... loading ...
کیا پانامہ کے انکشافات کا مقصد اتنا ہی سادہ ہے کہ سیاست کی چند مُنّیوں کو بشمول برطانیہ کے باپ کمائی پر عیش کرنے والے ڈیوڈ کیمرون اور ہمارے اپنے حسن نواز کے ہم شکل وہ معصوم صورت آئس لینڈ کے مستعفی وزیر اعظم Gunnlaugsson, کو جھنڈو بام کی طرح بدنام کرکے جھلسا دیں(جھنڈو بام بھارت کی مشہور ترین بام۔)۔ایسا ہے تو قرآن کریم کی ایک بے حد دل چسپ اوردلائل میں اپنی مثال آپ سورۃ النجم کی آیت نمبر بائیس تلک اذًا قسمۃ ضیزی (یہ تو پھر بڑی نامنصفانہ تقسیم ہوئی) والا معاملہ ہوگا۔
پاکستانی تناظر میں دیکھیں تویہ ایسا معاملہ نہیں کہ اس دکھیاری قوم کو ٹی وی اینکرز ارشد شریف اور رؤف کلاسرا سے پہلے ملکی اشرافیہ کی لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا کسی کو علم نہ تھا۔یہ بات تو ملتان ، گجرات ، لاہور، لاڑکانہ ، مردان اور ڈیفنس کراچی کے کوّے چیل اور کتے بلّے تک جانتے ہیں کہ جن پیڑوں ،منڈیروں اور گلیوں میں وہ منڈلاتے ہیں وہاں مال و منال کی اس بے دریغ بہتات کا سبب کیا ہے۔کون کہاں سے لوٹ مار کررہا ہے۔
ذکر ہے کراچی میں 1992 میں ایک میٹنگ کا۔میز کے دوسری جانب باوردی درست گروپ جن کی کارکردگی اور مقامات تفاخر ان کے شانوں پر عیاں تھے وہ براجمان تھا ان میں سے کرسی اختیار پر موجود افسر نے ایک سوئیلین افسر بے نشان (جو اب اﷲ کو پیارے ہوگئے ہیں) سے پوچھا کہ’’ کیا کراچی میں جناح پور کی کوئی حقیقت ہے اور اس کا کوئی ثبوت بھی ہے؟‘‘ تو اس نے منمناتے ہوئے جواب دیا ’’جی ہاں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن یعنی کے۔ ایم ۔سی۔‘‘
اس جواب کو سن کرصدر نشین افسر نے ادھر اُدھر دیکھا کہ اس جسارت بے جا پر کوئی بلااجازت مسکراتو نہیں رہا تو اس نے باوقار مگر دھیمے لہجے میں جتلایا کہ Please don’t forget you are here for a serious dialogue
جب انہیں بتایا گیا کہ کے۔ ایم۔ سی کے محض ایک ادارے واٹر بورڈ کے تحت پانی ٹینکر ز کی سالانہ کمائی سالانہ اٹھارہ سو کروڑ روپے ہے۔کے۔ ایم۔ سی کی افرادی قوت، بجٹ اور گاڑیاں حکومت بلوچستان سے زیادہ ہیں تو یہ جواب سن کر انہوں نے اپنی بے یقینی کی کیفیت پر قابو پانے کے لیے اپنا چشمہ صاف کیا ۔ماتحت کو حکم دیا کہ دروازہ بند کرکے آرمڈ گارڈز بٹھا دے ۔
اسی دوران ان میں یہ بحث ہوتی رہی کہ کروڑ میں کتنے زیرو آتے ہیں۔ان میں سے ایک باخبر فرشتہ کہنے لگا کہ’’ کمانڈر صاحب کہہ رہے تھے کہ بے نظیر صاحبہ کے لیے ووٹ آف نو کانفیڈینس میں کوئی دو سو کروڑ روپیہ ادھر اُدھر ہوا تھا ‘‘۔
Then its او ساڈے کمانڈر صاحب کل کہیڑا لفظ کہہ رہ سن‘‘ صاحب صدر نے ذہن پر زور ڈالنے کے لیے ساتھیوں سے مدد مانگی۔
اس پر وہی ماتحت جو دروازہ بند کر کے واپس آچکا تھا اور جس نے اٹھارہ سو کروڑ روپے اکائی دہائی سینکڑہ کے دیہاتی فارمولے سے بالکل ٹھیک لکھے تھے اس نے اپنے نوٹ پیڈ کے صحفات پلٹ کرلفظ دکھایا جو تھا Humongous (بے تحاشا، کثیر،)
its a good habit you write down important things
Chinese say palest ink is stronger than the strongest memoryصاحب صدر نے تعریف کرتے ہوئے کہا ۔
اس ماتحت کا بس چلتا تو وہ بھی اس محتاط تحسین پر اپنے افسر بااختیار کا شکریہ ویسے ہی ادا کرتا جیسے اردو میڈیم پیلے اسکولوں کے بچے اپنی اجڑی ،بدحال، بے روح کلاس ٹیچر کی آمد کے انگریزی میں’’ سٹ ڈاؤن‘‘ کے جواب میں با آواز بلند کورس کی شکل میں کہتے ہیں:
’’ Thank you teacher
ــ‘‘
پاکستان کی ایک بہت طاقتور شخصیت کے پاس ایسی ایک لسٹ تھی جس میں 650ایسے افراد اور گروپس کے نام تھے جو اس بگاڑ کے ذمے دار تھے۔ وہ کہا کرتے تھے ــ’’رکھ مولا تے،مینوں موقع ملیا تو اے ساریاں نو ں تن دیاں گا‘‘۔ایسے ہر وعدے وعید کے ماہر بااختیار فرد کو ہم ڈاکٹر ظفر الطاف کے ذریعے کہہ دیا کرتے تھے کہ ان دنوں جب جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز زوروں پر تھا ۔ ا نگلش گرامر کے ستائے کسی سیاہ فام دل جلے نے سپرے پینٹ سے تین عدد ساتھ ساتھ واقع عوامی بیت الخلا کے دروازوں پر جو لکھا تھا وہی کچھ ہر ترقی پذیر ایشائی اور افریقی ملک کے آئین کے آغاز میں اور اور اعلی عدالت کے باہر لکھا ہونا چاہیے کہ :
Past is Imperfect , Present is Tense, Future is Indifinte
سو وہ جو پانامہ لیک میں کریدتے ہیں جو راکھ تو جستجو کیا ہے۔ ہماری گورننس کا سارا نظام ایک سمجھوتہ ایکسپریس میں سوار ہے۔ہر نظام میں اپنی بربادی کا کچھ نہ کچھ سامان تو ہوتا ہے مگر وہ Auto Correction کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
وہ لوگ جو ہمارے حکمرانوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان انکشافات کے بعد فیض والے عاشق کی طرح شب غم گزار کر کپڑے جھاڑتے ہوئے چلے جائیں گے تو وہ پاکستان کی حکومت اور اس سے متعلقہ نظام کے بارے میں بہت خوش گمان ہیں۔
پاکستان میں سیاسی حکومتوں کا بگاڑ درست کرنے کے لیے ہمیشہ فوجی میدان میں کودے ہیں مگر جنرل یحیٰی خان ، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار کے بے راہ روی اور لوٹ مار دیکھ کر اب عوام احرامِِ جنوں باندھ کر سڑکوں پر حکومت کی تبدیلی کے لیے سپاہی اﷲ دتہ اور مٹھل خان لاشاری سے اپنی سر پٹھول کرانے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔
حکومتیں ایسے تین طلاق سے گھر نہیں جاتیں۔یہ تین لاکھ کی آبادی والا آئس لینڈ نہیں جہاں لوگ اداس ہوں تو چرچ جانے کی بجائے ساحل سمندر چلے جاتے ہیں۔
جہاں کی ایک خاتون جوہانا کھلم کھلا اپنے ہم جنس پرست ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود مسلسل بائیس سال ممبر پارلیمنٹ رہتی ہیں اور وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائز ہوجاتی ہیں، جہاں کل چھ فیصد آبادی کے سڑکوں پر آنے کے جو کل آبادی کا پندرہ ہزار بنتی ہے وزیر اعظم گھر کا رخ کرلیتا ہے۔بھارت میں اگر اتنے فی صد آبادی سڑکوں پر نکلے تو یہ دس کروڑ نفوس پر مشتمل ہوگی۔
اب یہ پانامہ لیکس کا معاملہ گھمبیر ہے میں چھوٹے چھوٹے ملکوں کے کئی اہم نام نظر آتے ہیں۔ اس سے جڑے کئی سوال ہیں۔ ابھی اس سلسلے میں کچھ دن تک چپ رہنا بہتر ہے ۔ ویسے بھی ہمارے ہر دل عزیز وزیر اعظم بے چارے بیمار ہیں بغرض علاج لندن جارہے ہیں ۔ائیر پورٹ پر ہم ان کی بدنی زبان کا جائزہ لیں گے۔
اس کام کو بہتر طریقے پر سرانجام دینے کے لیے ہم ایف بی آئی کے ایک گرو جو ۔نوارو کی کتاب What Every BODY is Saying: An Ex-FBI Agent’s Guide to Speed-Reading People پڑھ رہے ہیں۔اس میں مزید سنوار کے لیے کچھ عورتوں کی ویڈیوز دیکھ کر مزید گیان بھی لے رہے ہیں ۔یہ مختلف اداروں کے لیے Lie Detector کے ٹریننگ پروگرام چلاتی ہیں ۔اپنے ہنر میں یکتا یہ وہ خواتین ہیں جو مردوں کے جھوٹ پکڑتے پکڑتے تیسری اور چوتھی طلاق تک آن پہنچی ہیں۔ وقتِ رخصت لندن کے مسافر کی آنکھ میں پھیلتے کاجل اور اضافی باڈی لینگیویج کو دیکھ کر ہم بتا سکیں گے کہ معاملہ کیا کہیں ہمارے ناصر جہاں والا تو نہیں کہ ع
آف شور کمپنیوں کو ہم اتنا بڑا گناہ نہیں سمجھتے جتنا ان کا سپریم کورٹ پر حملہ تھا۔ سوچیئے ایک منتخب حکومت اپنی اعلی ترین عدالت پر حملہ کرے اور اس میں شامل کئی افراد نہ صرف بعد میں منتخب ہوں۔ وزیر بنیں۔ بلکہ عدالت عالیہ بھی اپنی اس رسوائی اور تحقیر پر خاموشی اختیار کیے رکھے یہ زیادہ مایوسی ، دکھ اور فکر کی بات ہے۔کارواں کے دل سے احساس زیاں کیسا رخصت ہوا یہ دل شکستگی اور سانحے کا وہ مقام ہے کہ ہم تو سول سوسائیٹی والی عیسائی روایت کے حساب سے موم بتیاں بھی نہیں جلاسکتے۔
پاکستان سے پرے ہوکر سوچیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افشائے راز ہائے دوروں کا یہ خون خرابہ Person-Specificیا اس سے کچھ اور بڑے اہداف حاصل کرنا مقصود ہے۔اس کی ٹائمنگ بھی بہت اہم ہے۔ ان دنوں امریکہ میں صدارتی انتخابات کی گہما گہمی ہے۔اوباما حکومت کو اس میں کیا دل چسپی ہوسکتی ہے کہ وہ یہ سب کچھ آنے والے صدر کو مضبوط کرنے کے لیے کرتے پھریں۔
چین کے مقتد ر حلقوں کا خیال ہے کہ اس سارے کھیل کے پیچھے کچھ بہت بڑے مقاصد ہیں ۔ چینی صدر ژی جن پنگ پچھلے تین برسوں سے کرپشن کے خلاف بہت شدت سے سرگرم ہیں ۔ چین کے مقتدر افراد کے ان لیکس میں نام ظاہر ہونے سے تحقیقات اور گرفتاریوں کا دائرہ وسیع ہوجانے سے حکومت پر ایک دم دباؤ ایسے ہی بڑھ جاتا ہے جیسے سندھ میں رینجرر آپریشن اور نیب کی کاروایوں اور پنجاب میں ٹو ٹل ٹھنڈ پروگرام پر ہمارے اسٹیبلشمنٹ پر ہمارے حیدرآباد کے پیارے سائیں مولا بخش چانڈیو کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور وہ پنڈی کی جانب منھ کر کہتے ہیں ع
کچھ ایسی ہی بات روس میں بھی کہی جارہی ہے۔جہاں اس سال کے آخر میں انتخابات متوقع ہیں۔وہاں کی کئی شخصیات جو پیوٹن کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتی ہیں اور الیکشن میں میں متوقع امیدوار ہیں، ان کے نام اس رساؤ سے آلودہ ہوگئے ہیں۔
دونوں ممالک میں اس بات بھی بہت حیرت کی جارہی ہے کہ ان دستاویزات میں ایران ، امریکہ اور بھارت کے کسی اہم بڑے فرد کا نام شامل نہیں ۔اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ ایران جو 1980 سے بغیر بیرونی تجارت اور تیل کی فروخت کے چل رہا تھا تو وہاں مولویوں ااور تاجروں کا کوئی گروپ رقم نہ بٹوررہا جب کہ ہمارے ہاں بھی تو ایک ملا ڈیزل ہیں ،ایران نے چند دن پہلے ہی مہدی خسروی کو پھانسی دی۔ انہیں تہران یونی ورسٹی کے پروفیسر صادق زیبا کلیمی ایران کا بل گیٹس اور ہنری فورڈ کہتے تھے ۔ان کا خیال ہے کہ ایران میں جو مذہبی گروپ اقتدار پر قابض ہے اس نے اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک تجارتی جیئنئس کو لٹکا دیا۔
ایران ہی سے مہدی رضا خاوری جو ان کے سرکاری ملیّ بینک کے سربراہ تھے وہ بھی کرپشن کے الزام سے بچنے کے لیے فرار ہوگئے ۔ایران ان کی واپسی کے لیے کینیڈا کی حکومت سے سینگ اٹکا کر بیٹھا ہے اور صدر احمدی نژاد کے نائب صدر محمد رضا رحیمی بھی کرپشن کے ایک بہت بڑے مقدمے میں ضمانت پر ہیں۔
حیرت اس لیے بھی کہ بھارت کی اہم فوجی اور سیاسی شخصیات کا نام Finmeccanica نے جو اطالوی دفاعی ساز و سامان بنانے والی کمپنی ہے اس نے 36 ارب ڈالر کے ہیلی کاپٹر کے سودے میں 450 کروڑ ڈالر بھارت والوں کو بطور رشوت دیے۔ یہ بات اطالوی عدالت میں مقدمہ کے دوران ظاہر ہوئی ہے جس میں اس کے ہیلی کاپڑ ڈویژن کے سربراہ کو سزا دی گئی ہے۔ اسی طرح مودی سرکار نے جو اقتدار میں آنے سے پہلے کانگریس کے رہنما سریش کلماڈی پر کامن ویلتھ گیمز میں تیس ہزار کروڑ روپے کے گھپلے کا انکشاف کرکے مقدمہ چلانے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ بھی شہباز شریف کا سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑنے والا وعدہ نکلا ۔اسی طرح ساٹھ ارب ڈالر کے ٹو جی اسپیکٹرم کا جو اسکینڈل کانگریس سے منسوب ہوا تھا اس میں بھی مودی سرکار اس لیے چپ ہے کہ خود مودی جی کے چناؤ میں مدد دینے والے کاروباری گھرانے ہی اس اسکینڈل میں ملوث تھے۔ جولائی 2011 میں سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے میں جو بیان حلفی داخل کیا تھا اس کی رو سے ہندوستانیوں کے کل 500 بلین ڈالر ان آف شور کمپنیوں میں اور سوئس بینکوں میں جمع ہیں ۔بہرحال ان لیکس میں ایسا کوئی اہم نام نہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...
پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...
یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...
پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...
اخبارات میں مختلف خبروں اور تجزیوں کے ذریعے دھرنے کے شرکاکیخلاف سخت کارروائی کے اشارے دیے جائیں گے عمران خان کے لیے یہ"مارو یا مرجاؤ" مشن بنتا جارہا ہے، دھرنے میں اْن کے لیے ناکامی کا کوئی آپشن باقی نہیں رہا مسلم لیگ نون کی حکومت نے تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف ایک طرح سے نفسیا...
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...