... loading ...
خلیفہ چہارم حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جس کی حکمت نہیں چلتی، اُس کی حکومت بھی نہیں چلتی۔‘‘میاں نواز شریف کی حکومت ، حکمت سے خالی اور اخلاقیات سے عاری ایک خوف ناک انجام کا چہرہ دیکھنے کے قریب پہنچ گئی ہے۔ وہ اپنی طاقت کے تمام ذرائع سے ایک ایک کرکے دور ہوچکی ہے یا کردی گئی ہے۔ پاکستان کے ریاستی اقتدار کا مخمصہ عجیب ہے کہ یہاں وفاداریوں کے خوف ناک تصادم کی ایک ناقابل فراموش تاریخ موجود ہے۔اجتماعی زندگی میں اقتدار کی کسی بھی شکل کی صدیوں پر پھیلی تاریخ ،وفاداری کے بنیادی سوال سے جڑی ہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات دیکھتے ہوئے ٹالسٹائی کے شہرہ آفاق ناول ’’جنگ اور امن‘‘ کے نویں باب کے وہ حالات توجہ کا دامن کھینچتے ہیں جو نپولین سے جنگ آزما ایام میں روسی حکمران طبقے کے اعمال نامے پر محیط ہیں۔ ٹالسٹائی واقعات در واقعات مختلف دھڑوں کے اعتقادات، تعصبات اور رجحانات کو بیان کرتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ یہ کس طرح ایک دوسرے سے انتہائی غیر موافق ہیں۔ صرف تب کی روسی حکومت نہیں، ہرحقیقی حکومت کا حال کم وبیش یہی ہوتا ہے۔ ایک سیدھی سادھی نظر آنے والی شے بھی اپنے حقیقی تجزیئے میں تنازعات کی نفسیات سے لتھری ہوتی ہے۔کسی بھی قیادت یا سرپرست سے وابستہ وفاداری ذاتی مفادات ورجحانات کی میزان پر مستقل جمع وتفریق سے دوچار رہتی ہے۔اسی باعث ریاستی اقتدار طالب ِوفا بن کر صدیوں سے حالت تصادم میں ہے اور رہے گا۔میاں نوازشریف ہی نہیں تمام سیاسی خاندان اپنے اپنے دائروں میں وفاداری کے ہی خواہاں رہتے ہیں۔ایک غیر مشروط اطاعت کی تلاش میں وہ ادنیٰ سے ادنی سطح پر اُتر کر پست سے پست مفاہمتیں کرتے ہیں۔مگر ہر شخص اور خاندان یہ سب کچھ ایک عمر تک کر پاتا ہے۔ پھر تاریخ کا اُصول حرکت میں آتا ہے۔ اور روح عصر تبدیل ہو کر اُنہیں غیر متعلق بنا دیتا ہے۔ شریف اور بھٹو خاندان اپنے کان زمین پر لگا کر اس عرصۂ زوال کی ابتدائی چاپوں کو سُن سکتے ہیں، جو بدلتے وقت کی کروٹوں کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ ریاستی اقتدار کی وفاداری کی طالب تاریخ کا ایک سبق یہ ہے کہ دوسروں کی اطاعت کا انحصار دوسروں پر نہیں خود رہنماوؤں پر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح وفاداری حاصل کریں اور پھر اُسے برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ ایک زیادہ وسیع اور گہرے تجزیئے کی یہاں گنجائش نہیں ۔ مگر حالات کی ایک سرسری سی تصویر میں اس کے امکانات کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
نواز شریف تحریک انصاف کے علاوہ حزب اختلاف میں شامل تمام جماعتوں کے ساتھ جمہوریت کے نام پر جو وسیع اتفاق رکھتے تھے، وہ کھو چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے دھرنے میں یہی سیاسی اتحاد پارلیمنٹ میں ایک مزاحمتی قوت بن کر سامنے آیا تھا۔ قرائن سے آشکار ہے کہ اب یہ سیاسی اتفاق پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا اتفاق دراصل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا تھا ۔ جسے عمران خان ـ’’مُک مُکا‘‘ قراردیتے آئے ہیں۔ دراصل دونوں بڑی سیاسی جماعتوں (زیادہ مناسب الفاظ میں دونوں خاندانوں) نے عسکری چاندماری کے لئے ایک دوسرے کے خلاف کاندھا فراہم نہ کرنے پر ایک خاموش مفاہمت کررکھی تھی۔ مگردھرنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے جو رخ ورخسار اور نقش ونگار بنائے، وہ پیپلز پارٹی کے اندر بھی احتساب کا ڈنڈا گھمانے کا موقع بن گئے۔ اس ضمن میں کراچی کے اندر جس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نہایت مہارت سے اپنا ہنر آزمایا ہے، وہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بیٹھے لوگ دور سے درست اندازا نہ لگاسکیں گے۔ ذرائع ابلاغ اس میں محض پروپیگنڈے کاایک ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔ اس پورے کھیل میں پیپلز پارٹی کا حال یہ ہو گیا ہے کہ وہ جمہوریت کی تقدیس کے سارے گیت بھول بھال گئی ہے۔ اور جمہوریت کے دفاع کے لئے سیاسی اتحاد کی رسی کومضبوطی سے تھامے رکھنے کے مفاہمتی اُصول کر ترک کرنے پر تیار ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی اب اس کے لئے پوری طرح تیار ہے کہ اُن کی قیادت اور بڑے رہنماوؤں کے لئے رعایت ملنے پر نون لیگ کو دھکا لگتا ہے تو کوئی حرج نہیں کہ جمہوریت ایسی کون سی دوشیزہ ہوتی ہے جس پر دست درازی سے اُس کی عزت خطرے میں پڑ جائے؟ دوسری طرف مسلم لیگ نون بھی پاکستان کی موجودہ سیاسی فضا میں اس حال کو پہنچ گئی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے رہنماوؤں کے خلاف احتساب کے حرکت میں آنے پر خاموش رہنے کو تیار ہو چکی ہے بشرطیکہ مسلم لیگ نون کے متعلقین کو تحفظ ملنے کی یقین دہانی ہو۔
مسلم لیگ نون کے لئے سنجیدہ نوعیت کے خطرات سر اُٹھا چکے ہیں۔نون لیگ کی حکومت بھی اب بدعنوانیوں کی کہانیوں سے داغدار ہوچکی ہے۔ اس معاملے میں سامنے آنے والے حقائق پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو انیس بیس کے فرق پر بھی کھڑا نہیں رہنے دیتے۔ نیب میں ہونے والی ایک سنجیدہ تفتیش میں خود وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر سوالات کی گنجائش پیدا ہوچکی ہیں۔ ایف بی آر میں اُن کے معاملات بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کاغذوں پر شہادتوں کے ساتھ مرقوم ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے متعدد معاملات ہیں جن میں پنجاب حکومت اور وفاقی وزراء کے حوالے سے تحقیقات کے لئے مطالبات کہیں نہ کہیں سے آرہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کا ترقیاتی نمونہ اور اُس کے رہنماوؤں کی شفافیت کی چھوی بُری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ پنجاب حکومت کے بیشتر منصوبے بدعنوانیوں کی داستانوں میں گردن گردن دھنسے ہوئے ہیں۔ اس طرح مسلم لیگ نون کی حکومت کی اخلاقی بنیاد اب پہلے سے کہیں زیادہ کمتر ہو چکی ہے۔ دھرنے کے دنوں میں نون لیگ کی چھوی اتنی بُری طرح مسخ نہیں تھی۔ اس لئے اُسے ایک عوامی ہمدردی بھی میسر تھی۔ اب یہ معاملہ بالکل برعکس ہوتا جارہا ہے۔
نواز حکومت کے لئے سیاسی حالات اب ہر گز موافق نہیں رہے۔ وہ ایک ایسے احتجاج کی تاب لانے کے اب قابل نہیں رہی جو دھرنے کے دنوں میں تحریک انصاف کی طرف سے دیکھنے میں آیا تھا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے حزب اختلاف کا حصہ ہوتے ہوئے بھی نواز حکومت کی طرف سے اپنائیت والی نگاہوں کو اب غضب ناک ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔ سیاسی حالات کی یہ کروٹ نئے مخالف ماحول میں مسلم لیگ کے حق میں مشکل سے ہی تبدیل ہوسکے گی۔ کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کے مشترک بندھن کو کھو کر اب وفاداریوں کے تصادم کی حالت میں پہنچ چکی ہیں، اور یہ مفادات کے خوف ناک ٹکراؤ کے باعث ہوا ہے۔ یہ تو سامنے کی حقیقتیں ہیں۔ جو حقائق پس پردہ کروٹیں لے رہے ہیں، وہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ تو کیا نوازشریف کی حکومت اپنے انجام کاچہرہ دیکھ رہی ہے؟ وزیراعظم کے نیب کے خلاف عوام میں پھٹ پڑنے سے اشارہ یہی مل رہا ہے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم الیکشن کیلئے تیار ہیں اور کب سے تیاری مکمل کر رکھی ہے، عمران خان نے پاکستان کی جو بربادی کی ہے، ملکی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور شاید آئندہ بھی نہ ملے۔میڈیا سے گفتگو میں نواز شریف نے کہا کہ عمران خان نے پا...
(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...
پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ پاک فوج کا سربراہ محترم ہیں، پاکستانی فوج کا سربراہ ایسا شخص ہونا چاہئے جو ہر قسم کے داغ سے پاک ہو، نقل کے عادی شخص کو فوج کے آئینی دائرے میں رہ کرکام کرنے سے تکلیف ہے، مخلوط حکومت مختصر وقت میں فیصلے نہیں کرسکتی ،موجودہ حالا...
حلف اٹھانے کے بعد متعدد وفاقی وزراء نے ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ منگل کو حلف اٹھانے کے بعد اتحادی حکومت میں شامل وزراء نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ مسلم لیگ (ن )سے تعلق رکھنے والے مفتاح اسماعیل کو وفاقی وزیرِ خزانہ بنا دیا گیا ہے، مفتاح اسماعیل کو آرٹیکل 91 کی ذیلی شق 9 کے تحت وفا...