وجود

... loading ...

وجود

عشرہ کلبھوشن اور چند سرسری باتیں

هفته 09 اپریل 2016 عشرہ کلبھوشن اور چند سرسری باتیں

kulbhushan

ساٹھ اور ستر کی دہائی میں افغانستان میں پشتونستان تحریک کو سرکاری سرپرستی میں بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے۔ سال میں ایک دن ’’یوم پشتونستان‘‘ کے نام سے منایا جاتا۔ یہی عرصہ خیبر پشتونخوا(صوبہ سرحد) اور بلوچستان میں تخریب اور شرپسندی کا تھا۔ پاکستان سے علیحدگی کی بنیاد پر ایک خفیہ تحریک اٹھائی گئی۔ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) سے وابستہ بلوچ ، پشتون رہنما اس تحریک کی درپردہ قیادت کررہے تھے۔ خصوصاً ستر کی دہائی میں ان دو صوبوں میں بہت خون بہایا گیا۔ افغانستان کے اندر بلوچ ، پشتون نوجوانوں کی سیاسی و عسکری تربیت ہوئی لیکن اس تحریک کا دماغ دراصل بھارت تھا ،اشتراکی روس بھی اس میں برابراپنا حصہ ڈال رہا تھا۔ خصوصاً پشتون علیحدگی کی تحریک کامیابی سے ہمکنار اس وجہ سے نہ ہوئی کہ اسے پشتون عوام کی حمایت حاصل نہ تھی۔

پاکستان سے علیحدگی کی بنیاد پر ایک خفیہ تحریک اٹھائی گئی۔ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) سے وابستہ بلوچ ، پشتون رہنما اس تحریک کی درپردہ قیادت کررہے تھے۔ خصوصاً ستر کی دہائی میں ان دو صوبوں میں بہت خون بہایا گیا۔

پاکستان اور افغانستان کے پشتون عوام نے اقدار ،روایات ، دین او رمذہب کی ضد افکار و نظریات سے ہمیشہ خود کو دور رکھا تھا اور یہ تحریک تھی بھی انڈین برانڈ کی ،جسے روس کی حمایت بھی حاصل تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں گویا پشتونستان کی تحریک نے دم توڑ دیا۔ افغانستان میں کمیونسٹوں کے اقتدار پر قبضہ کے بعد پاکستان کے اندر نسلی بنیاد پر سیاست کرنے والے گروہوں کو پھر شوخی سو جھی ۔ انہیں اشتراکی روس کی طاقت پر کار قدرت سے زیادہ بھروسہ اور اعتبار تھا ۔چنانچہ کمیونسٹ انقلاب کے سامنے افغان سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ افغانستان کے طول و عرض میں جہاد کا آغاز ہوا ۔ رفتہ رفتہ ان کی امیدیں دم توڑتی گئیں اور سارے سہانے خواب ،خواب ہی رہ گئے ۔ روسی فوجیں 1989 میں افغانستان سے نکل گئیں ۔بڑی طاقتوں نے انتقال اقتدار کا عمل سرے سے نظر انداز کر دیا ۔افغان جہادی تنظیمیں بھی شراکت اقتدار پر اتفاق نہ کرسکیں ۔ ان کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی مسلح تصادم پر منتج ہوئی ،افغانستان، لاقانونیت کا شکار ہوا ،اور ایک لمبا عرصہ خون خرابہ اور بربادی میں گزر گیا ۔ اسی اثناء دینی مدارس کے طلباء نے اسپین بولدک سے اصلاحی تحریک کا آغاز کردیا ،وہ رفتہ رفتہ آگے بڑھتے گئے ، چنانچہ 1996تک سوائے شمال کے چند علاقوں کے پورے افغانستان پر ان کی حکومت قائم ہوگئی۔ کابل پر قبضہ کے دوران سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب اﷲ کو پھانسی دی گئی۔ڈاکٹر نجیب اﷲ کی افغانستان سے نکلنے میں ناکامی کی پوری ایک تفصیل ہے جس کا یہاں ذکر ضروری نہیں ۔بگرام ایئر بیس پر قبضے کے بعد ڈاکٹر نجیب مستعفی ہو گئے اور اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لے لی ۔ ڈاکٹر نجیب اﷲ کو پھانسی نہیں دینی چا ہئے تھی ،افغان مجاہدین کو ضرور درگزر کرنا چاہیے تھا ۔ڈاکٹر نجیب کو بحفاظت بیرون ملک جانے دیا جاتا تو بہتر ہو تا ۔ا لغرض افغانستان میں بھارت کی مداخلت کا ’’در‘‘ مکمل طور پر بندہوا۔ اور پاکستان کی افغانستان سے متصل سرحد محفوظ ہوگئی۔

9/11کے بعد امریکا نے نیٹو کے ساتھ ملکر افغانستان کو تاراج کردیا۔ یوں بھارت کو افغان سر زمین تک پھر سے مکمل رسائی حاصل ہوگئی اور اگلے لمحے پشتون قوم پرست بھی امریکی سامراجی فوجی اتحاد کے حامی و مددگار بن گئے۔ افغان سرزمین پاکستان کیلئے دشمن کی آماجگاہ بن گئی ۔تب سے اب تک امریکی سرپرستی میں جو بھی افغان حکومتیں بنائی گئی ہیں وہ پاکستان کی بجائے بھارت کی محبت میں مبتلا رہی ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت بھی بھارت سے دوستی اور محبت کے گن گارہی ہے۔ افغانستان میں بھارتی سفارت خانہ اور درجن سے زائد قونصل خانوں کا فوکس بلوچستان اور پاکستان ہے ۔پشتون علیحدگی کی تحریک تو ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے بھی نہ ٹہر سکی البتہ بلوچ علیحدگی کی سوچ بہر حال موجود رہی ۔ وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچ آزادی کی تحریک کو افغانستان کے اندر منظم کیاگیا اور اس کا سرپرست اعلیٰ اور ماسٹر مائنڈ بھارت بالفاظ دیگر ’’را‘‘ ہے۔ کلبھوشن یادو کی بلوچستان میں گرفتاری کے بعد بھارت کو شدید سبکی اٹھانی پڑی ہے ۔ کلبھوشن یادیو، ایران کے علاقے سراوان سے بلوچستان میں داخل ہوا ۔ اس جاسوس کو پاکستانی خفیہ اداروں نے تقریباً ایک سال قبل ٹریس کر رکھا تھا ۔ آخرکار3مارچ کو دھر لیاگیا اور 24مارچ کو اس کی گرفتاری کا اعلان ہوا۔ بعد ازاں ان کی اعترافی ویڈیو بھی میڈیا پر نشر کی گئی۔ دراصل افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے بگاڑکی وجہ بھی بھارت ہے۔ پاکستان ا ور بھارت کے درمیان کشمیر کا دیرینہ تنازع حل ہوتا ہے تو ’’پراکسی‘‘ جنگ کا دروازہ بھی ممکن ہے کہ ہمیشہ کیلئے بند ہو۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان اگر کوئی تنازع ہے تو وہ ڈیورنڈ لائن کا ہے۔ بھارت کی شرارت نہ ہو تو پاکستان کے اندر بھی کسی کے لئے اس لائن کی کوئی اہمیت نہ رہے گی ۔ویسے بھی یہ تنازع ایسا ہر گز نہیں کہ جس کی بنیاد پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف کمر بستہ ہوں۔ پشتونستان تحریک اور ڈیورنڈ لائن تسلیم نہ کرنے کی چابی بھی بھارت دیتا رہا ہے ۔ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اشتراکی روس، افغان کمیونسٹ انقلاب کے دنوں میں پاکستان کے سامنے ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے کی شرط اس بنیاد پر رکھتا کہ وہ مجاہدین کی حمایت چھوڑ دے تو نہ صرف افغان حکومت بلکہ پاکستان کے اندر موجود محبان وطن بھی آنکھ بند کرکے روس کا فیصلہ تسلیم کر تے ، چونکہ اشتراکی انقلاب افغان عوام کے روایات اور مذہب کے خلاف تھا تو اس انقلاب سے پاکستان کی نہ صرف سرحدوں بلکہ وجود کو یقینی خطرہ تھا۔ لہٰذا پاکستان کو بہر حال ایسی کوئی شرط قبول نہ ہوتی۔ کہتے ہیں کہ مجاہدین اور افغان طالبان پاکستان کی کٹھ پتلی تھے ،ا گر واقعی ہوتے تو وہ پاکستان کے ایک اشارے پر ڈیورنڈ لائن تسلیم کرتے چونکہ وہ اپنے داخلی معاملات میں ہمیشہ آزاد تھے۔ اس بناء پر انہوں نے کبھی بھی ڈیورنڈ لائن کو قانونی نہیں سمجھا۔ پاکستان کے اند ر پشتون عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن 12 نومبر 1893 کو انگریز کی طرف سے کھینچی گئی ہے ، تاہم جب وہ آئین پاکستان کے تحت حلف اٹھا تے ہیں تو بادی النظر میں پاکستان اور اس کے سرحدوں کو تسلیم کرتے ہیں ۔خیر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے مسئلے کو حکومت پاکستان نے سفارتی سطح پر بھی اٹھا رکھا ہے ۔خاص کرحکومت ایران سے اس ضمن میں نہ صرف وضاحت طلب کی ہے بلکہ مزید تعاون کیلئے باضابطہ خط بھیجا جا چکا ہے کہ وہ ایران میں موجود بھارتی خفیہ ادارے کے دیگر ایجنٹس حوالے کرے اور یہ بتائے کہ کس طرح چاہ بہار میں بیٹھ کر بھارتی ایجنٹ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرتے رہتے ہیں۔ حکومت پاکستان کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ ایران کل بھوشن یادیو کے ساتھی ’’را‘‘ کے سب انسپکٹر راکیش عرف رضوان کو گرفتار کرکے حوالے کیا جائے اور کل بھوشن یادیو کی ایران میں سرگرمیوں کے بارے میں تصدیق کی جائے ۔ ایران کے مختلف شہروں میں کلبھوشن یادیو کے قیام کے عرصہ سے متعلق حکومت پاکستان کو آگاہ کیا جائے اور اس ایجنٹ کے کاروبار سے متعلق بتایا جائے کہ وہ کن لوگوں سے رابطے میں رہا۔ حکومت پاکستان کا یہ حق ہے کہ اسے ایرانی سرزمین پر ’’را‘‘ کے نیٹ ورک کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ اور بھارتی مداخلت سے متعلق دیگر جو بھی معلومات ہیں وہ فراہم کی جائیں۔

بلوچستان اسمبلی میں اس مسئلے پر پہلے پہل تحریک التواء لائی گئی ،29مارچ کے اجلاس میں اس پر طویل بحث ہوئی۔ التواء کی اس تحریک کو متفقہ قرارداد کی صورت میں منظور کیا گیا۔ تحریک التواء جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف مولانا عبدالواسع نے پیش کی تھی۔ چنانچہ یہ فیصلہ ایوان میں موجود تمام پارلیمانی جماعتوں کی متفقہ رائے سمجھا جاتا ہے، بعد میں اس رائے اور فیصلے سے فرار کی کوشش محض سیاسی شعبدہ بازی اور سو فسطائی کوشش تصور کی جائے گی ۔ عشرہ رفتہ کلبھوشن یادیو کے حوالے سے بڑا گرم رہا۔


متعلقہ خبریں


’’حب بلوچ‘‘ نہیں ’’بغض پاکستان‘‘ ہے جلال نورزئی - جمعه 23 ستمبر 2016

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اپنی انتہا پر ہے ۔بھارت اس کشیدگی میں مزید اضافے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ممکن ہے کہ وہ کسی تصادم سے بھی گریز نہ کرے ۔چنانچہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اندر کے مسائل و تنازعات کے فوری حل پر تو جہ دے ۔بلوچستان کا مسئلہ بھی حل طلب ہے ۔ یہ سوچنا ہو گا کہ ا...

’’حب بلوچ‘‘ نہیں ’’بغض پاکستان‘‘ ہے

امریکا بھارت گٹھ جوڑ جلال نورزئی - منگل 13 ستمبر 2016

چین پاکستان اقتصادی راہداری ہر لحاظ سے ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ ہے۔ دونوں ممالک یعنی چین اور پاکستان سنجیدہ ہیں اور سرعت کے ساتھ ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ پاک آرمی پوری طرح اس پر نگاہ رکھی ہوئی ہے اور یقینا اس بات کی ضرورت بھی ہے۔ فوج اور تحفظ کے ا دارے فعال نہ ہوں تو منفی ق...

امریکا بھارت گٹھ جوڑ

باب دوستی پرنا مناسب احتجاج جلال نورزئی - هفته 03 ستمبر 2016

پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان تمام تر رنجشوں کے باوجود ایثار اور محبت کا رشتہ ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ اگر چہ غنیم یہی چاہتا ہے ۔ یہ والہانہ تعلق صدیوں پر مشتمل ہے۔ برصغیر پر انگریز راج کے بعد بالخصوص برطانوی ہند کے مسلمان رہنماؤں کے ساتھ افغان امراء کا انس و قربت کا کوئ...

باب دوستی پرنا مناسب احتجاج

قومی ہم آہنگی اور یہ تبریٰ بازی جلال نورزئی - منگل 16 اگست 2016

قومی اسمبلی کے 9؍اگست کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کی تقریر بہت ساروں پر بجلی بن کر گری ، برقی میڈیا پر محمود خان اچکزئی کی کچھ یوں گرفت ہوئی کہ جیسے سول ہسپتال جیسا ایک اور سانحہ رونما ہوا ہو۔اور تواتر کے ساتھ غداری کے فتوے آنے شرو ع ہو گئے۔ حالانکہ ملتے جلتے رد عمل کا اظہار ع...

قومی ہم آہنگی اور یہ تبریٰ بازی

قومی ’’ہیروز ‘‘ کی بے قدری جلال نورزئی - اتوار 14 اگست 2016

کوئٹہ کے نوجوان باکسر محمد وسیم نے ورکنگ باکسنگ کونسل انٹرنیشنل سلور فلائی ویٹ ٹائٹل جیت کر عالمی شہرت حاصل کرلی۔ یہ مقابلہ جنوبی کوریا کے شہر سیؤل میں ہوا۔ مد مقابل فلپائن کا باکسر’’ جیتھر اولیوا‘‘ تھا جس کو آسانی سے مات دیدی گئی۔ محمد وسیم یہ ٹائٹل جیتنے والا پہلا پاکستانی باکس...

قومی ’’ہیروز ‘‘ کی بے قدری

سانحہ کو ئٹہ: دہشت گردوں کا سفاکانہ وار جلال نورزئی - جمعه 12 اگست 2016

8 اگست 2016 کا دن کوئٹہ کے لئے خون آلود ثابت ہوا۔ ظالموں نے ستر سے زائد افراد کا ناحق خون کیا ۔یہ حملہ در اصل ایک طویل منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھا جس میں وکیلوں کو ایک بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتارنا تھا ۔یو ں دہشت گرد اپنے غیر اسلامی و غیر انسانی سیاہ عمل میں کامیاب ہو گئے۔ اس ...

سانحہ کو ئٹہ: دہشت گردوں کا سفاکانہ وار

یہ طرز عمل درست نہیں ! جلال نورزئی - هفته 30 جولائی 2016

ملک میں جمہوریت یرغمال ہے۔ بلوچستان کے اندر سرے سے منظر نامہ ہی الگ ہے۔ جمہوریت کا ورد کر کے حکمران اتحادی جماعتیں قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہی ہیں۔سوچ سمجھ کر خطرناک کھیل کا حصہ بنی ہیں۔ جب حاکم اندھے، گونگے اور بہروں کی مثال بنیں تو لا محالہ تشہیر کسی کی ہی ہو گی۔ بالخصوص پشت...

یہ طرز عمل درست نہیں !

محمود خان اچکزئی، خیبر پشتونخوا اور افغانستان جلال نورزئی - هفته 23 جولائی 2016

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جون کے مہینے کے آخری عشرے میں ایک غیر ملکی ریڈیو (مشال) کو انٹرویو میں کہا کہ’’ خیبر پشتونخوا تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان کڈوال (مہاجرین )سے پنجابی، سرائیکی، سندھی یا بلوچ تنگ ہیں تو انہیں پشتونخوا وطن کی طرف بھی...

محمود خان اچکزئی، خیبر پشتونخوا اور افغانستان

وزیر اعلیٰ کا دورہ چین اور بلوچستان کا مستقبل جلال نورزئی - هفته 07 مئی 2016

وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری نے23سے29اپریل تک چین کا دورہ کیا۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال وفد کے قائد تھے۔ سینیٹر آغا شہباز درانی، چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی دوستین جمالدینی، بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ کے وائس چیئرمین خواجہ ہمایوں نظامی اور وفاقی سیکرٹری مواص...

وزیر اعلیٰ کا دورہ چین اور بلوچستان کا مستقبل

پاناما پیپرز کی بازگشت میں فوجی افسران کا احتساب! جلال نورزئی - منگل 26 اپریل 2016

افواج پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے فوج کے گیارہ اعلیٰ افسران کو بد عنوانی ثابت ہونے کے بعد ملازمتوں سے برطرف کر دیا۔یہ افسران مزید صرف میڈیکل اور پنشن کی مراعات سے مستفید ہو سکیں گے۔ باقی تمام مراعات سزا کے طور پر لے لی گئی ہیں۔فوج کے افسران کے خلاف کارروائی یقینا ایک قوم...

پاناما پیپرز کی بازگشت میں فوجی افسران کا احتساب!

را کی پاکستان دشمن سرگرمیوں پر عرب اور ایشیائی ممالک کو بریفنگ وجود - هفته 16 اپریل 2016

پاکستان نے بآلاخر بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کی پاکستان دشمن سرگرمیوں سے متعلق عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں۔دلچسپ طور پر یہ کوششیں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب بھارت سے ہر قیمت پر تعلقات کےخواہشمند وزیر اعظم نوازشریف پاناما لیکس پر اپنے غیر یقین...

را کی پاکستان دشمن سرگرمیوں پر عرب اور ایشیائی ممالک کو بریفنگ

غیر ملکی ایجنسیوں کے پاکستان میں منفی کردار کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ ۔ مضمرات ، وجوہات! محمد احمد - جمعرات 07 اپریل 2016

قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے غیر ملکی خفیہ اداروں کی پاکستان میں جاری سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے کے فیصلے کو قومی حلقوں میں انتہا ئی اہم اور تاریخ ساز فیصلے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔قومی سلامتی کی کمیٹی نے بھارتی خفیہ ادارے "را" سمیت دیگر ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان مخالف سرگ...

غیر ملکی ایجنسیوں کے پاکستان میں منفی کردار کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ ۔ مضمرات ، وجوہات!

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر