت کے معاملات بڑی حد تک طے ہوچکے تھے (یاد رہے حکمتیار طویل عرصے تک ایران میں قیام کرچکے ہیں) اور دو دن بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایران کے دورے پر جارہے تھے جہاں انہوں نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں ایک منصوبے کا افتتاح بھی کرنا تھا۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان سفارتی سطح پر طالبان قیادت اور کابل انتظامیہ کے درمیان امن مذاکرات کے لئے مثبت کردار ادا کررہا تھا۔ ان تمام باتوں کے بعد ایک حملہ پاکستان کی سرزمین پر کیا جاتا ہے اور اس کے بعد امریکی حکام کہتے ہیں کہ اس مشن کے بعد پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف کو آگاہ کردیا گیا تھا۔۔۔اس سارے منظر نامے کے آخر میں ہم دیکھتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب امریکیوں کی جانب سے مطلع کئے جانے کے باوجود خاموشی کے ساتھ لندن میں ’’علاج‘‘ کروانے چلے جاتے ہیں جبکہ دفتر خارجہ تصدیق صرف پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی کرتا ہے، باقی دفتر خارجہ کا اپنا بیان اس سلسلے میں ’’حواس باختگی‘‘ کا نظارہ پیش کررہا تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واقعہ کے چوبیس گھنٹے گزر جانے کے باوجود دفتر خارجہ کی جانب سے بلوچستان میں قلعہ عبداﷲ کے علاقے سے کوئی تصدیقی سرگرمی نظر نہیں آتی۔۔۔ تو پھر سرتاج عزیز کی قیادت میں چوبیس گھنٹے بعد کس بات پر دفتر خارجہ میں اجلاس بلایا گیا تھا؟
اس کے علاوہ اس بات کو بھی نظر میں رکھنا ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا ڈرون حملہ ہے جو بلوچستان میں کیا جاتا ہے اور حملے کے بعد جلتی ہوئی گاڑی کا ملبہ بھی دکھایا جاتا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے قبائلی علاقوں اور کے پی کے زیر انتظام علاقوں میں سینکڑوں مرتبہ ڈرون حملے ہوئے ہیں لیکن کبھی اس طرح کی ویڈیو جاری نہیں کی گئی۔ یہ سارے عوامل اس جانب واضح اشارہ کررہے ہیں کہ امریکاکی نیت اس خطے کے امن وامان کے حوالے سے ٹھیک نہیں ہے۔ بلکہ وہ یہاں پاکستان کے مفادات کو زبردست نقصان پہنچاکر پاکستان اور چین کے سامنے بھارت، ایران اور افغانستان کی شکل میں ایک سہ فریقی اتحاد کھڑا کرنا چاہتا ۔کچھ عرصہ قبل پاکستان کو ایف سولہ طیارے دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی عسکری امداد کے لئے کڑی شرائط رکھی جاتی ہیں کہ پاکستان اگر حقانی نیٹ ورک کو نشانہ بنائے اور غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکاکے حوالے کرے تو وہ یہ عسکری امداد جاری کرسکتا ہے۔ یہ ہے اس جنگ کا انجام جو ہم دہشت گردی کے نام پر اس امریکاکے لئے لڑتے ہوئے اپنی ہی سرزمین کو خون میں نہلاتے رہے ہیں۔
اگر ہماری یاد داشت اچھی ہو تو یاد ہونا چاہئے کہ مری میں کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے ایک روز پہلے افغان طالبان کے امیر ملا محمد عمر کی موت کی خبر جاری کردی گئی تھی جس کے بعد امن مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔ اس کے بعد معاملات اس وقت کہیں جاکر کرکچھ سنبھلے تھے جب ملا اختر منصور کی قیادت میں طالبان نے متحد ہونے کا اعلان نہیں کردیا تھا اور جس کی توثیق طالبان کی اعلی مرکزی شوری نے کردی تھی۔
اگر اس حملے میں واقعی افغان طالبان کے امیر جاں بحق ہوئے ہیں تواس وقت بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ امریکا اور اس کے مقامی حواریوں کی جانب سے امن مذاکرات کو سبوتاز کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔اس میں شک نہیں کہ امریکا اور اس کے صہیونی حلیف ایک عرصے سے اس کوشش میں ہیں کہ طالبان کی صفوں میں دراڑ ڈال دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان کے ایک ونگ کو تاحال قطر میں دفتر فعال رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے اور ماضی میں اس دفتر سے وابستہ اور سابق امیر ملا محمد عمر کے پرانے ساتھی طیب آغا اور ملا اختر منصور کے درمیان اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں اسی طرح امریکاکی کو شش تھی کہ ملا محمد عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب کو ملا اختر کے قریب نہ ہونے دیا جائے لیکن حقانی نیٹ ورک سے وابستہ افراد کی کوششوں سے یہ خلیج بھی پاٹ دی گئی تھی۔
اس ساری سازش کو سمجھنے کے لئے اس خطے کی صورتحال کا بڑے فریم میں دیکھنا ہوگا۔ جب سے پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہ داری اور گوادر کی پورٹ کے حوالے سے کام شروع ہوا ہے بھارت اور ایران کی نیندیں اڑ چکی ہیں امریکاکی خواہش تھی کہ پاکستان کی جانب سے بھارت پر ہاتھ نرم رکھا جائے اسی کے تناظر میں بے نظیر مائنس این آر او کرایا گیا جس میں پہلے زرداری گروپ اور اب نواز شریف گروپ ’’حق نمک‘‘ ادا کررہے ہیں۔ یہ بھارت کے سامنے پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے کے لئے مجبور کرنے کے مترادف تھا۔ اس کے بعد امریکا نے افغانستان اور عراق کے معاملے میں ایران کے ساتھ جو درپردہ تعلقات استوار کررکھے تھے انہیں وہ جلد ہی جوہری معاہدے کی آڑ میں منظر عام پر لے آیا، کابل میں ویسے ہی طالبان حکومت کے بعد پاکستان مخالف انتظامیہ بٹھائی جاتی ہے۔ اس لئے تین اطراف سے پاکستان کو گھیرنے کا منصوبہ تیزی کے ساتھ روبہ عمل رہاجس کا راز بڑی حد تک ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہونے والے بھارتی را کے ایجنٹ کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد کھلاکہ ایرانی علاقے چاہ بہار میں پورا بھارتی را کا ایک نیٹ ورک موجود ہے جو پاکستانی مفادات کے خلاف طویل عرصے سے فعال ہے اور بعض ذرائع کے مطابق یقین دہانیوں کے باوجود اب ایران اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ تعاون سے انکاری ہے۔
دوسری جانب امریکا کی خواہش ہے کہ بھارت کو نیٹو کا حصہ بناکر اس کے علاقائی کردار میں وسعت لائی جائے جو آگے چل کر چین اور پاکستان کے خلاف کام میں آئے گا۔اس کے ساتھ ساتھ اگر خطے میں بھارت کی جغرافیائی سلامتی کو کوئی خطرہ چین یا پاکستان سے ہوا تو پوری نیٹو فورس کو اس کے خلاف متحرک کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب عراق اور شام کی صورتحال میں امریکا نے ایران کو کھل کر کھیلنے کی اجازت دے دی ہے جس کی وجہ سے وہاں مسلمانوں میں مسلکی اختلافات عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ ایک کھیل امریکا نے اس کے ذریعے مشرق وسطی میں شروع کررکھا ہے تو دوسرا کھیل وہ افغانستان کی سرزمین استعمال کرکے جنوبی ایشیا میں کھیلنا چاہتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں امریکا کی کوشش ہے کہ افغان طالبان کی قوت کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے انہیں بھی ماضی کے وار لارڈز میں تبدیلی کردیا جائے اور حکمت یار کی حزب اسلامی کو اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ نتھی کرکے ایک نئی انتظامیہ تشکیل دی جائے اس کا دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ اگر افغان طالبان حزب اسلامی اور اشرف غنی حکومت کے اتحاد کو تسلیم کرنے سے انکار کردیں تو پھر حزب اسلامی کی عسکری قوت کو کابل انتظامیہ کے ساتھ مل کرافغان طالبان کے خلاف استعمال کیا جائے اور خود آرام سے بیٹھ کر پاکستان کی اسٹریٹیجک گہرائی کی تباہی کا تماشا دیکھا جائے ۔جس کے بعد چین اور پاکستان کے درمیان بننے والی اقتصادی راہداری کا مستقبل مخدوش کردیا جائے اور چین کو بحیرہ عرب کی جانب سے اپنی اقتصادی اور معاشی سرگرمیاں شروع نہ کرنے دی جائیں۔ ہم اس سلسلے میں پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ امریکا افغانستان میں صرف افغانستان کے لئے نہیں آیا تھابلکہ اس کا اصل ہدف پاکستان کے جوہری ہتھیار ہیں۔موجودہ اور آئندہ سال نہ صرف اس خطے بلکہ مشرق وسطی کے لئے بڑی تبدیلیوں کا زمانہ ہوسکتا ہے
ایک ایسا وقت جب پاکستان کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک زیرک وزیر خارجہ کی ضرورت ہے پاکستانی وزارت خارجہ کو سرتاج عزیز جیسے تھکے ہوئے شخص اور فاطمی جیسے ’’یس سر‘‘ ٹائپ مشیران خارجہ کے حوالے کردیا گیا ہے جبکہ وزیر اعظم صاحب اس قوم کو ایسے میسر آئے ہیں جو اس اہم ترین موڑ پر ملک کو چھوڑ کر زرداری کو منانے لندن جاچکے ہیں ۔ پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں کو افغانستان میں اب تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر گہری نگاہ رکھنا ہوگی کیونکہ اس وقت موجودہ خطے کی صورتحال کا سارا دارومدارافغانستان کے امن سے جڑا ہوا ہے۔
پاکستان نے امریکا میں جمہوریت سے متعلق سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے،ڈیموکریسی ورچوئل سمٹ 9 اور 10 دسمبر کو ہوگا۔ امریکا کی جانب سے سمٹ میں شرکت کے لئے چین اور روس کو دعوت نہیں دی گئی۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم سمٹ برائے جمہوریت میں شرکت کے لیے پاکستان کو مدعو کرنے پر ...
امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے کہا ہے کہ افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کے لیے پاکستان اور امریکا کا موقف یکساں ہے ، پاکستان کے سرکاری ٹی وی(پی ٹی وی ) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اورامریکا کے گزشتہ کئی دہائیوں سے مضبوط اور بہترین تعلقات ہیں۔ ...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کولیشن فنڈ سپورٹ کے تحت ملنے والی 30 کروڑ ڈالر کی دفاعی امداد روک لی ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان کے مطابق پاکستان کو دی جانے والی دفاعی امداد امریکی کانگریس کو وزیردفاع کی سفارش نہ ملنے کی وجہ سے روکی گئی۔امریکی وزیردفاع کی جانب سے کانگری...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
یوں لگتا ہے کہ امریکا کے اندر پاکستان کے خلاف ایک منظم ماحول جنم دیا جارہا ہے۔ اور مختلف طریقوں سے پاکستان پر دباؤ پیداکیا جارہا ہے۔ رواں ہفتے امریکی ایوان نمائندگان کی دہشت گردی ، جوہری عدم پھیلاؤ، ، تجارت اور ایشیا پیسفک سے متعلق ذیلی کمیٹیوں نے ایک مشترکہ مباحثے کا عنوان ہی یہ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...