... loading ...
کیا ہمارے پاس کوئی اور چارہ کار رہ گیا ہے؟ نئے سامراج کو آداب!اب یہ سوال غیر متعلق ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان کس کا ہے؟ یہاں ایک رائیونڈ محل ہے۔جو شریف برادران کی والدہ کے نام ہے۔ محل وقوع اور تعمیر کے اعتبار سے یہ ایک مختلف دنیا ہے۔ جہاں نوازشریف کبھی مودی اور کبھی شرمیلا ٹیگو ر سے ملتے ہیں۔ہزاروں ایکڑ رقبے پر محیط اس گھر میں رہنے والوں کی جائیدادوں کے جو اعدادوشمار دستیاب ہیں ، وہ بجائے خود ایک حیرت کا در کھول دیتے ہیں۔ جائیدادیں ، بیرون ملک رہائشیں، ملکی اور غیر ملکی کرنسی، بینک کھاتے، بڑی زرعی زمینیں،لوہا، اسٹیل، چینی، ٹیکسٹائل ، پیپر، ڈیری اور نہ جانے کیا کیا کچھ ہیں،جن میں معلوم نہیں کہاں کہاں سے سرمایہ کاری کی گئی۔ کیا اعدادوشمار کی ضرورت ہے؟ کون نہیں جانتا کہ اُنہیں جو کچھ مہیا ہیں اُس کے ہندسے حسابی مشینوں میں سماتے نہیں۔ ایک بلاول ہاؤس کا بھی تذکرہ ہوتا ہے۔ مگر یہ ایک نہیں آس پاس کے تقریباً تمام گھر اب زرداری کی ملکیت میں ہیں۔ جس کی ساری اینٹیں گزشتہ پانچ برسوں میں اُن کے دور صدارت میں لگائی گئیں۔جس کا حساب کر نے پر وہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اسفند یار ولی سے لے کر سیاست دانوں کی پوری اشرافی نسل کے متعلق کچھ اسی طرح کے اعدادوشمار ہیں۔ مگر یہ پوری بات نہیں۔
رفتہ رفتہ پاکستان میں ایک ایسے کاروباری طبقے نے جنم لے لیا ہے جو پوری ملکی معیشت کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں۔ یہ پاکستان کی قومی معیشت کا غارت گر ٹولہ ہے جو سیاسی خاندانوں کی طاقت کے ساتھ اپنی معاشی طاقت کو مربوط کرکے عملاً ملک چلاتے ہیں۔ اس ناپاک گٹھ جوڑ نے ریاستی طاقت کو کمزور اور اس کے اثرانداز ہونے کی صلاحیت کومحدود سے محدود تر کردیا ہے۔ریاست کی قوت نافذہ عملاً سکڑتی جارہی ہے۔ ادویات کی قیمتوں کی نگرانی کے لئے بھی ریاستی طاقت کا بھرم باقی نہیں رہا ۔ اس حوالے سے بلائے جانے والے اجلاس میں خاتون وزیر ادویہ ساز اداروں کے نمائندگان کا انتظار کرتی رہ گئیں اور اُنہوں نے اجلاس میں آنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پی آئی اے ملازمین کے احتجاج کے ہنگام نجی ائیرلائنز کمپنیوں نے اپنے فضائی کرایوں میں من مانا اضافہ کیا مگر حکومت اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ مسابقتی کمیشن نے اس پر ایک دوبیان ضرور داغے مگر یہ بالکل موثر ثابت نہیں ہو سکے۔ ریاست کی رٹ عملاً کریانے کی دُکان پر بھی کام نہیں کرتی۔ کیا قیمتوں کے کنٹرول کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر موثر ہے؟ سبزیوں سے لے کر پھل فروٹ تک ہر جگہ ایک ’’کارٹل ‘‘یا منظم گٹھ جوڑ اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کرتا ہے جو ہر قسم کی ریاستی نگرانی کو ناکام بنادیتا ہے۔ اب یہی کارٹل مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ اور جمہوریت کے نام پر جمہور کا استحصال کرنے کا حق حاصل کرلیتے ہیں۔ ابھی اُن بے وقوفوں کو اُن کے حال پر چھوڑیں جو سوشل میڈیا پر جمہوریت کی تقدیس کے پارٹی پروپیگنڈے کا حصہ بنتے ہوئے نہایت رومان پرور فقرے اُچھالتے ہیں۔ یہ بھی ایک نوع کا کارٹل ہے جو عوامی رجحانات کو اُسی استحصالی طبقے کے حق میں مروڑتاہے۔ یہ ایک طرح کا ایسا گیت ہے جو غلام اپنے ہی آقا کی تقدیس میں گاتے ہیں۔ یہ رومانوی باتوں کاوقت نہیں، یہ سوال ہرگز غلط نہیں ہے کہ پاکستان کس کا ہے؟
سرمایہ داریت کی بھوت نگری میں ایسے ایسے جادوئی جنتر منتر ہوتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ ’’نجکاری‘‘ بھی ایک ایسا ہی پرفریب عمل ہے جس کا جادو یہ نہیں کہ اس میں’ ہر چیز برائے فروخت ‘‘ ہوتی ہے۔ بلکہ اس کا اصل جادو یہ ہے کہ اس میں آپ وہ چیز بھی بیچ سکتے ہیں جو آپ نے کبھی خریدی ہی نہ ہو۔ کاروباری طبقہ انتخابات کے ذریعے اصلی جعلی مینڈیٹ پاکر ریاست کے کاروباری اداروں کو بیچنے کا اختیار پالیتے ہیں۔ کیا یہ ایک خواب نہیں کہ آپ کبھی نہ خریدی گئی چیزوں کو بیچ کر اُس سے’’ منافع ‘‘پالیں۔ جمہوریت زندہ باد! نجکاری پائندہ آباد!سرمایہ داریت نے ایسے ایسے ذرائع آمدن پیدا کر لئے ہیں کہ اب اس کی یلغار سے نمٹنے کے لئے ملکوں کی پوری پوری فوج بھی ناکافی رہتی ہے۔ کیا یہ مناسب وقت نہیں کہ اب اس نئے سامراج کوآداب کہا جائے۔
نئے سامراج کے اس چہرے کو دیکھنا ہے تواِسے بھارت کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے سوئس بینکوں کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بھارت کی سوا بلین آبادی میں ایک سو کے لگ بھگ آدمی پورے ملک کی چوتھائی جی ڈی پی سے زیادہ امیر ہیں۔ مگر پاکستان میں یہ معاملہ اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ بھارت کے ان امراء کی دولت پاکستان کے امراء کے مقابلے میں کہیں کم تر ہے۔ جو سوئس بینکوں کے اعداوشمار سے ظاہر ہے۔ پاکستانی امراء کی سوئس بینکوں میں 31دسمبر 2012 تک رکھی گئی رقوم 15ہزار کروڑ پاکستانی روپے تھی۔ یہ رقم بھارتی امراء کی سوئس بینکوں میں رکھی گئی رقوم سے ڈیڑھ فیصد زیادہ ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہی لوگ یہاں کی سیاست ، ریاست ، معیشت، ذرائع ابلاغ اور اداروں کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایسے کاروباری حضرات سیاست میں نہ بھی ہوتو حکمرانوں کے ساتھ ایک منافع بخش تال میل بنا کر ریاستی اداروں تک پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ چودھری نثار معلوم نہیں کس دنیا میں رہتے ہیں، اُن کی ناک کے نیچے ایف آئی اے ایسے لوگوں کے ہاتھوں روز استعمال ہو رہی ہے۔ یہ مسئلہ اُن کی پریس کانفرنسوں کی لچھے دار گفتگو سے بڑااور اُن کی ناک کے مسئلے سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی ریاست عملی طور پر پالیسیاں بنانے اور اُسے نافذ کرنے والی قوت سے بتدریج محروم ہوتی جارہی ہے۔ ایک نئے سامراج نے نجکاری کے ذریعے پاکستان میں سر اُٹھا لیا ہے، اب اُسے آداب کہنے کا وقت ہے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...