... loading ...
خود منصفی ایک ایسا سماجی رویہ ہے جو مخصوص حالات میں صرف قوانین توہین رسالتﷺ کے ساتھ ہی منسلک نہیں بلکہ ہر ایسے آئین و قانون کے ساتھ برتا جاتا ہے جو انسان کے جذبات اور فوائد سے منسلک ہو، ایک ایسا ملک جہاں ہر چوری کرنے والے کو چھوڑ دیا جائے وہاں نہ صرف چوریوں کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں بلکہ کوئی چور پکڑا جائے تو یہ روایت پنپنا شروع کردیتی ہے کہ پکڑنے والے خود ہی اس کو سزا دیتے ہیں، مارتے پیٹتے ہیں اور کسی حویلی میں لمبے عرصے تک بھوکا باندھ دیتے ہیں۔ بے انصافی میں پننے والے اس سماجی رویے کو ہم ‘لاقانونیت’ کہہ سکتے ہیں، بے انصافی اور ظلم قرار دے سکتے ہیں لیکن اس کی افزائش کو صرف ایک صورت ہی روکا جا سکتا ہے کہ عدالتیں خالص ترین عدل کی مثالیں پیش کریں تاکہ ان پر اعتماد پیدا ہو اور لوگ خود منصف بن کر خود ہی جلاد نہ بن سکیں۔
اگرچہ یہ سماجی رویہ قابل تعریف ہے اور نہ مہذب معاشروں کی پہچان، لیکن عین فطری رویہ ہے جب معاملہ توہین رسالتﷺ کے قوانین کا آتا ہے اس سماجی رویے کے ساتھ اشتعال انگیزی کا عنصر بھی چپک جاتا ہے جس کے نتیجے میں جنم لینے والے تمام جرائم کے ساتھ دنیا کی تمام عدالتیں مختلف معیار قائم کرتی ہیں۔ برطانوی عدالت کا یہ کیس تو معروف ہے کہ وہاں ایک ٹریفک وارڈن نے جب ایک شہری کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روک لیا تو دونوں میں تو تکرار شروع ہو گئی اور شہری نے غصے میں ٹریفک وارڈن پر حملہ کر کے اسے زخمی کردیا، عدالت نے دونوں طرف کے دلائل سنے، زخمی ٹریفک وارڈن کے ہسپتال چالان کو دیکھا اور پھر شہری کو باعزت بری کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے ٹریفک وارڈن پر جرمانہ عائد کردیا اور جواز یہ پیش کیا کہ ٹریفک وارڈن نے شہری کو مشتعل کیا جس کے نتیجے میں ہی وہ اس پر حملہ آور ہوا۔
خود پاکستان میں ایسے کئی کیسز ہیں جیسے ایک عورت نے اپنے داماد کو کسی بات پر سرزنش کی تو داماد نے اسے اپنی توہین سمجھا اور اس توہین کا بدلہ لینے کے لیے بازار گیا اور چھری لا کر ساس کو قتل کر دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس داماد پر قصاص ڈالنے کے بجائے عمر قید کی سزا سنائی، ایک اور مقدمہ جس میں ایک شخص نے ایک صاحب کو صرف اس بنیاد پر قتل کردیا کہ مقتول نے پشتو زبان میں کچھ ایسا کہا تھا جسے وہ سمجھ نہیں سکتا تھا لیکن اسے محسوس ہوا کہ اسے بُرا بھلا اور گالم گلوچ دی گئی ہے۔ عدالت نے سزائے موت کے بجائے سزائے قید سنائی کہ مقتول نے ایسی بات کہی ہو گی جس سے اسے اشتعال آیا۔
برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کے مسلمان عشق رسولﷺ کی ایک خاص ترکیب رکھتے ہیں۔ علم وعمل سے بیگانہ، گناہوں اور بُرائیوں میں لت پت اور سرورِ دنیا میں مخمور ہوں گے لیکن محبتِ رسولﷺ کے اظہار اور شان رسالت مآبﷺ میں ہر عمل سے گزر جائیں گے۔ اگرچہ ایک جمہوری ریاست کا یہ فرض ہے کہ وہ عوام کے ان جذبات کی ترجمانی کرے اور انہیں قانونی تحفظ فراہم کرے جو دنیا کی تمام جمہورتیں کرتی ہیں، عوام کی اچھی ہی نہیں بُری خصلتوں اور جذبات کی بھی عملی طور محافظ بنتی ہیں۔ شراب پر امریکہ میں کئی بار پابندی عائد کی گئی لیکن عوام کے زورِ پیاس کے آگے ریاست نہ ٹھیر سکی، اور شراب کو ثابت شدہ بُرے اثرات کے باوجود آزادی دے دی، یہ جانتے ہوئے کہ منفی شرحِ پیدائش کا مسئلہ پورے یورپ کو بوڑھا کرنے والا ہے ہم جنس پرستی کو پنپنے کی قانونی آزادی مہیا کردی۔ لیکن پاکستانی ریاست نے قانون توہین رسالتﷺ پر ہمیشہ بے عملی کا مظاہرہ کیا، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ توہین رسالتﷺ کے کل 1274 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ جن میں سے کسی ایک کو بھی پھانسی تک نہ پہنچایا جا سکا بلکہ ان کیسز پر مختلف اطراف سے دباؤ ڈالا گیا اور مختلف طریقوں سے کیسز کی نوعیت بدلنے کے لیے توڑا مروڑا گیا۔ اس عدالتی بانجھ پن نے ممتاز قادری جیسے سپوت پیدا کر دیے جنہوں نے اس گہرے سماجی رویے کو ثابت کیا کہ جب کسی معاشرے میں انصاف عدالتوں میں نہیں ہوا کرے گا بلکہ خود اقتدار پر بیٹھے لوگ قانون کو توڑنا شروع کر دیں گے تو پھر یہ جذبات قانونی دائرے سے خود بخود نکل جائیں گے۔ ان 1274 کیسز میں سے 51 کیسز کو ماروائے عدالت خود منصفی کے تحت نبٹا دیا گیا۔
سلمان تاثیر قتل کیس بھی یہی پس منظر رکھتا ہے، میں، آپ یا کوئی تیسرا شخص حتیٰ کہ خود قاتل بھی یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا کہ سلمان تاثیر نے گستاخی رسولﷺ کی اور اگر کسی طرح ثابت بھی ہو جائے تو یہ حق ممتاز قادری سمیت کسی شخص کو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اس کے ساتھ انصاف کرتا پھرے، البتہ سلمان تاثیر کے طرز گفتگو نے ایک بڑی تعداد میں لوگوں کے اندر اشتعال پیدا کیا، ممتاز قادری نے اسی اشتعال میں آ کر اسے قتل کردیا۔ قتل کا پہلا محرک چونکہ مقتول تھا اس لیے کیس کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے اور عدالتی تاریخ کے حوالے سے انہیں کسی طرح بھی پھانسی کی سزا نہیں دی جا سکتی تھی۔ لیکن عالمی دباؤ اور این جی اوز کی حکم پر انہیں تمام یقینی عدالتی رعایتوں سے محروم کردیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے دھرنے کی موجودہ صورتِ حال پر ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایک گھنٹے میں دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک سے دھرنا ختم نہ ہوا تو کل دن کی روشنی میں سب کے سامنے آپریشن کیا جائ...
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پنجاب پولیس کے سابق کمانڈو ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئےمظاہرین نے وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون ایریا ڈی چوک میں دھرنا دے رکھا ہے۔اتوار کی شام سے شروع ہونے والا یہ احتجاج تاحال جاری ہے، تاہم دھرنے میں شریک افراد کی تعد...
یہ کہانی اسلام آباد کے میلوڈی پارک سے شروع نہیں ہوتی۔ یہ لاہور کی زنانہ جیل کے ڈیتھ سیل سے بھی شروع نہیں ہوتی البتہ اس جیل کا صدر دروازہ وہ مقام ضرور ہے جہاں سے کہانی میں’’ ٹوئسٹ‘‘ آیا۔ کہانی شروع ہو تی ہے لاہور سے 30میل دور پنجاب کے ضلع شیخو پورہ کے نواحی علاقے’’اِتا...
نوازشریف حکومت نے ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد اب مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کو پاکستان کے دورے کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں ایک دو رکنی وفد پوپ کو دعوت دینے کے لئے ویٹی کن روانہ ہو چکا ہے۔ پوپ کو دعوت دینے کے لئے روانہ ہون...
ممتاز قادری کی پھانسی کا معاملہ ہر گزرتے لمحے ردِعمل کی نئی لہروں کو اُٹھانے کا موجب بن رہا ہے۔ اور اس نے پاکستان کے سیاسی، صحافتی اور معاشرتی رویوں کی ایک حیرت انگیز تصویر کو اجاگر کر دیا ہے۔ ممتاز قادری کی پھانسی جائز تھی یا نہیں؟ اس سوال سے قطع نظر ممتاز قادری کی پھانسی کا وقت...
کراچی میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو ممتاز قادری کی پھانسی پر احتجاج کرنے والوں نے مختلف طریقوں سے اپنے جذبات پہنچانے کی کوشش کی۔ یہ پوری گفتگو سوچنے کے بہت سے زاویئے پیدا کرتی ہے۔ پاکستان کے" ذہین "وزیراطلاعات نے اس موقع پر یہ حیرت انگیز نکتہ تراشا کہ جب ممتاز قادری کی منز...
سابق گورنر پنجاب اور پیپلز پارٹی کے رہنما سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو علی الصبح راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ اڈیالہ جیل میں پھانسی سے قبل ممتاز قادری کی اس کے اہلخانہ سے آخری ملاقات بھی کروائی گئی جبکہ پھانسی کے بعد میت ورثا کے حوالے کردی گئی ہے۔ ذرائع کے م...
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری اپنی ہمشیرہ بختاور بھٹو زرداری کے ہمراہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور پہنچ گئے ہیں ۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ایک ہفتہ کے قیام کے دوران پیپلز پارٹی کی بحالی کے جاری عمل کو تقویت پہنچانے میں اپنا کردار ادا ک...