... loading ...
ڈاکٹر راحت اِندوری کا تعلق ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر ’’انِدور‘‘سے ہے ، یہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی ہیں اوراِندور یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں ، دنیا بھر میں جہاں بھی اردو شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہاں انہیں بخوبی جانا پہچانا جاتا ہے ، کچھ عرصے قبل مودی سرکار کی مسلمان دشمن پالیسیوں پر ہندوستان کے مسلمانوں کو تسلّی دیتے ہوئے انہوں نے ایک مشاعرے میں غزل پڑھی جسکا ایک شعر بے تحاشا مقبول ہوا۔
راحت اِندوری نے اس مشاعرے میں سامعین کو ایک لطیفہ سنا کر خوب داد سمیٹی۔ بولے ایک مرتبہ میں نے حکومت پر کچھ زیادہ ہی تنقید کر دی اور جذبات میں وزیر اعظم کو چور بھی کہہ بیٹھا۔ اگلے روز مجھے تھانے طلب کر لیا گیا ۔ تھانیدار کے سامنے پیش ہوا تو میں نے پوچھا بھئی میرا جرم کیا ہے ، تھانیدار نے کہا تم نے وزیر اعظم کو چور کہا ہے ، جان تو چھڑانی تھی لہذا بہانہ گھڑا کہ وہ تو میں کسی اور ملک کے وزیر اعظم کی بات کر رہا تھا ، تھانیدار یہ سن کرطنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا ’’ڈاکٹر صاحب ہمیں بے وقوف سمجھتے ہو کیا ، ہمیں نہیں پتہ کہ کہاں کا وزیر اعظم چور ہے ؟‘‘
صدر مملکت ممنون حسین صاحب کا بھی ماجرا کچھ ایساہی ہے ، گزشتہ ہفتے ایک تجارتی تقریب سے اپنے خصوصی خطاب میں موصوف نے ارشاد فرمایا کہ ’’پانامہ لیکس قدرت کی طرف سے آئی ہیں ، اب کوئی کرپشن کرنے والا بچے گا نہیں ، جلد یا بدیر سب پکڑے جائیں گے ‘‘۔ مزید فرمایا کہ کرپشن کرنے والوں کے چہروں پر نحوست آجاتی ہے ۔ سبحان اللہ کیا خیالات ہیں ۔ گمان ہے کہ پوچھے جانے پر انہوں نے بھی کچھ ایسی ہی صفائی پیش کی ہو گی جیسی راحت اندوری نے کی اور طرہّ یہ ہے کہ پوچھنے والے نے بالکل وہی ردّعمل ظاہر کیا ہو گا جو اُس تھانیدار نے کیا تھا ۔ اس کے بعد سے صدر صاحب کی کیفیت وہی ہوگی جو آج کل لوگوں کا واٹس ایپ اسٹیٹس ہو تا ہے ۔ ’’نو کالز ۔ اونلی میسج‘‘
’’پانامہ فیور‘‘ جاری ہے اور حکومت و اپوزیشن کی ’’توُ تڑَاخ‘‘بھی ، گوکہ پارلیمنٹ کی سطح پر اس مہم جوئی میں چشم براہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ہیں مگر حکومت کا اصل دردِسر عمران خان ہیں۔ کرپشن کی کیچڑمیں لتھڑے ہوئے حکومتی زعماء نے چند چھینٹے عمران خان کے دامن پر ڈالنے کی کوشش بھی کی مگر عمران خان تو صرف ایکسل کے سلوگن ’’نہیں بچے گا‘‘ کا عملی نمونہ ثابت ہوئے۔بلا شبہ عمران خان پاکستانی سیاست کے جُراسک پارک میں ایک ’’جنس نایاب‘‘ ثابت ہوئے ہیں ، مخالفین بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ وہ کم از کم بدعنوان قطعاً نہیں۔ اُن کے ہاتھ صاف ہیں ، ماضی میں ان پر حکومتی زعماء کی جانب سے لگائے گئے الزامات جھوٹ کے پلندے ثابت ہوئے ، وہ واحد سیاستدان ہیں جو سینہ ٹھونک کر خود کو بار بار احتساب کیلئے پیش کر رہے ہیں، ورنہ خود پیپلز پارٹی میں ہی خورشید شاہ سے لیکر اعتزاز احسن ، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف ، سردار لطیف کھوسہ وغیرہ وغیرہ تک کوئی بھی رہنما اپنے اثاثوں اور ٹیکس کے گوشواروں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانا گوارانہیں کر سکتا ۔انہیں تو صرف معلومات فراہم کرنے کا نوٹس بھی دیدیا جائے تو ہا ہاکارمچا دیں کہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور 90کی دہائی کی سیاست دہرائی جا رہی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان خود ہی اپنی ’’یونیک نیس‘‘ سے آگاہ نہیں۔ انہیں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر خورشید شاہ کے پیچھے کھڑا دیکھنا ایک نا خوشگوار احساس تھا ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما پہلے اپنے معدے میں صدیوں کی بھوک پالے بیٹھے ایک ’’رنڈوے‘‘ سے برأت کا اعلان کریں ، خود اپنے اثاثوں کی تفصیلات قوم کے سامنے پیش کریں اور ٹیکس گوشوارے بھی ظاہر کریں تب شاید بات کچھ بنے ۔ نواز شریف اس حمام میں موجود سارے ننگوں کی کمر کا سائز بخوبی جانتے ہیں۔ اس لئے جب بھی بولے ان کا نشانہ عمران خان ہی رہے ۔
وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں اپنے تازہ خطاب سے قبل قوم سے اپنے نشری خطاب میں جس صورتحال کا نقشہ کھینچا تھا۔ اسے سن کر ’’منا بھائی ایم بی بی ایس‘‘ کا مشہور ڈائیلاگ ’’پگلے رُلائے گا کیا؟‘‘ یاد آگیا تھا ۔جناب نے پہلے بھٹو دور میں اپنے اوپر ڈھائے گئے مظالم کی داستان سنائی پھر جنرل مشرف کی زیادتیاں گنوائیں اور پھر پوچھا کہ 99ء میں ہماری حکومت کیوں ختم کی گئی، ہمیں جلا وطن کیوں کیا گیا، اس کا جواب کون دے گا ۔ واقعی تھا تو بڑا ظلم مگر کوئی میاں صاحب سے بھی پوچھے او!خدا کے بندے کبھی کسی ملک کے وزیر اعظم نے اپنے آرمی چیف کو دوران پرواز بھی نوکری سے نکالا ہے ،کبھی اس کے طیارے کو ملک میں اترنے سے روکا ہے اور اسکی جگہ کسی کو ترقی دیکر دکان سے پلاسٹک کے بیجز خرید کر لگائے ہیں، رہ گئی جلا وطنی اس کا تو آپ خود معاہدہ کرکے خوشی خوشی گئے تھے بہر کیف پہلے خطاب کے اس تاثر کے برخلاف پارلیمنٹ سے اپنے حالیہ خطاب میں وہ اپنی امارت کے قصوں پر مرتکز رہے یعنی وہ سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوئے اور اب تک اسی چمچے سے کارِطعام جاری ہے، گویا کل بھی ہم ارب پتی تھے آج بھی ہیں۔ میاں صاحب دراصل بیک وقت اپنے موافقِ بھی ہیں اور خود ہی اپنے مخالف بھی ۔ کبھی ایسے اور کبھی ویسے۔
ڈیرہ اسمعیل خان میں مولانا فضل الرحمن کی میزبانی میں منعقدہ جلسے سے خطاب کے دوران انکا شاہانہ مزاج خوب واضح ہوا ، حضور نے بار بار مختلف منصوبوں کے فنڈز کا اعلان کرتے ہوئے انکی لاگت گنوائی اور پھر کہا’’دیئے‘‘۔ ایک مرتبہ کہا 55کروڑ دئیے، دوسری مرتبہ کہا 87کروڑ دئیے، تیسری مرتبہ کہا 120ارب دئیے، گویا عامر لیاقت موٹر سائیکل بانٹ رہے ہوں۔ حضور یہ قوم کا پیسہ ہے ، یہ وہ پیسہ ہے جو انڈے ڈبل روٹی اورآٹا، چینی، گھی، دال سے لیکر دودھ، سبزی، گوشت، کپڑا، پٹرول، بجلی اور ٹیلی فون کارڈز تک خریدتے ہوئے اس ملک کے عوام امیر و غریب کی تخصیص کے بغیر ٹیکس دیکر قومی خزانے میں جمع کراتے ہیں اور آپ کا یہ انداز ان کروڑوں غریبوں کی توہین ہے جن کے گھروں میں کھانے کیلئے دو وقت کا راشن بھی نہیں، یہ آپ کا اپنا مال ہوتا تو ہرج نہ تھا مگر آپ کا عالم یہ ہے کہ آپ تو ایک دھیلا بھی جیب سے خرچ کرنے کو تیار نہیں ۔
الیکشن کمیشن کے پاس موجود گوشواروں کے مطابق وزیر اعظم کے پاس ایک ارب 96کروڑ روپے کے اثاثے ہیں جبکہ ان کے اکاؤنٹ میں 26کروڑ روپے نقد موجود ہیں جس میں سے 21کروڑ روپے ان کے صاحبزادے نے انہیں زرمبادلہ کی شکل میں بھیجے ، اب بتائیے جس شخص کے اکاؤنٹ میں 26کروڑ روپے پڑے سڑ رہے ہوں اور وہ پیٹ کی گیس کا چیک اپ کرانے لندن جائے تو بھی سرکاری خرچ پر لاؤ لشکر کے ہمراہ ۔ کیا وزیر اعظم 70ہزار روپے کا اپنا ریٹرن ٹکٹ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے ؟ اپنا پیسہ اپنے اوپر تو خرچ کر نہیں سکتے اورقوم کا اربوں روپیہ ایسے بانٹ رہے ہیں جیسے نیاز کی ریوڑیاں ہوں۔ جہاں تک مولانا کا تعلق ہے تو امام ابو حنیفہ ؒ کا یہ قول دہرانا ہی کافی ہے کہ ’’اگرتم کسی عالم کو حکمران کے دَر پر دیکھو تو اس کے دین میں شک کرو‘‘۔
عمران خان پوچھتے ہیں کہ بیرون ملک جائیدادیں کب خریدیں، پیسہ کہاں سے آیا ، اس پر کتنا ٹیکس دیا اور کیسے باہر بھیجا جواب میں پرویز رشید ، دانیال عزیز ، عابد شیر علی ، رانا ثناء اللہ، سعد رفق اور طلال چوہدری وغیرہ کہتے ہیں عمران خان جواب دیں ان کے بچے ہیں کتنے ، ان کے بچوں کا مذہب کیا ہے ، وہ کب پاکستان آئیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ عجیب مذاق ہے ۔ سوال گندم ، جواب چنا۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے دوسری طرف حکمت عملی یہ ہے کہ کوئی تم پر چوری کا الزام لگائے تو صفائی دینے کی ضرورت نہیں تم بھی اس پر چوری کا الزام لگا دو۔ وزیر اعظم نے فرمایا سب کو ایک ہی ترازو میں تولا جانا چاہئے، نہیں حضور آپ حکمران ہیں ۔’’یو آر این اسپیشل کیس‘‘۔میاں صاحب اپنی گردن بچانے کیلئے تحقیقات کے دائرے میں محمد بن قاسم اور راجہ داھر تک کو گھسیٹ لانے پر تلے بیٹھے ہیں جبکہ خود اپنی بیٹی مریم کے اثاثوں پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں ۔ پارلیمنٹ سے خطاب میں اس حوالے سے انہوں نے ایک لفظ نہیں کہا ۔ بات اولاد کی ہو رہی ہے تو حکمرانوں کے لئے وہ مثال بے محل نہیں جو حضرت عمر فاروقؓ نے قائم کی ۔
آپؓ کے صاحبزادے عبداللہ بن عمر ؓروزگار کی تلاش میں سفر پر نکلے ، کم و بیش ایک سال بعدواپس لوٹے تو مال سے لدے اونٹ ساتھ تھے ، حضرت عمر ؓ نے پوچھا اتنا مال کہاں سے ملا ، بیٹے نے جواب دیا کہ تجارت کی ، خوب نفع ہوا، انہوں نے پوچھا تجارت کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا ، بیٹے نے جواب دیا کہ چچا سے دوران سفر رک کر قرض لیا تھا لیکن واپس آتے ہوئے لوٹا آیا ہوں۔ پوچھا کون چچا ۔ صاحبزادے نے کوفے کے گورنر عماد ابن یاسرؓ کا نام لیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ سارا مال بیت المال میں جمع کرادو۔ اس پر تمہارا کوئی حق نہیں اورحضرت عمار ابنِ یاسرؓ کو فوراًمدینے طلب کیا ۔ عمار ابنِ یاسرؓ خودصحابی رسولﷺ بھی تھے اور اسلام کے پہلے معرکے غزوۂ بدر کے مجاہد بھی،وہ جب مدینے پہنچے اور امیر المومنین کے روبرو پیش ہوئے تو انہوں نے پوچھا کیا کوفے میں بیت المال میں اتنی دولت جمع ہوگئی ہے کہ ہر شہری کو کاروبار کیلئے قرض دے سکے ، گورنر نے کہا ’’نہیں ، ایسا تو نہیں‘‘انہوں نے پوچھا ’’پھر تم نے میرے بیٹے کو قرض کیوں دیا، صرف اسی لئے کہ وہ میرا بیٹا ہے۔ اب تم امانت داری کے اہل نہیں رہے میں تمہیں معزول کرتا ہوں‘‘۔
پانامہ پیپرز کے افشاء ہو نے کے بعد پے در پے کئی جلسوں میں میاں صاحب نے جس طرح میگا پراجیکٹس کے اعلانات کئے اور منصوبوں کی رقوم گنوا گنوا کر ’’دئیے۔۔۔دئیے۔۔۔قربان کئے آپ پر ‘‘ کے غلغلے بلند کئے ،وہ دراصل بھارتی وزیر اعظم نریندر ا مودی کی ہو بہو نقالی تھی ۔خدا جانے یہ نقالی انہوں نے شعوری طور پر کی یا لا شعوری طور پر ، مودی نے بالکل ، یہی انداز گجرات اور بہار کے دوروں کے دوران اختیار کیا تھا اور منصوبوں کا اعلان کرکے ان کی مالیت کے اعدادو شمار بتاتے ہوئے دونوں ہاتھ فضامیں بلند کرکے کہاتھا’’دئیے‘‘ ۔ اس انداز کو لالو پرساد یادیو نے ہدفِ تنقید بھی بنایا تھا۔ لہذا بھارتی وزیراعظم کی نقالی کرنے والے ہمارے وزیر اعظم کیلئے مشورہ بھی وہی ہے جو بھارتی شاعر راحت اندوری کے شعر کے دوسرے مصرعے میں پنہاں ہے ۔ حضور آپ ’’کرائے دار‘‘ ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے اور دو مرتبہ پہلے بے دخل بھی ہو چکے ہیں ، خدارا اب بھی وقت ہے ،ہوش کے ناخن لیجئے کہیں ایک بار پھر بے دخل نہ کر دئیے جائیں۔ بہتر ہے وزیر اعظم فوراً اپنے اثاثے فروخت کرنے اور رقم پاکستان لانے کا اعلان کرکے عوام کے دلوں میں پکی جگہ بنائیں۔
(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...
سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا ایم شمیم نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہ ہونے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو خصوصی حکم دیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کے منافی اس مشکوک طرزِ عمل کے انکشاف نے پاکستان کے سیاسی ، صحافتی اور عد...
2013 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو تعاون نہیں ملا تھا۔ایک انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت بننے کے ...
سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت کے بعد اب اُن کا نام تمام قومی اور سرکاری جگہوں سے بتدریج ہٹایا جانے لگا ہے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے رکن اسمبلی کے طور پر اُن کا نام ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی ائیرپورٹ پر قائداعظم اور صدرِ مملکت ممنون حسین کے ساتھ اُن کی ...
٭3 اپریل 2016۔پاناما پیپرز (گیارہ اعشاریہ پانچ ملین دستاویزات پر مبنی ) کے انکشافات میں پہلی مرتبہ وزیراعظم نوازشریف اور اْن کا خاندان منظر عام پر آیا۔ ٭5 اپریل 2016۔وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خاندان کے حوالے سے ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا عندیہ دیاتاکہ وہ...
عدالت ِ عظمیٰ کے لارجر بنچ کی جانب سے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے فیصلے نے پاکستان تحریک انصاف اور اُس کی قیادت کی اُس جدو جہد کو ثمر بار کیا ہے جو 2013 ء کے عام انتخابات کے فوری بعد سے چار حلقے کھولنے کے مطالبے سے شروع ہوئی تھی۔ عمران خان کی جانب سے انتخابات میں د...
پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعدعمومی طور پر پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے جیسے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں5رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا اور میڈیا کے ذریعے اس فیصلے کی خبر عوام تک پہنچی تو ان کا پہلا رد عمل وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے سات...
پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف کے اہم مشاورتی اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے...
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کو جو پذیرائی کشمیر میں حاصل ہوئی ہے ماضی میں شاید ہی کسی پاکستانی حاکم یا لیڈر کی تقریر کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ کشمیر کے لیڈر، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار، علماء، طلباء اور عوام کو اس تقریر کا...
اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...
زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...
میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...