... loading ...
مسعود انور نے یہ تحریر شرمین عبید چنائے کو پہلی مرتبہ آسکر ایوارڈ ملنے پر لکھی تھی ۔ جو آج بھی تازہ ہے۔ وجود ڈاٹ کام کے قارئین کے لئے اسے دوبارہ پیش کیاجا رہا ہے ۔ تاکہ شرمیین عبید چنائے کے گرد پیدا کیا جانے والا ماحول اور کارپوریٹ میڈئا کے کھیل کو سمجھا جا سکے۔
شرمین عبید چنائے کی بنائی گئی دستاویزی فلم save the face کو آسکر ایوارڈ برائے 2012کا حقدار قرار دے دیا گیا۔ اس طرح وہ پہلی پاکستانی قرار پائیں جن کو اس ایوارڈ کا حقدار قرار دیا گیا۔ آج تک کسی بھی پاکستانی فلمکار یا اداکار یا اس شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کو اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ اس کو اس ایوارڈ کا فاتح قرار دینا تو درکنار، اس میں یا اسی قبیل کے کسی بھی ایوارڈ میں نامزد کیا جاتا۔
شرمین کی اس کامیابی کو پورے پاکستان کی کامیابی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اب پاکستان کا ٹیلنٹ دنیا کے سامنے آگیا ہے اور وہ پڑوسی ملک بھارت کی ہمسری اس شعبے میں بھی کرسکتا ہے۔ ایوارڈ جیتنے کے اعلان کے ساتھ ہی جناب وزیراعظم پاکستان نے بھی شرمین کو پاکستان کا اعلیٰ ترین سول اعزاز دینے کا اعلان کیا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کے فلم کاری کے شعبے سے تعلق رکھنے والے حضرات نے بھی اس کو پاکستان کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے اور اس اسٹوری کو پاکستانی الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا نے خاصی جگہ دی ہے بلکہ آئندہ کئی دنوں تک اس پر سائیڈ اسٹوریز آتی رہیں گی۔
شرمین کی یہ کامیابی، ریڈ کارپٹ پر استقبال اور میڈیا کوریج، کسی بھی شخص کو رشک و حسد میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے۔ آسکر ایوارڈ کی فاتح قرار دینے کے ساتھ ہی شرمین اب ایک icon بن گئی ہیں۔ ان کو صحافی و فلمکار کا مشترکہ ٹائٹل تو پہلے سے ہی حاصل تھا اب وہ دانشوروں کے کیڈر میں بھی شامل ہوجائیں گی۔
شرمین کی یہ دستاویزی فلم save the face نہ تو ان کی پہلی فلم ہے اور نہ ہی آسکر ایوارڈ ان کی پہلی کامیابی ہے۔ شرمین اس سے قبل 14 دستاویزی فلمیں پروڈیوس کرچکی ہیں۔ ان کی یہ فلمیں امریکا و برطانیہ کے بااثر ترین اور مقبول ترین ٹی وی چینلChannel 4, , CNN, PBS,HBO اور الجزیرہ پر چل چکی ہیں۔ ان کی مشہور ترین فلموں میں,Children of the Taliban Lost Generation اور Unveiled Afghanistan شامل ہیں۔ اس سے قبل وہ گریمی ایوارڈ سمیت دیگر کئی ایوارڈ بھی جیت چکی ہیں۔
1978 میں کراچی میں پیدا ہونے والی شرمین چنوئے نے اے لیول کراچی گرامر اسکول سے کیا اور پھر گریجویشن اسمتھ کالج سے کیا جبکہ پوسٹ گریجویشن اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے کیا۔ اس کے بعد سے ہی 2002 میں وہ نیویارک ٹائمز ٹیلی وژن سے منسلک ہوگئیں۔ اور اس کے بعد تمام سنگ میل ان کی راہ کی خاک قرار پائے اور وہ چینل فور، بی بی سی، الجزیرہ اور سی این این سمیت تمام بڑے بڑے میڈیا گروپوں کی منظور نظر قرار پائیں۔آخر پاکستانی نژاد کنیڈین شہریت کی حامل شرمین میں ایسا کیا تھا کہ ان چینلز نے نہ صرف شرمین کی تربیت کی، ان کو تیکنیکی معاونت فراہم کی اور سب سے بڑھ کر کہ ان کو بلا روک ٹوک فنڈز فراہم کئے۔ان کو آگے بڑھانے کے لئے تمام تر وسائل کا استعمال کیا گیا اور پھر ان کو ایوارڈز بھی دئے گئے۔
یہ سب سے اہم سوال ہے جس کا جواب ساری گتھی کو سلجھا دیتا ہے۔ آئیے شرمین کی پہلی دستاویزی فلم کا جائزہ لیتے ہیں جو اس کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ثابت ہوا۔ شرمین نے 2002 میں نیویارک ٹیلی وڑن کے لئے اپنی پہلی دستاویزی فلمChildren Terror’s پروڈیوس کی۔ اس فلم کے نام کا اردو ترجمہ دہشت کے بچے بنتا ہے اور یہ افغان مہاجر بچوں کے بارے میں تھی۔ اس فلم کے بنتے ہی شرمین پر انعامات کی بارش کردی گئی اور اس کو اوورسیز پریس کلب ایوارڈ، دی امریکن وومین ان ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن ایوارڈ اور ساؤتھ ایشین جرنلسٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔
شرمین نے نیویارک ٹائمز ٹیلی وژن کے لئے چار مزید دستاویزی فلمیں تیار کیں۔ اس میں Taliban Reinventing the یعنی طالبان کی ازسرنو پیداوار کو زبردست پزیرائی ملی۔ اس فلم کو 2003 میں کینیڈا میں ہونے والے BANFF ٹی وی فیسٹیول میں خصوصی ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی دی امریکن وومین ان ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن ایوارڈ، سائنے گولڈن ایگل ایوارڈ اور لونگ اسٹون بھی دیا گیا۔ 2005 میں شرمین نے سعودی عرب میں خواتین کی حالت زار پر ایک اور دستاویزی فلم تیار کی۔ جس کا عنوان تھا Women of the Holy Kingdom ۔ دیگر فلموں کی طرح شرمین کی اس فلم کو بھی زبردست پذیرائی دی گئی اور اسی طرح انعامات کی بارش کردی گئی۔
شرمین کی دیگر تمام فلمیں بھی اسی نوعیت ہی کی ہیں۔ ان تمام فلموں کے عنوانات دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ایک مخصوص طرز فکر کے تحت تیار کی گئیں اور کرائی گئیں۔ ان فلموں کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پروپیگنڈہ وار کتنی آگے بڑھ چکی ہے۔
یہاں پر ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان تمام فلموں کی تیاری کے لئے ایک پاکستانی خاتون ہی کو کیوں چنا گیا، کوئی گورا کیوں نہیں؟ جناب اگر یہی کام اگر ایک گورا کرتا تو اسے یہ پبلسٹی اسٹننٹ نہیں ملتا۔ گورا پہلے ہی تنقید کی زد میں آجاتا اور اس کو تعصب پر مبنی قرار دیا جاتا۔ شرمین نے کوئی نیا کام نہیں کیا۔ یہ سب مغربی پریس روزانہ چھاپتا بھی ہے اور دکھاتا بھی ہے۔ ان کے مقامی نمائندے ان کی فرمائش پر اس طرح کی فوٹیج روزانہ اہتمام سے تیار کرکے بھجواتے ہیں جو روزانہ پوری دنیا میں نشر ہوتی ہے مگر اس کا وہ اثر نہیں آتا۔
اس کو ایک مثال سے سمجھیں۔ مغرب کی عورت الف ننگی روزانہ سڑک پر گھومتی نظر آتی ہے۔ اس کی ہر زاویہ سے تصاویر بھی ان کے میگزین میں نظر آتی ہیں۔ ابھی زیادہ پہلے کی بات نہیں ہے۔ فرانس کی موجودہ خاتون اول کارلا برونی کی برہنہ تصاویر میگزین کی زینت بنیں۔ مگر وینا ملک کو نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی زبردست جگہ دی۔ اس کی وجہ صرف اور صرف وینا کا پاکستانی ہونا تھا۔ وینا نے کارلا سے زیادہ تو برہنگی نہیں دکھائی تھی اور نہ ہی وینا کا کارلا سے بڑا اسٹیٹس ہے۔
یہ پاکستانی و بین الاقوامی میڈیا انہی لوگوں کے زیر اثر ہے جو دنیا پر ایک عالمگیر حکومت کے خواہاں ہیں۔ یہی لوگ پہلے شرمین جیسے لوگوں کو تیار کرتے ہیں، ان سے اپنے مطلب کی فلمیں تیار کراتے ہیں اور پھر اس کو ایوارڈ سے نوازتے ہیں اور پھر اس کو بھرپور میڈیا پبلسٹی کے ذریعے ایک بت کی صورت تراشتے ہیں۔اور جی ہاں پھر یہ بت ان کے وہ کام کرتے ہیں جو بڑے بڑے لیڈر بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ان کا نوجوان نسل پر وہ اثر ہوتا ہے جو ان کے والدین کا بھی نہیں ہوتا۔ یہ نئی نسل کے آئیڈیل قرار پاتے ہیں اور پھر ان عالمی ساہوکاروں کا فرستادہ بننا ایک خواب قرار پاتا ہے اور اس کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے۔ اسے مختصر ترین الفاظ میں دام ہم رنگ زمیں کہا جاسکتا ہے۔
(اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔)