وجود

... loading ...

وجود

’’کرائے دار‘‘

جمعرات 19 مئی 2016 ’’کرائے دار‘‘

national-assembly-pakistan

ڈاکٹر راحت اِندوری کا تعلق ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر ’’انِدور‘‘سے ہے ، یہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی ہیں اوراِندور یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں ، دنیا بھر میں جہاں بھی اردو شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہاں انہیں بخوبی جانا پہچانا جاتا ہے ، کچھ عرصے قبل مودی سرکار کی مسلمان دشمن پالیسیوں پر ہندوستان کے مسلمانوں کو تسلّی دیتے ہوئے انہوں نے ایک مشاعرے میں غزل پڑھی جسکا ایک شعر بے تحاشا مقبول ہوا۔

جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

راحت اِندوری نے اس مشاعرے میں سامعین کو ایک لطیفہ سنا کر خوب داد سمیٹی۔ بولے ایک مرتبہ میں نے حکومت پر کچھ زیادہ ہی تنقید کر دی اور جذبات میں وزیر اعظم کو چور بھی کہہ بیٹھا۔ اگلے روز مجھے تھانے طلب کر لیا گیا ۔ تھانیدار کے سامنے پیش ہوا تو میں نے پوچھا بھئی میرا جرم کیا ہے ، تھانیدار نے کہا تم نے وزیر اعظم کو چور کہا ہے ، جان تو چھڑانی تھی لہذا بہانہ گھڑا کہ وہ تو میں کسی اور ملک کے وزیر اعظم کی بات کر رہا تھا ، تھانیدار یہ سن کرطنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا ’’ڈاکٹر صاحب ہمیں بے وقوف سمجھتے ہو کیا ، ہمیں نہیں پتہ کہ کہاں کا وزیر اعظم چور ہے ؟‘‘

صدر مملکت ممنون حسین صاحب کا بھی ماجرا کچھ ایساہی ہے ، گزشتہ ہفتے ایک تجارتی تقریب سے اپنے خصوصی خطاب میں موصوف نے ارشاد فرمایا کہ ’’پانامہ لیکس قدرت کی طرف سے آئی ہیں ، اب کوئی کرپشن کرنے والا بچے گا نہیں ، جلد یا بدیر سب پکڑے جائیں گے ‘‘۔ مزید فرمایا کہ کرپشن کرنے والوں کے چہروں پر نحوست آجاتی ہے ۔ سبحان اللہ کیا خیالات ہیں ۔ گمان ہے کہ پوچھے جانے پر انہوں نے بھی کچھ ایسی ہی صفائی پیش کی ہو گی جیسی راحت اندوری نے کی اور طرہّ یہ ہے کہ پوچھنے والے نے بالکل وہی ردّعمل ظاہر کیا ہو گا جو اُس تھانیدار نے کیا تھا ۔ اس کے بعد سے صدر صاحب کی کیفیت وہی ہوگی جو آج کل لوگوں کا واٹس ایپ اسٹیٹس ہو تا ہے ۔ ’’نو کالز ۔ اونلی میسج‘‘

’’پانامہ فیور‘‘ جاری ہے اور حکومت و اپوزیشن کی ’’توُ تڑَاخ‘‘بھی ، گوکہ پارلیمنٹ کی سطح پر اس مہم جوئی میں چشم براہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ہیں مگر حکومت کا اصل دردِسر عمران خان ہیں۔ کرپشن کی کیچڑمیں لتھڑے ہوئے حکومتی زعماء نے چند چھینٹے عمران خان کے دامن پر ڈالنے کی کوشش بھی کی مگر عمران خان تو صرف ایکسل کے سلوگن ’’نہیں بچے گا‘‘ کا عملی نمونہ ثابت ہوئے۔بلا شبہ عمران خان پاکستانی سیاست کے جُراسک پارک میں ایک ’’جنس نایاب‘‘ ثابت ہوئے ہیں ، مخالفین بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ وہ کم از کم بدعنوان قطعاً نہیں۔ اُن کے ہاتھ صاف ہیں ، ماضی میں ان پر حکومتی زعماء کی جانب سے لگائے گئے الزامات جھوٹ کے پلندے ثابت ہوئے ، وہ واحد سیاستدان ہیں جو سینہ ٹھونک کر خود کو بار بار احتساب کیلئے پیش کر رہے ہیں، ورنہ خود پیپلز پارٹی میں ہی خورشید شاہ سے لیکر اعتزاز احسن ، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف ، سردار لطیف کھوسہ وغیرہ وغیرہ تک کوئی بھی رہنما اپنے اثاثوں اور ٹیکس کے گوشواروں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانا گوارانہیں کر سکتا ۔انہیں تو صرف معلومات فراہم کرنے کا نوٹس بھی دیدیا جائے تو ہا ہاکارمچا دیں کہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور 90کی دہائی کی سیاست دہرائی جا رہی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان خود ہی اپنی ’’یونیک نیس‘‘ سے آگاہ نہیں۔ انہیں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر خورشید شاہ کے پیچھے کھڑا دیکھنا ایک نا خوشگوار احساس تھا ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما پہلے اپنے معدے میں صدیوں کی بھوک پالے بیٹھے ایک ’’رنڈوے‘‘ سے برأت کا اعلان کریں ، خود اپنے اثاثوں کی تفصیلات قوم کے سامنے پیش کریں اور ٹیکس گوشوارے بھی ظاہر کریں تب شاید بات کچھ بنے ۔ نواز شریف اس حمام میں موجود سارے ننگوں کی کمر کا سائز بخوبی جانتے ہیں۔ اس لئے جب بھی بولے ان کا نشانہ عمران خان ہی رہے ۔

وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں اپنے تازہ خطاب سے قبل قوم سے اپنے نشری خطاب میں جس صورتحال کا نقشہ کھینچا تھا۔ اسے سن کر ’’منا بھائی ایم بی بی ایس‘‘ کا مشہور ڈائیلاگ ’’پگلے رُلائے گا کیا؟‘‘ یاد آگیا تھا۔

وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں اپنے تازہ خطاب سے قبل قوم سے اپنے نشری خطاب میں جس صورتحال کا نقشہ کھینچا تھا۔ اسے سن کر ’’منا بھائی ایم بی بی ایس‘‘ کا مشہور ڈائیلاگ ’’پگلے رُلائے گا کیا؟‘‘ یاد آگیا تھا ۔جناب نے پہلے بھٹو دور میں اپنے اوپر ڈھائے گئے مظالم کی داستان سنائی پھر جنرل مشرف کی زیادتیاں گنوائیں اور پھر پوچھا کہ 99ء میں ہماری حکومت کیوں ختم کی گئی، ہمیں جلا وطن کیوں کیا گیا، اس کا جواب کون دے گا ۔ واقعی تھا تو بڑا ظلم مگر کوئی میاں صاحب سے بھی پوچھے او!خدا کے بندے کبھی کسی ملک کے وزیر اعظم نے اپنے آرمی چیف کو دوران پرواز بھی نوکری سے نکالا ہے ،کبھی اس کے طیارے کو ملک میں اترنے سے روکا ہے اور اسکی جگہ کسی کو ترقی دیکر دکان سے پلاسٹک کے بیجز خرید کر لگائے ہیں، رہ گئی جلا وطنی اس کا تو آپ خود معاہدہ کرکے خوشی خوشی گئے تھے بہر کیف پہلے خطاب کے اس تاثر کے برخلاف پارلیمنٹ سے اپنے حالیہ خطاب میں وہ اپنی امارت کے قصوں پر مرتکز رہے یعنی وہ سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوئے اور اب تک اسی چمچے سے کارِطعام جاری ہے، گویا کل بھی ہم ارب پتی تھے آج بھی ہیں۔ میاں صاحب دراصل بیک وقت اپنے موافقِ بھی ہیں اور خود ہی اپنے مخالف بھی ۔ کبھی ایسے اور کبھی ویسے۔

ڈیرہ اسمعیل خان میں مولانا فضل الرحمن کی میزبانی میں منعقدہ جلسے سے خطاب کے دوران انکا شاہانہ مزاج خوب واضح ہوا ، حضور نے بار بار مختلف منصوبوں کے فنڈز کا اعلان کرتے ہوئے انکی لاگت گنوائی اور پھر کہا’’دیئے‘‘۔ ایک مرتبہ کہا 55کروڑ دئیے، دوسری مرتبہ کہا 87کروڑ دئیے، تیسری مرتبہ کہا 120ارب دئیے، گویا عامر لیاقت موٹر سائیکل بانٹ رہے ہوں۔ حضور یہ قوم کا پیسہ ہے ، یہ وہ پیسہ ہے جو انڈے ڈبل روٹی اورآٹا، چینی، گھی، دال سے لیکر دودھ، سبزی، گوشت، کپڑا، پٹرول، بجلی اور ٹیلی فون کارڈز تک خریدتے ہوئے اس ملک کے عوام امیر و غریب کی تخصیص کے بغیر ٹیکس دیکر قومی خزانے میں جمع کراتے ہیں اور آپ کا یہ انداز ان کروڑوں غریبوں کی توہین ہے جن کے گھروں میں کھانے کیلئے دو وقت کا راشن بھی نہیں، یہ آپ کا اپنا مال ہوتا تو ہرج نہ تھا مگر آپ کا عالم یہ ہے کہ آپ تو ایک دھیلا بھی جیب سے خرچ کرنے کو تیار نہیں ۔

الیکشن کمیشن کے پاس موجود گوشواروں کے مطابق وزیر اعظم کے پاس ایک ارب 96کروڑ روپے کے اثاثے ہیں جبکہ ان کے اکاؤنٹ میں 26کروڑ روپے نقد موجود ہیں جس میں سے 21کروڑ روپے ان کے صاحبزادے نے انہیں زرمبادلہ کی شکل میں بھیجے ، اب بتائیے جس شخص کے اکاؤنٹ میں 26کروڑ روپے پڑے سڑ رہے ہوں اور وہ پیٹ کی گیس کا چیک اپ کرانے لندن جائے تو بھی سرکاری خرچ پر لاؤ لشکر کے ہمراہ ۔ کیا وزیر اعظم 70ہزار روپے کا اپنا ریٹرن ٹکٹ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے ؟ اپنا پیسہ اپنے اوپر تو خرچ کر نہیں سکتے اورقوم کا اربوں روپیہ ایسے بانٹ رہے ہیں جیسے نیاز کی ریوڑیاں ہوں۔ جہاں تک مولانا کا تعلق ہے تو امام ابو حنیفہ ؒ کا یہ قول دہرانا ہی کافی ہے کہ ’’اگرتم کسی عالم کو حکمران کے دَر پر دیکھو تو اس کے دین میں شک کرو‘‘۔

عمران خان پوچھتے ہیں کہ بیرون ملک جائیدادیں کب خریدیں، پیسہ کہاں سے آیا ، اس پر کتنا ٹیکس دیا اور کیسے باہر بھیجا جواب میں پرویز رشید ، دانیال عزیز ، عابد شیر علی ، رانا ثناء اللہ، سعد رفق اور طلال چوہدری وغیرہ کہتے ہیں عمران خان جواب دیں ان کے بچے ہیں کتنے ، ان کے بچوں کا مذہب کیا ہے ، وہ کب پاکستان آئیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ عجیب مذاق ہے ۔ سوال گندم ، جواب چنا۔

ایک طرف یہ صورتحال ہے دوسری طرف حکمت عملی یہ ہے کہ کوئی تم پر چوری کا الزام لگائے تو صفائی دینے کی ضرورت نہیں تم بھی اس پر چوری کا الزام لگا دو۔ وزیر اعظم نے فرمایا سب کو ایک ہی ترازو میں تولا جانا چاہئے، نہیں حضور آپ حکمران ہیں ۔’’یو آر این اسپیشل کیس‘‘۔میاں صاحب اپنی گردن بچانے کیلئے تحقیقات کے دائرے میں محمد بن قاسم اور راجہ داھر تک کو گھسیٹ لانے پر تلے بیٹھے ہیں جبکہ خود اپنی بیٹی مریم کے اثاثوں پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں ۔ پارلیمنٹ سے خطاب میں اس حوالے سے انہوں نے ایک لفظ نہیں کہا ۔ بات اولاد کی ہو رہی ہے تو حکمرانوں کے لئے وہ مثال بے محل نہیں جو حضرت عمر فاروقؓ نے قائم کی ۔

آپؓ کے صاحبزادے عبداللہ بن عمر ؓروزگار کی تلاش میں سفر پر نکلے ، کم و بیش ایک سال بعدواپس لوٹے تو مال سے لدے اونٹ ساتھ تھے ، حضرت عمر ؓ نے پوچھا اتنا مال کہاں سے ملا ، بیٹے نے جواب دیا کہ تجارت کی ، خوب نفع ہوا، انہوں نے پوچھا تجارت کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا ، بیٹے نے جواب دیا کہ چچا سے دوران سفر رک کر قرض لیا تھا لیکن واپس آتے ہوئے لوٹا آیا ہوں۔ پوچھا کون چچا ۔ صاحبزادے نے کوفے کے گورنر عماد ابن یاسرؓ کا نام لیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ سارا مال بیت المال میں جمع کرادو۔ اس پر تمہارا کوئی حق نہیں اورحضرت عمار ابنِ یاسرؓ کو فوراًمدینے طلب کیا ۔ عمار ابنِ یاسرؓ خودصحابی رسولﷺ بھی تھے اور اسلام کے پہلے معرکے غزوۂ بدر کے مجاہد بھی،وہ جب مدینے پہنچے اور امیر المومنین کے روبرو پیش ہوئے تو انہوں نے پوچھا کیا کوفے میں بیت المال میں اتنی دولت جمع ہوگئی ہے کہ ہر شہری کو کاروبار کیلئے قرض دے سکے ، گورنر نے کہا ’’نہیں ، ایسا تو نہیں‘‘انہوں نے پوچھا ’’پھر تم نے میرے بیٹے کو قرض کیوں دیا، صرف اسی لئے کہ وہ میرا بیٹا ہے۔ اب تم امانت داری کے اہل نہیں رہے میں تمہیں معزول کرتا ہوں‘‘۔

پانامہ پیپرز کے افشاء ہو نے کے بعد پے در پے کئی جلسوں میں میاں صاحب نے جس طرح میگا پراجیکٹس کے اعلانات کئے اور منصوبوں کی رقوم گنوا گنوا کر ’’دئیے۔۔۔دئیے۔۔۔قربان کئے آپ پر ‘‘ کے غلغلے بلند کئے ،وہ دراصل بھارتی وزیر اعظم نریندر ا مودی کی ہو بہو نقالی تھی ۔خدا جانے یہ نقالی انہوں نے شعوری طور پر کی یا لا شعوری طور پر ، مودی نے بالکل ، یہی انداز گجرات اور بہار کے دوروں کے دوران اختیار کیا تھا اور منصوبوں کا اعلان کرکے ان کی مالیت کے اعدادو شمار بتاتے ہوئے دونوں ہاتھ فضامیں بلند کرکے کہاتھا’’دئیے‘‘ ۔ اس انداز کو لالو پرساد یادیو نے ہدفِ تنقید بھی بنایا تھا۔ لہذا بھارتی وزیراعظم کی نقالی کرنے والے ہمارے وزیر اعظم کیلئے مشورہ بھی وہی ہے جو بھارتی شاعر راحت اندوری کے شعر کے دوسرے مصرعے میں پنہاں ہے ۔ حضور آپ ’’کرائے دار‘‘ ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے اور دو مرتبہ پہلے بے دخل بھی ہو چکے ہیں ، خدارا اب بھی وقت ہے ،ہوش کے ناخن لیجئے کہیں ایک بار پھر بے دخل نہ کر دئیے جائیں۔ بہتر ہے وزیر اعظم فوراً اپنے اثاثے فروخت کرنے اور رقم پاکستان لانے کا اعلان کرکے عوام کے دلوں میں پکی جگہ بنائیں۔


متعلقہ خبریں


نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط رکھنے کا فیصلہ وجود - پیر 16 مئی 2022

(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط  رکھنے کا فیصلہ

نواز شریف اور مریم نواز چھوٹنے نہیں چاہئے، (ثاقب نثار کا جج کو حکم) سابق چیف جج گلگت بلتستان نے بھانڈا پھوڑ دیا وجود - پیر 15 نومبر 2021

سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا ایم شمیم نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہ ہونے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو خصوصی حکم دیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کے منافی اس مشکوک طرزِ عمل کے انکشاف نے پاکستان کے سیاسی ، صحافتی اور عد...

نواز شریف اور مریم نواز چھوٹنے نہیں  چاہئے، (ثاقب نثار کا جج کو حکم) سابق چیف جج گلگت بلتستان نے بھانڈا پھوڑ دیا

نواز دور میں طالبان سے مذاکرات میں عسکری قیادت کا تعاون نہیں ملا تھا،سینیٹر عرفان صدیقی وجود - هفته 13 نومبر 2021

2013 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو تعاون نہیں ملا تھا۔ایک انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت بننے کے ...

نواز دور میں طالبان سے مذاکرات میں عسکری قیادت کا تعاون نہیں ملا تھا،سینیٹر عرفان صدیقی

میں کوئی حرفِ غلط ہوں کہ مٹایا جاؤں۔نوازشریف کا نام اور تصویر ہٹائی جانے لگی وجود - هفته 29 جولائی 2017

سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت کے بعد اب اُن کا نام تمام قومی اور سرکاری جگہوں سے بتدریج ہٹایا جانے لگا ہے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے رکن اسمبلی کے طور پر اُن کا نام ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی ائیرپورٹ پر قائداعظم اور صدرِ مملکت ممنون حسین کے ساتھ اُن کی ...

میں کوئی حرفِ غلط ہوں کہ مٹایا جاؤں۔نوازشریف کا نام اور تصویر ہٹائی جانے لگی

پاناما فیصلہ کب کیا ہوا؟اہم واقعات تاریخ کے آئینے میں وجود - هفته 29 جولائی 2017

٭3 اپریل 2016۔پاناما پیپرز (گیارہ اعشاریہ پانچ ملین دستاویزات پر مبنی ) کے انکشافات میں پہلی مرتبہ وزیراعظم نوازشریف اور اْن کا خاندان منظر عام پر آیا۔ ٭5 اپریل 2016۔وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خاندان کے حوالے سے ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا عندیہ دیاتاکہ وہ...

پاناما فیصلہ کب کیا ہوا؟اہم واقعات تاریخ کے آئینے میں

صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹہرے مولانا فضل الرحمان ، عمران خان کا اگلانشانہ انوار حسین حقی - هفته 29 جولائی 2017

عدالت ِ عظمیٰ کے لارجر بنچ کی جانب سے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے فیصلے نے پاکستان تحریک انصاف اور اُس کی قیادت کی اُس جدو جہد کو ثمر بار کیا ہے جو 2013 ء کے عام انتخابات کے فوری بعد سے چار حلقے کھولنے کے مطالبے سے شروع ہوئی تھی۔ عمران خان کی جانب سے انتخابات میں د...

صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹہرے  مولانا فضل الرحمان ، عمران خان کا اگلانشانہ

نوازشریف کی نااہلی عوامی جلسوں کے ذریعے طاقت ظاہر کرنے کا فیصلہ رانا خالد محمود - هفته 29 جولائی 2017

پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعدعمومی طور پر پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے جیسے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں5رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا اور میڈیا کے ذریعے اس فیصلے کی خبر عوام تک پہنچی تو ان کا پہلا رد عمل وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے سات...

نوازشریف کی نااہلی  عوامی جلسوں کے ذریعے طاقت ظاہر کرنے کا فیصلہ

سیاسی قائدین کا اجلاس‘ عمران خان اور اسفند یار کی عدم شرکت سے کیا پیغام گیا؟ عارف عزیز پنہور - منگل 04 اکتوبر 2016

پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف کے اہم مشاورتی اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے...

سیاسی قائدین کا اجلاس‘ عمران خان اور اسفند یار کی عدم شرکت سے کیا پیغام گیا؟

کشمیر کی گونج اقوام متحدہ میں الطاف ندوی کشمیری - بدھ 28 ستمبر 2016

وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کو جو پذیرائی کشمیر میں حاصل ہوئی ہے ماضی میں شاید ہی کسی پاکستانی حاکم یا لیڈر کی تقریر کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ کشمیر کے لیڈر، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار، علماء، طلباء اور عوام کو اس تقریر کا...

کشمیر کی گونج اقوام متحدہ میں

چیلنج قبول کریں میاں صاحب! عبید شاہ - منگل 27 ستمبر 2016

اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...

چیلنج قبول کریں میاں صاحب!

وزیراعظم نواز شریف اپنی شیروانی کہیں رکھ کر بھول گئے؟ عارف عزیز پنہور - منگل 27 ستمبر 2016

زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...

وزیراعظم نواز شریف اپنی شیروانی کہیں رکھ کر بھول گئے؟

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا رضوان رضی - اتوار 25 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر