... loading ...
پچھلے دنوں ہم تین دوستوں میں ایک عجیب اختلاف رائے ہوا۔ خاکسار اور ڈاکٹر کاشف ایک جانب تھے۔دیوار گریہ کے آس پاس کا ترجمہ کرتے ہوئے کاشف صاحب نے مندرجہ ذیل پیراگراف انگریزی میں لکھا تھا جس کا اردو ترجمہ لفظ بہ لفظ وہی ہوتا ہے جو دوسری قسط میں اپ لوڈ ہوا۔ مگر ہمارے مترجم ، ڈاکٹر کاشف کے مشفق اور محترم المقام اقبال دیوان صاحب نے اس کاترجمہ کرتے ہوئے اپنی ظالمانہ حس مزاح کا ایک جال ساپھیلادیا۔ کاشف صاحب کے سفر نامے کا مجموعی تاثر یاسیت اور دل گرفتگی سے آراستہ ہے۔
وہ فلسطین کے عرب مسلمانوں کی زبوں حالی اور بے بسی پر بہت ہی دل گرفتہ رہے،ان عمارت اور گلیوں میں گھومتے ہوئے انہیں مسلمانوں کا ماضی یاد آتا رہا کہ کیسے ہمارے خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ نے فلسطین میں داخل ہوکر ایک یہودی فوجی کو مارے بغیر ان کے چیف ربائی کی شکست فاتحانہ کو خوش دلی سے قبول کرکے انہیں اپنے کردار اور فراست سے گلے لگایا اور اب ہماری ذلت اور بے بسی کس دوراہے پر آگئی ہے۔آپ کی خدمت میں دونوں ورژن پیش ہیں ۔ ساتھ ہی اقبال دیوان صاحب کی اختلافی وضاحت بھی جو کئی نئے مصنفین اور مترجمین کے لیے باعث لطف و رہنمائی بن سکتی ہے۔غرضیکہ ع دوستوں کے درمیاں وجہ دوستی توہے !
ہمارے کر م فرما سرجن کاشف مصطفی کی تحریر کا وہ حصہ جو ترجمہ کے بعد اپ لوڈ ہوا ، وہ درج ذیل ہے!
یونانی دیومالائی کہانیوں میں سیفہس( King Capheus )جو جافا کا بادشاہ تھا۔ اسے سمندر کے دیوتا پوزائی ڈن ( Poseidon )کو منانے کے لیے اپنی بیٹی آندرومیدا پیش کرنا پڑی۔ آندرومیدا کو ساحل سمندر پر ایک بڑی سی چٹان کے ساتھ باندھ دیا گیا۔پوزائیڈن نے اسے کھالینے کے لیے ایک خونخوار عفریت کو بھیجا لیکن ایک یونانی ہیرو پرسی نن نے اس عفریت کو ہلاک کرکے اس کی جان بچا ئی اور آندرومیدا سے شادی کرلی۔آندرومیدا کے بارے میں یہ قصے بہت عام ہیں کہ وہ اس قدر حسین تھی کہ اس کی موجودگی میں پھول بھی کھلنے سے ہچکچاتے تھے۔جافا کی لڑکیاں اپنے حسن کے تانے بانے اسی آف شور حسینہ سے ملاتی ہیں۔
جو ترجمہ اور اضافہ اقبال دیوان صاحب نے حالات حاضرہ کے پیش نظر کیا تھا۔ جسے ادارتی اعتراضات کی وجہ سے مصنف کی ایما پر معطل رکھا گیا، وہ درج ذیل ہے!
جافا کی خواتین اپنے حسن پر بہت ناز کرتی ہیں۔ یوں تو دنیا کے ہر شہر میں اس غلط فہمی کا شکار اکثر خواتین دکھائی دیتی ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اسی غلط فہمی سے تو ع گلوں میں رنگ بھی بھرتے ہیں اور باد نو بہار بھی چلتی ہے۔ یہی تو اک تماشہ عظیم ہے، جس سے اربوں ڈالر والا اشیائے رنگ و روپ اور فیشن کا کاروبار چلتا ہے ۔ مگر جافا والیوں نے اردو شاعری کی اصطلاح میں اس میں نئی زمین نکالی ہے۔ وہ اصلاً نسلاً اپنے حسن جہاں تاب کے ڈانڈے یونانی دیو مالائی قصوں کے شہنشاہ سیفی ہس Cepheus) کی قطرینہ کیف کو دھول چٹادینے والی حسین دختر نیک اختر آندرومیدا ( Andromeda) سے ملاتی ہیں۔
وہ جافا کا حکمران تھا۔ سمندر کے دیوتا پوزائیڈن کو جس سے مملکت کے سب ہی سرکش مالدار اور بااثر افراد تاوقت یہ کہ مک مکا ہوجائے ، افتخار چوہدری کی طرح نالاں رہتے تھے۔ اس کے ہاتھ سیفی ہس کا کوئی بڑا اسکینڈل لگ گیا تھا ۔وہ بہت دنوں سے شفاف اور کرپشن سے پاک حکومت کے کھوکھلے دعووں کے عوض کوئی بھاری نذرانہ مانگ رہا تھا۔کابینہ کے ارکان کا مشورہ تھا کہ اپنی جمہوریت اور نظام کو بچانے کے لیے کوئی لنگڑا لولا کمیشن بنا لیتے ہیں۔کمیشن کے سربراہ کی بہو، بیٹی کو سو ڈیڑھ سو کروڑ والے کسی ادارے کی سربراہ یا ممبر اسمبلی بنالیں گے۔ Then we will live happily ever after.۔
کابینہ کا مگر ایک وزیر جس کے بالی ووڈ میں بہت گہرے تعلقات تھے اور جو ماضی کے کئی ڈکٹیٹروں سے غریب کی جورو سب کی بھابھی والے تعلقات بھی رکھتا تھا ۔اس کے علاوہ دنیا کا سرد و گرم باپ کی پان کی دکان پر بیٹھ بیٹھ کر اچھی طرح دیکھ چکا تھا ۔ اس نے ایک دبنگ گریک ہیرو پرسی نیون ,( Perseniun )جسے شیو سینا کی مخالفت کی وجہ سے ہندوستانی فلم میں کوئی کام نہیں مل رہا تھا اس کے ساتھ رابطہ کیا ۔
وہ وہاں ان دنوں تعطیلات گزارنے آیا ہوا تھا۔ اس سے دوستوں کی مدد سے وزارت کا وعدہ کرکے منالیا ۔شہنشاہ Capheus کو سمجھایا کہ’’ سر جی ! تین چار ماہ دی گل اے بس تسی اے ڈنگ ٹپاؤ(پنجابی میں وقت گزارنا) اے ماٹھی جئی کابینہ دے مشورے تے مٹی پاؤ تے کڑی نوں پانی وچ سٹو(پھینکو)‘‘۔ باپ کی بادشاہت اور دل رکھنے کے لیے فرمانبردار بیٹی آندرومیدا ( Andromeda) جس نے ٹائی ٹینک کا آخری سین کئی کئی دفعہ ری وائنڈ کرکے دیکھا تھا اور جو پرسی نیون کو سمجھا چکی تھی کہ پانی میں کودتے وقت میرا کوڈ ہوگا Jump. I Jump You وہ لمحہ ء مقررہ پر سمندر کے دیوتا کے حکم پر تیزی سے بڑھتے خون خوار درندے کے سامنے ـ’ ’’کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہیـ‘ پرسی نن پیارے آئی جمپ ، یو جمپ ‘‘۔یہ کہہ کر کود گئی۔
ہیرو جو اسے بچانے کے لیے وہاں موجود اور تیاری پوزیشن میں تھا ،اس نے بھی نعرہ مارا کہ ’تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے‘ صاف چلی شفاف چلی ، تحریک انصاف چلی ‘‘کہتا ہوا اُس کے پیچھے پیچھے کود گیا۔ ۔ ساتھ ہی درندے کے سر پر ایک ضرب کاری ماری اور اس دہشت گرد کی گردن ہی کاٹ ڈالی۔ اس کا ارادہ تو سہولت کاروں سے بھی نمٹنے کا تھا جو اس کرائے کے Dragon کے پیچھے ترقیاتی فنڈز اور ویت نام ، کینیا، متحدہ امارات اور کرغزستان میں سفیر لگنے کے آسرے میں چلے آرہے تھے۔ شہزادی نے مگر.ہیرو کو سمجھایا کہ’’ پلیز جلدی کرو یہ آفر محدود مدت تک کے لیے پہلے آئیں پہلے پائیں کی بنیاد پر ہے۔ میرا بیوٹی پارلر بند ہوجائے گا اور شادی ہال بھی آج کل ٹائمننگ کے معاملے میں بہت Strict ہیں‘‘۔ اس بے روزگار ہیرو نے آندرو میدا کو منگلک( وہ لڑکی جسے ہندو کے ہاں شادی کے لیے منحوس سمجھا جاتا ہے) جانتے ہوئے بھی اﷲ مالک ہے کہہ کر بیاہ کرلیا۔اس کے حسن دل فریب کے چرچے یہاں آج بھی جافا کی لڑکیوں میں ایسے ہی مشہور ہیں جیسے ہندوستان میں شادی کے بعد
بھی ایشوریا رائے کے حسین اور منگلک ہونے کے ہیں۔ جافا کی یہ لڑکیاں کہتی ہیں کہ احمد فراز نے ہم کو ہی تو دیکھ کر اپنی وہ مشہور غزل لکھی تھی کہ ع
ہم بھی تمہاری قنچے جیسی آنکھوں کی مالک کالاش والیوں کی طرح اس آندرو میدا ہی کی نسل ہیں۔مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں، تب خاک سے ہوتے ہیں یہ گنج گراں مایہ پیدا۔
اقبال دیوان کی وضاحت
ہم نے ایڈیٹر کو سمجھایا کہ صدر اوباما کو دیکھو۔ اس کا واشنگٹن کے پریس سے آخری خطاب سنو کیا غضب کی حس مزاح ہے۔خود پر ہنسنااور وہ بھی اس مقام رفعت پر فائز ہوکر تو بہت ہی کٹھن ہے ۔ کیا کھل کر کھیلے ہیں ۔اُن کی بیگم مشعل بھی ان کے ون لائنر زسن سن کر محظوظ ہورہی تھیں۔ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آپ کی بیگم بھی آپ کا مذاق سمجھ پائے۔اوباما کہہ رہے تھے کہ میرے یہ آخری ایام اس قدر دشوار ہیں کہ پروٹوکول کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہزادہ جارج( شہزادہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن کا بیٹا) مجھ سے ملنے باتھ روب لپیٹے ہوئے ملنے پہنچ گیا۔اس کی یہ جسارت مجھے منھ پر تھپڑ بن کر لگی۔
انہیں کی پارٹی کے صدراتی امیدوار برنی سینڈر جو بزرگ اور بہت محتاط رویوں کے مالک ہیں انہیں مخاطب کرتے ہوئے اوباما کہنے لگے وہ برنی بیٹھے ہیں دیکھنے میں پورے دس لاکھ ڈالر کے لگتے ہیں لیکن ان کی سمجھ میں بڑی رقم نہیں آتی اس لیے انہیں سمجھانے کے لیے ایسے کرلیتے ہیں کہ وہ 27 ڈالر کے ان 37,000 ہزار عطیات کے برابر لگتے ہیں جو انتخابی مہم میں انہیں ملے ہیں۔مجھے یقین نہیں آتا کہ ری پبلکن پارٹی نے اپنا صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو بنایا ہے۔لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کا ڈونلڈ کو کوئی اندازہ نہیں۔یہ ڈونلڈ کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔وہ ایک عرصہ دراز سے دنیا کے اہم لیڈروں سے مستقل رابطے میں ہیں۔جیسے مس سوئیڈن، مس ارجنٹینا،مس آذر بائی جان(یاد رہے کہ وہ عالمی مقابلہ حسن کی فرنچائز کے مالک ہیں)۔اوباما نے ایک اور حرکت یہ کی کہ تقریب کے اختتام پر، چونکہ صحافی برادری سے یہ ان کا آخری خطاب تھا ،انہوں نے مائیک زمین پر ایک تمیز سے گرادیا۔
ہم نے ایڈیٹر صاحب کو بے سود سمجھایا کہ شاعر نے کہا ہے ع
عرض ہنر کا کمال یہ ہے کہ اسی کو بات نہ پہنچے کہ جس کو پہنچنی ہو۔ کبھی کبھار غیر صحافیانہ مشورے بھی مان لیا کریں۔ یہ تخلیق کا ایک ایسا پہلو ہوتے ہیں جو روٹین کی عادی آنکھ نہیں دیکھ پاتی۔جن دنوں مغل اعظم فلم بن رہی تھی اس کے فلمساز اور ڈائریکٹر کے آصف اس بات کے حامی نہ تھے کہ فلم کا مشہور گیت موہے پنگھٹ پر نند لال چھیڑ گئیو رے لتا منگیشکر سے گوایا جائے۔ان کے ہم نوا ،استاد بڑے غلام علی خان بھی تھے۔نوشاد جو میوزک ڈائریکٹر تھے وہ یہ گیت لتا سے ہی گوانے پر بضد تھے فیصلہ یہ ہوا کہ لتا جی یہ گیت استاد بڑے غلام علی خان کے سامنے گائیں گی، وہ راضی ہوئے تو بسم اﷲ ورنہ کوئی اور۔لتا نے جب گانا ختم کیا تو استاد بڑے غلام علی خان سمیت سب دم بخود تھے اور غلام علی خان نے داد یہ کہہ کر دی کہ کم بخت کہیں بھی سُر سے نہیں اتری۔
ایسا ہی معاملہ فلم گاڈ فادر میں ہیرو مارلن برانڈو کو لینے کے بارے میں ڈائیریکٹر فرانسس کپولا کو پیش آیا۔ مارلن برانڈو گو کہ ان دنوں پریشانیوں کا شکار تھے مگر اس کے باوجود وہ کسی ایسی فلم میں کام نہ کرنا چاہتے تھے جو مافیا جیسے خطرناک موضوع پر ہو۔ جب ان کی اسسٹنٹ نے کتاب پڑھنے کی ضد کی تو دوران مطالعہ یہ کتاب اس خاتون کی طرف باقاعدہ طور پر برانڈو نے پھینک دی۔جب وہ رضامند ہوئے تو پیرامائنٹ پکچر کو اس پر اعتراض تھا۔بمشکل ایک دن ویڈیو شوٹ کے لیے سب جمع ہوئے ، ایک تکیہ مارلن برانڈو کی قمیص میں ڈان کور لیونی کا مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے اڑسا گیا۔ بالوں میں سیاہ بوٹ پالش، منہ میں ٹشو پیپر کا گولہ بنا کر رکھا گیا۔پیراماؤنٹ پکچر والے بدستور اڑے ہوئے تھے۔کئی مراحل سے گزرنے کے بعد جن میں نیویارک مافیا کی منظوری بھی تھی ،دنیا نے دیکھا کہ جب فلم بنی تو کیا غضب کا شاہکار تخلیق ہوا تھا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اختلاف کو خوش اسلوبی سے برتنا سیکھ لیں۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...