... loading ...
خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ نے گرہ کشائی کی: کسی آدمی پر بھروسا نہ کرو، جب تک کہ اُسے طمع کی حالت میں آزما نہ لو۔ ‘‘ رہنما کے لیے معیار اور بھی کڑے رکھے گئے۔ اُن کے باب میں کسی رعایت کا دروازہ تو کجا کھڑکی تک کھلی نہ چھوڑی گئی۔ مگر پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں تمام رعایتیں صرف رہنماوؤں کے لئے ہیں۔ جدید جمہوریت کو سرمائے کے گاڑے سے تیار کیا گیا ہے۔پھر بھی ، پھر بھی یہ اہتمام کیا گیا کہ اُس کے رہنما کاروباری اور تاجر نہ ہو۔ تصورات کی حد تک افلاطون کے فقرے جمہوریت کی چار دیواری کے مرکزی دروزاے پر ٹنگے رہتے ہیں۔
’’ جب کوئی دولت کا پجاری، حکمران بن بیٹھے یا جب فوجی، فوج کی مددسے فوجی آمریت قائم کرلے،
تو ان کا نتیجہ بربادی وتباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ تاجر کا ہنر معیشت میں ہے اور فوجی کا میدان جنگ میں۔
جہاں بانی سے دونوں ناآشنا ہیں۔‘‘
مغربی جمہوریت مگر اپنے تمام تصورات میں ناقص ثابت ہو چکی۔اس کے باوجود وہ عوام کی اُمیدوں کا تاحال مرکز ہے۔ اس لئے نہیں کہ واقعتا ایسا ہے ، بلکہ اس لئے کہ کارپوریٹ سرمایہ داروں نے دنیابھر کے عوامی رجحانات کو تشکیل دینے کی طاقت ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔ سرمایہ کی دُھن پر سامراجیت رقص کرتی ہے۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے اقتدار تاج برطانیہ کو منتقل ہوا تھا۔ کچھ چہرے اور طور طریقے ضرور تبدیل ہوئے ،مگر آج کا ماجرا بھی یہی ہے۔ اب سامراجیت مقامی چہرے اور نمائندے تلاش کرتی ہے، تاکہ سرمایے کی منڈیوں میں بیرونی آقاؤں سے نجات کے دلکش نعرے فروغ نہ پاسکے۔
مغربی جمہوریت نے سرمائے کی اُنگلی پکڑ کر قدم اُٹھائے ہیں۔ بہت سی مثالیں ہیں مگر جے ڈی راک فیلر کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہ دنیا کا پہلا امیر ترین آدمی تھا جو غلامی کے خاتمے پر یقین رکھتا تھا، ابراہم لنکن کا پیرو کارتھا۔ اُسے شراب اور تمباکو سے بھی مکمل پرہیز تھا۔ مگر وہ کون تھا؟کارپوریٹ فلاح وبہبود کے اداروں کے آنگن میں کارپوریشن اپنی بہیمت کا ناچ شروع کرتی ہے۔ راک فیلر اسی کی مثال ہے۔ جو اسٹینڈرڈ آئل کمپنی کا مالک تھا۔ تمام فلاح وبہبود کے ادارے تب اُسی کے ماتحت کام کرتے تھے۔ 1914ء کے آس پاس جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو یہ سوال اُٹھے تھے کہ اگر کمپنی کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ وہ لوگوں کے فلاح وبہبود پر بے دریغ پیسے لٹا رہی ہے تو پھر وہ اپنے مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ کیوں نہیں کرتی؟ فلاح وبہبود کی آڑ میں کارپوریشن کے پھیلاؤ نے کیا نتائج مرتب کیے ، اگلے کچھ ہی برسوں میں سب کچھ کھل کر سامنے آگیا۔ امریکی سرمایہ داروں نے جمہوریت ، فلاح وبہبود اور انسانیت کے خوشنما نعروں کی آڑ لے کر خام مال اور منڈیوں کی تلاش اپنے ملک سے باہر شروع کی۔ یہیں سے عالمی کارپوریٹ حکمرانی کی داغ بیل پڑنا شروع ہوئی۔ یہ کوئی الل ٹپ اقدام نہیں تھا جو راک فیلر کارنیگی فاؤنڈیشن نے 1924ء میں ’’خارجہ پالیسی کونسل‘‘ تشکیل دے کر اُٹھایاتھا۔ امریکی سی آئی اے کی بنیاد 1947ء میں پڑی تھی، جس نے اپنے کام کا آغاز اسی ’’خارجہ پالیسی کونسل‘‘ کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ اسی کونسل کے پانچ ارکان نے اقوام متحدہ کے تصور کو جنم دیا تھا۔ آج اقوام متحدہ کا صدر دفتر نیویارک کی جس زمین کے ٹکڑے پر ہے ، اُسے کسی اور کے نہیں، راک فیلر کے ساڑھے آٹھ ملین ڈالر کی امداد سے خریدا گیا تھا۔
بھارت کی باضمیر دانشور ارون دھتی رائے ہمیں اس کارپوریٹ جمہوریت کے سجے بازار کی سیر کراتے ہوئے ورلڈ بینک لے جاتی ہے اور متوجہ کرتی ہے کہ آخر کیوں ورلڈ بینک کے جتنے صدور مقرر ہوئے وہ سب کے سب امریکی خارجہ کونسل کے ممبران تھے۔ اس ضمن میں واحد استثنیٰ جارج ووڈز کا رہا جو راک فیلر فاؤنڈیشن کا ٹرسٹی تھا۔ کیا یہ سب حقائق کسی سازشی نظریئے کی پیداوار ہیں ؟ جمہوریت پر نیا نیا ایمان پیدا کرنے والے اُن دانشوروں کو اُن کے حال پر چھوڑیئے جو کبھی بائیں بازو کے نظریات سے ہمارا دل بہلایا کرتے تھے اور آج کل سرمایئے کی گود میں جمہوریت کے ایک ایسے بخار میں قوم کو مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں جس میں سرمائے کی بارش اُن کے آنگنوں کو بھی گیلا کرتی ہو۔ وہ اب تاریخی حقیقتوں کو سازشی نظریات کی تعبیر دے کر تاریکیوں کی تحویل میں دینا چاہتے ہیں۔اور کارپوریٹ جمہوریت کو سیاسی مذہب کا عقیدہ بنانے پر تُلے ہیں۔ مگر اسی جمہوریت کی معراج میں مسکرانے والی کارپوریشن اور فاونڈیشن میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ فلاح وبہبود کی فاونڈیشن دراصل کاروبار کی کارپوریشن کو ہی فروغ دینے کے لئے تشکیل دی جاتی ہے۔ اور استحصال کا ایک زبردست ہتھکنڈہ ثابت ہوتی ہے۔ پبلک اسکولز ، دارالمطالعے اور صحت کے منصوبے جن فاونڈیشن کے نظر آنا شروع ہوتے ہیں تو کارپوریشن کے بہت سے جھمیلے نظروں سے اوجھل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ لوگ فاونڈیشن کی فیاضی یاد رکھتے ہیں اور کارپوریشن کا استحصال بھول جاتے ہیں۔ اب پاکستان میں اسی کارپوریٹ جمہوریت نے ڈیڑے ڈال لیے ہیں جو ایک ایک کرکے معاشی اداروں کو ہڑپ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ریاستی قوت اپنے اثر انداز ہونے کی صلاحیت کھودے۔ پی آئی اے ہی نہیں نیشنل بینک پر بھی دانت تیز کیے جارہے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف اس معاملے میں ہال روڈ کے اُس دُکاندار کی سطح سے نہیں اُٹھ سکے جو اپنے دن رات کی تمام سرگرمیوں کو نفع اور نقصان کے ترازو میں تولتا ہے۔ اب ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہا۔
پاکستان میں جمہوریت ایک ایسے راستے کی مسافر ہے جس نے فوجی اقتدار کا راستہ روکنے کے لئے ریاست کی طاقت کو کم سے کم سطح پر لے جانے اور اِسے کارپوریٹ دنیا کی تحویل میں دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر آپ درست تجزیہ کرنے کے لئے اپنے تعصبات کو ایک طرف رکھ دیں تو نظر آئے گا کہ پاکستان میں اصل طاقت فوجی سربراہ کے پاس نہیں میاں منشا یا اُن ایسے لوگوں کے پاس رہے گی۔ کیا آپ نے ملک ریاض پر غور نہیں کیا جو نامعلوم کتنے جرنیلوں کو ملازمتیں دے کر سنبھالے رکھتا ہے۔ کارپوریٹ دنیا طاقت اور رسوخ کے ہی مدار پر گھوم رہی ہے۔ بس اِسے ذرا زیادہ کھولنے کھنگالنے پر دیکھا جاسکتاہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے لئے یہی دنیا سازگار ہے چنانچہ وہ ملکوں کی معیشت کو اُس حال پر پہنچاتے ہیں جس میں معاشی ادارے ریاستی تحویل سے نکل کر کارپوریٹ دنیا کے ہاتھ میں چلے جائیں۔ ایسے کھیل تب ہی کامیاب ہوتے ہیں جب کسی ملک کا سیاسی اقتدار زرداریوں یا شریفوں کے ہاتھوں میں چلاجائے۔خواجہ سعد رفیق کا ارشاد ہے کہ پیپلز پارٹی کی یہ بدقسمتی ہے کہ اُسے زرداری جیسی قیادت ملی۔ ماشاء اﷲ مسلم لیگ نون نے نوازشریف کی صورت میں اپنی ’’خوش قسمتی‘‘ پالی ہوئی ہے۔ ذرا غور کیجئے یہ ایک ہی سکے کے دورخ ہیں، ان میں واحد فرق بس طریقہ واردات کا ہے۔ اگرجدید جمہوریت سیاسی نظریئے کا عقیدہ ہی ٹہرا تو پھر اس جعلی جمہوریت کی جھوٹی تقدیس بھی زرداریوں اور شریفوں کے باعث خطرے میں رہے گی۔ اس جمہوریت کا تحفظ ان کا بوجھ اُٹھا کر ممکن نہیں۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...