وجود

... loading ...

وجود

مصطفیٰ کمال اور ایم کیو ایم

جمعه 11 مارچ 2016 مصطفیٰ کمال اور ایم کیو ایم

mustafa-kamal

کراچی میں سیاسی طوفان آیا ہوا ہے۔ کوئی مانے یہ نہ مانے بڑے بڑے درخت اکھڑنے والے ہیں۔ لچکدار پودے اپنی جگہ بدل کر زندہ رہ سکتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کراچی کی نئی تاریخ لکھ دی جائے۔ 3 مارچ کو مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کے جواب میں ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ اورپوری رابطہ کمیٹی کو ’’شوــ ـــ‘‘ کیا گیا۔ یہ پیغام میڈیا کے لئے تو یقینا نہیں تھا، لیکن پھر7 مارچ کو ایک اور پریس کانفرنس نے ’’آفٹرشاکس‘‘ کا کام کیا۔ سابق صوبائی وزیر صحت اور موجودہ رکن سندھ اسمبلی ڈاکٹر صغیر احمد ’’کمال ‘‘ہاؤس پہنچ گئے اور ’’نامعلوم پارٹی‘‘ میں شامل ہوگئے۔ ٹی وی چینلز کو پھر چار پانچ دن کا ’’چورن‘‘ مل گیا۔ اس بار ایم کیو ایم نے فوری جوابی پریس کانفرنس سے بھی گریز کیا، لندن سے ندیم نصرت اور واسع جلیل نے تین چارٹویٹس کرکے پریس کانفرنس کو پرانے اسکرپٹ کی نئی قسط قرار دے دیا۔ ایم کیو ایم اس کو 1992 کے آپریشن سے تشبیہ دے رہی ہے۔ 1992 کے آپریشن میں ایم کیو ایم کی سیاسی طاقت عالم ِشباب پر تھی۔ بریکنگ نیوز اور ٹکرکا گرم مصالحہ لگانے والا الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا۔ عوام دل ،جان ،کھال فطرے اور چندے کے ساتھ ایم کیو ایم کے شانہ بشانہ تھے۔ ایم کیو ایم کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع نہیں ملا تھا، لوگ پر امید تھے اور اہالیانِ کراچی و حیدرآباد، مہاجروں سمیت ایم کیو ایم کو بھی ’’مظلوم‘‘ سمجھتے تھے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم حقیقی کے آنے کا اسٹائل پنجابی فلموں کے ولن جیسا تھا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھے، ان کے ہاتھ میں کچھ تھا، انہوں نے کئی اہم لوگوں کو’’ قابو‘‘ بھی کرلیا تھا۔ اس وقت ایم کیو ایم پروپیگنڈے کی طاقت کے استعمال سے جیت گئی تھی لیکن آج حالات یکسر مختلف ہیں۔ ایم کیو ایم کیا کرچکی ہے اور کیا کرسکتی ہے؟ عوام دونوں سے واقف ہیں۔ جو نسل ایم کیو ایم کی دیوانی تھی اور جو ’’مظلوموں ‘‘کا ساتھی ہے جیسا نغمہ سن کر تھرکتی تھی ، وہ جوانی کی سرحد عبور کرکے ادھیڑ عمری کی طرف جا رہی ہے۔ آج کی نئی نسل اس طرح کی دیوانی نہیں ہے، اسے تو گٹکا اور مین پوری کھا رہا ہے۔ بے روزگاری حقوق سے محرومی اور غربت کا دلدل انہیں اپنے دامن میں نگل رہا ہے۔

حالات بتا رہے ہیں کہ سلطنتِ ایم کیو ایم پر ایک پلانٹڈ حملہ کیا جا رہا ہے اور کچھ افراد محفوظ مورچوں میں بیٹھ کر پے در پے حملوں کا منصوبہ بنا رہے ہیں

ایم کیو ایم حقیقی کی آمد لاؤ لشکر کے ساتھ تھی، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا، اب تو مصطفی کمال کہہ رہے ہیں کہ وہ توڑنے نہیں جوڑنے آئے ہیں، وہ مقابلے کی پارٹی بنانے نہیں سمجھانے اور صحیح راستہ دکھانے آئے ہیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو جاگنے کا درس دیا۔ اب ایم کیو ایم ان کا مقابلہ کرے یا میدان کھلا چھوڑ دے، یہ ان پر منحصر ہے۔ ان کے پاس مقابلہ کرنے کے لئے بہت سارا مرچ مصالحہ موجود ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کے پاس کونسی لیڈرشپ ہے جو اسے فیس کرسکتی ہے۔ دوسروں کی وکٹیں گرنے کی عینی شاہد ایم کیو ایم کی وکٹیں بھی گرنا شروع ہوگئی ہیں اور اس بار قوت بازو یا ووٹوں کی طاقت کا مقابلہ نہیں بلکہ یہ نفسیات اور اعصاب کی جنگ ہے۔ یہ بتانا ہوگا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ کیونکہ اب تک نہ کسی نے کسی کا پیچھا کیا ہے نہ کسی نے ہوائی فائرنگ کی، نہ کوئی کسی کے گھر پرگیا اور نہ ہی کسی کو دھمکایا گیا۔ دونوں جانب سے اچھے طرز عمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں دلائل کی لڑائی بھی ہو رہی ہے اور شہر قائد ’’شان ‘‘تبھی ہے۔ ایم کیو ایم نے مخالفین کے الزامات کا جواب نہ دینے کی حکمت عملی اپنائی ہے جس پر تبصرہ کرنا فوری طور پر آسان نہیں کیونکہ ایک طرف مخالفین کیل کانٹے سے لیس ہو کرحملہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ’’نرگسیت‘‘ کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔مصطفی کمال نے قائد ایم کیو ایم کی کیٹیگری ’’بھائی‘‘ سے ’’صاحب ‘‘ میں تبدیل کردی لیکن ڈاکٹر فاروق ستار کو وہ اب بھی ’’بھائی‘‘ کہہ رہے ہیں، ان پر کوئی الزام نہیں لگایا، کوئی تنقید نہیں کی۔ مصطفی کمال میڈیا کوبھی چکمہ دینے میں کامیاب رہے، ان کی دوسری پریس کانفرنس سے قبل ذرائع کے حوالے سے مختلف چینلز پر قیاس آرائیاں کی گئیں۔ ایک چینل نے تو حماد صدیقی کی واپسی اور’’ نامعلوم پارٹی‘‘ میں شمولیت کی خبر بھی بریک کردی۔ ایک اور چینل رضا ہارون کی خبریں نشر کرتا رہا، لیکن اسکرین پر ڈاکٹر صغیر’’سرپرائز ‘‘پیکج کے طور پر نمودار ہوئے اور میڈیا کی ’’بریکنگ نیوز‘‘ بری طرح ’’بریک ‘‘ہو گئیں، یعنی مصطفی کمال نے خبر کہیں سے’’لیک‘‘ ہونے نہیں دی۔

کراچی کے سیاسی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ ایم کیو ایم کی جڑیں کراچی میں میلوں تک پھیلی ہوئی ہیں، لیکن اگر تاریخ میں دیکھا جائے تو بعض مرحلوں پر جنگیں فوجی طاقت پر تیر وکمان سے نہیں حکمت عملی سے جیتی گئی ہیں۔ اگر طارق بن زیاد اسپین پر حملے کے موقع پر اپنی کشتیوں کو آگ نہ لگواتے تو جنگ جیتنا مشکل تھا لیکن طارق بن زیاد نے واپسی کے راستے مسدود کرکے جنگ جیتنے کے علاوہ تمام آپشن ختم کردیئے تھے۔ ایم کیو ایم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ’’3 لڑکوں‘‘ کو دندنانے کا موقع دیناہے یا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اترنا ہے۔ سیاست اور لڑائی میں فرار کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ یہ لڑائی گولی اور گالی کی نہیں بلکہ دلیل اور وکیل کی ہے۔ ایم کیو ایم نے کراچی میں اپنی سلطنت بنا رکھی ہے اور اتنی بڑی سلطنت کو بچانے کا دفاع بھی اتنا ہی بڑا ہونا چاہیے۔ اس وقت صورت حال ایسی نہیں کہ چھپ کر دفاع کیا جاسکے، بلکہ کھل کر مقابلہ کرنا چاہئے اور ایم کیو ایم کے پاس ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مصطفی کمال اینڈ کمپنی کا جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں۔ بقول فیض

ہاں، جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجئے
ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے

حالات بتا رہے ہیں کہ سلطنتِ ایم کیو ایم پر ایک پلانٹڈ حملہ کیا جا رہا ہے اور کچھ افراد محفوظ مورچوں میں بیٹھ کر پے در پے حملوں کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ مصطفی کمال کی کوئی خوبی ہو یا نہ ہو لیکن وہ کراچی کا ہیرو ہے۔ انیس قائم خانی ایم کیو ایم کے تنظیمی امور کا ’’چیف انجینئر‘‘ ہے۔ یہ دو افراد بہت اندر تک گھس کر اپنا کام دکھاسکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو ان سے بچاؤ کی فوری ترکیبیں کرنی چاہئیں، اپنے حامیوں کو ان کے الزامات کے سچ یا جھوٹ ہونے کا بتانا چاہئے کیونکہ یہ حملہ ایم کیو ایم پر باہر سے نہیں اندر سے ہوا ہے اور گھر کا بھیدی جس ارادے سے آتا ہے وہ سب کو معلوم ہوتا ہے۔ ہوشیار! بہت سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے اور ایم کیو ایم جیسی تنظیم نے اس سے زیادہ خطرناک صورت حال کا مقابلہ کیا ہے۔ معاملہ صرف دانائی کا ہے، بات صرف ہمت کا مظاہرہ کرنے کی ہے۔ اگر مجھے سچ لکھنے کی اجازت ہو تو میں یہ لکھ سکتاہوں کہ مصطفی کمال کے مقابلے پر جوابی تقریر بھر پور اور طاقتور نہیں تھی۔ مجھے نہیں معلوم اس کی کیا وجہ تھی، لیکن کچھ بھی ہو اس کے نتیجے میں کچھ لوگ کنفیوژ ہو سکتے ہیں۔ ایک تاریخ دان نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’’شاہی مسجد ‘‘کے پاس خالی میدان میں ایک سرخ رنگ کی اینٹ آئی تو کچھ لوگوں نے پوچھا یہ کیا ہے اور کیوں آئی ہے؟ تو مزدوروں کے انچارج نے کہا کہ یہاں قلعہ بن رہا ہے۔ سب نے قہقہہ لگایا، پھر اچانک دو کروڑ اینٹیں آگئیں اور لاہور کا یہ عالی شان قلعہ تن کر کھڑا ہوگیا جو آج تک عظمت کا مینار بنا ہوا ہے۔ اس لئے پہلی اینٹ پہلے قطرے اورپہلے پتھر سے بچو! کراچی میں ایم کیو ایم کے زوال اور تباہی کا دن رات وظیفہ پڑھنے والی دو جماعتیں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف مصطفی کمال کی نموداری سے بہت پریشان ہیں اور اسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے۔ انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ مال غنیمت (ووٹ بینک) سے انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ ان دونوں جماعتوں کا صرف ایک ہی المیہ ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو کفر سمجھتے ہیں اور اسے مٹانے کے درپے ہیں، لیکن وہ مصطفی کمال کا بھی ساتھ نہیں دے سکتے کیونکہ مصطفی کمال کا ساتھ دینے کا مطلب ’’سیاسی ‘‘خودکشی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ قائد ایم کیوایم کی ایک کرشماتی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے 25 سال سے لندن میں بیٹھ کر اپنی پارٹی چلائی، اس پر کنٹرول برقرا ررکھا اور مطلوبہ مقاصد حاصل کرتے رہے۔ ان کی لیڈر شپ مثالی اور وہ کراچی کے بے تاج بادشاہ ہیں، ان پر کئی چھوٹے بڑے حملے بھی ہوئے لیکن اب بھی ان کی گرفت اتنی کمزور نہیں ہوئی کہ کوئی ان سے کراچی کو بآسانی چھین سکے، لیکن انہیں مقابلے کے میدان میں رہنا پڑے گا۔ سوال و جواب کی محفل سجتی ہے تو حملہ آوروں کا کھیل کامیاب ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم کی ناؤ بیچ سمندر میں بغیر خوراک اور پانی کے بھٹک رہی ہے۔ پینے کے لئے بھی سمندری کڑوا پانی ہی میسر ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے

پیتا ہوں تو مر جاتا ہوں
نہیں پیتا تو بھی مر جاتا ہوں


متعلقہ خبریں


متحدہ قومی موومنٹ نے الیکشن کمیشن کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلنج کردیا وجود - بدھ 08 جون 2022

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے الیکشن کمیشن کی قانونی حیثیت کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ بدھ کوسندھ ہائیکورٹ نے ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست پرفریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان، الیکشن کمیشن اور دیگر سے جواب طلب کرلیا۔ جسٹس جنید غفار نے نوٹیفکیشن فوری معط...

متحدہ قومی موومنٹ نے الیکشن کمیشن کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلنج کردیا

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے11 دسمبر کو آل پارٹیز کانفرنس طلب کرلی وجود - جمعرات 02 دسمبر 2021

آج ہم سب یہاں ریاست کے تمام اداروں سے یہ سوال کرنے آئے ہیں کہ کیا سندھ کے شہری علاقوں کو تباہ کرنے کی کوئی قومی اتفاق رائے پائی جاتی ہے کیا مہاجروں کو دیوار سے لگانے کا کوئی ایسا ارادہ ہے کہ جس پے عملدرآمد کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے ای...

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے11 دسمبر کو آل پارٹیز کانفرنس طلب کرلی

ایم کیو ایم اور مائنس پلس کا کھیل؟؟ الیاس شاکر - جمعه 02 ستمبر 2016

ایم کیو ایم کی حالت اِس وقت ایسی ہے جو سونامی کے بعد کسی تباہ شدہ شہر کی ہوتی ہے... نہ نقصان کا تخمینہ ہے نہ ہی تعمیر نو کی لاگت کا کوئی اندازہ ...چاروں طرف ملبہ اور تصاویر بکھری پڑی ہیں۔ ایم کیو ایم میں ابھی تک قرار نہیں آیا... ہلچل نہیں تھمی... اور وہ ٹوٹ ٹوٹ کر ٹوٹ ہی رہی ہے۔ ...

ایم کیو ایم اور مائنس پلس کا کھیل؟؟

فاروق ستار کی دوستانہ بغاوت۔۔۔؟ الیاس شاکر - جمعه 26 اگست 2016

کراچی میں دو دن میں اتنی بڑی تبدیلیاں آگئیں کہ پوراشہر ہی نہیں بلکہ ملک بھی کنفیوژن کا شکار ہوگیا۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگے، میڈیا ہاؤسز پر حملے ہوئے، مار دھاڑ کے مناظر دیکھے گئے، جلاؤ گھیراؤنظر آیا اور بالآخر ایم کیو ایم کے اندر ایک بغاوت شروع ہوگئی۔ فاروق ستار نے بغیر کسی مزاحم...

فاروق ستار کی دوستانہ بغاوت۔۔۔؟

وزیر اعظم صاحب !!کراچی کا کیا قصورہے؟؟ الیاس شاکر - بدھ 24 اگست 2016

وزیراعظم صاحب نے ایک بار پھر یاد دلادیا کہ کراچی لاوارث یتیم لاچاراوربے بس شہر ہے...کراچی کے مختصر ترین دورے کے دوران نواز شریف صاحب نے نہ ایدھی ہاؤس جانے کی زحمت گوارا کی نہ امجد صابری کے لواحقین کودلاسہ دیا۔ جس لٹل ماسٹر حنیف محمد کو پوری دنیا نے سراہا ،نواز شریف ان کے گھر بھی ...

وزیر اعظم صاحب !!کراچی کا کیا قصورہے؟؟

کراچی کی بارش اور سندھ حکومت الیاس شاکر - جمعه 12 اگست 2016

ماضی کا ایک مشہور لطیفہ ہے۔ ایک افغان اور پاکستانی بحث کر رہے تھے۔ پاکستانی نے افغان شہری سے کہا: ’’تم لوگوں ‘‘کے پاس ٹرین نہیں تو ریلوے کی وزارت کیوں رکھی ہوئی ہے؟ افغان نے جواب دیا: ''تم لوگوں کے پاس بھی تو تعلیم نہیں پھر تمہارے ملک میں اس کی وزارت کا کیا کام ہے۔ کراچی اور ح...

کراچی کی بارش اور سندھ حکومت

سندھ تقسیم ہوگیا۔۔۔!! الیاس شاکر - پیر 08 اگست 2016

نئے وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کے تقرر سے سندھ عملی طور پردو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔۔۔۔۔سندھ میں ’’خالص سندھی حکومت‘‘قائم ہوچکی ہے۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء کے لسانی فسادات کے بعد یہ تسلیم کیا تھا کہ سندھ دو لسانی صوبہ ہے اور سندھ میں آئندہ اقتدار کی تقسیم ا...

سندھ تقسیم ہوگیا۔۔۔!!

نئے وزیراعلیٰ کی ضرورت کیوں؟ الیاس شاکر - پیر 01 اگست 2016

سندھ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وزیرداخلہ کو فارغ کردو، اس پر فلاں فلاں الزام ہے۔ الزامات کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ لاڑکانہ میں رینجرز نے وزیر داخلہ کے گھر کے باہر ناکے بھی لگائے، ان کے فرنٹ مین کو قابو بھی کیاگیا، لیکن رینجرزکی کم نفری کا فائدہ اٹھاکر، عوام کی مدد سے، سندھ...

نئے وزیراعلیٰ کی ضرورت کیوں؟

رینجرز کے اختیارات اور شرائط الیاس شاکر - جمعرات 28 جولائی 2016

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید شاہ نے ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین بیان دیا کہ سندھ میں امن پولیس نے قائم کیا ہے اور باقی کسی ادارے کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رینجرز کو اختیارات ضرور دیں گے مگر قانون اور قواعد کی پابندی کرتے ہوئے، انہوں نے رینجرز ...

رینجرز کے اختیارات اور شرائط

متحدہ قومی موومنٹ نے وسیم اختر سے منسوب سانحہ 12 مئی کی تردید کردی! وجود - بدھ 27 جولائی 2016

متحدہ قومی موومنٹ نے سانحہ 12 مئی 2007 سے متعلق مقدمات کی سماعت کے دوران پولیس رپورٹ میں زیر حراست نامزد میئر کراچی وسیم اختر سے منسوب بیان کی تردید کردی ہے۔ گزشتہ روز کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پولیس نے 12 مئی سے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ شہر م...

متحدہ قومی موومنٹ نے وسیم اختر سے منسوب سانحہ 12 مئی کی تردید کردی!

کراچی آپریشن اوراسلام آباد کی حکمت عملی!! الیاس شاکر - پیر 18 جولائی 2016

عید گزر گئی ۔۔۔۔۔کہا جارہا تھا کہ ’’کراچی آپریشن‘‘کی رفتار ’’بلٹ ٹرین‘‘کی طرح تیز ہوجائے گی ۔۔۔۔۔دہشت گردوں کا گھر تک پیچھا کرکے انہیں نیست و نابود کردیا جائے گا لیکن ایسا ’’گرجدارآپریشن ‘‘فی الحال ہوتا نظر نہیں آرہا۔۔۔۔۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ وفاق میں ’’سیاسی آپریشن‘‘ہوگا۔۔۔۔۔ ا...

کراچی آپریشن اوراسلام آباد کی حکمت عملی!!

غریبوں کا جرنیل....ایدھی!! الیاس شاکر - بدھ 13 جولائی 2016

عبدالستارایدھی کی وفات نے کراچی میں خوف کی فضا طاری کردی ۔ غم کے بادل چھا گئے ہیں ۔پورا شہر ہکا بکا ہے کہ اس شخص کا سوگ کیسے منائیں جو اپنا نہیں تھا لیکن اپنوں سے بڑھ کر تھا ۔ اس کی موجودگی سے ایک آسرا تھا، ایک امید بندھی ہوئی تھی۔عبدالستار ایدھی ایک شخص کا نام نہیں، کراچی میں اس...

غریبوں کا جرنیل....ایدھی!!

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر