... loading ...
نوازشریف سے گورنر ہاؤس پنجاب میں ملنے والے صحافیوں اور اینکرز کے رشحات ہائے قلم اور تڑاق پڑاق زبانوں سے جو کچھ برآمد ہوا ہے ، اس کا جائزہ لیا جائے تو بآسانی اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں حکمران برباد کیوں ہوتے ہیں؟ اور وہ کیوں امید ِ لطف پہ ایوان کجکلاہ میں بیٹھی مخلوق پر انحصار کرتے ہیں؟ کیوں اُنہیں مثال سائل مبر م نشستہ راہ دکھائی دینے والے سازگارہیں؟ جن کی آنکھوں میں صدیوں کی حرص جھانکتی اور جن کے معدوں میں نسلوں کی بھوک گڑگڑاتی ہے، وہی مخلوقِ گدا اُن کے لیے نوائے خوش بیاں کا فریضہ کیوں سرانجام دیتی ہے؟ یوں لگتا ہے کہ موٹے پیٹوں کا یہ لشکر نوازشریف کی سپاہ بن کر ضرب ِ غضب لگائے گا۔ اور خاکیوں کے چھکے چھڑا دے گا۔ کون نہیں جانتا کہ نوازشریف اور اُن کے چند وزراء اور صحافتی رفقاء ، جن کی گفتگو کا بازاری معیار ’’اُس بازار‘‘ کی حیا کو بھی شرما دیتا ہے، کا بظاہر ہدف عمران خان ہے، مگر دراصل نہیں۔ کہیں پہ نگاہیں اور کہیں پہ نشانہ والی اس لڑائی میں نوازشریف کے لشکریوں کا نشانہ درحقیقت خاکیوں کے عزائم پر خاک ڈالنا ہے۔ کسی بھی ابہام کے بغیر ہم یہ جانتے ہیں کہ نوازشریف کو گرانے کی طاقت عمران خان کو حاصل نہیں ۔اگر نوازشریف کبھی ڈھے پڑے تو اُنہیں گرانے والا دراصل کوئی اور ہوگا، یا پھر وہ خود اپنے ہی وزن اور بے وزن منصوبوں اور اُس سے زیادہ ہلکے اُن لوگوں کی وجہ سے گریں گے جو اُن کے ارد گرد سیاست اور صحافت کے انگڑ کھنگڑ کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔ جن میں سے چند ایک گورنر ہاؤس میں بھی ڈکاریں مارتے نظر آئے۔ حرص وہوس کے مارے اس گروہ میں عارف نظامی صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے اپنی تحریر میں ایک حقیقی تصویر دکھانے کی کوشش کی۔ سچے الفاظ حاکموں پر بھی حکومت کرتے ہیں۔
کیا نوازشریف کسی مشکل میں نہیں ؟خود نوازشریف کے گدا نما حامی قلمکار شکوہ کناں ہیں کہ تین برس کی حکومت میں پہلی مرتبہ اُنہیں یاد کیا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کے گزشتہ دھرنے میں بھی نوازشریف اس مخلوق کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوئے تھے؟ تو کیا اب خطرہ زیادہ بڑا ہے؟سامنے کے حقائق تو یہ ہیں کہ نوازشریف اپنے ترقیاتی منصوبوں کا ڈھول زیادہ شدت سے پیٹنے لگے ہیں۔ سات ماہ بعدکابینہ کا اجلاس بلایا گیا ہے۔ حکمران جماعت کے ارکان پارلیمان کو بھی شریف دربار میں آداب بجالانے کا موقع پہلی مرتبہ مل رہا ہے۔ نوازشریف کے اندازِ حکومت کو سمجھنے والے اسے خوشگوار تبدیلیاں نہیں بلکہ خطرات کی آہٹوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ کوئی بھی گوشِ ہوش رکھنے والا اپنے کان زمین پر رکھ کر اُن آہٹوں کو بآسانی سن سکتا ہے۔ آزاد لوگ ایسے ہی کرتے ہیں، عارف نظامی نے دھڑلے سے سوال کیا کہ کیا اب بھی راحیل شریف اور نوازشریف دونوں ہی ایک صفحے پر ہیں ؟ نوازشریف نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ مگر اس کی تشریح کسی اور وزیر نے اُن کے کان میں یوں کی کہ نوازشریف نے اس کا جواب نہ دے کر دراصل دے ہی دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ لڑائی کا محاذ دراصل یہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دھرنے کے ایّام کی لڑائی اور یہ تازہ لڑائی کیسے ایک دوسرے سے مختلف ہے؟ نوازشریف اس باریک فرق پر پورا دھیان رکھتے ہیں۔ مگر اُن کے گداگرانِ نوا کی توجہ اس پر نہیں۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دھرنے کے ایّام میں نوازشریف کی حکومت کو محمود اچکزئی ، مولانا فضل الرحمان ، اسفندیارولی اور خورشید شاہ کے اکٹھ نے بچایا تھا، تو ایسے بے وقوفوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔ درحقیقت دھرنا نظام کے کاریگروں کے ساتھ بھی کاریگری کرکے ترتیب دیا گیا تھا۔ یہ دھرنا ایک ادارے کے سربراہ نے نظام کے اندر اپنے انفرادی تعلقات کے ذریعے ایک مخصوص ماحول میں ’’اصل شریف‘‘ کو اُن کی مرضی کے فیصلے پر دھکیلنے کے لیے سجایا تھا۔پاکستان کی دستِ نگر صحافت نے کبھی اس کا تجزیہ نہیں کیا ۔ مگر دھرنا اپنے آخری دنوں میں نوازشریف کے لیے نہیں بلکہ خو دراحیل شریف کی فیصلہ کن حیثیت کے لیے ایک چیلنج بن گیا تھا۔ نوازشریف نے اس صورتِ حال کافائدہ اُٹھایا تھا۔ اور عمران خان اس صورتِ حال میں زعم ِ باطل کے شکار ہوئے۔ اُن کی خود بینی نے اُنہیں خود شکنی کی قابلِ رحم حالت پر پہنچا دیا۔ اُنگلی والی سرکار اُنگلی تو کیا اُٹھاتی ، گرتے پڑتے عمران کو اُنگلی تک نہیں پکڑائی اور وہ انگشت بدانداں گھر لوٹے تھے۔ ظاہر ہے تازہ منظرنامہ گزشتہ دھرنے کے احوال ِ واقعی سے واقعتا مختلف ہے۔ یہ دراصل کسی فردِ واحد کے فیصلوں کا بنایا منظرنامہ نہیں۔ اس میں حالات کی بُنت کسی انگلی کی جادوگری سے نہیں کی گئی۔ یہ ایک متوازی نظام کی دوسرے نظام کے ساتھ آنکھ مچولی ہے۔ اس میں کی جانے والی چھیڑ چھاڑ دراصل ایک پورے نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوگی۔ دھرنے کے ایّام میں یہ کہنا آسان تھا کہ نوازشریف کو نہیں بلکہ ڈی جی آئی ایس آئی کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ اب حالات کی نئی کروٹوں میں یہ سیاسی جنتر منتر کام نہیں کریں گے۔ جیسا کہ نوازشریف کے دسترخوانی قبیلے نے سوچ رکھا ہے کہ عسکری حلقوں کے افراد کے متعلق دھرنے کے ایّام کی حکمت عملی بروئے کار لاتے ہوئے مختلف خبریں پھیلائی جائیں گی۔ اور یہ اُنہیں دفاعی مقام پر دھکیل دیں گی۔ اگرچہ اس کا آغاز بھی ہو گیا ہے مگر یہ حکمت عملی دراصل نوازشریف کو اکتوبر 1999ء کے حالات میں دھکیل دیں گی۔ کیونکہ تب جو بات تھی وہ اب نہیں۔ جنرل راحیل شریف اور نوازشریف اب ایک صفحے پرنہیں ہیں۔ نوازشریف جس بات کو نہیں سمجھ رہے ،وہ یہ ہے کہ سیاسی حکمران کی سیاسی طاقت اخلاقی منبع سے پھوٹتی ہے۔ اور اُن کی اخلاقی قوت بالکل ختم ہو گئی ہے۔ اس کے برعکس اُن کے سامنے جو قوت کھڑی ہے اُنہیں کسی اخلاقی طاقت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اُن کے لیے تو صرف ’’طاقت‘‘ ہی کافی ہوتی ہے مگر اُنہیں تو سیاسی اور اخلاقی طاقت بھی مل چکی ہے۔ اور یہ کام خود نوازشریف کی’’ مہربانی ‘‘سے ہوا ہے۔ مگر دسترخوانی قبیلہ اُنہیں بات سمجھانے کی کوئی بصیرت ہی نہیں رکھتا۔ کیونکہ اُن کی نظریں تو دستر خوان کی نعمتوں پر ہیں اور بصیرت تب بولتی ہے جب معدے سے کھٹی آوازیں نہ آتی ہوں۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...
پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...