... loading ...
جوہر آباد تھانے کی وہ ایف آئی آر جو اے ایس آئی منیر نسیم نے درج کی تھی اپنی زبان کی چاشنی، اٹھکیلیوں اور اختصار کی بنیاد پر مرزا ہادی رسوا کے شہرہ آفاق ناول ’’ امراؤ جان ادا ‘‘کا ایک کم معروف پیراگراف لگتی تھی۔
کراچی کا جوہر آباد تھانہ 1988 میں علاقے میں اپنی دھاک رکھتا تھا۔ یہاں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی رہائش گاہ تھی۔ کارکنان بے رحم غیر مہاجر پولیس کے خوف اور احتیاط کے مارے اس مرکز تجلیات کے لیے گفتگو میں نائن زیرو کا کوڈ استعمال کرتے تھے۔ دراصل یہ وہاں زیر استعمال فون نمبر 673690 کے آخری دو ہندسے تھے یعنی 90۔ ورنہ عزیز آباد کے اس 120گز کے اس مقام دلبری کا نمبر تو 494/8 ہے۔
منیر نسیم کی یہ جان اختصار قسم کی ایف۔ آئی۔ آر کچھ یوں تھی:
ـ’’ من کہ منیر نسیم اے ایس آئی ہمراہ سپاہیان امشب پیدل گشت پر تھا کہ بلاک آٹھ میں کمپری ہینسو اسکول سے پانچ سو گز کی دوری پر لکڑی کی ٹال کے عقب میں ایک جوان جوڑے کو باہم برسر بوس و کنار دیکھا۔ ان کی اس حرکت قبیحہ سے من کہ منیر نسیم اے ایس آئی ہمراہ سپاہیان جذبات شدید مشتعل ہوئے۔کمال ہشیاری سے جب ملزمان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو نامعلوم ملزم مرد ہر چند کہ چالاک، پھرتیلا، عیار اور حلیے بشرے سے بظاہر مہاجر لگتا تھا پولیس پارٹی کو چکمہ دے کے فرار ہوگیا، ملزمہ کو ہمراہ گواہان مستند مسمی جہانگیر اور بھورے خان موقع ہی پر زیر دفعہ294ت۔ پ گرفتار کیا۔تفتیش پر اپنا نام فرح دیبا ولد غلام حسین اور قوم پٹھان بتلاتی ہے۔پتہ اور دیگر کوائف بتانے سے سر دست قاصر ہے۔مقدمہ درج کرکے توروز نامچے میں اندراج کردیا گیا افسران بالا سے اجازت ملنے پر مزید تفتیش اور کارروائی میں کوئی تامل نہ ہوگا۔تفتیش من کہ مسمی نسیم خود کروں گا۔۔۔۔دستخط
اس کو کہتے ہیں دریا کو کوزے میں بند کرنا۔
اب اختصار اور کم گوئی یا تو کراچی پولیس کا وصف ہے یا ان صوفیائے کرام کا جنہیں دنیا سے بے لطف ہونے اور اللہ کے ہاں آباد ہونے کے لیے چار طرح کی تقلیل (REDUCTION)اپنے آپ پر لاگو کرنا ہوتی ہے یعنی تقلیل کلام، تقلیل طعام، تقلیل منام (نیند) اور تقلیل من اختلاط العوام (لوگوں سے کم ملنا۔۔سارے فتنے پی۔ آر یعنی منافقت کے ہیں)۔تجاہل عارفانہ اور بے نیازی کا اس اختصار پسندی کے حوالے سے اس سے بہتر کیا اعتراف ہوگا جو کراچی بد امنی کیس میں کراچی پولیس کے سرتاج نے یہ کہہ کر کیا کہ مختصر مدت کا اغوا تو ہمارے علم میں نہیں۔انہیں یہ بھی علم نہ تھا کہ جس شعبے کے ذمے خود اغوا کاروں کا قلع قمع کرنا ہے اس کے درجن بھر افسران خود ہی اغوا کاروں میں شامل ہیں۔
شیکسپیئراختصارکو(BREVITY) ذہانت کی روح قرار دیتا تھا۔ اس کی عدم موجودگی کا شکوہ عدالت عالیہ میں بھی کل سنائی دیا ہمارے چیف جسٹس صاحب جو ہمارے ہی شہر بے مثال حیدرآباد کے ہیں اور ابتدا ہی سے مزاجاً نرم خو بردبار اور کم گو ہیں کل اسپیکر ایاز صادق اور عمران خان کے مقدمے میں جج صاحبان کی بسیارگوئی اور خودنمائی پر شکوہ سنج نظر آئے۔ فرمارہے تھے کہــ’’ برطانوی راج کی پریوی کونسل کے فیصلے بمشکل دس پندرہ صفحات کے ہوتے تھے۔ اب مگر بدقسمتی سے یہ عالم ہوچلا ہے کہ جج صاحبان باہمی مسابقت اور سر تا پا خود نمائی سے مغلوب ہوکرہزار سے ڈیڑھ ہزار صفحات کے فیصلے لکھتے ہیں۔ ـ اللہ کے عطا کردہ قلم کی طاقت کو متعلقہ پیرائے میں مرکوز رکھ کر انصاف دینا ہی اصل روح انصاف ہے‘‘۔
ایسے ہی اختصار کا کچھ مظاہرہ سر چارلس نیپیئر نے سن 1842 میں کیا۔ اسے چند مخصوص سرداروں کی سرکوبی کے لیے مامور کیا گیا تھا۔ مگر اسے تو سندھ میں ایسی موج لگی کہ نہ صرف مکمل سندھ پر سال بھر کے اندر ہی اپنا مکمل تسلط قائم کرلیا بلکہ ہمارے سندھ کے کور کمانڈر صاحب کے لیے نیپیئر بیرکس بھی بنادیں جو بعد میں لیاقت بیرکس کہلائیں جہاں ان کا کور ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہ سندھ میں پہلی عمارت تھی جو انگریزوں نے تعمیر کی۔ اسے جب یہ لگا کہ اس نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے تو جواب میں معافی کے طور پر ایک لفظ کا ٹیلی گرام بھجوادیا یہ لفظ تھا Peccavi۔(لاطینی زبان کا لفظ جس کے معنی ہیں I have sinned مجھ سے گناہ سر زد ہوگیا)۔ یہ دراصل ایک طرح کی شرارت تھی اس کی اصل مراد یہ تھی کہ۔ I have Scind (انگریز ان دنوں سندھ کے انگریز ی میں ہجے ایسے ہی کرتے تھے )یہ دونوں جملے سننے میں یکساں لگتے تھے گو تحریر کے موقع پر ان کے حروف جدا ہوجاتے تھے اس کے اس جملے پر کچھ دنوں پنچ نامی رسالے میں بحث ہوتی رہی لیکن آخر کار ان الفاظ کے ساتھ معافی دے دی گئی کہ اس کی یہ بدمعاشی دراصل بہت ہی اعلی معیار کی بے ہودگی ہے۔
جن دنوں پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ سپریم کورٹ میں لڑرہے تھے۔ وکلا کی محافل میں ان کے دلائل کی طوالت اور جرم کی بحث میں بلاوجہ سیاست کی آمیزش کو ایسے سوپ سے تشبیہ دی جاتی تھی جس میں گھر کی تمام باقی ماندہ سبزیاں اورچکن کے ٹکڑے ملا دیے گئے ہوں۔جب کہ ضرورت ایک جرم سے متعلق مدلل بیان کی تھی گو کہ انصاف اس صورت میں بھی ملنا نا ممکن تھا جنرل ضیا الحق کو معلوم تھا کہ قبر ایک اور مردے دو ہیں۔ کسی شاعر نے ان دنوں اس حوالے سے فرمایا تھا ع
اے لو ہم نے خود کون سا اختصار برت لیا کہ دوسروں کو معتوب ٹہرائیں۔ذرا سا موقع ملا اور باتوں کا چرخا کاتنے لگے۔
انگریز کی ہندوستان میں باقاعدہ حکومت تو سن 1757 میں بنگال میں جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کو شکست دینے کے بعد قائم ہوئی مگر انہوں نے قانون سے چھیڑ چھاڑ ذرا بعد میں کی۔ تھامس بیبنگٹن میکالے یہاں آیا تو اس نے 1835 میں تجویز دی کہ چھٹی جماعت کے بعد ذریعہ تعلیم انگریزی زبان کو بنادیا جائے۔ یہ طریقہ کار ایک ایسا anglicised Indian طبقہ پیدا کردے گا جو سنسکرت اور فارسی سے بے گانہ اورانگریز حکمرانوں کے لیے معاون و مدد گار ثابت ہوگا (فارسی اس وقت تک سرکاری زبان تھی)۔یہی وجہ ہے کہ قومیائے جانے سے پہلے اسکولوں میں چھٹی جماعت کو فرسٹ سٹینڈرڈ اور میٹرک کو فورتھ اسٹینڈرڈ کہتے تھے۔ عدالتوں کی زبان انگریزی کرنے کے ساتھ ہی اس نے سن 1838 میں تعزیرات ہند Indian Penal Code کے نام سے ایک مسودہ قانون بنایا جسے بائیس سال بعد ( 860 1 میں ) برطانوی پارلیمنٹ سے منظور شدہ ضابطہ فوجداری ہند کے ساتھ ساتھ نافذ کردیا گیا۔خیر سے معمولی ترامیم کے بعد یہ دونوں مسودے اس وقت چین کو چھوڑ کر دنیا کی نصف آبادی جس میں ہندوستان، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش شامل ہیں نافذ العمل ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں اسی کے ضابطہ نمبر 154 کے تحت ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔
متحدہ ہندوستان میں ایف آئی آر (جو First Information Report کا مخفف ہے) کے اندراج کا بطور قانون نفاذ دراصل ایک گہری سوچ کا آئینہ تھی۔ انگریز نے فیصلہ کیا کہ اس کے قانون کی خلاف ورزی کی جو پہلی اطلاع ہوگی وہ اس شخص کے سرکار انگلشیہ سے تعاون اور اعتماد کی پہلی دلیل ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی اہتمام کیا کہ چونکہ تھانے کی سطح پر زیادہ تر دیسی، مقامی ملازمین ہوں گے جن کی علمیت، انصاف پسندی اور غیر جانبداری مشکوک ہوتی ہے لہذا وہاں جرم کے حوالے سے تیار کی جانے والے تمام تر دستاویزات کو عدالت میں مستند اور حتمی ثبوت کے طور پر ہرگز تسلیم نہ کیا جائے گا۔ ان کی اپنی کوئی انفرادی سند نہ ہوگی جب تک ہر طرح سے عدالت کو مطمئن نہ کردیا جائے۔ اس کے برعکس اگر برطانیا اور امریکامیں جب ملزم کو پولیس گرفتار کرتی ہے تو اسے خاموش رہنے کا باقاعدہ حق جتلایا جاتا ہے کیوں کہ اس کی پولیس کی حراست میں کہی گئی ہر بات کو بطور ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے اسے وہاں Right of Miranda کہتے ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں شہر دہلی میں پہلی ایف آئی آر 18 اکتوبر 1861 کو کاٹی گئی۔ تھانہ سبزی منڈی کے علاقے میں کوئی ادھیڑ عمر کے معید الدین ولد یار محمد سکنہ کٹرہ (محلہ) شیش محل تھے۔ ان حضرت کا کوئی قلفی، حقہ، قلفی رکھنے کا برتن اور جواں سال بیگم کا کرتی سمیت غرارہ چوری کرگیا تھا۔ان سب کی مالیت کل پونے تین روپے کے قریب بنتی تھی۔ یہ ایف آئی آر ضابطہ فوجداری ہند کی دفعہ 154کے بجائے انڈین پولیس ایکٹ مجریہ1861 کے تحت اردو زبان میں تحریر کی گئی تھی۔ تلاش بسیار کے بعد ملزم گرفتار ہوا تھا۔ تھانہ سبزی منڈی کے مال خانے میں مال مسروقہ سوائے قلفی کے اب بھی محفوظ ہے۔
اللہ اللہ کیا دن تھے، ہمارے تھانے جوہر آباد کا اے ایس آئی منیر نسیم وہاں تعینات ہوتا تو سب سے پہلے تو معید الدین صاحب کے بلا اطلاع اچانک گھر لوٹ آنے پر ان کی لترول کرتا، بیوی کو بھی چند دن تھانے کے چکر لگواتا، جرم کاMotive ازدواجی ناآسودگی اور عمر کی عدم مطابقت ظاہر کرکے ان کی بیگم کے کسی پڑوسی عاشق کو بھلے سے وہ مرد ہر چندچالاک، پھرتیلا، عیار اور حلیے بشرے سے بظاہر مہاجر لگ رہا ہوتا، دھڑلے سے بطور ملزم نامزد کردیتا۔ اسے بلا تامل گرفتار کرکے روز نامچے میں ہیڈ محرر کی اعانت سے اندارج کرکے داخل حوالات کرتا۔ اس سے اب کی بار ہرگز وہ کوتاہی نہ ہوتی جو ملزمہ فرح دیبا کے وقت میں ملزم کے فرار ہوجانے کے وقت ہوئی تھی۔
ہم کچھ احوال اگلی قسط میں بھی لکھیں گے۔ ابھی تو پنجاب کے محاورے میں پرچہ کٹا ہے، اور ہمارے سندھ کے مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو صاحب کے بقول پارٹی شروع ہوئی ہے۔کسی وجہ سے اگر یہ نہ ہوپائے تو آپ دیکھیں گے جس طرح ہمارا روتی رانی قسم کا الیکٹرانک میڈیا ہر سانحے پر بے حسی اور بیوگی کا داغ سجائے سوئم کے بعد سب کچھ بھلاکر نئے موضوعات کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ ہم بھی ایڈیٹر صاحب کے حکم کی تعمیل میں بطور علامہ اقبال آسماں ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک کے مصداق کچھ اور لکھیں گے اور تب تک آپ کی بے نیازی بھی بندہ پرور ایسی ہوجائے گی کہ بقول چچا غالب آپ فرمائیں گے۔۔ـ’’کیا؟‘‘
افغانستان میں ہلاک ہونے والا پاکستان دشمن کالعدم تنظیم کا کمانڈر داؤد محسود 9 سال تک کراچی پولیس میں ملازمت کرتا رہا۔ ذرائع کے مطابق داؤد محسود کا نام ریڈ بک میں بھی شامل ہے ،نامعلوم فائرنگ کے واقعے میں وہ چند روز قبل افغانستان کے صوبہ خوست کے علاقے گلاں کیمپ میں مارا گیا تھا۔ ذر...
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...