... loading ...
سندھ میں قوم پرستی کی تاریخ 1935ء سے شروع ہوتی ہے جب سر شاہنواز بھٹو‘ خان بہادر ایوب کھوڑو‘ حاجی عبداﷲ ہارون‘ پیر علی محمد راشدی اور نوجوان جی ایم سید سمیت سندھی رہنماؤں نے کراچی کی ممبئی پریذیڈنسی میں شمولیت کی سخت مخالفت کی‘ تحریک چلائی اور کراچی کو ممبئی سے الگ کرکے سندھ کا حصہ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ انگریز حکمرانوں کا اصرار تھا کہ چونکہ کراچی میں مسلمانوں کی تعداد کم اور ہندوؤں‘ پارسیوں‘ انگریزوں‘ یہودیوں اور دیگر غیر مسلموں کی تعداد زیادہ ہے لہٰذا اسے ممبئی کا حصہ رہنا چاہئے۔ کراچی میں مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کے لئے سر حاجی عبداﷲ ہارون نے بہت جدوجہد کی‘ انگریز حکومت سے لیاری کا علاقہ مسلمانوں کے لئے دو لاکھ روپے دے کر خریدا اور یہاں مسلمانوں کو مفت میں زمین دی تاکہ وہ آباد ہوسکیں۔ اسکول‘ اسپتال اور دیگر سہولتیں بھی مہیا کیں اور بالآخر کراچی میں مسلمانوں کی تعداد بڑھانے میں کامیاب رہے۔ کراچی ممبئی کا حصہ بننے سے بچ گیا‘ قیام پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی صرف چار لاکھ تھی جو گزشتہ 70 سال میں بڑھ کر دو کروڑ سے تجاوز کررہی ہے۔ 1947ء میں پاکستان بنا تو پنجاب‘ بلوچستان اور صوبہ سرحد (کے پی کے) سمیت پورے مغربی پاکستان کی آبادی صرف ساڑھے تین کروڑ تھی ۔
قیام پاکستان کے بعد کراچی کو وفاقی دارالحکومت کا درجہ ملا جو 1960ء میں دارالحکومت کی اسلام آباد منتقلی تک برقرار رہا ۔دس سالہ ایوبی دور حکومت میں کراچی نے بڑے پیمانے پر صنعتی ترقی کی ‘کارخانے لگے‘ اسپتال اور عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ 1947ء میں توصرف بھارت سے ہجرت کرنے والے مہارین کی اکثریت نے کراچی‘ حیدرآباد‘ سکھر‘ میرپور خاص وغیرہ کو اپنا مسکن بنایا تھا لیکن ایوبی دور میں ملک بھر سے روزگار کی تلاش میں آنے والوں کی بڑی تعداد بھی یہاں آباد ہوگئی۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سندھ میں مختلف قومیتوں کے درمیان مسابقت شروع ہوئی جس نے بڑھتے بڑھتے قوم پرستی کی جنگ کی شکل اختیار کرلی۔ تعلیمی اداروں میں داخلوں اور ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم اور زیادتیوں‘ ناانصافیوں نے قوم پرستی کو ہوا دی ۔پاکستان کے لئے 1943ء میں سندھ اسمبلی سے قرارداد پاس کرنے والے صوبے میں سب سے زیادہ منافرت کی ہوا چل پڑی۔ جئے سندھ تحریک اور مہاجر تحریک نے پوری سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مرکز گریز رجحانات نے جگہ پائی۔ سندھودیش کے نعرے لگے۔ 1978ء میں الطاف حسین نے کراچی کے تعلیمی اداروں میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس کی بنیاد ڈالی جس نے بعد ازاں مہاجر قومی موومنٹ اور پھر متحدہ قومی موومنٹ کی شکل اختیار کرلی ۔آج یہ پارٹی تین حصوں میں منقسم ہوچکی ہے قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ (الطاف حسین) کی نمائندگی ہے۔ نوزائیدہ پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) گزشتہ دنوں مزار قائد اعظم سے متصل باغ جناح میں اپنا پہلا جلسہ عام منعقد کرچکی ہے ۔پارٹی کے ایک رہنما اور مستعفی رکن سندھ اسمبلی رضا ہارون لاہور پہنچ گئے ہیں۔ اس پارٹی کی بنیاد گوکہ ’’مہاجر ازم‘‘ ہے لیکن اس کے سربراہ مصطفی کمال پورے ملک میں کام اور عوام سے رابطہ کرکے اپنی پارٹی کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔ سندھ میں ’’مہاجر سیاست‘‘ کے تیسرے نقیب آفاق احمد ہیں جنہوں نے 1992ء میں متحدہ کے خلاف آپریشن کے موقع پر اپنے گروپ کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس پارٹی نے 1993ء کا الیکشن بھی لڑا اور اسمبلیوں کی سیٹیں حاصل کرکے سندھ حکومت میں شمولیت بھی اختیار کی۔ آفاق احمد نے25سال کے فاصلے مٹاکر پھرمتحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ اپنی پارٹی کے اشتراک اور اس مقصد کیلئے خود چل کر متحدہ کے مرکز نائن زیرو جانے کی بات کی ہے۔ وہ رابطہ کمیٹی کی میزبانی کیلئے بھی تیار ہیں۔ ان کی تجویز کو متحدہ کی جانب سے کس حد تک قبولیت عطا ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قبل از وقت ہے‘ تاہم اس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔ موجودہ پوزیشن یہ ہے کہ مہاجر سیاست کے یہ تینوں علمبردار ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ تینوں کے ایک دوسرے پر الزامات اور تحفظات ہیں۔ سندھ کی سیاست میں جس طرح جئے سندھ تحریک کئی گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے، اسی طرح سے ایم کیو ایم کے بھی تین دھڑے وجود میں آچکے ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی وفاقی سیاست کررہی ہے، اس نے قومی پرچم کو اپنی پارٹی کا پرچم قرار دیا ہے۔ قوم پرستی کے نظریہ کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے تو قومی سرزمین درکار ہوتی ہے پھر مشترکہ تہذیب و ثقافت‘ رہن سہن اور زبان بھی اہمیت کی حامل ہے۔ مہاجر بھارت سے ہجرت کرکے سندھ میں آباد ہوئے تھے گوکہ وہ اپنی ’’قومی سرزمین‘‘ بھارت میں چھوڑ آئے تھے لیکن ان کی آبادکاری اس دور میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم لیاقت علی خان اور جواہر لعل نہرو کے درمیان معاہدے کا نتیجہ تھی۔اس معاہدے کے تحت مشرقی بنگال سے ہجرت کرکے مغربی بنگال اور سندھ سے ہجرت کرکے بھارت نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں کی جائیداد تبادلہ میں ان مسلمانوں کو ملنا تھی جو اپنی جائیدادیں اور گھر بار‘ زمینیں بھارت میں چھوڑ آئے تھے اور ان کے حقدار نقل مکانی کرنے والے ہندو قرار پائے تھے۔ اس معاہدے پر عملدرآمد کا سلسلہ جاری تھا کہ 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں خان لیاقت علی خان شہید کردیئے گئے۔ راولپنڈی نہ صرف پنجاب کا ایک بڑا شہر تھا بلکہ افواج پاکستان کے جنرل ہیڈ کوارٹرز کا مرکز بھی۔ اس ایک سانحہ نے مہاجروں کو ہلاکر رکھ دیا۔ لیاقت علی خان کی زندگی میں ان پر ایک الزام یہ لگایا جاتا تھا کہ وہ کراچی‘ حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہری علاقوں میں مہاجروں (آج کے اردو اسپیکنگ) کو آباد کرکے اپنا حلقہ انتخاب بنانا چاہتے تھے۔ یقینا وہ ایسا ہی کرنا چاہتے ہوں گے کہ حلقہ انتخاب جمہوری‘ پارلیمانی سیاست کا جزواعظم ہے۔ نیز یہ کہ مہاجروں کو بہر صورت کہیں نہ کہیں تو آباد کرنا تھا۔ اگر سندھ میں نہیں تو پھر بنگال‘ پنجاب‘ بلوچستان‘ صوبہ سرحد‘ کہیں نہ کہیں۔ چونکہ پاکستان کا دارالحکومت بھی سندھ ہی میں تھا اس لئے مہاجر خود ہی کشاں کشاں ادھر چلے آئے۔ اس میں لیاقت علی خان کا بھلا کیا دوش۔ لیاقت علی خان مہاجر ہونے کے ساتھ ایک دیرینہ سیاست دان بھی تھے اور انہیں اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر سندھیوں‘ پنجابیوں‘ پٹھانوں اور بنگالیوں کی بھی اتنی ہی ضرورت تھی جتنی مہاجروں کی۔ وہ مہاجروں کے تحفظ کی علامت تو البتہ تھے ہی مگر ضمانت نہیں تھے۔ وہ اول و آخر ایک سیاست دان تھے اور اس مصلحت اور ضرورت کے تابع بھی جو ہر سیاست دان بالخصوص مقتدر سیاست دان کی زندگی کا جزو ہوتیں ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے پاکستانی فوج کی سربراہی کے لئے صوبہ سرحد کے جنرل ایوب خان کو منتخب کیا۔ حالانکہ اس عہدہ کے لئے ان سے دو سینئر مہاجر افسر میجر جنرل محمد اکبر خاں (رنگروٹ) اور میجر جنرل رضا موجود تھے۔ یہ مثال اس لحاظ سے ضعیف تو ہوسکتی ہے کہ ایوب خان کی ترقی سے پہلے ہی ان دو حضرات کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا تھا بہر حال بے جا نہیں۔ مدعا صرف یہ ہے کہ اقتدار کے لئے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ مہاجر‘ مہاجر کا گلا اور پنجابی‘ پنجابی کا گلا کاٹ سکتا ہے۔
فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے ایک سابق ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر عبدالرحمان صدیقی کے یہ الفاظ تاریخ پر نقش ہیں۔ سندھ میں اس وقت اقتدار اور غلبہ حاصل کرنے کی جنگ چل رہی ہے روحانی پیشوا اور فنکشنل مسلم لیگ کے سربراہ پیر صاحب پگارا کی قیادت میں 16 جماعتوں پر مشتمل ڈیموکریٹک الائنس پیپلزپارٹی سے اقتدار چھیننے کی جستجو میں ہے اور مہاجر سیاست کے تین سرخیل الطاف حسین‘ آفاق احمد اور مصطفی کمال اپنی اپنی بالادستی کے لئے کوشاں ہیں۔ الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کو آپریشن کا سامنا بھی ہے جو گزشتہ ایک سال سے ریاستی ادارے اس کے خلاف کررہے ہیں‘ متحدہ صرف سینیٹ اور اسمبلیوں میں ہی نہیں ہے ،اس نے بلدیاتی الیکشن بھی جیت رکھا ہے۔ وسیم اختر اس کے نامزد میئر ہیں جن سے بعض ادارے خوش نہیں ہیں ،انہیں مقدمات کا سامنا بھی ہے کسی مقدمہ میں سزا ہونے پر ان کا حق نمائندگی بھی ختم ہوسکتا ہے۔ سندھ کی سیاست کا اونٹ آئندہ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا انحصار فریقین کے رویہ اور شہری مسائل کے حل کے لئے روٹ میپ پر ہوگا ۔اس کے علاوہ ریاستی اداروں کے ساتھ تعلقات کا بھی اہم کردار ہوگا۔
مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد نے کہاہے کہ الگ صوبے کی جدوجہد تیز کرنے کرنے کا اعلان کرتا ہوں ،یکم مارچ سے صوبے کے حصول کے لیے دستخطی مہم شروع کی جائے گی۔23 مارچ کوعالمی مبصرین کی موجودگی میں صوبے کے قیام کے لیے ریفرنڈم ہوگا۔خالد مقبول، عامر خان، فاروق ستار، انیس قائم خانی...
منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...
بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...
کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...
کیا متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے واقعی کراچی چھن گیا ہے‘ ایم کیوایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیوایم کے نئے سربراہ کی حیثیت سے قبول کرلیاگیا ہے۔ کراچی کے ضلع ملیر میں سندھ اسمبلی کی نشست پر منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایم کیوایم کی نشست پر پیپلزپارٹی ک...
قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر اورقائد حزب اختلاف سیدخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کو قائم رہنا چاہئے تواس کا یہ مقصدہرگز نہیں ہوتا کہ انہیں سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی عشق یا وہ اسے جمہوریت کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اگ...
پاکستان میں اقتدار کی کشمکش فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ایک وسیع حلقہ اس بات کا حامی ہے کہ فوج آگے بڑھ کر کرپشن اور بدانتظامی کے سارے ستون گرادے اور پاکستان کو بدعنوانیوں سے پاک کردے۔ دوسرا حلقہ اس کے برعکس موجودہ سسٹم برقرار رکھنے کے درپے ہے اورمملکت کے انتظام وانصرام میں ...
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بالآخر پاکستان پیپلزپارٹی کے عقابوں کو مجبو رکر ہی دیا کہ وہ اپنے نشیمن چھوڑ کر میدان میں آجائیں اور مسلم لیگ (ن) کو للکاریں۔ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ ماڈل ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی کے عوض پی پی پی کی اعلیٰ قیادت ...
سندھ کا وزیراعلیٰ بننے سے سید مرادعلی شاہ کی ’’مراد‘‘ تو پوری ہوگئی لیکن صوبے کے عوام بدستور اپنے آدرش کی تلاش میں ہیں ۔رشوت اور بدعنوانیوں سے پاک ’’اچھی حکمرانی‘‘ تو جیسے خواب بن کر رہ گئی ہے۔ اوپر سے رینجرز کی تعیناتی کا تنازع‘ جو حل ہونے میں نہیں آرہا ہے‘ وزیراعلیٰ کے آبائی عل...
سندھ کے میدانوں‘ ریگزاروں اور مرغزاروں سے لہراتا بل کھاتا ہوا شوریدہ سر دریائے سندھ کے کناروں پر آباد باشندے اس عظیم دریا کو ’’دریابادشاہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دریائے سندھ نہ صرف صوبے کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے بلکہ ’’بادشاہت‘‘ بھی بانٹتا ہے۔ پہلے دریا کے دائیں کنارے پر آباد شہر خیرپور...
نپولین کاشمار دنیا کے مشہورترین جرنیلوں میں ہوتا ہے اس کی جرأتمندی اور بہادری مثالی تھی۔ ’’ناممکن‘‘ کا لفظ اس کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔ فرانس میں اس کی حکومت کے خلاف سازش کامیاب ہوئی‘ اقتدار سے محروم ہوا تو معزول کرکے جزبرہ ’’البا‘‘ میں قید کردیاگیا۔ لیکن جلد ہی وہاں سے بھاگ نکلا۔ ...
15 جولائی 2016 ء کی شب گزشتہ 48 سال کے دوران چوتھی مرتبہ ترکی میں ’’فوجی انقلاب‘‘ کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی۔ بغاوت کا المیہ ہے کہ اگر کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو تو غداری کہلاتی ہے۔ 15 جولائی کا فوجی اقدام چونکہ ناکام ثابت ہوا لہٰذا باغیوں کے سرخیل 5 جرنیل اور 29 کرن...