... loading ...
گزشتہ دو برسوں سے اس بات کا خاصا شور رہا ہے کہ امریکا افغانستان سے بھاگ رہا ہے یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے لیکن مکمل طور پر نہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان اور مشرق وسطی کے موجودہ شورش زدہ حالات کا ایک دوسرے کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ اس تعلق کی بنا پر عالمی صیہونی قوتیں کسی طور بھی امریکا کو افغانستان چھوڑنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ چاہے اس سلسلے میں امریکا کا کتنا ہی جانی ومالی نقصان کیوں نہ ہو۔ اسی تناظر میں افغانستان میں امریکاکا قیام مزید بڑھانے کے لئے وہاں قیام امن کی کوششیں بھی عارضی ثابت ہوں گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان کو شکست دینے میں امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی ناکام رہے ہیں۔ امریکی اس بات سے بھی واقف ہیں کہ امریکا کے نکل جانے کے بعد قیادت اور طاقت کا خلا صرف افغان طالبان ہی پورا کرسکیں گے۔ کرزئی اور اشرف غنی قسم کی شخصیات اگلی پرواز سے ہی کابل کو خیر باد کہہ جائیں گی۔
مشرق وسطی کی جانب آنے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ افغانستان میں امریکا کے طویل قیام کے مقاصد کیا ہوسکتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر امریکا اپنی شکست جس کا وہ سامنا کرچکا ہے تسلیم کرکے افغانستان چھوڑ دے تو اس خطے کے بعد اس کے اثرات سب سے زیادہ مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال پر پڑیں گے۔ امریکا اور اسرائیل کا خطے میں سب سے بڑا اتحادی بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی گرفت کمزور کردے گا۔ دوسری جانب پاکستان کو مغربی سرحدوں پر ریلز مل جائے گا کیونکہ افغانستان کے اندر موجود پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں کو پناہ نہیں مل سکے گی جبکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پاک فوج انہیں قدم نہیں جمانے دے گی۔ یوں قبائلی علاقوں سے لیکر بلوچستان تک مکمل امن وامان کی صورتحال پیدا ہوجائے گی تو دوسری جانب پاک چین اقتصادی راہداری اور گوادر منصوبے مکمل طور پر فعال ہوکر ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے لگیں گے جو یقینا بھارت اور امریکا کو منظور نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک جانب چین مشرقی افریقہ میں جبوتی کے مقام پر اپنا پہلا عسکری بحری اڈہ قائم کرچکا ہے۔ اس طرح وہ باب مندب کے حساس ترین عالمی علاقے کے سر پر بیٹھ گیا ہے تو دوسری جانب بحیرہ عرب میں گوادر کے مقام پر چین خلیج کی دوسری سمت تک رسائی حاصل کرلے گا۔ یوں بحر الکاہل سے لیکر کر بحیرہ ہند اور بحیرہ عرب تک بھارت کی بحری تجارتی راستوں پر اجارہ داری کو ضرب لگ چکی ہے تو دوسی جانب کریمیا کی بندرگاہ پر قبضہ جماکر روس نے بحیرہ روم کی جانب شام کی طرطوس بندرگاہ کا متبادل بھی تلاش کرلیا ہے۔ روس نہیں چاہتا کہ امریکا اب اس کی سرحدوں کے قریب رہے۔ ملا اختر منصور کے قیادت سنبھالنے کے بعد قندوز کی کامیاب کارروائی کے حوالے سے بعض ذرائع کا خیال ہے کہ اس سلسلے میں افغان طالبان کو روسی ہتھیاروں کی شکل میں مدد حاصل رہی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں امریکا کے لئے مزید مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس وقت جب باراک اوباما وائٹ ہاؤس سے رخصتی کے لئے تیاریوں میں مصروف ہیں اور نومبر میں نئے امریکی انتخابات کے لئے تیاریاں زوروں پر ہیں۔ امریکا میں خارجہ پالیسی کا اونٹ ایک نئی شکل میں بیٹھتا محسوس ہورہا ہے۔ باراک اوباماکے دوسری مدت کے لئے صدر منتخب ہونے کے بعد نئی امریکی خارجہ وعسکری پالیسی کے خدوخال اس وقت واضح ہوئے تھے جب خارجہ پالیسی میں ایک بڑا اہم موڑ مشرق وسطی کی صورتحال میں روس کو براہ راست ملوث کرنا اور چین اور روس کے درمیان تعلقات میں رخنہ ڈال کر چین کو بین الاقوامی برادری میں تنہائی کا شکار کرنا شامل تھالیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی۔ ماضی میں بھی امریکا کی پوری کوشش رہی ہے کہ روس اور چین کو افغانستان میں طالبان کی ’’انتہا پسندی‘‘ سے خوفزدہ کرکے انہیں اس جنگ میں ملوث کیا جائے لیکن تمام تر مغربی میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کے باوجود روس اور چین نے افغانستان سے اپنے دامن کو بچا کر رکھابلکہ وہ دور جس میں امریکا افغانستان میں وارد ہوا تھا چین کی اقتصادی ترقی کی ابتدا کا سنہری دور کہا گیاہے۔ اسی دور میں روس نے سابق سوویت یونین کے زمانے کے زخم بھر کر ایک نئے روس کو دنیا سے متعارف کرایا جو پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم تھا۔ چین اور روس کسی طور بھی معاشی ترقی اور عالمی اثرورسوخ کی جانب پیش قدمی کا یہ سفر روکنا نہیں چاہتے تھے اس سلسلے میں روس نے صدام دور کے عراق کی قربانی دی، شمالی افریقا میں اپنا ایک مستحکم اتحادی قذافی گنوا دیا۔ وسطی افریقہ میں اپنے سیاسی اور معاشی اتحادی سوڈان کو دو لخت ہوتے دیکھا۔ نئی صدی کی ابتدا کے بعد سے ان دو اہم ممالک یعنی روس اور چین نے کہیں بھی عملا ًامریکی پیش قدمی کو روکنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ روس اور چین کو اس بات کا شدت سے ادراک تھا کہ امریکاکی اسی پیش قدمی میں اس کی عسکری شکست اور اقتصادی تباہی کا راز پنہاں ہے۔
امریکا عراق میں مکمل تسلط جماکر ایسی حکومت کے لئے راہ ہموار کرنا چاہ رہا تھا جو مستقبل میں اسرائیل کی حمایت بھی کرے اور دیگر چند عرب ممالک کی طرح اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرکے اسرائیل کو بغداد میں باقاعدہ سفارتخانہ کھولنے دے۔ دوسرے عراق تیل کی سپلائی کے تمام ٹھیکے امریکا اور برطانیہ کی من پسند کمپنیوں کو حاصل ہوں جس طرح پچاس کی دہائی کے دوران ایران میں قوم پرست عظیم لیڈر ڈاکٹر مصدق کو تختہ الٹ کر اور مغرب نواز شاہ کو اقتدار دے کر ایرانی تیل کو ایک مرتبہ پھر مغربی کمپنیوں کے نرغے میں دے دیا گیا تھا۔ اب اس وقت عراق پر عملاً ایرانی اثرونفوذ چھایا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شام تک ایران کی زمینی رسائی بہت آسان ہوچکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لیبیا کی طرح شام میں اسد حکومت کا تختہ کیوں نہیں اُلٹا جاسکا تو اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ امریکا اور اس کے حواری یہاں جنگ کا الاؤ بھڑکانا چاہتے تھے، اب نئی صورتحال میں سعودی عرب اور امارات نے بھی اپنے زمینی دستے شام میں بھیجنے کا اعلان کردیا ہے اس کے بعد خطے کی صورتحال کیا رنگ اختیار کرے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اباما کی پہلی مدت صدارت میں سابق صدر بش کی پالیسی کو ایک خاص حد تک جاری رکھا گیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اس میں تبدیلی لائی گئی۔ اس دوران انتہائی خاموشی کے ساتھ امریکاکے مقتدر اداروں میں خصوصاً سی آئی اے اور پینٹاگون میں آنے والی نئی حکمت عملی کے لئے پیش بندیاں کی گئیں۔ امریکا کی ڈیفنس ملٹری انٹیلی جنس ڈی آئی اے DIAنے انتہائی خاموشی کے ساتھ دنیا بھر کے اہم حصوں میں اپنے نیٹ ورک پھیلانے کا کام جاری رکھا۔ امریکا کی ڈیفنس ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے تحت کام کرتی ہے اور دنیا بھر میں اس کا خفیہ نیٹ ورک سی آئی اے کے مساوی خدمات سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔ ماضی میں اس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں ایک امریکی عہدیدار کے مطابق ڈی آئی اے کا افرادی حجم سی آئی اے کے برابر ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی بھی اچھی خاصی افرادی قوت کا حامل ادارہ ہے۔
ماضی میں ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی صرف جنگی محاذوں اور جنگ سے متعلق امور کی جاسوسی کے لئے وقف رہی ہے لیکن امریکا کے لئے نئے عالمی اہداف تک رسائی کے لئے اس خفیہ ایجنسی کو سی آئی اے کے شانہ بشانہ لانے کا منصوبہ وضع کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت تک ڈی آئی اے تقریبا دوہزار کے قریب اپنے جاسوسوں کو دنیا کے مختلف اہم اور حساس علاقوں میں اپنے نیٹ ورک قائم کرنے کے لئے کام پر لگا چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈی آئی اے کے جاسوسوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی سفارتخانوں میں تعینات دفاعی اتاشی بھی اب ایک جیسی ہی مہمات کے لئے مختص ہوں گے اور ان کی تربیت اور تعیناتی کا کام گزشتہ آٹھ برسوں سے جاری ہے اور اُن میں نئے افراد کو تیزی کے ساتھ تعینات کیا جارہا ہے ان کی تربیت سی آئی اے کے تحت کی جارہی ہے لیکن یہ اپنی ذمہ داریوں کے لئے حکم نامہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان سے ہی وصول کریں گے۔ اس انٹیلی جنس ایجنسی کے اہم ترین اہداف میں افریقہ کے جنگی گروپوں پر نظر رکھنا، شمالی کوریا اور ایران کے درمیان اسلحہ کی ترسیل کے معاملات نوٹ کرنا اور چین کی اسلحہ کے شعبے میں ترقی کو مانیٹر کرنا شامل ہے۔ ڈی آئی اے کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فلائن نے اپنی ایک نیوز کانفرنس میں اس بات کا سرسری ذکر کیا تھا کہ عالمی سطح پر نئی اور اہم تبدیلیاں آ رہی ہیں جو امریکاکے قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے اہم ہیں امریکی سیکورٹی اداروں میں تبدیلی کی فضا کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن انہوں نے ان ’’تبدیلیوں‘‘ کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا تھا۔
امریکہ کی جانب سے سامنے آنے والی یہ پالیسی اس بات کی پوری طرح غمازی کرتی ہے کہ آنے والے دنوں میں دور رس تبدیلیوں کے لئے پیش بندی کا کام بہت پہلے سے طے کر لیا گیا تھا اب صرف اس کے نتائج سامنے لائے جارہے ہیں۔ سی آئی اے کی جانب سے ڈرون حملوں کو افغانستان اور اس سے باہر زیادہ استعمال کیا گیا۔ اس کام کے لئے سی آئی اے اور ڈی آئی اے میں کافی زیادہ پھیلاؤ لایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ ڈی آئی اے کو سی آئی اے کی طرح آپریشنل ہونے کے لئے خود مختاری حاصل نہیں ہے ڈی آئی اے امریکی فوج کو ضروری جگہ پر حملوں کے لئے معلومات فراہم کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔
اوباما کی دوسری مدت کی صدارت کے بعد امریکا کی خارجہ اور عسکری پالیسیوں میں یہ تبدیلیاں اس بات کی جانب واضح اشارہ تھا کہ امریکی انتظامیہ نے حالات کے رخ کو دیکھ کر اس میں تیزی سے تبدیلیوں کا کام شروع کردیا تھا۔ اوباما کی پہلی صدارتی مدت سے پہلے انہیں جو روڈ میپ دیا گیا تھا وہ سابق مشیر قومی سلامتی برزنسکی اور ڈیوڈ راک فیلر کا متعین کردہ تھا جو عالمی صہیونی ساہوکاری کے فرنٹ مین شمار کئے جاتے ہیں جس وقت امریکا کو روس جیسے دشمن سے براہ راست سامنا ہو تو برزنسکی جیسے روس دشمن مشیروں کو امریکی انتظامیہ میں خاصی جگہ دے دی جاتی ہے۔ اوباما کی پہلی مدت صدارت کے دوران برزنسکی اور ڈیوڈ راک فیلر نے روس کو گھیرنے کا جو خواب دیکھا تھا وہ پورا نہ ہوسکا بلکہ اس کی تعبیر جارجیا، آب غازیہ، یوکرین اور کرائمیا کے واقعات کے بعد امریکاکے حق میں خاصی ہولناک برآمد ہوئی۔ اب خارجہ پالیسی کس طرف جائے گی، اس کا اشارہ ہم اس تجزیے کے شروع میں دے چکے ہیں کہ اباما نے جس انداز میں امریکی وزارت خارجہ اور امریکی فوج میں تبدیلیاں کی تھیں ان میں روس سے براہ راست ٹکراؤ کی پالیسی کے حامی افراد کو طریقے سے نکال دیا گیا تھا ان کی جگہ جو نئی تعیناتی کی جارہی ہے اسی سے اگلا امریکی صیہونی دجالی منصوبہ سامنے آجاتا ہے۔
امریکا اور یورپ کی اس وقت سب سے بڑی کوشش یہ ہوگی کہ کسی طرح چین افریقہ اور مشرق وسطی میں اپنی بڑی سرمایہ کاری کی حفاظت نہیں کرسکے۔ روس کو مشرق وسطی میں پیر رکھنے کی جگہ دی جائے تاکہ اسے وہاں مزید مفادات نظر آئیں اور اس طرح روس کو وہاں پھنسا کر امریکا اور اسرائیل کے معاملے میں اسے کسی حد تک سیاسی پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔
دوسری جانب ڈی آئی اے کی شکل میں امریکا جو عسکری کروٹ لے رہا ہے اسی کے نتیجے میں سابق امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے بار بار یہ کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی موجودگی باقی رہے گی۔ درحقیقت وہ اسی شکل میں رہے گی جس کا حال اوپر بیان کیا گیا ہے اس سلسلے میں امریکہ نے دنیا کے اہم ترین خطوں میں پہلے ہی اپنے سفارتخانوں کو توسیع دے کر اس کام کے تیار کرلیا ہے۔
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
شام کے صدر بشار الاسد نے امریکا اور روس کی مدد سے ہونے والی جنگ بندی سے چند گھنٹے پہلے پورے شام کو دوبارہ اپنی سرکار کے زیر نگیں لانے کا عزم ظاہر کیا۔ قومی ٹیلی وژن نے دکھایا کہ اسد دمشق کے نواحی علاقے داریا کا دورہ کر رہے تھے کہ جو بہت عرصے سے باغیوں کے قبضے میں تھا اور گزشت...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے اعلان کیا ہے کہ ترکی اب دہشت گردی کے خلاف کھلی جنگ کا سامنا کر رہا ہے۔ جمعے کو کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی جانب سے حملے میں 11 افراد کی ہلاکت کے بعد اپنے بیان میں وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ترکی میں دہشت گردی کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کریں گے۔ "کوئ...
شام کے شمالی علاقوں میں داخل ہونے کے ایک روز بعد ترک فوجی دستوں کے منبج شہر کے گرد امریکا کے حمایت یافتہ کرد جنگجوؤں کے خلاف حملے جاری ہیں۔ گو کہ ان حملوں کا آغاز جرابلس کے قصبے سے داعش کو نکالنے کے لیے ہوا تھا لیکن ترک حکام نے واضح کیا ہے کہ اس آپریشن کا بڑا مقصد کردوں کو کچلنا ...
گو کہ امریکا یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ افغانستان میں جنگ کا "خاتمہ" کر چکا ہے اور ملک میں موجود امریکی افواج کی تعداد بہت کم سطح پر پہنچ گئی ہے، لیکن ملک میں موجود امریکی دفاعی ٹھیکیداروں یعنی نجی فوج کی بڑی تعداد میں موجودگی کے بارے میں شاذونادر ہی بات کی جاتی ہے۔ اس وقت سرکاری...
چین بھی شام تنازع میں شامل ہونے کے قریب ہے۔ بیجنگ دمشق کے ساتھ قریبی فوجی تعلقات کا خواہشمند ہے اور اس بحران میں "اہم کردار ادا کرنا چاہ رہا ہے۔" چینی تربیت کاروں کی جانب سے شامی اہلکاروں کی تربیت پر گفتگو ہو چکی ہے اور اس امر پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے کہ چینی افواج شام کو ان...
روس نے پہلی بار شام میں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے لیے ایران میں موجود فضائی اڑے استعمال کیے ہیں، اور یوں مشرق وسطیٰ کے معاملات میں اپنی مداخلت کو مزید توسیع دے دی ہے۔ تہران کے ساتھ ماسکو کے تعلقات کس نہج تک پہنچ گئے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سک...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...