وجود

... loading ...

وجود

پاناما لیکس اور پاکستان

منگل 12 اپریل 2016 پاناما لیکس اور پاکستان

panama-papers

پاناما لیکس نے ایک کمال تو ضرور دکھایا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ ایک صفحہ پر آگئے ہیں ۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف دونوں پانامالیکس کی زد میں ہیں۔ دونوں ملکوں کی اپوزیشن ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کررہی ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے پر پورے ملک کی اپوزیشن متحد ہورہی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان اس بار اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا لگانے کی بجائے رائے ونڈ جانے کی دھمکی دے رہے ہیں جہاں شریف خاندان کی جاگیر اور کئی ایکڑوں پر مشتمل رہائش گاہیں ان کی امارت کا پتہ دیتی ہیں۔ حکومت پاکستان نے سرکاری طور پر حال ہی میں تسلیم کیا ہے کہ ملک میں 5کروڑ 90لاکھ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ تعداد پاکستان کی کل نوجوان آبادی کا ایک تہائی ہے۔ عالمی بینک کے صدر موتھوالا نگودان نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ غربت کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ پانامالیکس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شریف خاندان کی متعدد آف شور کمپنیاں قائم ہیں۔ سمندر پار بنائی گئی ان کمپنیوں کے لیے سرمایہ یقینی طور پر پاکستان سے باہر گیا ہے۔ اربوں ڈالر سرمائے نے بیرون ملک پرواز کی ہے۔ یہ سرمایہ پاکستان میں لگتا تو پاکستانیوں کے کام آسکتا تھا۔ہزاروں کارخانے لگائے جاسکتے تھے جہاں پاکستانیوں کو روزگار ملتا اور غربت وافلاس کم ہوسکتے تھے۔

تیسری دنیا کے جو حکمران اپنے ملکوں میں عوام کو لوٹ کر انہیں بھوک و افلاس سے دوچار کرتے ہیں اور غیر ملکی بینکوں کا پیٹ بھرتے اور آف شور کمپنیاں قائم کرتے ہیں ان کی رقم بآلاخر ضبط ہوجاتی ہے۔

جدید سنگاپور کے بانی صدر لی کوان یو نے گلے سڑے اور غلیظ سنگاپور کو چمکا کر دنیا کا حسین ترین اور ترقی یافتہ شہر بنادیا ان سے ایک انٹر ویو میں دریافت کیا گیا کہ آپ نے تباہ حال سنگاپور کو کیسے خوشحال بنایا؟ لی کوان یو کا جواب تھا کہ انہوں نے جب سنگاپور کی کمان سنبھالی تو اس کا بہت برا حال تھا۔’’گینگ وار‘‘ نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔کاروبار‘ صنعت‘ تجارت ہر شے تباہ ہوچکی تھی۔ میں نے سنگاپور کو اپنی ذاتی کمپنی تصور کرکے اصلاحات کا عمل شروع کیا۔ اپنی ساری توانائیاں اور صلاحیتیں اسے پروان چڑھانے میں صرف کردیں۔ اپنی ساری توجہ اور کوششیں اس کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کردیں اور سنگاپور ترقی کرکے دنیا کا مثالی ملک بن گیا۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور تھائی لینڈ کے تھاکسن(وزیر اعظم) نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔ 1960ء کی دہائی کے یہ تینوں غلیظ‘ پسماندہ اور تباہ حال ملک ترقی کی معراج پر جا پہنچے۔ ان برسوں میں پاکستان بھی فوجی صدر ایوب خان کے دور میں خوب ترقی کررہا تھا۔ عالمی بینک کے معیار پر پورا اُتر رہا تھا۔ ترقی کی شرح میں پاکستان کا چوتھا نمبر تھا جو یورپ کے کئی ملکوں سے بھی زیادہ تھا۔ اس وقت حکمرانوں کو پاکستان کی دولت بیرون ملک لے جاکر آف شور کمپنیاں قائم کرنے کی طمع نہیں تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو تک معاملہ تقریباً بہتر رہا ۔اس کے بعد حالات بد سے بد ترین ہوتے چلے گئے۔ ملک کو غیر ملکی قرضوں کے جال میں جکڑ دیا گیا۔

حکمران طبقے کے درمیان کمیشن‘ کِک بیک اور ٹیکس چوری کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ بلیک منی مختلف ذرائع سے بیرون ملک منتقل ہونے لگی۔ آج بیرونی بینکوں میں پاکستان کے بد قماش حکمران طبقات کا اتنا سرمایہ جمع ہے کہ وہ اگر پاکستان میں آجائے تو نہ صرف سارا بیرونی قرضہ ادا ہوسکتا ہے بلکہ ہزاروں کارخانے لگا کر بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں میں سابق صدر آصف علی زرداری وہ خوش نصیب حکمران تھے جن کے اشاروں پر وزیر اعظم سے لے کر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی تک سب کورنش بجالاتے تھے۔ بیورو کریسی ان کے نام سے لرزتی تھی ۔ انہیں لی کو ان یو بننے کا پورا موقع حاصل تھا لیکن ان کے دور کو سب سے زیادہ رشوت‘ کرپشن‘ بدعنوانیوں‘ اقربا پروری اور بد انتظامی کا دور کہا جاتا ہے۔ انہیں پاکستان کو سنگاپور کی طرز پر چلانے کا پورا اختیار اور موقع حاصل تھا لیکن ان کے دور میں کنگلے کروڑ پتی اور ارب پتی بن گئے لوٹ مار نے ملک کو کنگال اور بدحال کردیا۔ آج نیب اور ایف آئی اے ان کے بخیے ادھیڑ رہے ہیں۔ ان کے دور کے درجنوں افسر اور سابق وزراء سزا اور احتساب کے خوف سے بیرون ملک مفرور اور روپوش ہیں۔ پاکستان سے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ اربوں ڈالر کی بلیک منی بیرون ملک منتقل کی گئی ہے۔ 26نومبر 2008ء کو ممبئی پر حملہ ہوا، اجمل قصاب اور اس کے ساتھیوں نے گھنٹوں ممبئی کو یر غمال بنائے رکھا۔

آصف زرداری پاکستان کے صدر تھے۔ انہوں نے پاکستان کی مایہ ناز سراغرساں ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان پاشا کو حکم دیا کہ بھارت جاکر صورتحال کی وضاحت کریں۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا تھا اجمل قصاب اور اس کے ساتھیوں کو پاکستانی بتایا تھا۔ بعد ازاں حالات اور واقعات نے ثابت کیا کہ بھارت کا الزام غلط تھا۔ واقعہ کی تفتیش کرنے والے افسر کو قتل کردیا گیا اور اجمل قصاب کا تعلق نیپال سے نکلا۔ بھارت کا الزام غلط ثابت ہوگیا۔ آج خود بھارت مجرم ثابت ہوچکا ہے۔ بلوچستان سے گرفتار’’را‘‘ کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو نے سارا کچا چٹھا کھول دیا ہے اور بھارت منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ یہ سارا کارنامہ پاکستان کی فوج اور سیکورٹی اداروں کا ہے جنہوں نے بھارت کو پچھلے قدموں پلٹنے پر مجبور کردیا ہے۔بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف اسکورنگ کی کوشش کی ہے لیکن اس بار خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ہے۔ 2008ء کے بعد پاکستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کا عمل دخل بہت زیادہ بڑھا ہے۔ امریکاکی بلیک واٹر ہویا بھارت کی’’را‘‘ افغانستان کی’’خاد‘‘ ہویا اسرائیل کی’’موساد‘‘ اور برطانیہ کی ایم آئی۔ 6ہر ایک نے پاکستان کو جنگ‘ غربت اور جہالت کا میدان بنانے کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے‘ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضرب غضب اور آپریشن شروع کرکے ملک بچانے کی کوشش کی ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ماضی اور حال کے حکمرانوں نے مشہور بین الاقوامی بینک’’بی سی سی آئی‘‘ کے سربراہ آغا حسن عابدی سے بھی کچھ نہیں سیکھا جن پر منی لانڈرنگ اور فنڈنگ کا الزام عائد کرکے ان سے بی سی سی آئی بینک چھین لیا تھا۔

1986ء میں سعودی عرب کے شاہ خالد نے امریکی اور یورپی بینکوں میں ڈیپازٹ اربوں ڈالر کی رقم واپس مانگی تو انہیں ناکارہ اسلحہ دے کر اس کے عوض ساری رقم ہتھیالی گئی تھی۔ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک اور لیبیا کے صدر کرنل قذافی کو عبرتناک انجام سے دوچار کرکے امریکی بینکوں میں جمع شدہ ساٹھ ارب ڈالر پر قبضہ کرلیا تھا۔ شہنشاہ ایران‘ مارکوس اور اس طرح کے کئی حکمرانوں کے اربوں ڈالر ہڑپ کرلیے تھے۔ تیسری دنیا کے جو حکمران اپنے ملکوں میں عوام کو لوٹ کر انہیں بھوک و افلاس سے دوچار کرتے ہیں اور غیر ملکی بینکوں کا پیٹ بھرتے اور آف شور کمپنیاں قائم کرتے ہیں ان کی رقم بآلاخر ضبط ہوجاتی ہے۔

بلوچستان کے ایک سردار کے سوئس بینکوں میں جمع اربوں ڈالر ان کی ہلاکت کے بعد جب ان کے پوتے نے نکلوانے کی کوشش کی تو اس کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی۔ آف شور کمپنیوں کا انجام بھی بالآخر قومی دولت دوسروں کے ہاتھ میں دینا ہوتا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں اور کالے دھن کو سفید کرنے کا موقع دے کر قومی دولت کو قوم کے کام آنے کا ماحول پیدا کیا جائے جس سے ملک میں خوشحالی آئے گی اور بیروزگاری‘ غربت و افلاس کا خاتمہ ہوسکے گا۔


متعلقہ خبریں


سپریم کورٹ کا اعتراض، تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس وجود - منگل 01 فروری 2022

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...

سپریم کورٹ کا اعتراض، تاحیات  نااہلی کے خلاف درخواست واپس

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھل گیا وجود - اتوار 03 اکتوبر 2021

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھل گیا

معاشی ترقی کا اعتراف یا عوام کو ٹیکسوں میں جکڑنے پر شاباشی؟؟ صبا حیات - بدھ 26 اکتوبر 2016

یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...

معاشی ترقی کا اعتراف یا عوام کو ٹیکسوں میں جکڑنے پر شاباشی؟؟

وزیراعظم تین سمتوں سے گھیرے میں آگئے! نجم انوار - جمعه 21 اکتوبر 2016

پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...

وزیراعظم تین سمتوں سے گھیرے میں آگئے!

تحریک انصاف دھرنا ..مسلم لیگ نون نے نفسیاتی جنگ شروع کردی! نجم انوار - جمعرات 20 اکتوبر 2016

اخبارات میں مختلف خبروں اور تجزیوں کے ذریعے دھرنے کے شرکاکیخلاف سخت کارروائی کے اشارے دیے جائیں گے عمران خان کے لیے یہ"مارو یا مرجاؤ" مشن بنتا جارہا ہے، دھرنے میں اْن کے لیے ناکامی کا کوئی آپشن باقی نہیں رہا مسلم لیگ نون کی حکومت نے تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف ایک طرح سے نفسیا...

تحریک انصاف دھرنا ..مسلم لیگ نون نے نفسیاتی جنگ شروع کردی!

جنگ سے پہلے بھارتی شکست مختار عاقل - پیر 03 اکتوبر 2016

منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...

جنگ سے پہلے بھارتی شکست

وفادار اور غدار! مختار عاقل - پیر 26 ستمبر 2016

بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...

وفادار اور غدار!

پاناما کے بعد’’بہاماس لیکس‘‘، انکشافات کی لہر کہاں جاکر تھمے گی؟ عارف عزیز پنہور - هفته 24 ستمبر 2016

ابھی پاناما لیکس کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا بھی نہ تھا کہ ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘‘ (آئی سی آئی جے) نے اس اسکینڈل کی اگلی قسط چھاپ دی، جس میں دنیا بھر کی ایسی شخصیات کے ناموں کے انکشاف کیا گیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے ملک میں عائد ٹیکسوں سے بچنے کے لیے جزائ...

پاناما کے بعد’’بہاماس لیکس‘‘، انکشافات کی لہر کہاں جاکر تھمے گی؟

ڈاکٹر فاروق ستار کا امتحان مختار عاقل - پیر 19 ستمبر 2016

کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...

ڈاکٹر فاروق ستار کا امتحان

کیا ایم کیوایم قائم رہے گی! مختار عاقل - پیر 12 ستمبر 2016

کیا متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے واقعی کراچی چھن گیا ہے‘ ایم کیوایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیوایم کے نئے سربراہ کی حیثیت سے قبول کرلیاگیا ہے۔ کراچی کے ضلع ملیر میں سندھ اسمبلی کی نشست پر منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایم کیوایم کی نشست پر پیپلزپارٹی ک...

کیا ایم کیوایم قائم رہے گی!

کوٹہ سسٹم کی بازگشت مختار عاقل - پیر 05 ستمبر 2016

قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر اورقائد حزب اختلاف سیدخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کو قائم رہنا چاہئے تواس کا یہ مقصدہرگز نہیں ہوتا کہ انہیں سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی عشق یا وہ اسے جمہوریت کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اگ...

کوٹہ سسٹم کی بازگشت

مضامین
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں! وجود هفته 19 اپریل 2025
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم وجود هفته 19 اپریل 2025
وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری وجود جمعه 18 اپریل 2025
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری

عالمی معاشی جنگ کا آغاز! وجود جمعه 18 اپریل 2025
عالمی معاشی جنگ کا آغاز!

منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر