وجود

... loading ...

وجود

اعلیٰ یا اعلا

اتوار 03 اپریل 2016 اعلیٰ یا اعلا

Urdu

سب سے پہلے تو جناب رؤف پاریکھ سے معذرت۔ ان کے بارے میں یہ شائع ہوا تھا کہ ’’رشید حسن خان اور پاکستان میں جناب رؤف پاریکھ کا اصرار ہے کہ اردو میں آنے والے عربی الفاظ کا املا بدل دیا جائے۔‘‘ انہوں نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خود رشید حسن خان سے متفق نہیں ہیں۔ چلیے، اس طرح ان سے فون پر گفتگو کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ رؤف پاریکھ ایک علمی و ادبی شخصیت ہیں جن سے ہم نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔

رشید حسن خان نے اردو کے لیے بہت کام کیا ہے، املا پر ان کی ایک وقیع کتاب ہے۔ لیکن ان کی ہر بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر املا کی تبدیلی سے۔ انہوں نے برسوں پہلے یہ مشورہ دیا تھا کہ عربی تراکیب کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ وارث سرہندی نے 1982ء یعنی تقریباً 33 سال پہلے ہی اس کی گرفت کرتے ہوئے اس مشورے کو غلط بلکہ نقصان دہ قرار دیا تھا اور لکھا تھا کہ یہ مشورہ بھارت کے سیاسی پس منظر کے زیراثر ہوسکتا ہے جو کوئی مصلحت یا جواز رکھتا ہو، کیونکہ وہاں ایک سازش کے تحت اردو سے عربی الفاظ خارج کرکے ہندی اور سنسکرت الفاظ زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گویا اردو میں ’’شدھی‘‘ کی تحریک چلائی جارہی ہے۔ وہاں تو اردو کے عربی رسم الخط کو بھی ختم کرکے دیوناگری رسم الخط کو رواج دینے کی کوشش زور شور سے ہورہی ہے، ہم ان ناپاک عزائم میں ساتھی کیوں بنیں۔ اردو کے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے چاہیے تو یہ تھا کہ اردو میں ہندی اور سنسکرت الفاظ کے بے جا استعمال کے خلاف آواز اٹھائی جاتی، مگر سیاسی مرعوبیت کے زیراثر ہمیں الٹا یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ ہم اردو میں عربی تراکیب کے استعمال سے پرہیز کریں۔

یہ اشتہارات جانے کون سی مخلوق کے لیے ہیں مثلاً “EK CUP CHAI”۔ اب جسے انگریزی نہیں آتی وہ کیا خاک سمجھے گا!

رشید حسن خان کا تعلق تو بھارت سے تھا، لیکن ہم یہ کررہے ہیں کہ منظم طریقے سے رومن اردو کو بڑھاوا دے رہے ہیں، یعنی اردو انگریزی رسم الخط میں لکھی جارہی ہے۔ کیا یہ بھی اردوکے خلاف سازش نہیں ہے؟ موبائیل فون (ہاتف جوال) پر جو پیغامات اِدھر سے اُدھر ہوتے ہیں وہ عموماً انگریزی رسم الخط میں ہوتے ہیں۔ شاید مجبوری ہو کہ ہر ایک اپنے فون پر اردو ٹائپ نہیں کرسکتا، لیکن ملک بھر میں لگائے گئے اشتہارات، بینرز کو کیا کہیں گے جو رومن اردو میں ہوتے ہیں۔ یہ نہ انگریزی جاننے والوں کے مطلب کے ہیں اور نہ انگریزی سے نابلد اردو دانوں کے لیے قابلِ فہم۔ جو انگریزی پڑھ لیتے ہیں اُن کے لیے اشتہار انگریزی میں ہونا چاہیے، اور جو انگریزی سے واقف نہیں اُن کے لیے اردو میں ہونا چاہیے۔ لیکن یہ اشتہارات جانے کون سی مخلوق کے لیے ہیں مثلاً “EK CUP CHAI”۔ اب جسے انگریزی نہیں آتی وہ کیا خاک سمجھے گا! تو کیا یہ شعوری طور پر اردو سے دور لے جانے کی کوشش نہیں؟

جہاں تک ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کا تعلق ہے تو یہ ہندی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے بہت تیزی سے ہماری بول چال میں داخل ہورہے ہیں۔ لیکن ایسے بے شمار ہندی الفاظ جو اردو کا حصہ بن گئے ہیں ان کو نہیں نکالا جا سکتا۔ جن الفاظ میں دو چشمی ہ (ھ)، ڈ، ڑ،ٹ جیسے حروف ہیں وہ ہندی ہی سے آئے ہیں جیسے گھوڑا، گدھا، دھوبی، بھنگی وغیرہ…… یا ڈول، ڈبا، ٹوپی، پہاڑ وغیرہ۔ لیکن لغت میں ایسے سب الفاظ اردو کے قرار دیے گئے ہیں۔ ایک مزے کی بات یہ ہے کہ ہندی کو عربی فارسی الفاظ سے ’’پوتر‘‘ کرنے کے باوجود ایسا نہیں ہوسکا، البتہ تلفظ بگاڑ کر رکھ دیا مثلاً گجب (غضب)، گُسہ (غصہ) وغیرہ۔ ایک ستم یہ ہوا کہ ہندی میں ’پھ‘ کو ’ف‘ سے بدل دیا گیا اور پھول ’’فول‘‘، پھل ’’فَل‘‘، پھرتی ’’فُرتی‘‘ ہوگیا۔ اس پر بھارت کے کچھ ادیبوں، شاعروں نے بھی اعتراض کیا ہے، لیکن بھارت کی نئی ہندو نسل کا اپنا تلفظ بگڑ گیا ہے۔ پرانے لوگوں کا تلفظ بالکل صحیح تھا۔

عربی الفاظ کے سلسلے میں بہتر اور محفوظ طریقہ یہی ہے کہ عربی الفاظ اردو میں کسی تغیر و تبدل کے بغیر استعمال کیے جائیں۔ جو الفاظ پہلے ہی اردو میں اپنی اصلی صورت میں استعمال ہورہے ہیں، ان کو نہ چھیڑا جائے اور ان کی اصلی صورت برقرار رکھی جائے مثلاً ادنیٰ، اعلیٰ، اقصیٰ، بشریٰ، تعالیٰ، تقویٰ، دعویٰ جیسے الفاظ کے املا میں کوئی تصرف نہ کیا جائے۔ اگر حتیٰ، علیٰ، الیٰ کا اصل املا برقرار رکھا جاسکتا ہے تو باقی الفاظ کا کیا قصور ہے کہ خواہ مخواہ ان کی صورت مسخ کی جائے! وارث سرہندی کے مطابق جن الفاظ کے املا میں تصرف ہوہی چکا ہے ان کا بھی اصل املا بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اصلی جھگڑ اعلیٰ اور ادنیٰ کا ہے۔ بچوں کا رسالہ نونہال ایک عرصے سے اعلا اور ادنا لکھ رہا ہے۔ اس رشید حسن خانی اختراع سے اور بھی لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ کیا پتا کب موسیٰ اور عیسیٰ، موسا اور عیسا ہوجائیں۔ عربی الفاظ کی اصلی صورت برقرار رکھنے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اوّل تو ہمیں عربی سیکھنے میں اس سے مدد ملے گی، دوم ان الفاظ کا ماخذ اور اشتقاق معلوم کرنے میں کوئی الجھن پیدا نہیں ہوگی۔ اگر عربی الفاظ کا املا رشید حسن خان کی تجویز کے مطابق تبدیل کردیا جائے تو اس سے دورنگی پیدا ہوگی کیونکہ ایک ہی لفظ کو ہم اردو میں ایک شکل میں دیکھیں گے اور عربی میں دوسری شکل میں۔ اس طرح ایک طرح کا ذہنی خلجان پیدا ہوگا کہ فلاں صاحب مدیر اعلیٰ ہیں یا مدیر اعلا۔

ہمارے لیے عربی اور فارسی زبانیں سیکھنا اس لیے آسان ہیں کہ ان کے بہت سے الفاظ اردو میں اصلی صورتوں اور حقیقی معانی میں استعمال ہوتے ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے غالب اکثریت عربی زبان سے مانوس ہے۔ جو مسلمان عربی نہیں سمجھتا وہ بھی کم از کم قرآن کریم ناظرہ ضرور پڑھتا ہے، اس لیے وہ عربی الفاظ کی شکل و صورت سے آشنا ہوتا ہے۔ اس لیے اردو میں عربی الفاظ کو ان کی اصل صورت میں لکھنا ہمارے لیے کوئی مشکل بات نہیں۔ اب نجانے رشید حسن خان اللہ تعالیٰ کیسے لکھتے ہوں گے؟ کیا اللہ تعالا؟

چلتے چلتے ایک لطیفہ…… گزشتہ دنوں پی ٹی وی کی ایک محترمہ خبر سنا رہی تھیں کہ ’’موٹرو۔ ہیکل ٹیکس……‘‘ محترمہ نے موٹر وہیکل کے دو ٹکڑے کردیے۔ حیرت ہے کہ اگر اردو کمزور ہے تو کم از کم انگریزی الفاظ سے تو واقفیت ہوتی۔ ان کا یہ ’’موٹرو۔ ہیکل‘‘ ہر نشریے میں دہرایا گیا، غالباً دوسرے اونگھ رہے تھے۔ اور یہ وہی پاکستان ٹیلی ویژن ہے جس پر کبھی تلفظ پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی، لیکن شاید اب کسی اور چیز پر توجہ ہے۔


متعلقہ خبریں


املا مذکر یا مونث؟ اطہر علی ہاشمی - هفته 13 اگست 2016

اسلام آباد میں جا بیٹھنے والے عزیزم عبدالخالق بٹ بھی کچھ کچھ ماہر لسانیات ہوتے جارہے ہیں۔ زبان و بیان سے گہرا شغف ہے۔ ان کا ٹیلی فون آیا کہ آپ نے ’’املا‘‘ کو مذکر لکھا ہے، جبکہ یہ مونث ہے۔ حوالہ فیروزاللغات کا تھا۔ اس میں املا مونث ہی ہے۔ دریں اثنا حضرت مفتی منیب مدظلہ کا فیصلہ ب...

املا مذکر یا مونث؟

تلفظ کا بگاڑ اطہر علی ہاشمی - جمعه 05 اگست 2016

اردو میں املا سے بڑا مسئلہ تلفظ کا ہے۔ متعدد ٹی وی چینل کھُمبیوں کی طرح اگ آنے کے بعد یہ مسئلہ اور سنگین ہوگیا ہے۔ اینکرز اور خبریں پڑھنے والوں کی بات تو رہی ایک طرف، وہ جو ماہرین اور تجزیہ کار آتے ہیں اُن کا تلفظ بھی مغالطے میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔ مغالطہ اس لیے کہ جو کچھ ٹی وی س...

تلفظ کا بگاڑ

تلفظ میں زیر و زبر اطہر علی ہاشمی - پیر 01 اگست 2016

ہم یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اخبارات املا بگاڑ رہے ہیں اور ہمارے تمام ٹی وی چینلز تلفظ بگاڑ رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کا بگاڑ زیادہ سنگین ہے کیونکہ ان پر جو تلفظ پیش کیا جاتا ہے، نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے۔ بڑا سقم یہ ہے کہ ٹی وی پر جو دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار آتے ہیں وہ...

تلفظ میں زیر و زبر

گیسوئے اردو کی حجامت اطہر علی ہاشمی - هفته 23 جولائی 2016

علامہ اقبالؒ نے داغ دہلوی کے انتقال پر کہا تھا : گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے ایم اے اردو کے ایک طالب علم نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ داغ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس کے شانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ غالب نے صاف کہا تھاکہ: تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گ...

گیسوئے اردو کی حجامت

’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ اطہر علی ہاشمی - پیر 11 جولائی 2016

مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...

’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘

’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘ اطہر علی ہاشمی - هفته 04 جون 2016

پچھلے شمارے میں ہم دوسروں کی غلطی پکڑنے چلے اور یوں ہوا کہ علامہ کے مصرع میں ’’گر حسابم را‘‘ حسابم مرا ہوگیا۔ ہرچند کہ ہم نے تصحیح کردی تھی لیکن کچھ اختیار کمپوزر کا بھی ہے۔ کسی صاحب نے فیصل آباد سے شائع ہونے والا اخبار بھیجا ہے جس کا نام ہے ’’ لوہے قلم‘‘۔ دلچسپ نام ہے۔ کسی کا...

’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘

فِحش یا فحش؟ اطہر علی ہاشمی - پیر 22 فروری 2016

لاہور سے ایک بار پھر جناب محمد انور علوی نے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’خط لکھتے وقت کوئی 25 سال پرانا پیڈ ہاتھ لگ گیا۔ خیال تھا کہ بھیجتے وقت ’’اوپر سے‘‘ سرنامہ کاٹ دوں گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اگر خاکسار کے بس میں ہوتا تو آپ کی تجویز کے مطابق اردو میں نام بدلنے کی کوشش ...

فِحش یا فحش؟

استیصال کا دلیرانہ استعمال اطہر علی ہاشمی - اتوار 07 فروری 2016

’’زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘‘…… کے عنوان سے جناب شفق ہاشمی نے اسلام آباد کے اُفق سے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’دیرپائیں کے رفیق عزیز کا چار سالہ بچہ اپنے والد سے ملنے دفتر آیا تو لوگوں سے مل کر اسے حیرت ہوئی کہ یہ لوگ آخر بولتے کیوں نہیں ہیں۔ ایک حد تک وہ یقینا درست تھا کہ ی...

استیصال کا دلیرانہ استعمال

’’معاملات ٹھن گئے‘‘ اطہر علی ہاشمی - منگل 08 دسمبر 2015

عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعظم جناب انور ظہیر جمالی نے گزشتہ منگل کو ایوانِ بالا سے بڑی رواں اور شستہ اردو میں خطاب کرکے نہ صرف عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی لاج رکھی بلکہ یہ بڑا ’’جمالی‘‘ خطاب تھا اور اُن حکمرانوں کے لیے آئینہ جو انگریزی کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کے ا...

’’معاملات ٹھن گئے‘‘

ایک ’’لاجواب‘‘ تحقیق اطہر علی ہاشمی - پیر 30 نومبر 2015

عزیزم آفتاب اقبال، نامور شاعر ظفر اقبال کے ماہتاب ہیں۔ اردو سے خاص شغف ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر زبان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ پروگرام مزاحیہ ہے، چنانچہ ان کی اصلاح بھی کبھی کبھی مزاح کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ اتوار کو ان کا پروگرام دیکھا جس میں انہوں نے بڑا ...

ایک ’’لاجواب‘‘ تحقیق

’’لیے‘‘ اور ’’لئے‘‘ کا آسان نسخہ اطہر علی ہاشمی - منگل 24 نومبر 2015

اردو کے لیے مولوی عبدالحق مرحوم کی خدمات بے شمار ہیں۔ اسی لیے انہیں ’’باباے اردو‘‘کا خطاب ملا۔ زبان کے حوالے سے اُن کے قول ِ فیصل پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ گنجائش اور رہائش کے بھی دو املا چل رہے ہیں، یعنی گنجایش، رہایش۔ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں دونوں املا دے کر ابہام ...

’’لیے‘‘ اور ’’لئے‘‘ کا آسان نسخہ

اردو میں لٹھ بازی اطہر علی ہاشمی - بدھ 11 نومبر 2015

چلیے، پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ سنڈے میگزین (4 تا 10 اکتوبر) میں صفحہ 6 پر ایک بڑا دلچسپ مضمون ہے لیکن اس میں زبان و بیان پر پوری توجہ نہیں دی گئی۔ مثلاً ’لٹھ‘ کو مونث لکھا گیا ہے۔ اگر لٹھ مونث ہے تو لاٹھی یقینا مذکر ہوگی۔ لٹھ کو مونث ہی بنانا تھا تو ’’لٹھیا‘ لکھ دیا ہوتا...

اردو میں لٹھ بازی

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر