... loading ...
ارسطو نے قبل از مسیح کی دانش میں یہ راز منکشف کررکھا ہے کہ
’’قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات( یعنی چھوٹے )ہی پھنستے ہیں۔بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے
ہیں۔‘‘
مشرف چلا گیامگر نوازشریف بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں جو قانون کا سامنا کر سکیں۔ یہ ایک دوسرے کے مخالف مگر ایک دوسرے کے محافظ بھی ہیں۔ کیونکہ وہ ایک ایسے نظام میں زندگی کرتے ہیں جو ایک دوسرے کی بقا کے ساتھ مربوط رہ کر اُنہیں ایک دوسرے کی مخالفت کی اجازت دیتا ہے۔ افسوس ہم اِن سیاست دانوں کے دعووں پردھیان دیتے ہیں مگر ان کے کردار پر نہیں۔ یہ مخلوق الفاظ کی خراچ مگر عمل کی قلاش ہے۔ جب قانون کا سامنا کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو کوئی سقراط نہیں بنتا۔ سب مشرف اور نوازشریف بن جاتے ہیں۔ کسی کی کمر میں درد ہوتا ہے اور وہ دبئی کا راستا لیتا ہے اور کوئی والدین کی ضعیف العمری میں اپنے ضعفِ کردار کو چھپاتے ہوئے سرور پیلیس کی راہ لیتا ہے۔ اقتدار کی لیلیٰ روٹھ جائے تو یہ ایسے مجنوں نہیں جو گلیوں میں پتھر کھائیں ۔ آسودگی ان کی منزل ہے۔ قانون کی بالادستی کی بات کرنے پر اب لوگوں کو قے آجاتی ہے۔ عدل گاہوں کی دار مصلحت پر اب انصاف کی گردن لٹکائی جاچکی ہے۔ اس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہے۔ اور چہرہ نہایت بھیانک لگتا ہے۔ منصفوں کے کان میں کسی کو سرگوشی کرنی چاہیے کہ یہ لاشہ اب دفنا دینا چاہئے اس میں بُو آنے لگی ہے۔
یہ کام صرف مسلم لیگ نون ہی کر سکتی ہے کہ وہ مشرف کی رخصتی کو بھی اپنا کارنامہ بنا کر رکھ دیں۔وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کی پریس کانفرنس کا اصل مقصد ہی یہ تھا کہ عوام اُنہیں مشرف پر مقدمہ بنانے کی بھی داد دیں اور اب اُنہیں ا س مقدمہ کا سامنا کیے بغیر ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے پر بھی داددیں۔کبھی پارلیمنٹ میں اُنہوں نے آئین کی دفعہ چھ پر عمل درآمد کے لیے پرجوش تقریر کی تھی اور باور کرایا تھا کہ اگر ایک دفعہ اس پر عمل ہو جائے تو کبھی کوئی جنرل نظام کے ساتھ چاند ماری نہ کرسکے گا۔اب ہم ایک ایسے نظام میں جی رہے ہیں جسے دراصل سیاست دانوں اور خود وزیرداخلہ اور ان کی سیاسی حکومت کی چاند ماری سے بچانے کا چیلنج درپیش ہے۔ جمہوریت کو جرنیلوں سے کہیں زیادہ ان بدعنوان سیاست دانوں اور لٹیرے حکمرانوں سے خطرہ درپیش رہتا ہے جو اپنی بداعمالیوں کی بھی تقدیس کرنے پر قادر ہیں۔
مسلم لیگی سیاست کا یہ نفاق ختم ہو کر نہیں آرہا کہ وہ دعوے صاحبانِ عزیمت کے کرتے ہیں اور اقدامات ایسے اُٹھاتے ہیں کہ اُ س کے لیے حالت اضطرار کی تاویلیں بھی کم پڑنے لگتی ہیں۔ مسلم لیگ نون نے ہی جنرل مشرف کے عدالتی محاسبے کے دعوے کیے تھے۔ خواجہ آصف پارلیمنٹ میں گرجا برسا کرتے تھے۔ احسن اقبال نوجوانوں اور ٹیلی ویژن کی رنگین اسکرین کو دیکھ کر آپے سے باہر ہوجاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اگر مشرف عدالتی احتساب سے بچ گیا تو وہ اتنی بھی تبدیلی نہ لاسکنے پر حکومت چھوڑ کر گھر بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔ خواجہ سعد رفیق چائے سے زیادہ کیتلی کو گرم رکھا کرتے تھے۔وہی مشرف کو کہا کرتے تھے کہ مرد بنیں مرد، مرد۔ حیرت ہے مشرف کی ذراسی مردانگی پر انہیں لجا آنے کے بجائے زیادہ ادائیں دکھا ناآگئیں۔ ان کے ذوق جمال و کمال کی داد دیتے ہوئے اُس بازار کی حیا چاہئے۔ اب یہ سب دن رات کتاب الحیل پر گزارا فرماتے ہیں۔ جنہیں خلوت میں بیٹھ کر بھی شرم آنی چاہیے وہ معلوم نہیں کیسے جلوت میں پورے آب وتاب سے زندگی گزارتے ہیں۔
دستر خوانی قبیلے کی ادھیڑ بُن بھی عجیب ہے۔ اُنہیں منطقیں گھڑنے میں ایسا ملکہ حاصل ہو گیا ہے کہ اگلے زمانوں میں تحقیق سے یہ دریافت کیا جائے گا کہ یہ مخلوق اس قدر زرخیز ذہن کی مالک کیسے تھیں؟ اور اپنے دماغ کی نشوونما کے لیے اُن کا گزارا کس پر تھا؟ مشرف پر مقدمہ قائم ہو ا تودستر خوانی قبیلے نے دلیل یہ گھڑی تھی کہ ملک میں سول بالادستی کے لیے یہ مرحلہ ناگزیر ہے۔ اب جب مشرف کو فرار کا راستا دیا گیا ہے تو اسی دستر خوانی قبیلے نے نئی دلیل یہ ساخت کی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام سب سے اولین ضرورت ہے۔ حیرت ہے کہ مقدمہ قائم کرنے اور مشرف کو رخصت کرنے کے درمیا ن ملک کے حالات میں کوئی جوہری فرق نہیں ۔ تب اور اب کے حالات تقریباً ایک جیسے ہیں۔ مگر دستر خوانی قبیلے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ظلِ سبحانی کے جنبشِ ابرو سے اُن کی آرزوِ مکروہ بھانپ لیتے ہیں اور پھر اُن کی تعظیم میں اپنے اندر کے درباری کو تروتازہ کر لیتے ہیں۔ بس پھر زمینی حقائق کا ڈرامہ شروع ہوجاتا ہے اور اداکار و صداکارسب اپنے اپنے کاموں میں نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ جُت جاتے ہیں۔نوازشریف نے تنہا جتنے اہلِ قلم خریدے ہیں اور جتنے بکاؤ صحافی اکٹھے کئے ہیں ۔تمام سیاسی جماعتیں کبھی مل کربھی اتنے جمع نہیں کر سکیں۔ اس معاملے میں نوازشریف کا مقابلہ کسی سے بھی نہیں۔ یہی دسترخوانی قبیلہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے میں پوری طرح جُتا رہتاہے۔ اسی قبیلے نے اب مشرف کے ملک سے جانے کے معاملے میں بھی اب طرح طرح کی جوازآرائیاں پیش کرنا شروع کردی ہیں۔ جنہیں پڑھ اور سن کر ایسا لگنے لگا ہے کہ اگر مشرف کو ملک سے جانے نہ دیا جاتا تو بس قیامت آجاتی۔ اُن دلائل کو سن کر ایسے لگتا ہے کہ مشرف کو دبئی چھوڑ کر آنا دراصل ایک قومی فریضہ تھا جسے نوازشریف نے بروقت ادا کیا۔ بس ہمیں کوئی یہ نہیں بتاتا کہ آرٹیکل چھ کا قومی فریضہ کیا تقاضا کرتا ہے؟کہیں یہ دفعہ بھی انصاف کے لاشے کی طرح بدبو نہیں ماررہی۔ اگر ایسا ہے تو ایم کیوایم کے کچرا چننے کی مہم میں اس کی بھی صفائی کروالیں۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...