... loading ...
زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بحر منجمد شمالی کا وہ حصہ جو شمالی امریکا کے بالائی علاقوں میں ہمیشہ برف سے ڈھکا رہتا تھا، اب کھلے سمندروں میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اسے “شمال مغربی راستہ” کہا جاتا ہے اور اس کے کھلنے کے بعد عالمی بحری سفر اور تجارت میں نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں، جس کا چین سب سے پہلے اور بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان بحری جہازوں کی حوصلہ افزائی کرے گا جو اس نئے راستے کو استعمال کریں گے۔
“شمال مغربی راستہ” کھلنے کی وجہ سے بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان سفر کافی کم ہو سکتا ہے جیسا کہ اگر کوئی بحری جہاز چین کی بندرگاہ شنگھائی سے جرمنی کے شہر ہیمبرگ کے لیے روانہ ہو اور نہر سوئز کا روایتی راستہ اختیار کرنے کے لیے بجائے اس نئے راستے کا انتخاب کرے تو فاصلے میں 2800 بحری میل کی کمی آئے گی۔ یعنی اخراجات اور وقت دونوں کی بچت ہوگی۔
چین یورپ کے شمالی علاقوں میں مفادات بھی رکھتا ہے جیسا کہ وہ گرین لینڈ میں کان کنی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرچکا ہے اور آئس لینڈ کے ساتھ بھی آزاد تجارت کا معاہدہ زیر غور ہے۔ اس کی تکمیل کی صورت میں شمال مغربی راستہ مزید اہمیت اختیار کر جائے گا۔
چین کی میری ٹائم سیفٹی ایڈمنسٹریشن نے رواں ماہ ہی یہ راستہ استعمال کرنے کے حوالے سے رہنما ہدایات جاری کی ہیں۔ وزارت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ عام استعمال میں آنے کے بعد یہ راستہ عالمی بحری سفر اور نقل و حمل کو بدل کر رکھ دے گا۔ بین الاقوامی تجارت اور معیشت پر اس کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کسی مخصوص وقت کا اعلان تو نہیں کیا لیکن یہ کہا کہ چینی بحری جہاز مستقبل میں شمال مغربی راستہ اختیار کریں گے۔
چین کے بلند حوصلہ عزائم کے باوجود بحری ماہرین کے خیال میں یہ راستہ خاصا مشکل ہے کیونکہ بحر منجمد شمالی کے موسمی حالات غیر یقینی ہیں۔ پھر اس کے پورے راستے پر ایسا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں جو اس سفر کو سہولت دے سکے۔ پانی بھی کم گہرا ہے اور بحری سفر کے لیے درکار جدید نقشوں کی بھی کمی ہے۔ علاوہ ازیں اس راستے کے استعمال پر کینیڈا کو بھی اعتراض ہو سکتا ہے۔ بہرحال، اگر یہ مسائل حل ہو ہو جائیں تو گرمی کے مہینوں میں اس راستے کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔