... loading ...
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں آئندہ وفاقی بجٹ کے حوالے سے منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں سینئر ماہرین اقتصادیات نے پاکستان کی اقتصادی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب اعداد و شمار میں حکومت اور آئی ایم ایف کی غلط بیانیوں کو قرار دیا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئندہ مالی سال بجٹ ملک کے لیے طویل عرصے پر محیط اقتصادی ترجیحات کو بنیاد بنا کروضع کیا جائے، جن میں انسانی ترقی اور صحت کو بطور خاص توجہ کا مرکز بنایا جائے۔ محض ادائیگیوں کا توازن اقتصادی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کا مقصد نہیں ہونا چاہیے ۔ بجٹ ملک کی اقتصادی پالیسیوں کی سمت کا تعین کرتا نظر آنا چاہیے، اور اسے صرف یہ سوچ کر ترتیب نہیں دیا جانا چاہیے کہ جیسے یہ محض اقتصادی اعداد و شمارکے توازن اوراکاؤنٹنگ کی مشق ہے، جسے ہر سال دہرا دیا جاتا ہے۔
سیمینار کے مرکزی مقرر نیشنل یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈین سوشل سائنسز اور سابق مشیر مالیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان تھے۔ صدارت پاکستان پلاننگ کمیشن کے سابق چیف اکانومسٹ فصیح الدین نے کی، جبکہ مسعود ڈاہر سابق وفاقی سیکرٹری نے بھی خطاب کیا۔
ڈاکٹر اشفاق نے حکومت کی میکرو اکنامک پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ بالخصوص اخراجات کی ترجیحات ان کا نشانہ تھیں۔ ڈاکٹر اشفاق نے دعویٰ کیا کہ ملک 2018-19میں موجودہ مالی مینیجروں کے اقدامات کے نتیجے میں قرضوں کے خوفناک شکنجے میں پھنسنے جا رہا ہے۔ اگر جون 2014ء کے بعد تیل کی قیمتیں کم نہ ہوتیں توموجودہ حکومت کم از کم آٹھ ارب ڈالرکا قرضہ مزید ملک پر لاد چکی ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی دعووں کے برعکس جی ڈی پی میں اضافہ 6 فیصد کی بجائے 3 سے 3.7 فیصد کے ارد گرد رہا ہے ۔ ڈاکٹر خان نے مزید کہا کہ جی ڈی پی کا مالی خسارہ حقیقی معنوں میں 8 فیصد سے زیادہ ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ178ارب روپے کی بڑی رقم’’شماریاتی تضادات ‘‘ کا شکار ہو رہی ہے۔ ہم نے ترقی کے عمل کو اس لیے نقصان پہنچایا ہے کہ اخراجات میں ترجیحات ہی غلط رکھی گئی ہیں۔ ان کے خیال میں یہ پالیسیاں ترقی مخالف، ملازمتوں کی فراہمی کے برخلاف عمل اور عوام دشمن ہیں۔
تاہم مقررین نے پاکستانی قوم کو سراہا جنہوں نے دیہی اور غیر رسمی معیشت کے ذریعے اپنی توانائیوں کو بھرپور استعمال میں رکھا ہوا ہے۔ تارکینِ وطن بھی اس جدوجہدمیں اربوں ڈالر کی ترسیل کر رہے ہیں۔ فصیح الدین نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ حکومت کی اس سال کی اقتصادی کارکردگی پچھلے سال کی نسبت بہتر رہی ہے۔ انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ کیونکہ موجودی حکومت کا مکمل مالی سال کایہ آخری بجٹ ہےاس لیے اسکے ماہرین اقتصادیات کو چاہیے کہ وہ عام آدمی کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرے۔
پاکستان میں میری ٹائم کے مواقع سے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں 200 ناٹیکل میل کے اندر 1000 کلو میٹر کے علاقے میں معدنیات ، سمندری خوراک کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں۔ یہ علاقہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کل رقبے سے بھی زیاد...
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اگلے مالی سال برائے 17-2016 کے لیے 10 کھرب 64 ارب خسارے پر مبنی 49 کھرب کا وفاقی میزانیہ پیش کردیا ہے۔ میزانیے کا بیشتر حصہ سود اور قرضوں کی ادائی پر خرچ ہوگا۔ جس میں دفاعی میزانیے کو بڑھا دیا گیا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں بھی دس فیص...
وزیراعظم نوازشریف نے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن ویڈیو لنک سے وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں آئندہ مالی سال کے لیے 1675 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دے دی گئی۔اجلاس میں تین صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ سمیت وفاقی و...
۲۱ مئی پاکستان اور چین کے درمیان باہم تعلقات کی شاندار مثال کے ۶۵ سال مکمل ہونے کا دن ہے۔ باہم شراکت داری کے اس بے مثال سفر کی بنیاد باہمی احترام ، ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت اور تعاون پرہے۔ بلاشبہ ساڑھے چھ عشروں پر محیط یہ تعلقات نہ صرف وقت کے ساتھ آنے والی بہت سی تبدی...