... loading ...
پاکستان ہو یا باقی اسلامی دنیاان کے حوالے سے ہم ہمیشہ اغیار کی سازشوں کا ذکر کرتے ہیں ، مغربی ایجنسیاں ہوں یا یہود ونصاری کی سازشیں لیکن کبھی ہم نے سوچا اس ملک اور اس کے دفاع کے ضامن اداروں کو اسی ملک کے کرپٹ سیاستدانوں نے کتنا نقصان پہنچایا ہے؟ نج کاری کے نام پر اس ملک کے منافع بخش ادارے کوڑیوں کے دام فروخت کئے گئے تو کبھی جمہوریت کے استحکام کے نام پر اس قوم کے غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا گیا اور تاحال ایسا ہی کیا جارہا ہے۔ ٹی ٹی پی ہو یا نام نہاد خلافت اسلامیہ یا داعش ان کے ذریعے اس ملک کی عسکری فصیل میں شگاف ڈالنے کی کوشش کی گئی تو دوسری جانب جمہوریت کا راگ الاپنے والے کرپٹ سیاستدانوں نے معاشی دہشت گردی کے ذریعے اس ملک کی معاشی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ ماضی میں پی ٹی سی ایل جیسے منافع بخش اداروں کو اغیار کے ہاتھوں فروخت کرکے کون سی قوم کی خدمت کی گئی تھی کہ اس کے بعد اسٹیل ملز جیسے اداروں کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا تاکہ جلد از جلد اس کی بولی لگا دی جائے اسی طرح آج قومی ائیر لائن پی آئی اے کے معاملات سب کے سامنے ہیں۔ یہ سیاستدان ہیں یا نوسرباز جو قوم کو استحکام جمہوریت کی لال بتی کے پیچھے لگاکر انہیں ترقی کے خوشنما خواب دکھاتے ہیں۔
یہ ان نام نہاد سیاستدانوں کے ذاتی کاروبار ہی ہیں جودن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے ہیں لیکن اگر خسارے میں جاتے ہیں تو قومی ادارے ۔۔۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آئی ایم ایف مزید قرضوں کی شرائط میں منافع بخش قومی اداروں کی لوٹ سیل کی شرط کیوں عائد کرتا ہے اور ہماری نام نہاد جمہوری حکومتیں کیوں آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہیں؟ کیا ماضی کی حکومتیں بتا سکتی ہیں کہ پی ٹی سی ایل جیسا منافع بخش ادارہ فروخت کرکے کون سے ترقیاتی کام مکمل کرلئے گئے ہیں؟ جس کے بارے میں آج بھی یہ کہا جارہا ہے کہ خریدنے والی غیر ملکی کمپنی نے پی ٹی سی ایل کے 800ملین ڈالر تاحال دبا رکھے ہیں۔یہی حال پی آئی اے کا کیا جارہا ہے سابق زرداری دور میں پہلے سیاسی بنیادوں پر ہزاروں بھرتیاں کرکے لوگوں پرـ’’ احسان‘‘ کرکے انہیں جمہوریت کے فوائد سے آگاہ کیا گیا اس کے بعد یہی بھرتیاں اور لوٹ مار کمیشنز اس ادارے کی تباہی کا سبب بن گئیں تاکہ اسے من پسند افراد یا فرنٹ مین کمپنیوں کے ذریعے اونے پونے فروخت کردیا جائے ۔
یہ ہیں اس جمہوریت کے ثمرات جس کے اوصاف گنواتے ہوئے ہمارے نام نہاد سیاستدان تھکتے نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے ان کرپٹ مقامی سیاستدانوں اور انتظامیہ کو قرضوں کی شکل میں اپنی جیبیں بھرنے کا بھرپور موقع فراہم کرتے ہیں ۔جیبیں ان معاشی دہشت گردوں کی بھرتی ہیں اور قرضے کا طوق غریب عوام کے گلے پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان قرضوں کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے لگتے ہیں تو پھر من پسند شرائط پر انہیں بیل آؤٹ کرنے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ خاکم بدہن اگر پاکستان عنقریب ان قرضوں کی شکل میں اس صورتحال سے دوچار ہوگیا تو یہ مالیاتی ادارے عالمی قوتوں کے ساتھ مل کر اس کا جوہری اثاثہ طلب کرلیں گے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو یہ صیہونی عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو ہمیشہ کے لئے بھارت کی طفیلی ریاست بنا دیں گے۔ اس لئے ایک طرف مذہبی انتہا پسندی کے ذریعے اس ملک کی فصیل میں شگاف ڈالنے کی کوشش کی جارہی تو دوسری جانب جمہوریت کے نام پر معاشی دہشت گردی سے اندرونی طور پر کھوکھلا کرنے کی سازش عروج پر ہے۔
مالک کائنات کے نزدیک شرک ناقابل معافی جرم اورناپسندیدہ ترین فعل ہے کیونکہ اگر کوئی اس کا شریک ہوتا تواﷲ کی زمین پر اور اﷲ کی مخلوق پر اپنے قوانین اور طرز زندگی کے نفاذ کی کوشش کرتا۔ اس لئے عقلی طور پر بھی شرک فہم وادراک کی ضد ہے۔ فرعون نے جب اپنی قوم کو کہا کہ ’’میں ہی تمہارا رب ہوں‘‘ تو اﷲ تعالی نے اس کا یہ دعوی پسند نہ کیا اور اسے عبرت ناک سزا دی۔ فرعون کا یہ دعوی اپنے قوانین اﷲ کے بندوں پر نافذ کرنے کے لئے تھا۔ وہ یہ دعوی نہیں کررہا تھا کہ اس نے ہی کائنات تخلیق کی ہے یا بندوں کو اس نے پیدا کیا ہے ۔کیونکہ اس وقت مصر میں بے شمار بزرگ لوگ ایسے بھی تھے جن کے سامنے فرعون پیدا ہوا تھا۔ فرعون کے شرک کی حقیقت محض اتنی تھی کہ وہ اﷲ کی مخلوق پر اﷲ کا قانون نافذ نہیں ہونے دے رہا تھا جبکہ اﷲ کے نبی ؑ وہاں موجود تھے۔اس کا جو خمیازہ فرعون نے بھگتا وہ سب کے سامنے ہے۔ جدید تاریخ کے جدید فرعون امریکا بھی اﷲ کی مخلوق پر اﷲ کا قانون نافذ نہیں ہونے دے رہا اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا طرز سیاست یعنی نام نہاد جمہوریت اور معاشی اور معاشرتی نظام اختیار کیا جائے۔ یعنی ایک ایسا سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام جس میں خدا کا تصور نہ ہو اور اسی دجالی تصور کی ترویج کے لئے اس نے اسلامی دنیا پر جنگوں کی آگ بھڑکا دی ہے۔مغربی جمہوری نظام کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ نام نہاد جمہوریت اور آمریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
اس مغربی طرز سیاست کا مزا پاکستانی قوم کیسے چکھ رہی ہے اس کا احوال سب کے سامنے ہے ۔پاکستانی قوم جو پہلے زرداری گروپ کے ہاتھوں جمہوریت کے وہ’’ثمرات‘‘ سمیٹتی رہی ہے جس کا گمان کبھی اس نے خواب میں بھی نہیں کیا تھا۔ان حکمرانوں نے اعلان کیا تھاکہ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ اگر اس جملے کی گہرائی میں جایا جائے تو حقیقتاً ہمیں معلوم ہوگا کہ قوم سے انتقام لینے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی اور نہیں تھا۔رہی سہی کسر نون لیگ نے نکال دی ہے۔ قوم اس وقت جن حالات کا شکار ہے اگر اس کے ہوش مند طبقے اس کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ سب کچھ اﷲ رب العزت سے بغاوت کا نتیجہ ہے۔ کاش یہ قوم بلکہ امت مسلمہ اس حقیقت سے آگاہ ہوتی کہ تاریخ انسانیت میں جمہوریت کے نام پر انسانیت کے ساتھ جس قدر فراڈ کیا گیا ہے اس کی مثال تاریخ کے کسی اور شعبے میں نہیں ملتی۔جمہوریت کا بظاہر معنی حکومت جو ایک ریاستی قوت کا نام ہے اس میں عوام کو برابر کا حصہ دار بنانا ہے یعنی ایک ایسی نمائندہ حکومت جو عوام کی مرضی سے تشکیل پائے اور عوام کے نمائندے ایک جگہ (اسمبلی)جمع ہوکر قانون سازی کا اختیار رکھتے ہوں۔اس قسم کی بے خدا جمہوریت کا آغاز معلوم تاریخ کے مطابق 508ق م میں یونان سے ہواتھا۔لیکن اگرماقبل تاریخ pre Historical ageکے زمانے میں چلے جائیں تو ایسی ہی جمہوریت کا تصور ہمیں میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق) میں ملے گاجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر فلاحی ریاست کا قیام یونان سے بھی پہلے موجودہ عراق میں عمل میں لایا گیا تھا۔ جدید محققین کے مطابق یونان کی اس جمہوریت کی عمر محض دو سو برس رہی۔لیکن اس جمہوریت میں بھی عوام کی شراکت داری کے نام پر بڑے بڑے دولت مند جنگجو ہی حکومت کیا کرتے تھے ۔قوت بادشاہ کے ہاتھ میں تھی اس کے بعد بادشاہ کے احکامات پر نظر رکھنے کے لئے ایک کونسل بنائی گئی تھی جس میں زیادہ تر افراد بھی بادشاہ ہی کے منظور نظر ہوا کرتے تھے اور پھر تیسرے درجے پر عوامی نمائندوں کی ایک مجلس ہوا کرتی تھی۔ یہ یونان کے شہر ایتھنزکا حال تھا جبکہ اس مملکت کے ایک اور صوبے اسپارٹا میں بھی اسی قسم کا نظام حکومت تشکیل دیا گیا تھا ۔اس دوران قانون سازی کے لئے اہل علم افراد نئے نئے فلسفے بیان کرتے رہے لیکن جس وقت فارس کے خلاف جنگوں میں فتوحات کی بنا پر سونے اور چاندی کی وافر مقدار یونان پہنچی اور دولت کی فراوانی ہونے لگی تو ایتھنز اور اسپارٹا کے درمیان اختیارات کی کشمکش کا نیا اور طویل سلسلہ شروع ہوگیاجوآخرکار 371ق م میں جنگ لیکٹورا Leuctra کی فیصلہ کن جنگ کے بعد سکندر اعظم کے باپ فلپ میسیڈونین دوم نے اس اختیاراتی کشمکش کا خاتمہ کرکے یونان پر اپنا اقتدار مضبوط کرلیا۔یونان میں جمہوریت کا شوشہ اس وقت چھوڑا گیا تھا جب مطلق العنان بادشاہت کو عوامی ردعمل اور فوجی جرنیلوں سے خطرات محسوس ہوئے تھے کیونکہ اس وقت فوجی جرنیل جاگیردار بھی ہوا کرتے تھے ۔ یوں جمہوریت کے نام پر شاہی خاندان، فوجی جرنیلوں اور اشرافیہ نے قوت ، دولت اور اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے لئے ایک ایسا نظام متعارف کرایا جس میں عام آدمی کو اختیارات میں حصہ دار بنانے کا جھانسہ دے کر بغاوت کے امکانات کو ٹھنڈا کیا گیا تھا لیکن یہ فراڈ دو سو برس سے زیادہ نہ چل سکا۔
اس کے بعد جمہوریت کے حوالے سے سلطنت روما (رومن ایمپائر)کا نام تاریخ میں نمایاں طور پر لیا جاتا ہے۔جس وقت رومن ایمپائر میں مطلق العنان بادشاہت نے معاشرتی اور معاشی خرابیوں کی وجہ سے عوام میں بغاوت کے بیج بو دیئے تو روم کی حکمران اشرافیہ کو جمہوریت کے نام پریونان کا کامیاب تجربہ یاد آگیا۔ روم ایک شہری ریاست تھی جو 1300ق م سے اٹلی کے وسط میں قائم تھی جبکہ اس کا جنوبی حصہ یونان کا مقبوضہ علاقہ رہا ہے لیکن یونان کے زوال کے بعد رومی سلطنت نے اپنے ان مقبوضہ علاقوں کو دوبارہ اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ تاریخی طور پر روم پر بھی بادشاہت قائم تھی اور آخری بادشاہ جولیس سیزر رومی سینیٹرز لوکس، جونیس اور بروٹس کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھااس کے بعد نئے آئین کی تشکیل کی شروعات ہوئی اور رومی سینٹ نے 454ق م میں ایک تین رکنی کمیشن اسپارٹا روانہ کیا تاکہ یونانی جمہوریت کے حوالے سے استفادہ کیا جاسکے جب یہ کمیشن واپس آیا تو قانون سازی کے ماہرین اور فلاسفہ کی 451ق م میں ایک دس رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی اور انہیں دو برسوں کے لئے غیر معمولی حکومتی اختیارات تفویض کردیئے گئے۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ روم کے لئے نئے قانون اورجمہوریت کے نام پرری پبلک کوڈ تشکیل دینے والی یہ کمیٹی بھی اشرافیہ پر ہی مشتمل تھی۔اس کمیٹی نے روم کے قدیم روایتی نظام کو بارہ درجات یا Twelve Tables میں بدل دیا جسے ایک اسمبلی کے تحت کیا جانا تھا۔درحقیقت بنیادی طور پر یہ ا سپارٹا کے نام نہاد جمہوری نظام کا ہی چربہ تھا۔ا سپارٹا کی جمہوریت میں دو بادشاہ سب سے زیادہ اختیارات کے حامل تھے اور روم میں دوافراد جن کو کونسل کہا جاتا تھا کو یہ اختیارات دیئے گئے ۔ اس کے بعد سینیٹ آجاتی ہے جو تمام کی تمام رومن اشرافیہ پر مشتمل ہوتی تھی اور پھر سب سے آخری یعنی تیسرے درجے میں عوامی اسمبلیاں ہوتی تھیں۔ جہاں پر عوام کے وہ نمائندے ہی پہنچ پاتے تھے جنہیں سینیٹ میں موجود اشرافیہ کی حمایت حاصل ہوتی تھی۔ جبکہ کونسل(بادشاہ) کے پاس سب سے زیادہ طاقت ہوتی تھی وہ سول اور فوجی معاملات میں یکساں قوت کا مالک تصور ہوتا تھا لیکن کسی بھی بڑے سیاسی اور عسکری فیصلے کے لئے اسے سینیٹ سے منظوری لینا پڑتی تھی۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اشرافیہ نے اختیارات کو ایک نظام کی شکل میں آپس میں تقسیم کرلیا تھا اور عام لوگوں کو یہ دھوکہ دیا گیا کہ ان کے نمائندوں کو اسمبلیوں میں بھیج کر انہیں بھی طاقت اور اقتدار میں حصہ دار بنا لیا گیا ہے ۔ یہ ہے وہ جمہوریت کے نام پر غریب عوام کو دکھایا جانے والا سراب جس کے پیچھے انسانیت کو قبل مسیح سے دوڑایا جارہاہے اور آج تک اس کا یہی حال ہے۔ اہل مغرب آج بھی اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپین قرار دیتے ہیں ۔وہ تاریخی طور اپنے آپ کو یونان اور روم کی جمہوریت اور قوانین اور آئین سے منسلک کرتے ہیں اور فخریہ طور پر دعوی کرتے ہیں کہ انسانیت کی فلاح کا سب سے بہترین نظام انہوں نے ہی دنیا کو دیالیکن ان سے کوئی یہ سوال کرے کہ یونان اور روم کی اشرافیہ کی مانند کیا آج بھی جمہوریت کے نام پراشرافیہ انسانوں پر حکومت نہیں کررہی؟ کیا امریکا اور برطانیہ میں آج بھی کوئی غریب آدمی الیکشن لڑنے کا تصور کرسکتا ہے؟
بنیادی طور پر مغربی جمہوریت ایک دجالی نظام کے تحت عمل میں لائی گئی تھی۔ یعنی منظر عام پر جو نظام ہوگا وہ کچھ ہو لیکن درپردہ جو ہاتھ یا گروپ جنہیں انگریزی اصطلاح میں سیکرٹ سوسائٹیز کہا جاتا ہے وہی درحقیقت اصل اقتدار اور قوت کی مالک ہوتی ہیں اور انہی کی مرضی سے تمام قوانین وضع کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کاٹ کھانے والی آمریت اور دھوکہ دینے والی جمہوریت سے انسانیت کو محفوظ بنانے کے لئے تقوی کی بنیاد پر نظام خلافت کا تصور دیا تھا لیکن جلد ہی گہری سازش کے ذریعے اس آفاقی نظام کو لپیٹ دیا گیا اور قرآن کریم جس میں انسانیت کی سیاسی، اقتصادی، معاشی، معاشرتی اور روحانی تربیت کا تمام سامان موجود ہے اس کے حقیقی مقاصد کو دنیا کے سامنے لانے سے روکنے کے لئے نئی نئی رکاٹیں کھڑی کی جانے لگیں۔
مغربی جمہوریت کی جدید ابتدا سولہویں صدی میں برطانیہ سے شروع ہوتی ہے جو عالم انسانیت میں پھیلنے والی دجالیت کا محور اور مرکز ہے۔ برطانیہ میں طرز سیاست اور قانون سازی کا عمل رومن قوانین کے تحت کیا گیا ہے کیونکہ اس کے ذریعے لوگوں کو رائے دہی کے حق کی آڑ میں مستقل غلام بنا لیا گیا۔ ’’جمہوریت‘‘ کی جائے پیدائش میں بادشاہت کا ’’پیوند‘‘ اس لئے لگا رہنے دیا گیا کہ تمام کا تمام برطانوی شاہی خاندان فری میسن سیکرٹ سوسائٹی کا رکن ہے جو درحقیقت برطانیہ پر حکومت کرتی ہے۔ انہی لوگوں نے بینک آف انگلینڈ تشکیل دیا تھا۔ یہی وہ ہاتھ ہیں جو فرانس،روس اور امریکا میں انقلاب کا سبب بنے تھے۔ کیونکہ اس بات کا راز رومن فلسفہ جمہوریت سے حاصل ہوچکا تھا کہ انسانوں کی محرومیوں کو استعمال کرکے انہیں اپنے مخالف مقتدر حلقوں کے خلاف کیسے استعمال کیا جائے اور جب انسانی بے چینی اور محرومی کا فائدہ اٹھاکر انہیں مطلوبہ انقلابات میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاچکے تو اقتدار پر کیسے اور کن لوگوں کے ذریعے قبضہ جمایا جاے۔ یہی طرز جمہوریت بعد میں امریکا منتقل ہوا ۔ یہاں برطانوی ہاؤس آف لارڈز کی جگہ امریکی سینیٹ نے لی،برطانوی ہاؤس آف کامن کی جگہ امریکن کانگریس نے لی۔ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کی جگہ امریکا میں وائٹ ہاؤس وجود میں آگیااور یوں ایتھنز، اسپارٹا اور روم کے قدیم بے خدا نظام نے نیا جنم لے لیا۔
برطانیہ ، فرانس،روس اور امریکی انقلابات کے بعد دجالی قوتوں نے جو مقاصد حاصل کئے تھے ان کے پوری دنیا میں نفاذ کے لئے اس نظام کو باقی دنیا میں بھی پھیلانے کا مرحلہ آیا۔ اس کے لئے استعماریت کو استعمال کیا گیا اور مشرقی علاقوں پر چڑھائی کردی گئی۔ یہ عمل سترویں صدی سے شروع ہوتا ہے ۔یورپ کے استعماری ملکوں نے جب علم اور سائنس کی بنیاد پر مشرق وسطی، افریقہ، ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا تک اپنے پنجے گاڑ دیئے تو انہوں نے وہاں کے معاشروں کو پہلے اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی لوگوں کو معاشی طور پر بدحال کرکے انہیں اپنا طرز زندگی اختیار کرنے کے لئے مجبور کیا اور جب تک خود ان معاشروں میں انہی کی طرح کی ایک کلاس نے جنم نہ لے لیا انہوں نے وہاں سے اپنا قبضہ ختم نہیں کیا۔اس کے لئے اگر تاریخ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جہاں جہاں سے مغربی استعماری قوتیں نکلتی گئیں وہاں انہوں نے مغربی جمہوریت کے طرز کا نظام نافذ کردیا تھا۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ شمالی افریقہ سے لیکر انڈونیشیا تک ایک ہی کہانی دہرائی جاتی رہی۔برطانیہ، فرانس، امریکہ، پرتگال، اطالوی، ولندیزی اور ڈچ استعمار نے اقتدار کی منتقلی زیادہ تر انہی عناصر کو کی جو ان ہی کے تربیت یافتہ اور انہی کی طرح کا طرز زندگی اختیار کئے ہوئے تھے اور جہاں عوام شعوری طور پر اس نظام کے لئے تیار نہیں تھے وہاں مغرب نواز بادشاہتیں قائم رہنے دی گئیں۔ اسلامی دنیا میں خلافت کی قبا چاک کروا کر نام نہاد جمہوریت کو اسی لئے رواج دیا گیا کیونکہ اسلام ہی اپنے اندر ایک مضبوط قسم کا معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام رکھتا ہے اور یہ مغربی جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا تھا۔یہ سارا عمل دوسری عالمگیر جنگ کے بعد عمل میں آیا اور اس وقت سے لیکر آج تک دنیا پر یہی نظام مسلط ہے۔
لیکن سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس سارے شیطانی عمل سے اگر کوئی خطہ یا ملک باہر رہا تو وہ افغانستان ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود اس ایک خطے پر مغربی استعماریت بری طرح ناکام رہی۔ اس میں اﷲ رب العزت کی کونسی مصلحت یا راز پنہاں ہے انسانی عقل اس کے ادراک سے عاری ہے۔سکندر اعظم یہاں صرف بلخ تک کامیاب رسائی حاصل کرسکا لیکن جلد ہی اسے بھی مڑ کر بابل (موجودہ عراق) میں سکونت اختیار کرنا پڑی۔برطانیہ نے یہاں ناک تک رگڑلی لیکن اسے کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ سوویت یونین افغانستان پر قبضے کے لئے آیا لیکن اپنے ہی وجود سے ہاتھ دھو بیٹھا اور آج امریکا یہاں آنے کے بعد جس حال سے دوچار رہا وہ سب کے سامنے ہے۔دوسری جانب افغانیوں کے طرز زندگی میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا ۔ کرزئی اور اس کے بعد موجودہ حکومت کی نام نہاد جمہوریت بھی اسی روز تک ہے جب تک وہ امریکیوں کی حفاظت میں ہے۔
اس مغربی جمہوری نظام میں اب کوئی بھی دولت کی بنیاد پر اپنا حصہ ڈال سکتا ہے ۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد مغربی سیاست میں بڑے بڑے مافیا بھی اپنا حصہ ڈالنے لگے اور اب یہ پوری طرح جڑ پکڑ چکا ہے۔ اس نظام میں سب سے زیادہ گھناؤنا کردار برطانیہ کی ایم آئی ۔ 5اور ایم آئی ۔6نامی خفیہ ایجنسیوں کا رہا ہے۔ اس کے بعد یہ خصوصیات امریکی سی آئی اے کو منتقل ہوئی جس نے دنیا بھر میں دہشت گردی کا ایک بازار گرم کردیا۔
پاکستان جہاں سب کو آجکل مغربی جمہوریت کا بخار چڑھا ہوا ہے کیا اپوزیشن اور کیا حکومت سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس طرز حکومت میں جس میں انسانوں کو تولا نہیں جاتا بلکہ گنا جاتا ہے پاکستان کے عام شخص کو کوئی فائدہ ہواہے۔ پاکستان کے آئین کی
پہلی ہی شق یہ ہے کہ اﷲ رب العزت حاکم اعلی ہے اور قرآن وسنت کے خلاف کسی قسم کی کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی ۔لیکن اس کے بعد کے معاملات سراسر اﷲ سے بغاوت پر مبنی نہیں؟ اﷲ تعالی نے قرآن کریم میں کہا ہے کہ سودی تجارت کرنے والے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے لئے تیار ہوجائیں تو کیا ہم اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے بغاوت نہیں کررہے کہ ہمارا سارا بینکنگ نظام سود پر مبنی نہیں ہے اور اگر اس لعنت سے چھٹکارے کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے بڑے بڑے معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر یہ نہ کیا تو دنیا کے ساتھ کاروبار کیسے ہوگا۔۔۔!! مغربی جمہوریت کا نام لے کر ہم اس قوم کے فرد کو پانچ برسوں میں صرف ایک مرتبہ حق رائے دہی کی زحمت دیتے ہیں اور اس کے بعد اسی کا پانچ برس تک استحصال کرتے ہیں۔ اس گناہ میں سب سے زیادہ سیاسی علما ملوث ہیں جنہوں نے قرآن اور سنت سے بغاوت کے نظام کو تقویت پہنچائی۔ہماری حالت بنی اسرائیل کے اس دور صحرا نوردگی کی سی ہے جس میں وہ چالیس برس تک بھٹکتے رہے تھے ہم بحیثیت پاکستانی قوم آج برسوں بعد بھی اسی صحرا میں بھٹک رہے ہیں ۔ہم نے اﷲ کے احکام کو پس پشت ڈالا، اﷲ کے نام لیواؤں کو سربازار رسوا کیا ، ٹی ٹی پی اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے افعال کو جواز بناکر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی مگر قوم خاموش تماشائی بنی رہی۔ ڈررون حملوں میں اپنے ہی ہم وطن معصوم قبائلی لقمہ اجل بنتے رہے لیکن کسی نے اف تک نہ کی۔ سلالہ چیک پوسٹ پر پاک فوج کے چوبیس جوان شہید ہوگئے لیکن منہ توڑ جواب نہ دیا گیا۔ آج جو کام پاکستان پر جمہوریت کے نام پر مسلط اشرافیہ خود نہیں کرسکتی وہ پارلیمنٹ پر ڈالتی ہے۔ اس پارلیمنٹ میں کون لوگ بیٹھیں ہیں؟ جن کی حقیقت زرداری، نواز شریف، اسفند یار ولی، فضل الرحمن اور الطاف حسین کے ملازمین سے زیادہ نہیں وہ بھلا ان کی مرضی کے خلاف کیسے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ ڈرامہ صرف پاکستانی قوم کو دکھانے کے لئے کیا جاتا ہے۔موجودہ جمہوریت کو پاکستانی قوم پر مسلط کرنے والوں نے مہنگائی کا شیڈول روز اول سے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں میں تھما دیا تھا۔نون لیگ کی حکومت کے اس دور میں آج ہم اس جان لیوا مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں جہاں کھونے کے لئے بھی کچھ باقی نہیں رہتا۔آنے والا وقت اس سے بھی زیادہ سخت ہے مشرق وسطی اور افغانستان میں جو کھیل کھیلا گیا ہے اس سے ہم الگ نہیں رہ پائیں گے۔لوٹ مار کرنے والے سیاستدانوں کو علم تھا کہ ڈالرکسی وقت بھی زوال پذیر ہوجائے گا اس لئے پہلے سونے اور اب پراپرٹی میں سرمایہ کرلی گئی ہے لیکن ایسی ’’سرمایہ کاری‘‘ کا کیا فائدہ ۔۔۔ بہت سے خطے ایسے ہیں جہاں یہ ’’سرمایہ کاری‘‘ عنقریب ریت کا ڈھیر بن جائے گی۔۔۔ باقی رہے نام اﷲ کا۔ اﷲ کی مخلوق پر جب تک اﷲ کا قانون نافذ نہ ہو تو اس وقت تک مخلوق سکون کی زندگی نہیں گذار سکتی۔
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...
ایک ایسے وقت میں جب طالبان قیادت کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا تھا اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور اس سلسلے میں دیگر طالبان کمانڈروں کو اعتماد میں لے رہے تھے پھر اچانک امریکیوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہوں نے طالبان کے امیر مل...
میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...