... loading ...
آئین یا دستور کسی حکومت کے لیے قوانین اور اْصولوں کا ایک ایسا مجموعہ ہوتا ہے جو ایک سیاسی وجود کے اختیارات اور کارکردگی کو محدود اور متعین کرتا ہے۔ بھارتی دستور کسی ملک کا لکھا ہوا سب سے بڑا آئین ہے۔ جس کے انگریزی ترجمے میں ایک لاکھ سترہ ہزارتین سو چھیانوے الفاظ ہیں جبکہ امریکی دستور دنیا کے کسی ملک کا سب سے چھوٹا دستور ہے جس میں چار ہزار پانچ سو تینتالیس الفاظ ہیں جبکہ برطانیہ کا آئین لکھا ہوا ہی نہیں ہے، وہ صرف روایتوں پر چلتا ہے اسے ’’اَن رِٹن کانسٹی ٹیوشن‘‘ کہا جاتا ہے۔
آئین پاکستان کو پاکستان کا دستور اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973ء بھی کہاجاتا ہے۔ مارشل لاء ہٹائے جانے کے بعد نئی حکومت کے لئے سب سے زیادہ اہم کام نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا۔ اس دور میں قائم کمیٹی کے اندر ایک اختلاف یہ تھا کہ ملک میں پارلیمانی اقتدار کا نظام ہونا چاہیے یا صدارتی نظام؟۔ جبکہ صوبائی خود مختاری کے معاملے پربھی مختلف خیالات تھے۔ آئینی کمیٹی کو رپورٹ تیار کرنے میں آٹھ ماہ لگ گئے۔ اور بالآخر 10 اپریل 1973ء کو اس نے آئین کے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی۔ وفاقی اسمبلی میں اکثریت یعنی 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا اور 14 اگست 1973ء کو یہ آئین پاکستان میں نافذ کر دیا گیا۔
ابھی آئین پاکستان کو نافذ ہوئے ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ 4 مئی 1974ء کو پہلی ترمیم کی گئی جس میں پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کیا گیا۔ دوسری ترمیم 7ستمبر 1974ء، تیسری ترمیم 18 فروری 1975ء، چوتھی ترمیم21 نومبر1975ء، پانچویں ترمیم5ستمبر1976چھٹی ترمیم22دسمبر1976ء اورساتویں ترمیم 1977ء میں کی گئی اور پھرمشہور زمانہ آٹھویں ترمیم 1985ء میں نافذ العمل ہوئی جس کی روسے حکومتِ پاکستان پارلیمانی طرزِ حکومت سے جزوی صدارتی طرزِ حکومت میں تبدیل ہو گئی اور صدر پاکستان کو بھرپور آئینی قوت اورکئی اضافی اختیارات میسر آگئے۔ یہ اختیارات ذیلی حصہ 2 (ب) کے آرٹیکل 58 میں شامل ہوئے جس کے تحت صدر پاکستان کو یہ اختیار بھی مل گیا کہ وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کو تحلیل، وزیر اعظم اور کابینہ کو فارغ کر سکتے تھے۔ آٹھویں ترمیم دراصل غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب شدہ پارلیمان اور اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق(مرحوم) کے مابین ایک ’’ڈیل‘‘ تھی۔
نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں کے بعد جب سیاستدانوں کا ’’وار‘‘ چلا تو تیروہیں ترمیم لائی گئی 1997ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے آرٹیکل اٹھاون 2 ب میں یہ ترمیم منظور کی اور صدر پاکستان کے اختیارات برائے تحلیلِ قومی اسمبلی ختم کر دیئے گئے۔ اس ترمیم کے چند ہی ماہ بعد چودہویں ترمیم منظور کی گئی۔ جس کی رو سے اراکین قومی اسمبلی کو سختی سے اس بات کا پابند بنا دیا گیا کہ وہ اپنی متعلقہ سیاسی جماعت کے کسی بھی فیصلے سے انکار نہیں کر سکتے اور اگر وہ ایسا کرتے پائے گئے تو انھیں تادیبی کارروائی جس میں رکنیت کی معطلی شامل تھی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ اس ترمیم نے وزیر اعظم کے عہدے پر موجود تمام احتسابی نکات کا خاتمہ کر دیا۔ اس ترمیم کو ’’امیر المومنین ترمیم‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ اسی ترمیم کے بعد نواز حکومت عوام میں انتہائی غیر مقبول ہونا شروع ہو گئی حالانکہ ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے دو تہائی اکثریت سے انتخابات جیتے تھے۔ یہ خیال کیا جانے لگا کہ ملک میں’’ سول آمریت کا راج‘‘ ہے۔ پندروہیں اور سولہویں ترمیم کے بعد ایک بار پھر سترہویں ترمیم نے معاملات کو ’’بیلنس‘‘ کیا۔ سترہویں ترمیم دسمبر 2003ء میں کی گئی۔ یہ ترمیم تقریباً ایک سال تک اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان بحث مباحثوں اور کئی موقعوں پر تلخیوں کے بعد منظور کی گئی تھی۔ تیرہویں ترمیم میں کی گئی تقریباً ترامیم واپس لے لی گئیں۔
اب تک کی سب سے زیادہ متنازع ترمیم اٹھارویں ترمیم کہلائی جارہی ہے۔ 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی نے اسے منظور کیا۔ اٹھارویں ترمیم نے صدر کے پاس موجود تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمان کو دیئے۔ قائد ایوان ہونے کی وجہ سے زیادہ اختیارات وزیراعظم کے حصے میں آگئے۔ وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دے دیئے گئے۔
آئین پاکستان میں اتنی ترامیم کے بعد بھی اسے 1973کا آئین کہا جاتا ہے۔ حالانکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اب یہ آئین آہستہ آہستہ مارشل لاء کی بھونڈی شکل اختیار کرتا جارہا ہے جس پر حبیب جالب کی یاد آنا فطری ہے۔
چند روز قبل ’’یوم دستور‘‘منایا گیا۔ قائم مقام صدر اور چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کراچی میں منعقدہ تقریب سے دھواں دار خطاب کیا جس میں انہوں نے آرٹیکل 6کو آئین سے نکالنے کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھاکہ ’’ آئین کا آرٹیکل 6 آئین اور جمہوریت کے دفاع میں ناکام رہا اس کو آئین سے حذف کر دینا چاہئے‘‘ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آرٹیکل 62اور 63پر کونسا عمل ہورہا ہے اور کون سی جمہوریت بچائی جارہی ہے ؟۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے کتنے اراکین ان آرٹیکلز پر پورے اترتے ہیں۔ پارلیمنٹ لاؤجز سے تو شراب کی بوتلیں بھی برآمد ہوتی ہیں۔ عوام کا پیسہ لوٹ کر باہر بھیجا جاتا ہے۔ من پسند ٹھیکیداروں کو ٹینڈر دے کر کِک بیکس لئے جاتے ہیں۔ غریب پاکستانیوں کا لوٹا ہواپیسہ سوئس بینکوں میں سڑتا رہتا ہے۔ سفارشی کلچر پروان چڑھتا ہے۔ احتساب کا نظام ’’فیل‘‘نظر آتا ہے۔ مفت تعلیم کے نام پر اساتذہ مفت کی تنخواہیں ہڑپ کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں مریض ایڑیاں رگڑتے ہیں۔ ٹرینیں چھت تک بھری ہوتی ہیں اور ہوائی جہازوں میں سفرکے لیے ٹکٹ تک نہیں ملتا لیکن قومی خزانہ ہے کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمیں اپنا بہترین کلائنٹ قرار دیتا ہے کیونکہ ہم نے اپنے تما م اثاثے ان کے پاس گروی جو رکھے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے عوام کے منہ کا نوالہ چھین کراُن کو سود اور قسطیں اداکررہے ہیں۔ ہمارے بچے تو دور پیدا ہونے والے بھی مقروض ہیں۔ ہمارا آئین تو اب تک پینے کا صاف پانی اور غریبوں کو سستا انصاف نہیں دے سکا لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 6کو نکالا جائے۔
پاکستان میں حالیہ ’’پانامہ بحران‘‘کی بھی تمام تر ذمہ داری اٹھارویں ترمیم پر عائد ہوتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم وہ ناگ ہے جو اس ملک کی اخلاقی اقدار کو نگل رہا ہے۔ پاکستان کا موجودہ آئین عوام کو تحفظ دینے کی بجائے حکمرانوں اور ارکان پارلیمنٹ کوتحفظ دے رہا ہے۔ کوئی بھی حکمران چاہے ’’آن ڈیوٹی ‘‘ ہو یا ’’آف ڈیوٹی‘‘۔ موجودہ ارکان اسمبلی ہوں یا سابقہ۔ پاکستان کے احتساب کے ادارے نہ انہیں گرفتار کرسکتے ہیں نہ ہی تفتیش کرسکتے ہیں۔ یہ کام اٹھارویں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے۔ اور چونکہ پارلیمانی کمیٹی حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کے نصف، نصف ارکان پر مشتمل ہوگی۔ یہ نہ کسی کو سزا دے گی اور نہ ہی کسی کو مجرم ٹھہرائے گی۔ ایک ’’پیٹی بھائی‘‘ دوسرے ’’پیٹی بھائی ‘‘ کی حفاظت کرتا ہے، تحفظ دیتا ہے، اور اس طرح قوم کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ حکمرانوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ سب کچھ اسی طرح چلتا رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ موجودہ حکمران بھی اپنے پانچ سال پورے کریں گے۔ نیب، ایف آئی اے، عدالتیں اور اینٹی کرپشن کے محکمے ہاتھ باندھے اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ جب اسٹیبلشمنٹ نے احتساب کا ڈنڈا گھمایا تو سیاستدانوں کی اکثریت غراہٹ کی آوازیں نکالنے لگی۔ آئین کی بعض شقوں کے وہ حوالے دئیے گئے کہ احتسابی اداروں کے بڑھتے قدم رک گئے۔ یہ اٹھارویں ترمیم کا ’’جادو‘‘ ہے۔
مسلمانوں کے خلیفہ دوئم سے مسجد نبوی ﷺ میں پوچھا گیا کہ ’’آپ کا کرتا کس کپڑے سے بنایا گیا ہے آپ کے پاس تو اتنا کپڑا نہیں تھا‘‘ جواب ملا ’’میرے بیٹے نے اپنے حصے کا کپڑا مجھے دیا تھا اور یہ کرتا دونوں کپڑوں کو ملاکر بنایا گیا ہے مال غنیمت میں کوئی خیانت نہیں ہوئی‘‘۔
کیا پاکستان کے حکمرانوں سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ آپ کے دور حکومت میں جو بدعنوانیاں ہوئیں ان کا ذمہ دار کون ہے۔؟ 1973ء کے آئین کا یہ کمال ہے کہ وہ عوام کے ہاتھ باندھتا ہے منہ بند کرتا ہے اور حکمرانوں کو کھلی چھٹی دیتا ہے کہ ’’لوٹو اور پھوٹو‘‘ تمہیں کوئی نہیں پکڑے گا۔
پاکستان کے اندر سیاسی فساد اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک آئین کا ’’میجرآپریشن‘‘ نہ ہو۔ ضیاء الحق نے ایران کے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آئین کیا ہے چار صفحات کی کتاب جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں‘‘۔ ضیاء الحق نے تو آئین کے ساتھ کچھ نہیں کیا لیکن جمہوریت کے نام پر آنے والے ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ نے نہ صرف آئین کو پھاڑ کر رکھ دیا بلکہ اسے ذاتی مفادات کی لونڈی بنادیا اور آئین پر سے عوام کا اعتماد ختم کردیا۔ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ آئین پاکستان کے اندر ایماندار اور نیک نیت حکومت کی تشکیل کے لیے کوئی بھی ’’گارنٹی‘‘نہیں دیتا۔ یہ آئین کبھی مقدس کتاب تھا جو اب صرف کتاب بن کر رہ گیا ہے یوم دستور منانے سے آئین کا تقدس نہیں بڑھتا بلکہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے سے آئین کے تقدیسی چشمے پھوٹتے ہیں۔ اسی لئے تو پاکستان کے تجزیہ کار‘کالم نویس اور سیاستدان سب سے کم جس کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں وہ آئین ہے اور بہت سوں نے تو اس کتاب کا ٹائٹل تک نہیں دیکھا۔
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...
ایم کیو ایم کی حالت اِس وقت ایسی ہے جو سونامی کے بعد کسی تباہ شدہ شہر کی ہوتی ہے... نہ نقصان کا تخمینہ ہے نہ ہی تعمیر نو کی لاگت کا کوئی اندازہ ...چاروں طرف ملبہ اور تصاویر بکھری پڑی ہیں۔ ایم کیو ایم میں ابھی تک قرار نہیں آیا... ہلچل نہیں تھمی... اور وہ ٹوٹ ٹوٹ کر ٹوٹ ہی رہی ہے۔ ...
کراچی میں دو دن میں اتنی بڑی تبدیلیاں آگئیں کہ پوراشہر ہی نہیں بلکہ ملک بھی کنفیوژن کا شکار ہوگیا۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگے، میڈیا ہاؤسز پر حملے ہوئے، مار دھاڑ کے مناظر دیکھے گئے، جلاؤ گھیراؤنظر آیا اور بالآخر ایم کیو ایم کے اندر ایک بغاوت شروع ہوگئی۔ فاروق ستار نے بغیر کسی مزاحم...
وزیراعظم صاحب نے ایک بار پھر یاد دلادیا کہ کراچی لاوارث یتیم لاچاراوربے بس شہر ہے...کراچی کے مختصر ترین دورے کے دوران نواز شریف صاحب نے نہ ایدھی ہاؤس جانے کی زحمت گوارا کی نہ امجد صابری کے لواحقین کودلاسہ دیا۔ جس لٹل ماسٹر حنیف محمد کو پوری دنیا نے سراہا ،نواز شریف ان کے گھر بھی ...
ماضی کا ایک مشہور لطیفہ ہے۔ ایک افغان اور پاکستانی بحث کر رہے تھے۔ پاکستانی نے افغان شہری سے کہا: ’’تم لوگوں ‘‘کے پاس ٹرین نہیں تو ریلوے کی وزارت کیوں رکھی ہوئی ہے؟ افغان نے جواب دیا: ''تم لوگوں کے پاس بھی تو تعلیم نہیں پھر تمہارے ملک میں اس کی وزارت کا کیا کام ہے۔ کراچی اور ح...
نئے وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کے تقرر سے سندھ عملی طور پردو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔۔۔۔۔سندھ میں ’’خالص سندھی حکومت‘‘قائم ہوچکی ہے۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء کے لسانی فسادات کے بعد یہ تسلیم کیا تھا کہ سندھ دو لسانی صوبہ ہے اور سندھ میں آئندہ اقتدار کی تقسیم ا...
سندھ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وزیرداخلہ کو فارغ کردو، اس پر فلاں فلاں الزام ہے۔ الزامات کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ لاڑکانہ میں رینجرز نے وزیر داخلہ کے گھر کے باہر ناکے بھی لگائے، ان کے فرنٹ مین کو قابو بھی کیاگیا، لیکن رینجرزکی کم نفری کا فائدہ اٹھاکر، عوام کی مدد سے، سندھ...
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید شاہ نے ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین بیان دیا کہ سندھ میں امن پولیس نے قائم کیا ہے اور باقی کسی ادارے کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رینجرز کو اختیارات ضرور دیں گے مگر قانون اور قواعد کی پابندی کرتے ہوئے، انہوں نے رینجرز ...
عید گزر گئی ۔۔۔۔۔کہا جارہا تھا کہ ’’کراچی آپریشن‘‘کی رفتار ’’بلٹ ٹرین‘‘کی طرح تیز ہوجائے گی ۔۔۔۔۔دہشت گردوں کا گھر تک پیچھا کرکے انہیں نیست و نابود کردیا جائے گا لیکن ایسا ’’گرجدارآپریشن ‘‘فی الحال ہوتا نظر نہیں آرہا۔۔۔۔۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ وفاق میں ’’سیاسی آپریشن‘‘ہوگا۔۔۔۔۔ ا...
عبدالستارایدھی کی وفات نے کراچی میں خوف کی فضا طاری کردی ۔ غم کے بادل چھا گئے ہیں ۔پورا شہر ہکا بکا ہے کہ اس شخص کا سوگ کیسے منائیں جو اپنا نہیں تھا لیکن اپنوں سے بڑھ کر تھا ۔ اس کی موجودگی سے ایک آسرا تھا، ایک امید بندھی ہوئی تھی۔عبدالستار ایدھی ایک شخص کا نام نہیں، کراچی میں اس...
کراچی میں دو دن بارش کیا ہوئی‘ سندھ حکومت کی کارکردگی ’’دھل‘‘ کر سامنے آگئی۔ برسوں سے بارش کو ترسے کراچی والے خوش تھے کہ بارش ہو گئی... شہر چمک جائے گا... آئینہ بن جائے گا‘ لیکن افسوس صد افسوس! عوام کے ارمان خاک میں مل گئے۔ بارش میں نہانے کے خواب... سیر و تفریح کے منصوبے... شاپنگ...