... loading ...
پاناما لیکس نے ایک کمال تو ضرور دکھایا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ ایک صفحہ پر آگئے ہیں ۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف دونوں پانامالیکس کی زد میں ہیں۔ دونوں ملکوں کی اپوزیشن ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کررہی ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے پر پورے ملک کی اپوزیشن متحد ہورہی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان اس بار اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا لگانے کی بجائے رائے ونڈ جانے کی دھمکی دے رہے ہیں جہاں شریف خاندان کی جاگیر اور کئی ایکڑوں پر مشتمل رہائش گاہیں ان کی امارت کا پتہ دیتی ہیں۔ حکومت پاکستان نے سرکاری طور پر حال ہی میں تسلیم کیا ہے کہ ملک میں 5کروڑ 90لاکھ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ تعداد پاکستان کی کل نوجوان آبادی کا ایک تہائی ہے۔ عالمی بینک کے صدر موتھوالا نگودان نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ غربت کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ پانامالیکس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شریف خاندان کی متعدد آف شور کمپنیاں قائم ہیں۔ سمندر پار بنائی گئی ان کمپنیوں کے لیے سرمایہ یقینی طور پر پاکستان سے باہر گیا ہے۔ اربوں ڈالر سرمائے نے بیرون ملک پرواز کی ہے۔ یہ سرمایہ پاکستان میں لگتا تو پاکستانیوں کے کام آسکتا تھا۔ہزاروں کارخانے لگائے جاسکتے تھے جہاں پاکستانیوں کو روزگار ملتا اور غربت وافلاس کم ہوسکتے تھے۔
جدید سنگاپور کے بانی صدر لی کوان یو نے گلے سڑے اور غلیظ سنگاپور کو چمکا کر دنیا کا حسین ترین اور ترقی یافتہ شہر بنادیا ان سے ایک انٹر ویو میں دریافت کیا گیا کہ آپ نے تباہ حال سنگاپور کو کیسے خوشحال بنایا؟ لی کوان یو کا جواب تھا کہ انہوں نے جب سنگاپور کی کمان سنبھالی تو اس کا بہت برا حال تھا۔’’گینگ وار‘‘ نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔کاروبار‘ صنعت‘ تجارت ہر شے تباہ ہوچکی تھی۔ میں نے سنگاپور کو اپنی ذاتی کمپنی تصور کرکے اصلاحات کا عمل شروع کیا۔ اپنی ساری توانائیاں اور صلاحیتیں اسے پروان چڑھانے میں صرف کردیں۔ اپنی ساری توجہ اور کوششیں اس کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کردیں اور سنگاپور ترقی کرکے دنیا کا مثالی ملک بن گیا۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور تھائی لینڈ کے تھاکسن(وزیر اعظم) نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔ 1960ء کی دہائی کے یہ تینوں غلیظ‘ پسماندہ اور تباہ حال ملک ترقی کی معراج پر جا پہنچے۔ ان برسوں میں پاکستان بھی فوجی صدر ایوب خان کے دور میں خوب ترقی کررہا تھا۔ عالمی بینک کے معیار پر پورا اُتر رہا تھا۔ ترقی کی شرح میں پاکستان کا چوتھا نمبر تھا جو یورپ کے کئی ملکوں سے بھی زیادہ تھا۔ اس وقت حکمرانوں کو پاکستان کی دولت بیرون ملک لے جاکر آف شور کمپنیاں قائم کرنے کی طمع نہیں تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو تک معاملہ تقریباً بہتر رہا ۔اس کے بعد حالات بد سے بد ترین ہوتے چلے گئے۔ ملک کو غیر ملکی قرضوں کے جال میں جکڑ دیا گیا۔
حکمران طبقے کے درمیان کمیشن‘ کِک بیک اور ٹیکس چوری کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ بلیک منی مختلف ذرائع سے بیرون ملک منتقل ہونے لگی۔ آج بیرونی بینکوں میں پاکستان کے بد قماش حکمران طبقات کا اتنا سرمایہ جمع ہے کہ وہ اگر پاکستان میں آجائے تو نہ صرف سارا بیرونی قرضہ ادا ہوسکتا ہے بلکہ ہزاروں کارخانے لگا کر بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں میں سابق صدر آصف علی زرداری وہ خوش نصیب حکمران تھے جن کے اشاروں پر وزیر اعظم سے لے کر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی تک سب کورنش بجالاتے تھے۔ بیورو کریسی ان کے نام سے لرزتی تھی ۔ انہیں لی کو ان یو بننے کا پورا موقع حاصل تھا لیکن ان کے دور کو سب سے زیادہ رشوت‘ کرپشن‘ بدعنوانیوں‘ اقربا پروری اور بد انتظامی کا دور کہا جاتا ہے۔ انہیں پاکستان کو سنگاپور کی طرز پر چلانے کا پورا اختیار اور موقع حاصل تھا لیکن ان کے دور میں کنگلے کروڑ پتی اور ارب پتی بن گئے لوٹ مار نے ملک کو کنگال اور بدحال کردیا۔ آج نیب اور ایف آئی اے ان کے بخیے ادھیڑ رہے ہیں۔ ان کے دور کے درجنوں افسر اور سابق وزراء سزا اور احتساب کے خوف سے بیرون ملک مفرور اور روپوش ہیں۔ پاکستان سے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ اربوں ڈالر کی بلیک منی بیرون ملک منتقل کی گئی ہے۔ 26نومبر 2008ء کو ممبئی پر حملہ ہوا، اجمل قصاب اور اس کے ساتھیوں نے گھنٹوں ممبئی کو یر غمال بنائے رکھا۔
آصف زرداری پاکستان کے صدر تھے۔ انہوں نے پاکستان کی مایہ ناز سراغرساں ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان پاشا کو حکم دیا کہ بھارت جاکر صورتحال کی وضاحت کریں۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا تھا اجمل قصاب اور اس کے ساتھیوں کو پاکستانی بتایا تھا۔ بعد ازاں حالات اور واقعات نے ثابت کیا کہ بھارت کا الزام غلط تھا۔ واقعہ کی تفتیش کرنے والے افسر کو قتل کردیا گیا اور اجمل قصاب کا تعلق نیپال سے نکلا۔ بھارت کا الزام غلط ثابت ہوگیا۔ آج خود بھارت مجرم ثابت ہوچکا ہے۔ بلوچستان سے گرفتار’’را‘‘ کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو نے سارا کچا چٹھا کھول دیا ہے اور بھارت منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ یہ سارا کارنامہ پاکستان کی فوج اور سیکورٹی اداروں کا ہے جنہوں نے بھارت کو پچھلے قدموں پلٹنے پر مجبور کردیا ہے۔بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف اسکورنگ کی کوشش کی ہے لیکن اس بار خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ہے۔ 2008ء کے بعد پاکستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کا عمل دخل بہت زیادہ بڑھا ہے۔ امریکاکی بلیک واٹر ہویا بھارت کی’’را‘‘ افغانستان کی’’خاد‘‘ ہویا اسرائیل کی’’موساد‘‘ اور برطانیہ کی ایم آئی۔ 6ہر ایک نے پاکستان کو جنگ‘ غربت اور جہالت کا میدان بنانے کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے‘ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضرب غضب اور آپریشن شروع کرکے ملک بچانے کی کوشش کی ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ماضی اور حال کے حکمرانوں نے مشہور بین الاقوامی بینک’’بی سی سی آئی‘‘ کے سربراہ آغا حسن عابدی سے بھی کچھ نہیں سیکھا جن پر منی لانڈرنگ اور فنڈنگ کا الزام عائد کرکے ان سے بی سی سی آئی بینک چھین لیا تھا۔
1986ء میں سعودی عرب کے شاہ خالد نے امریکی اور یورپی بینکوں میں ڈیپازٹ اربوں ڈالر کی رقم واپس مانگی تو انہیں ناکارہ اسلحہ دے کر اس کے عوض ساری رقم ہتھیالی گئی تھی۔ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک اور لیبیا کے صدر کرنل قذافی کو عبرتناک انجام سے دوچار کرکے امریکی بینکوں میں جمع شدہ ساٹھ ارب ڈالر پر قبضہ کرلیا تھا۔ شہنشاہ ایران‘ مارکوس اور اس طرح کے کئی حکمرانوں کے اربوں ڈالر ہڑپ کرلیے تھے۔ تیسری دنیا کے جو حکمران اپنے ملکوں میں عوام کو لوٹ کر انہیں بھوک و افلاس سے دوچار کرتے ہیں اور غیر ملکی بینکوں کا پیٹ بھرتے اور آف شور کمپنیاں قائم کرتے ہیں ان کی رقم بآلاخر ضبط ہوجاتی ہے۔
بلوچستان کے ایک سردار کے سوئس بینکوں میں جمع اربوں ڈالر ان کی ہلاکت کے بعد جب ان کے پوتے نے نکلوانے کی کوشش کی تو اس کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی۔ آف شور کمپنیوں کا انجام بھی بالآخر قومی دولت دوسروں کے ہاتھ میں دینا ہوتا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں اور کالے دھن کو سفید کرنے کا موقع دے کر قومی دولت کو قوم کے کام آنے کا ماحول پیدا کیا جائے جس سے ملک میں خوشحالی آئے گی اور بیروزگاری‘ غربت و افلاس کا خاتمہ ہوسکے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...
پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...
یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...
پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...
اخبارات میں مختلف خبروں اور تجزیوں کے ذریعے دھرنے کے شرکاکیخلاف سخت کارروائی کے اشارے دیے جائیں گے عمران خان کے لیے یہ"مارو یا مرجاؤ" مشن بنتا جارہا ہے، دھرنے میں اْن کے لیے ناکامی کا کوئی آپشن باقی نہیں رہا مسلم لیگ نون کی حکومت نے تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف ایک طرح سے نفسیا...
منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...
بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...
ابھی پاناما لیکس کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا بھی نہ تھا کہ ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘‘ (آئی سی آئی جے) نے اس اسکینڈل کی اگلی قسط چھاپ دی، جس میں دنیا بھر کی ایسی شخصیات کے ناموں کے انکشاف کیا گیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے ملک میں عائد ٹیکسوں سے بچنے کے لیے جزائ...
کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...
کیا متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے واقعی کراچی چھن گیا ہے‘ ایم کیوایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیوایم کے نئے سربراہ کی حیثیت سے قبول کرلیاگیا ہے۔ کراچی کے ضلع ملیر میں سندھ اسمبلی کی نشست پر منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایم کیوایم کی نشست پر پیپلزپارٹی ک...
قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر اورقائد حزب اختلاف سیدخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کو قائم رہنا چاہئے تواس کا یہ مقصدہرگز نہیں ہوتا کہ انہیں سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی عشق یا وہ اسے جمہوریت کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اگ...