... loading ...
کل جناب آصف محمود صاحب کا ایک کالم پڑھا جس میں آپ ‘اسلام ایک ضابطہ حیات ہے’ کی نفی کرتے ہوئے اپنی رائے قائم کرتے ہیں، زیادہ تفصیل ضروری نہیں لیکن جس استدلال پر وہ کھڑے ہوتے ہیں سردست وہ قابل غور ہے- آصف محمود صاحب دانشور اینکر پرسن بھی ہیں اور ایڈووکیٹ بھی، اب معلوم نہیں وہ پہلے دانشور اور اینکرپرسن ہیں یا ایڈووکیٹ لیکن چیزوں کو فقط قانونی نظروں سے دیکھنے والے بعض اوقات بعض چیزوں کا درست ادراک نہیں کر پاتے- آپ نے ضابطہِ حیات کو قانونی نقطہِ نظر سے دیکھا اور اسے بھی ضابطہِ فوجداری اور ضابطہِ دیوانی کی طرح کی کوئی چیز سمجھ لیا اور پھر ضابطے کا حدود اربعہ متعین کرتے ہوئے کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ دو اور دو چار کی طرح کا ایک لفظ ہے جو اسلام کے ساتھ نتھی ہو جائے تو اسے محدود اور جامد تصور بنانے کا تاثر دیتا ہے، بے لچک بنا دیتا ہے جو زمانے کے ساتھ نہیں چل پاتا اور پُرانا ہو جاتا ہے، اجتہاد کا راستہ بند کر دیتا ہے، نئے راستے پیدا کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے، تقلید اور صرف تقلید محض کا تقاضا کرتا ہے، آخر پر کہتے ہیں اسلام کو اس محدود تصور میں قید نہیں کیا جا سکتا- اسلام ایک ضابطہِ حیات ہے کی نفی کے بعد آپ اسلام کا تاثر دوبارہ قائم کرتے ہوئے کہتے ہیں اسلام کوئی ضابطہ ہے اور نہ کوئی نظام، اسلام نے کچھ بنیادی اصول طے کر دئیے ہیں- یہ طے کرنے کے بعد وہ ایک پورا جہان تعمیر کر دیتے ہیں-
حالانکہ ضابطہ اس قسم کا محدود لفظ نہیں ہے جس بنیاد پر وہ اسے رد کرتے ہوئے، اسلام کی کمزوری کا اظہار سمجھنے لگے ہیں- ضابطہ اپنے اندر ایک وسعت رکھتا ہے- یہ عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم صفت ‘ضابط’ کے ساتھ ‘ہ’ لاحقۂ تانیث لگانے سے ‘ضابطہ’ بنا ہے جس کے معنی قاعدہ کے بھی ہیں، اصول کے بھی ہیں، دستورالعمل اور آئین کے بھی ہیں، یہ کلیے اور فارمولے کے معنی بھی رکھتا ہے اور اسے قانون کے معنوں میں بھی بولا جاتا ہے جس کا حوالہ بطور دلیل، ضابطہِ فوجداری کے فاضل وکیل نے دیا ہے- یہ تمام معنی مستند آن لائن ‘ اردو لغت’ میں موجود ہیں-
لہٰذا ضابطہ، قانون اور دستورالعمل کے معنی بھی رکھتا ہے جس کی بنیاد پر اسے محدود اور جامد سمجھا جا رہا ہے اور قاعدے، اصول اور کلیے کے معنی بھی دیتا ہے جس کی بنیاد پر اسے حرکی اور اجتہادی مزاج رکھنے والا سمجھا جا سکتا ہے- استدلال کی اس بنیادی غلطی کے بعد تو وہ پوری عمارت جو اٹھائی گئی ہے دھڑام سے نیچے آ گرتی ہے- لیکن بات یہیں تک ختم نہیں ہو جاتی کہ اب ہم اسلام کو ضابطہِ حیات اس لیے کہہ دیں کہ اس کے معنی اصولِ زندگی، قاعدہِ زندگی یا کلیہِ حیات کے ہیں، اور یہ خیال قائم کر لیں کہ اسلام میں کوئی اٹل قانون، حتمی احکامات کا کوئی آئین اور کوئی نہ بدلنے والا دستور سرے سے موجود ہی نہیں ہے سوائے عبادات کے طریقے کے- بدقسمتی سے یہ ‘سوفٹ سیکولرازم’ کی راہ ہموار کر دیتا ہے کہ ٹھیک ہے مذہب کو ہم ‘ریاست نکالا’ نہیں دیتے، اس کے اصول کو تسلیم کیے لیتے ہیں لیکن باقی کی تمام چیزوں کا مکمل اختیار انسانوں کو دئیے دیتے ہیں کہ جس طرح چاہیں وہ ان اصولوں پر نظام اور دستور بناتے جائیں- یہ طریقہ تو خود اللہ تعالیٰ نے پیغمبراسلام ﷺ کو بھیج کر رد کر دیا ہے، اس خدائے قادر مطلق کیلئے یہ زیادہ آسان تھا کہ یہ اصول اور قاعدے کسی پہاڑ پر نازل کر دیتا جس سے انسان بالکل ایسے ہی فیض اٹھاتے کہ ان اصولوں پر اپنے اپنے لیے دستور اور نظام استوار کرتے چلے جاتے، اور آفاقیت کا تصور بھی اس سے نہ ٹوٹتا کہ پہاڑ کروڑہا صدیوں موت سے نا آشنا رہتے ہیں، لیکن اس نے یہ ضابطہِ حیات انسان پر ہی اتارا ہے صرف اس لیے نہیں کہ وہ بانٹ دے بلکہ اس لیے بھی کہ اس کی تشریح اور وضاحت کر کے عملی نمونہ بھی پیش کر دے تاکہ انسانوں پر حجت قائم ہو جائے اسی کو ہم شریعت محمدی ﷺ کا نام دیتے ہیں-
اسلام ضابطہِ حیات ہے یہ جامع ترین ترکیب ہے جو اسے دینِ اعتدال بناتی ہے کہ نہ تو یہ محض قوانین اور احکامات کے مجموعے کا نام ہے کہ اسے ایک جامد مذہب بنا کر رکھ دیں اور نہ اس کے اندر نرے اصول ہی اصول ہیں جن کو سامنے رکھ کر انسان اپنی زندگی کے شعبوں کی بناوٹ کرتا چلا جائے- یہ ضابطہِ حیات ہے کہ اس میں احکامات و قوانین، آئین و دستور العمل بھی ہیں اور اصول، قاعدے اور کلیے بھی ہیں- اسی لیے نہ تو یہ اس قدر جامد قوانین رکھتا ہے کہ مکان و زمان کے ساتھ اپنی آفاقیت کھو بیٹھے اور نہ اس قدر لچک اصول رکھتا ہے کہ انسانی قوانین کی طرح ہر لمحے تغیر سے گزرتا چلا جائے-
اب ذرا کھانے پینے کے متعلق اسلام کے احکامات دیکھئے، سور اور شراب سمیت کئی چیزیں قطعیت کے ساتھ حرام قرار دی گئی ہے، لباس کے معاملے میں ستر چھپانے کا واضح حکم ہے، ازدواجی زندگی میں شادی، مہر، رضاعت، طلاق اور عدت کے بارے واضح ترین احکامات ہیں، اجتماعی زندگی میں دیکھیں تو یہ طے شدہ دستور ہے کہ نظام حکومت میں خدا کی حاکمیت ہوگی، چلانے والے اہل لوگ ہوں گے، شورائیت کے ساتھ مسائل کو حل کیا جائے گا، قانون کا ماخذ شریعت محمدیﷺ ہوگی، نماز، زکوٰۃ اور منکر کو روکنا اور معروف کو پھیلانا بنیادی ترین ریاستی ذمہ داری ہوگی- لیکن دوسری طرف دیکھیں تو حرام چیزوں کے علاوہ باقی تمام چیزوں کے بارے انسان کو اس کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ آداب دستر خوان کے ساتھ جتنا چاہے کھائے پیئے، جو چیز ان احکامات کی گرفت میں نہیں آتی ان کے بارے خود فیصلہ کرے، اسی طرح لباس کے معاملے میں حکم کے ساتھ ساتھ چند اصول بھی بتا دئیے ہیں کہ وہ زیادہ مسرفانہ نہ ہو، شوخ اورغنڈہ پن کا اظہار نہ کرتا ہو، مرد کیلئے زنانہ اور عورت کیلئے مردانہ لباس کی ممانعت ہے لیکن اس کی تفصیل انسان کے اپنے اختیار پر چھوڑ دی ہے، اب اسلام روکتا نہیں کہ تم قسم قسم کے دھاگے بناؤ، کپڑے کی نئی نئی اقسام تیار کرو اور نت نئے لباس تیار کرو، اسی طرح خانگی زندگی کے چند احکامات کے بعد وہ چند اصول متعین کر دیتا ہے کہ مرد کے حقوق کیا ہیں اور عورت کے حقوق کیا ہیں، ان حقوق کو کیسے پورا کرنا ہے اس اختیار مرد اور عورت پر چھوڑ دیتا ہے اسی طرح سیاسی نظام میں ترقی اور ارتقاء کا راستہ کھلا چھوڑ دیتا ہے، ریاست کے وسائل کو استعمال کرو، فیکٹریاں اور انڈسٹریاں لگاؤ، سڑکیں اور عمارتیں بناؤ اس طرح کی تمام چیزیں وہ انسان پر چھوڑتا چلا دیتا ہے- یہ چند مثالیں ہیں جس سے صاف نظر آتا ہے کہ اسلام بذات خود دو چیزوں پر مشتمل ہے ایک قوانین پر اور دوسرے اصول، ایک دستور اور دوسرا قاعدہ، ایک احکامات اور دوسرا کلیہ- قوانین، دستور اور احکامات زمانے کے ساتھ کسی صورت نہیں بدل سکتے یہاں زمان و مکان کو قید کر دیا گیا ہے، اصول، قاعدے اور کلیے میں ایک اصولی آزادی ہے یہاں وہ اجتہاد سے نئے آنے والے مسائل سے بھی نبٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تیسرا باب ایسا ہے جہاں انسان کو کھلی آزادی دے دی گئی ہے- اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کس طرح انسانی زندگی کو آراستہ و پیراستہ کرتا ہے، نہ تو اسے بالکل حیوانوں اور پتنگوں کی سی آزادی دے دیتا ہے اور نہ پتھروں اور درختوں کی طرح ایک ہی زمین سے باندھ کر رکھ دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطہِ حیات ہی ہے۔
فرانسیسی حکومت نے فرانس میں اسلام کو نئی شکل دینے اور اسے انتہا پسندی سے علیحدہ کرنے کی کوششوں کے تحت مسلم کمیونٹی کی رہنمائی کے لیے مذہبی علما اور عام مرد و خواتین پر مشتمل ایک نیا ادارہ تشکیل دے دیا، میڈیارپورٹس کے مطابق گزشتہ برسوں میں فرانس پر مسلم انتہاپسندوں کے خوں ریز حملو...
بنگلا دیش کی حکمران جماعت ملکی آئین کو سیکولر ازم کی جانب واپس لے جانے کی تیاری کررہی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق حکومتی وزیر مراد حسن نے بتایاکہ1972 کے سیکولر آئین کی طرف پلٹنے کیلئے نئی ترمیم جلد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی، اس ترمیم کے بغیر کسی رکاوٹ کے ایوان سے منظور ہو...
ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق اسلام دنیا کے کسی بھی مذہب کے مقابلے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق درحقیقت 2050ء تک دنیا کے تمام ہی مذاہب آگے بڑھیں گے، لیکن اسلام بالآخر عیسائیت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 2070ء تک دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ کسی بھی مذہب...
گزشتہ ماہ قلم کی کاٹ رکھنے والے کالم نگار آصف محمود نے سیکولرازم کو اس کے جدی مطالب کے ساتھ واضح کرتے ہوئے اسے لادین نظریہ کہا تو اس کے ماننے والوں کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ ظاہر ہے کسی بھی چیز کی درست پہچان، اس کے موجد اور اسے آغوش فراہم کرنے والے ہی بہتر خدوخال کے ساتھ کروا سک...