... loading ...
اقبال دیوان صاحب سابق بیورو کریٹ کے طور پر مختلف سرکاری عہدوں پرفائض رہے۔ بشری زیدی واقعے نے کراچی کی سیاسی ، معاشرتی اور نفسیاتی زندگی کو مکمل بدل دیا تھا۔ تب وہ مجسٹریٹ کےطور پراپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اور جسٹس حی کمیشن میں بطور گواہ پیش ہوتے تھے۔اقبال دیوان صاحب نے کراچی کی پوری زندگی کا پل پل مشاہدہ کیا ہے اور سیاسی حکمرانوں سے لے کر عسکری اداروں تک ڈوبنے اُبھرنے والے اہم لوگوں کے ساتھ بطور بیوروکریٹ کام کیا ہے۔ وہ کراچی کے انتہائی اہم دور کے واقعات کا اس تحریر میں ایک ایسے تناظر میں جائزہ لے رہے ہیں جس سے آئندہ کے لئے کسی نظام عمل کی راہ بھی تراشی جا سکتی ہے۔۔
پاکستان میں اکثر سنجیدہ مباحث کی شہ ضرب عمدہ گورننس کا فقدان ہوتی ہے۔عمدہ گورننس کے لیے اہم ترین لازمہ تو اس معاشرے ہی کے افراد ہوتے ہیں لیکن ان افراد کو سینت سنبھال کر ایک سسٹم رکھتا ہے۔ یہ سسٹم اداروں کی مدد سے پروان چڑھتا ہے۔ مسلم معاشروں میں بہت طویل عرصے سے زوال کا باعث افراد کا اداروں پر غلبہ ہے۔یورپ نے یہ راز بہت پہلے جان لیا کہ افراد کو اداروں پر قربان کرنے سے ہی معاشرے آگے بڑھتے ہیں۔
پاکستان میں آزادی کے بعد تک انگریز کے بنائے ہوئے ادارے بہت عرصے تک کام کرتے رہے ،تقریباً 1972 تک۔ ان ہی اداروں میں ایک موثر ادارہ ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور اس کے ماتحت تین چار اسسٹنٹ کمشنر ہوتے تھے۔انگریز ڈپٹی کمشنر کو دو ٹانگوں پر ایک مکمل حکومت گردانتا تھا۔جب تک یہ ادارہ قائم رہا ،پاکستان میں دہشت گردی اور لاقانونیت پر قدرے کنٹرول رہا۔ایسا نہیں تھا کہ ان کی موجودگی میں کوئی بڑے فساد ات واقع نہیں ہوئے۔دور کیوں جاتے ہیں ۔
کراچی ، میں بشریٰ زیدی (اپریل 1985 )سہراب گوٹھ، قصبہ ۔اورنگی کے پختون مہاجر ہنگامے اورحیدرآباد میں پکا قلعہ اور اس کے بعد کاروں سے کی گئی فائرنگ کے ذریعے دوسو افراد کی ہلاکت میں ڈپٹی کمشنر کا ادارہ موجود تو تھا ،مگر ایسا لگتا تھا کہ فسادات میں جو عوامل کار فرما تھے وہ ڈپٹی کمشنر کی سطح سے بہت بلند تھے۔ان میں افغانستان کی خاد اور ’’را ‘‘دونوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔یہ خفیہ ایجنسیاں ہنگاموں کو فروغ دینے میں push and pull factors پر کام کرتی تھیں۔پختونوں میں خاد نے اور مہاجرین میں را نے پنجے گاڑے ہوئے تھے۔افغانستان اور روس ہم سے جہاد کی وجہ سے اور ہندوستان ان دنوں ہم سے خالصتان تحریک کی حمایت کی وجہ سے ناراض تھا۔K for K یعنی خالصتان کا بدلہ کراچی میں لیا جارہا تھا۔
ان تین ہولناک ہنگاموں (قصبہ اورنگی فسادات اور پکا قلعہ فسادات) میں سے دو مواقع پر تو کراچی ویسٹ اور حیدرآباد کے ڈپٹی کمشنر ایک ہی تھے، موصوف اپنے کیریئر میں بظاہر ایک بے حد کامیاب افسر ہوا کرتے تھے۔ گھن گرج والی آواز ، گفتارکے غازی ، پی آر کے شناور جب 13 -14دسمبر 1987ء کو سہراب گوٹھ ہٹانے کے حوالے سے ہنگامے پھوٹ پڑے اور بے دخل ہونے والی مافیا کے کارندوں نے قصبہ علی گڑھ کالونی اور اورنگی کے سیکٹر ون ۔ڈی میں سو سے زائد افراد کو کھلی فائرنگ کرکے ہلاک کیا تب موصوف ہی ڈپٹی کمشنر ویسٹ تھے اور بعد میں جب 27 مئی 1990 میں پکا قلعہ کا سانحہ ہوا ۔ کرفیو لگا اور ہلاکتیں ہوئیں تو یہی حضرت ڈپٹی کمشنر حیدرآباد بھی تھے ۔ ان کے ساتھی ان بے شمار ہلاکتوں کی وجہ سے انہیں پیار سے ’’لاشوں کا جاوید میاں داد ’’پکارتے تھے ۔
ان ہنگاموں کو روکنے میں بُری طرح ناکام ایک ہی افسر کو آپ فرد واحد کی بزدلی اور ناکامی تو کہہ سکتے ہیں لیکن اس سانحے کو اس دفتر اور اس وابستہ اختیارات سے تعبیر کرنا زیادتی ہوگا۔اس کے بالکل برعکس جب دو برس پہلے خالد سعید یہاں ڈپٹی کمشنر تھے تو انہوں نے نیوکراچی میں فرقہ وارانہ فسادات کو موقع پر ہی روک دیا تھا۔
اسی طرح ڈپٹی کمشنر ہمایوں فرشوری صاحب نے بشریٰ زیدی کی موت کے بعد پھیلنے والے پختون مہاجر فسادات کو روکنے میں ایک موثر کردار ادا کیا۔ کراچی کے عوام ان دنوں بھی ٹرانسپورٹ والوں کی بدمعاشی سے تنگ تھے۔اس پیشے سے وابستہ افراد کی اکثریت کا تعلق چونکہ پٹھانوں سے تھا لہذا بشریٰ زیدی کی ہلاکت کے فوراً بعد یہ افواہ آگ کی طرح پھیل گئی کہ حادثے میں ملوث ڈرائیور پٹھان تھا۔جو موقع سے ہی فرار ہوگیا تھا۔معاملے کی تہہ تک جلد پہنچ جانے والے ڈی سی صاحب بہت جلد یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ روٹ این۔ ون کی جو دو منی بسیں ریس لگاتی ہوئی آرہی تھیں ان میں سے ایک کا ڈرائیور ارشد حسین بہاری تھا،نہ کہ کوئی پختون۔ اسی کی بس بریک فیل ہونے کی وجہ سے بشریٰ اور اس کی بہن نجمہ کچلی گئیں۔
عمائدین علاقہ سے فوری میٹنگ میں جیسے ہی ڈرائیور کا نام، پرانی تصویر اور اس بس کے مالک کا نام بتایا گیا ۔بس کے مالکان بھی بہاری تھے۔اس خبر کے عام ہوتے ہی ہنگاموں میں یک گونہ ٹہراؤ آ گیا۔ جب یہ حادثہ ہوا اسی وقت موقع پر پہنچنے والے افسروں میں ایس ڈی ایم اعجاز چودھری(بعد میں سیکریٹری پیٹرولیم اور چیف سیکریٹری سندھ )سب سے پہلے تھے وہ حالات کو سنبھال ہی رہے تھے۔ اپنی اس کوشش میں وہ احتجاج کے لیے چوک پر جمع ہونے والی لڑکیوں میں ایک لیڈر نما لڑکی کے ذریعے طالبات کے ہجوم کو پر امن طریقے سے منتشر کرنے پر آمادہ کرچکے تھے ۔ (ملاحظہ ہو تصویر یہ ہنگامے سے پانچ منٹ پہلے کی تصویر ہے ) جوش خطابت سے لبریز یہ لڑکی جب مذاکرات کے بعد ڈی ایس پی ملک شیر باز کی موبائل کے بونٹ پر بغرض خطاب چڑھ گئی تو حالات سے بے خبر ڈرائیور نے گھبرا کر گاڑی چلادی ، جس سے وہ نیچے گر گئی۔ہجوم کو ایسا لگا کہ یہ تو وہی بشریٰ زیدی والا سین پھر سے دُہرایا جارہا ہے ،اسی دوران جماعت اسلامی کے ایک اہم رہنما نعمت اﷲ خان بھی وہاں وزیراعلیٰ غوث علی شاہ کو سبق سکھانے پہنچ گئے تھے اور کراچی یونیورسٹی سے طالب علموں کی پوائنٹ کی بسیں بھی اپنا رخ موڑ کر آگئی تھیں، کراچی پھر ویسا نہیں رہا ۔
اچھے کاموں کا سرکار کے ہاں کوئی انعام نہیں۔ایک بے مثال جرات کا مظاہر ہ ضلع ویسٹ کے ڈپٹی کمشنر کامران لاشاری نے سرجانی ٹاؤن میں اس وقت کیا ،جب مختلف کمپنیوں کے بنائے ہوئے چھوٹے گھروں میں پٹھان قابض ہوگئے تھے۔ ایک رات ایک بڑے جتھے نے سامنے مہاجرین کی بستی پر حملہ کیا ۔ بعید نہ تھا کہ رات کی اس تاریکی میں ہونے والے قتل و غارت گری کے اس منصوبے پرڈپٹی کمشنر لاشاری غفلت برتتے تو عوام قصبہ علی گڑھ کے ہنگاموں کو بھول جاتے ۔اس دلیر افسر نے دبکی ہوئی پولیس فورس کی کمانڈ خود سنبھالی وہ اور ایس پی محمد اکبر آرائیں ایک کلاشنکوف لے کر ڈٹ گئے۔ فورس کو بھی حوصلہ ملا اور سب نے بڑی دلیری سے موقع پر ہی دس بارہ شر پسندوں کو ڈھیر کردیا اور وہ پسپا ہوگئے ۔ تب ایک تھانے میں بمشکل ایک یا دو کلاشنکوف ہوتی تھیں۔
ہنگامے کو روکنا کا جو پہلا مرحلہ ہوتا ہے یعنی اس کے احتجاجی عوامل کا سانحے میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی سدباب کرنا۔ اس کی مثال اس وقت کی مارشل لاء اتھارٹی کے سامنے بے حد قابل شاہد حامد ( جنہیں بطور ایم ۔ ڈی کے ای ایس سی قتل کردیا گیا) نے بطور ڈپٹی کمشنر ساؤتھ پیش کی ۔اہلیان بساط اقتدار پریشان تھے۔
کھارادر میں ایک ایسے گھر کو سپریم کورٹ کے آرڈر پر خالی کرانا تھا جس میں ایک فرقے کے کرائے داروں نے اپنی عبادت گاہ بنالی تھی۔مالک مکان کسی طور اس بات پر راضی نہ تھا کہ وہ اپنی ملکیت سے منہ مانگی قیمت پر بھی دستبردار ہو ۔مقدمہ کا فیصلہ سپریم کورٹ نے اس کے حق میں کیا۔شاہد حامد صاحب نے اس کا حل یہ نکالا کہ کسی طور کوئی ہنگامہ نہ ہو ا۔کھارادر تھانے کی حدود میں چھ گھنٹے کا کرفیو لگا کر دن کے اُجالے میں ہی اس گھر کو خالی کراکے ،قبضہ سپرد کرکے اگلے دن بذریعہ فیکس رجسٹرار سپریم کورٹ کو حکم کی تعمیل کی رپورٹ بھجوادی۔
پاکستان بھی افریقا اور ایشیا کے ان کثیر التعداد ممالک میں سے ایک ہے جہاں زندگی بہ یک وقت کئی ادوار میں گزاری جاتی ہے۔دیگر مثالیں تو شاید دور پرے کی لگیں مگر کراچی ائیر پورٹ سے ٹھٹھہ کی جانب روانہ ہوں تو ملیر سے لانڈھی تک اور پھر گھگھر پھاٹک سے ٹھٹھہ تک ایک ہی شاہراہ پر زندگی ساٹھ میل کے سفر میں اکیسویں صدی سے پندرھویں صدی کے ادوار میں ڈھل جاتی ہے۔ ایسے ممالک میں بہتر ہوتا ہے کہ مظاہرین اور متاثرین کا سامنا براہ راست سب سے بڑی اتھارٹی سے ایک دم نہ ہو۔ چیف منسٹر اور وزیر اعظم ، چیف سیکرٹری اور آئی جی تک جب کوئی مسئلہ یا مطالبہ پہنچے تو اس کی شدت اور تاخیر میں بتدریج صلاح و مشورے کے عمل کی وجہ سے ایک واضح اور قابل عمل حل کی جانب پیش قدمی آسان ہوچکی ہو۔اس کی بہترین ضمانت ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یعنی ضلع افسر کے انتظامی اختیارت اور عدالتی اختیارات والے دفاترفراہم کرتے ہیں۔ اول الذکر میں وہ کمشنر اور موخر الذکر میں وہ سیشن جج کو جواب دہ ہوتا تھا۔یوں بھی ایک عمدہ جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ میں ایک صحت مند سول سوسائٹی اور ایک قابل انتظامیہ ہی ترقی کی ضمانت ہیں۔ ان دو تضادات کی مثالیں آپ کو اسیکنڈے نیویا کے ممالک اور سنگاپور میں دکھائی دیتی ہے۔ان دو ممالک میں ڈپٹی کمشنر نہیں مگر لی کوان یو جیسا بے لوث سربراہ مملکت اور بادشاہت موجود رہے ہیں۔
گوروں نے ڈپٹی کمشنر کا دفتر متحدہ ہندوستان میں مقابلے کے امتحانات کے ذریعے تشکیل دی جانے والی انڈین سول سروس (1853)کے نتیجے میں تشکیل دیا۔ تب تک سندھ بنگال اور پنجاب مکمل طور پر ان کے زیر تسلط آچکے تھے۔ایک کے سامنے سرکار کا تسلط بربنائے انصاف اور ترقی تھا۔ یہ انتہائی طاقتور دفتر ہوتا تھا جہاں ضابطہ فوجداری کے تحت جرائم کی روک تھا جیسے دفعہ 144 کا نفاذ ، لاؤڈ اسپیکر کی اجازت ، اجتماعات کی اجازت، ڈومیسائل،اسلحہ کے لائسنس، ٹریفک کے چالان،تجاوزات کا خاتمہ، کاروباری مراکز کے معاملات، الیکشن ( پاکستان کے سب سے منصفانہ اور 1970ء والے آ زادانہ اور بعد کے بلدیاتی انتخابات ان ہی کی زیر نگرانی ہوئے تھے)۔ایس پی اور اس کے ماتحت تھانے اپنی کارکردگی اور جرائم کی روک تھام کے حوالے سے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہی کو جواب دہ ہوتے تھے۔عوام کے لیے ایک قابل بھروسہ ون ونڈو دفتر تھا۔
انگریزوں نے جب میجر جان جیکب کو جیکب آباد کا ڈپٹی کمشنر مقررکیا تو حالات بہت دگر گوں تھے مگر اس نے چھ سال کے عرصے میں اس ایک ضلع میں 2589 میل روڈ 88 نہریں اور 786 پتھر کے پل بنائے۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال یہ تھی کہ فلپ میسن نے اپنی کتاب The Men Who Ruled India میں لیفٹیننٹ ویلم میری ویدر کا وہ فقرہ لکھا ہے جس میں کمشنر فرئیر بارٹل (جن کے نام پر فرئیر ہال اور فرئیر مارکیٹ اور روڈ تھے) کے سندھ کی دور دراز پہاڑی سلسلوں میں جہاں پنجاب کی سرحدیں سندھ سے ملتی ہیں وہاں کوئی چوہا بھی میری مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا۔
ڈپٹی کمشنر کا ادارہ آئین کی شق نمبر 175 (3) کی رو سے عدلیہ کے انتظامیہ سے جدا کئے جانے کے حوالے سے سن 1993 میں ختم ہوا۔ اس ادارے کا مگر مکمل خاتمہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اگست 2001 ء میں ہوا جب ایک نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا گیا۔
اس کے پس پردہ ڈی ایم جی والوں میں پایا جانے والا ایک تاثر یہ بھی بہت عام تھا کہ نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے چیئرمین ہارون آباد (پنجاب )کے کسی ڈپٹی کمشنر سے بہت ناراض تھے۔وہ انہیں سستے داموں فروخت کی ہوئی زمین نئے مالکان سے واپس دلانے میں ناکام رہے تھے۔ سو وہ اس دفتر کو برباد کرنے پر اترے ہوئے تھے ۔ دوسری جانب اس دور میں پولیس کے افسران کی ایک موثر تعداد وزارت داخلہ میں بھی تعینات تھی۔وہ افسران پولیس کو ایک بااختیار اور جواب دہی سے بالاتر ادارہ دیکھنا چاہتے تھے۔ یوں ایک کمزور سے پبلک سیفٹی کمیشن اور آئی جی کو بہ یک وقت پبلک سروس کمیشن، کمانڈر آف دی فورس اور بجٹ کے معاملے میں ہوم ڈیپارٹمنٹ کی نگرانی سے آزاد ادارہ دیکھنے کی خواہش نے یہ دن دکھائے۔ اس طرح افضل شگری، آفتاب راٹھور اور شعیب سڈل نے مل کر نئے پولیس آرڈر کو تشکیل دیا۔پولیس میں موجودہ بگاڑ کا ایک سبب یہ پولیس آرڈر بھی ہے جس میں اختیارات کو ایک ہی ادارے اور پوسٹ یعنی آئی جی کے دفتر میں جمع کردیا گیا ہے۔پولیس انگریزی اصطلاح کے حساب سے Top Heavy ہوگئی ہے ۔ جب کے پولیس کا کام ایس پی لیول پر ختم ہوجاتا ہے اس کے بعد تمام کام ہوم ڈیپارٹمنٹ کا ہے جو پالیسی ساز دفتر ہے۔ڈی ایم جی اور پولیس گروپ کی اس دیرینہ باہمی چپقلش سے ہٹ کر دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ ضلعی سطح پر ایک کرپٹ اورمقامی سیاسی ہیوی ویٹس کی مرضی کا تابع نظام ملک میں ایک عرصے سے سیاست کے میدان میں غالب دو بڑی سیاسی پارٹیوں کو ضلع ناظم کا ادارہ صوبائی سیاست میں قدم نہیں جمانے دے گا۔
ڈپٹی کمشنر / ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے خاتمے سے نقصان یہ ہوا کہ حکومت عوام سے کٹ گئی۔ عوام کے غصے اور احتجاج، علاقے میں مختلف گروپوں کی کارروائی ہر بات کا علم اسسٹنٹ کمشنر کے ذریعے ڈپٹی کمشنر ، کمشنر اور ہوم سیکرٹری کو ہوتا تھا۔ وہ چیف سیکریٹری کے ساتھ مشاورت سے چیف منسٹر کو حقیقت پر مبنی رپورٹ پیش کیا کرتا تھا۔
اب معاملہ یہ ہے کہ اگر کہیں احتجاج ہو تو اس کا براہ راست سامنا ادھر ادھر سے جمع کی ہوئی پولیس فورس سے ہوتا ہے جو نہ تو احتجاج کرنے والوں کی نفسیات سے نہ ان کے لیڈر صاحبان سے واقف ہوتی ہے۔نتیجہ آپ کے پاس چار تھانوں اور پانچ سو ایکڑ کے چھوٹے سے علاقے میں لیاری گینگ وار اور بے نظیر کے قتل پر تین دن تک اربوں روپے کی جائیداد کی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ جس میں کئی ایس پی صاحبان کا اپنے علاقے کے تھانے والوں کو یہ حکم تھا کہ دروازے بند کرکے بیٹھے رہیں عوام سے نہیں الجھنا، نفری کم ہے ۔
سر دست ضرورت اس امر کی ہے آئین میں ہر پچاس لاکھ کی آبادی پر ایک صوبہ، براہ راست منتخب سینیٹ اور حکومت کے پچاس بڑے عہدوں پر امریکا کی سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی کے ذریعے تقرری۔ صدارتی نظام جس میں صدر کا ہر علاقے سے اپنی پارٹی سے منتخب ہوکر متفقہ طور پر نامزد ہونا بالکل وہی انداز اور مرحلہ جس سے ان دنوں ہیلری، ٹرمپ، روبیرو اور برنی گزررہے ہیں۔دو سے زیادہ دفعہ ایک عہدے پر فائز ہونے کی پابندی ، ہرجانے کا قانون، مقدمے کے فیصلے کی زیادہ سے زیادہ طوالت کی معیاد جیسے بڑے Strucutral Changes نہیں آتے ، اورنچلی سطح پر ڈپٹی کمشنر کے ذریعے ہی عوامی شکایت کا ازالہ ایک مرتبہ پھر سےExecutive Magistracy کو بحال کرکے کیا جاسکتا ہے۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...