... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔ وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں۔ انگلستان سے اعلی تعلیم کے بعد وہ اپنے گرو ڈاکٹر حسنات احمد کے مشورے پر جنوبی افریقا چلے گئے وہیں ملازمت اور سکونت اختیار کرکے ایسا نام کمایا کہ جنوبی افریقا کے مشہور لیڈر نیلسن منڈیلا کے بھی معالج رہے۔سیر و سیاحت کے بے حد شوقین ہیں۔دنیا کو کھلی نظر سے آدھے راستے میں آن کر کشادہ دلی سے گلے لگاتے ہیں۔ہمارے اور اُن کے دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنا اسرائیل کا حالیہ سفر نامہ لکھنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے۔ اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا۔ یہ ان کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔
انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ اور تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے۔
===========
یروشلم جسے حضرت داؤد ؑ نے فتح کرکے دار الامان کا نام دیا تھا، آپ کوالہ دین کے غار کی یاد دلاتا ہے۔اس کی گلیاں رقیب کے دل کی مانند تنگ، دُکانیں سامان سے لدی پھندی مگر معشوق کے رخسار کے تل کی مانند سمٹی سمٹی سی ہیں۔دُکانداروں کی آوازیں اور ان کے بے قابو ہاتھ، دونوں ہی زبردستی آپ کے پیچھے لگ جاتے ہیں، دامن تھام لیتے ہیں۔انہیں دُکانوں کے اوپر قدیم رہائش کدے بھی ہیں جن کی کھڑکیاں چھوٹی اور چلمنیں حریری (ریشمی) ہیں۔گھروں کی سیڑھیاں پتھریلی مگر گھس چکی ہیں۔ گھروں کے درمیان عمر رسیدہ افراد کے دانتوں میں فاصلے جتنی چھوٹی چھوٹی گلیاں ہیں ۔ان میں ہر صبح فلسطینی خواتین قرب و جوار کے علاقوں سے اپنی زرعی پیدوار فروخت کرنے آجاتی ہیں۔اسی انبوہِ تاجراں میں طلسم کدۂ حیرت میں کھوئے ہوئے جوق در جوق سیاح۔ انہیں حیرانی اس بات کی ہے کہ بوڑھا وقت اپنی تمام تر تھکاوٹ اور نحیف ہونے کے باوجود ان مقامات پر بوئنگ اور ائیر بس کا مسافر نہیں بلکہ اب بھی پیدل ہی چل رہا ہے۔ اسے اپنی منزل پر پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں۔
میں اب اپنے ہوٹل سے آدھا کلومیٹر دور چلا آیا ہوں۔راستے میں تین چیک پوسٹ آئیں۔چست نوجوان ، مسرور مگر بے حد سنجیدہ اسلحہ سے لدے ہوئے اسرائیلی سپاہی کھڑے ہیں۔اسرائیلی سپاہی اگر ڈیوٹی پر نہ بھی ہوں تو انہیں اسلحہ لازماً لے کر چلنا ہوتا ہے۔ چونکہ فوجی ڈیوٹی ہر نوجوان کے لیے لازم ہے لہذا آپ کو بازار اور دیگر پبلک مقامات پر بھی ایسے مرد و عورت فوجی دکھائی دیں گے جن کے شانے سے جدید بندوقیں لٹک رہی ہوتی ہیں۔ ان تینوں چیک پوسٹوں پر کسی کو روکا نہیں گیا۔البتہ کچھ150 میٹر جاکر مجھے جب روکا گیا تو سپاہی نے پہلے عبرانی اور پھر عربی میں بات کی۔ میں نے انہیں جتایا کہ میں تو ایک سیاح ہوں۔یہ معاملہ مسجد اقصیٰ سے کچھ دور ہی پیش آیا تو اس نے جتایا کہ یہ مقام قبتہ الصخرۃ یا طلائی گنبد صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔غیر مسلم یہاں سے داخل نہیں ہوسکتے ۔ ان کے وہاں جانے کا راستہ مغربی دروازے سے دیوار گریہ کے نزدیک سے ہے اور وہ بھی مخصوص اوقات میں ۔
’’میرا نام مصطفے ٰ ہے ۔‘‘
میں اسے اپنے مسلمان ہونے کا یقین ایک غیر مسلم ملک سے جاری کردہ اپنا پاسپورٹ دکھا کر دلاتا ہوں اور وہ مجھے آگے بڑھنے کی اجازت دیتا ہے۔اس دوران میرے دماغ میں ان خدشات کا ایک طوفان اٹھ چکا ہے کہیں ہنگاموں کی وجہ سے ان کم بختوں نے مسجد اقصیٰ میں ہی داخلے کی ممانعت نہ کردی ہو۔
سو میٹر دور جاکر پھر ایک ایسا ہی مرحلہ درپیش آتا ہے۔مجھے اپنا سفر جاری رکھنے کی اجازت مل جاتی ہے اور میں لکڑی کے ایک قدیم بڑے دروازے سے جونہی اندر داخل ہوا ۔ ایک نوجوان میری جانب لپک کر آتا ہے اور چیخ کر مجھے رک جانے کا کہتا ہے۔’’ مسلم؟‘‘ اس کا سوال منکر نکیر جیسا مختصر اور میرا جواب نفس مطمئنہ والا الحمداﷲ ۔میرا جواب سن کر اس کے چہرے پر مسرت نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ کہاں سے؟ یہ سوال میرے لیے متوقع بھی اور باعث تفاخر بھی۔مسجد اقصیٰ کا آخری سیکورٹی مرحلہ ا سرائیلی عرب مسلمانوں کے حوالے سے ہے ۔مبادا کوئی یہودی سیکورٹی گارڈز کو دھوکا دے کر آجائے ۔ یہاں دین پر بھی چند سوال کرلیے جاتے ہیں ۔
میرا خیال تھا مجھ سے وہ اسرائیلی عرب گارڈ یا تو آیت الکرسی کے بارے میں کرے گا یا دعائے قنوت یا سورۃ الاخلاص کی تلاوت کی فرمائش کرے گا۔ جب میں نے اسے اپنے ملک کا نام پاکستان بتایا تو اس نے کسی تکلف اور توقف کے بغیر میرے گال کا بوسہ لے لیا۔تب مجھے لگا کہ یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں خاکسار نے کتنا وقت ضائع کیا ، پاکستان کا نام زور زور سے لینے سے تو یہ گنوائے ہو ئے بوسے مل جاتے میری آنکھیں بھی اس وقت نم آلود ہوگئیں جب میں نے اس بوسے کے بعد اس عرب گارڈ کی آنکھ میں آنسو دیکھا۔ دل میں بے اختیار یہ خیال کوندا کہ کیا پاکستا ن اور اس کی فوج اب بھی عالم اسلام کی آخری امید ہے۔’’میرے بھائی مسجد اقصیٰ میں خوش آمدید‘‘۔ اس کا آنسووں سے نم آلود یہ جملہ مجھے پاکستان سے اس سمیت ہم سب کی امید اور موجودہ حکمرانوں اور اشرافیہ کے طرز معاشرت پر ندامت ،دونوں سے بھگوگیا۔اﷲ نے کیسا ا علیٰ ملک و منصب دیا ہے اور ہم نے اس کا کیا بنا کر رکھ دیا ہے۔
اس سے رخصت ہوکر میں چند قدم آگے بڑھا تو ایک ایسے احاطے میں آن پہنچا جس کا رقبہ تو یہی کوئی 35 ایکڑ ہے مگر جس کی تاریخ صدیوں پر محیط واقعات سے لدی پھندی ہے۔جہاں سے مسلمان داخل ہوتے ہیں وہاں سے اندر آن کر دیکھیں تو آپ کی نگاہ مسجد الاقصیٰ ( اقصی بمعنی جو بہت دور ہو) پر نہیں بلکہ سنہری گنبد والے قبتہ الصخرۃپر پڑتی ہے۔قبہ عربی میں ٹیلے کو کہتے ہیں ۔
اسے مشرق وسطیٰ کی سب سے مشہور علامتی نشانی مانا جاتا ہے۔ قدرت الٰہی کا یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ اسرائیل کی سب سے اہم شناخت مسلمانوں کی بنائی ہوئی ایک عمارت یعنی یہ سنہری گنبد ٹہرا جسے عرب سے باہر تعمیر شدہ مسلمانوں کی پہلی عمارت کہا جاتا ہے۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ یہاں بہت ضروری ہے ۔یہ عمارت کوئی مسجد نہیں بلکہ ایک ایسا خوبصورت احاطہ ہے جس کے سنہری گنبد کے عین نیچے وہ پتھریلی چٹان (صخرۃ) ہے جہاں سے نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔یہاں آنے والے نوافل بھی پڑھتے ہیں اور قرآن کریم بھی۔ یہاں بھی صرف مسلمان ہی آسکتے ہیں ۔یوں اس کی مسلمانوں کے ہاں بڑی خصوصی اہمیت ہے۔
اسکی ہمارے فرسٹ کزن اہل یہود کے ہاں بھی بڑی اہمیت ہے۔وہ اسےM ount Moriah کے نام سے پکارتے ہیں ۔ اسی چٹان کو وہ دنیا کا مقام آغاز سمجھتے ہیں۔ ان کے ہاں قربانی کے لیے حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بڑے بیٹے اسحق ؑ جن کا لقب اسرائیل تھا انہیں اس پتھر پر لٹایا تھا نہ کہ کنیز کے بیٹے حضرت اسمعیٰلؑ کو ۔ حضرت اسحقؑ ان کی اہلیہ حضرت سارہ کے بطن سے تھے جو ایک شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔حضرت اسمعیلؑ کی والدہ حضرت حاجرہ)Hagar ہیگر (حضرت سارہ کی کنیز تھیں۔اسی لیے مسلمانوں کو وہ حقارتاً ہیگرآئٹس( (Hagarites بھی کہتے ہیں۔دو مواقع پر فرشتے حضرت ابراہیم کے پاس آئے تھے ۔ دوسری دفعہ تب جب انہیں ان کے کزن حضرت لوطؑ کی بستی سدوم کو برباد کرنا تھا۔ دونوں دفعہ آپ یعنی حضرت ابراہیمؑ کو بیٹوں کی پیدائش کی نوید بھی سنائی گئی تھی۔ حضرت اسمعیلؑ جو مسلمانوں کے عقیدے کے حساب سے بڑے بیٹے تھے ان کے لیے قرآن غلامُ حلیم(سورۃ الصفات آیت نمبر 101 یعنی نرمی اور خوش خلقی کے وصف سے مزین)کی اصطلاح استعمال کرتا ہے ، یہ خوش خبری انہیں آگ سے برآمدگی کے بعد سنائی گئی تھی۔ حضرت اسحقؑ جنہیں اسرائیل کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔یہودی اُن سے اپنا نسلاً رشتہ جوڑتے ہیں ۔ان کے لیے قرآن الکریم غلامُ علیم )سورۃ الحجر آیت نمبر 53 ( یعنی صاحب علم کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ان کے ہاں یہ تفاخر بھی بہت عام ہے کہ تین ہزار برسوں سے نہ نام ، نہ زبان ، نہ علاقہ کچھ بھی انہوں نے نہیں بدلا۔
قبۃ الصخرۃ کو آنحضرت محمد ﷺ کی وفات یعنی 632 عیسوی کے ٹھیک ساٹھ سال بعد تعمیر کیا گیا تھا۔ اسے ا ُموی خلیفہ عبدالمالک بن مروان نے خانہ بربادی کے دور ابتلا میں اس وقت تعمیر کیا جب مسلمان مملکت اسلامیہ کا دار الخلافہ مدینہ سے دور پہلے کوفہ اور بعد میں دمشق میں قائم کر نے کی فاش غلطی کربیٹھے تھے ۔ اس کے بعد اسلامی ریاست مڑ کر کبھی مدینہ نہ لوٹ پائی ۔
حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ ( حضرت ابوبکر ؓکے نواسے اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے بھانجے یعنی ان کی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ کے صاحب زادے تھے ) نے حضرت حسین ابن علیؓ کی طرح یزید کی بیعت سے انکار کیا تھا ۔ان کی شہادت کے بعد اہل مکہ نے ابن زبیر ؓ کو اپنا خلیفہ بنایا تھا۔مروان ،یزید کی تین برس کی حکمرانی کے بعد اس کی وفات پر دمشق میں خلیفہ بنا تھا۔ عبداﷲ بن زبیرؓ سے اس کی مکہ اور مدینہ پر قبضے کی جنگ جاری تھی۔ انہیں بالآخر حجاج بن یوسف کی ہاتھوں جام شہادت پینا پڑا جسے اموی خلیفہ عبدالمالک نے مکہ اور مدینہ فتح کرنے بھیجا تھا۔
قبۃ الصخرۃ ایک شاندار عمارت ہے جسے ایک انسانی تعمیر شدہ ٹیلے ( قبہ) پر بنایا گیا ہے ۔ مسلم مورخ مقدسی سے روایت ہے کہ اس نے اپنے چچا سے پوچھا تھا کہ اس شاندار عمارت کی ضرورت مسلمان خلیفہ عبدالمالک اور اسے کے بیٹے ولید بن عبدالمالک کو کیوں پیش آئی تھی تو جواب ملا کہ شام اور فلسطین میں عیسائی گرجے دیکھ کر وہ بھی چاہتا تھا کہ ایسی ہی کوئی شاہکار عمارت وہاں بنائے۔ اس کے مخالفین یہ بھی ایک توجیہ پیش کرتے ہیں کہ چونکہ مکۃ المکرمہ ان باپ بیٹوں کے تسلط میں نہ تھا لہذا وہ اپنا ایک مرکز تقدس تیسر ے کسی ایسے مقام مقدس جو پہلے دو مقامات کی یاد کچھ دن تک بھلادے بنانا چاہتے تھے۔ مسجد اقصیٰ انہیں بہت سادہ لگی۔ وہ دینی حوالے سے اس میں کوئی ترمیم بھی نہ چاہتے تھے۔ لہذا اس کے عین مقابل حرم شریف کے صحن کے دوسری طرف انہوں نے اس مقدس چٹان کو چنا اور یہ سنہری گنبد بنا ڈالا۔( اس پر مزید گفتگو بعد میں)
دوران تعمیراس کے سامنےChurch of the Holy Sepulchre, اور لائیڈا اور ایڈیسا کے کلیسا کی عمارت کی مثالیں تھیں۔مسلمانوں میں عالی شان مساجد اور محلات و مقابر تعمیر کرانے کا رجحان وہیں سے پڑا۔ اس سے قبل مسلمان اپنے طرز رہائش میں بہت سادہ اور جذبوں میں بہت شدید اور سچے تھے بعد کہ مسلمان اس کے بالکل برعکس نکلے۔وہ امویوں ،عثمانیوں اور مغلوں کی طرح پر تعیش طرز زندگی گزارتے تھے اور ان کی زندگی دین سے بہت پرے پرے گزرتی تھی۔
اس قبۃالصخریٰ کی تعمیر جس کھلے صحن ( کمپاؤنڈ) میں ہوئی ہے اسے حرم الشریف کہتے ہیں۔ یہاں سے بہت دور ہٹ کر ہی مسجد اقصی، کئی مدارس اور دیگر چھوٹی چھوٹی مذہبی عمارات بھی ہیں۔یہی وہ احاطہ ہے جس پر یہودی اور مسلمانوں کے کنٹرول کا جھگڑا ہے۔ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے لیے یہ بہت ہی اہم مقام ہے۔
دل میں ایک خوف اور میرے قدم بوجھل ہیں۔ اس بچے کی طرح جس کا اسکول میں پہلا دن ہو۔ چارسو میٹر کے بعد میں مسلمانوں کی تیسری سب سے مقدس عمارت کے سامنے ہوں ۔مسجد اقصیٰ بہت سادہ ہے مگر قدرے بڑی۔میں اپنے جوتے اتار کر جب اندر داخل ہوا تو نبیل انصاری میرے منتظر تھے۔یہ اس وقف بورڈ کے ممبر ہیں جو اس مسجد کا انتظام چلاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ اپنے رقبے میں استنبول ترکی کی بلیو مسجد جتنی ہے۔سرخ دھاریوں والے قالین اور اونچی چھت سے لٹکتے ہوئے فانوس، چھت کی منڈیروں سے جابجا کبوتر اڑتے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں مسجد میں داخل ہوا تو ظہر کی نماز پڑھی جاچکی تھی۔
ہم ایک کونے میں بیٹھ کر گفتگو کا آغاز کردیتے ہیں۔ (جاری ہے)
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...