... loading ...
ایک دانشور نے کہا تھا کہ’’ میں انصاف کو مانتا تو ہوں مگر اس کے دفاع سے زیادہ مجھے میرے عزیزوں کا دفاع عزیز ہے۔‘‘وزیراعظم میاں نوازشریف نے چیئرمین نیب کو ڈانٹا ہے تو بآنداز دگر یہی کہا ہے۔
قومی مقدر پر چھائے تاریک سائے محیط سے محیط تر ہو رہے ہیں۔ اور رہنماوؤں کو اپنی اپنی اور اپنوں اپنوں کی پڑی ہے۔ ہم ایک غیر ہموار اخلاقی جغرافیہ میں رہتے ہیں۔ جہاں ایک ہی جماعت کے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے ادوار کے بیانئے الگ الگ ہیں۔ جماعتیں صوبائیت کی شکار ہیں۔اور تمام کے تمام اہل اقتدار زمانہ جاہلیت کے عربی مقولے پر عمل پیرا رہتے ہیں کہ
اُنصر اخاکَ ظالمااو مظلوما
(اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم)
عافیہ صدیقی کی مظلومیت یہ نہیں کہ وہ بے گناہ ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہ اُس مظلوم عورت کو امریکی پروپیگنڈے کی یلغار میں رہنا پڑا۔ ایک سفاکانہ قید بھگتتے ہوئے اُسے اور اُس کے خاندان کو وہ تیر بھی سہنے پڑے ہیں جو امریکی سرمائے کی گود میں پلنے والے ذرائع ابلاغ کی کمانوں سے نکلتے ہیں۔ مگر اس معاملے میں سیاسی جماعتوں کا ماجرا کیا ہے؟ مسلم لیگ نون برسراقتدار آنے سے پہلے آسمان سر پر اُٹھائے پھرتی تھی۔ پھر اقتدار میں آکر وہ اس مسئلے کو فراموش کر بیٹھی۔پیپلزپارٹی سوشل اقدار پر یقین رکھنے والی جماعت کے طور پر اپنا تعارف کراتی ہے مگر 1993ء میں اُس کی حکومت نے 27سرکاری اداروں کی نجکاری کی، مگر حزب اختلاف کے طور پر اُس نے ہمیشہ یہی منجن بیچا کہ قومی ادارے تو ماں کا زیور ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ نون پیپلزپارٹی کے دور میں ہونے والی نجکاری کے تمام عمل پر بدعنوانی کے الزامات عائد کرتی رہتی ہے۔ مگر خود اپنے ادوار کی ثابت شدہ بدعنوانیوں پر بھی اُنگلی اُٹھانے نہیں دیتی۔ اس سے جمہوریت کی ماں مرجاتی ہے ۔ اور ترقی کی دیوی روٹھ جاتی ہے۔ بس یہی وہ غیر ہموار اخلاقی جغرافیہ ہے جس نے قومی زندگی کو بھی تقسیم در تقسیم کر رکھا ہے۔ مگر میاں نوازشریف کے معاملے میں یہ واقعہ مزید بھیانک بن کر سامنے آتا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کی چیئرمین نیب کو ڈانٹ ڈپٹ محض طریقہ کار اور نیب کے تیور واطوار سے متعلق کوئی سادہ مسئلہ نہیں ہے۔ اس میں پاکستان کے پورے سماج سے جڑے ایک سنگین مسئلے کا متعفن اندازِ فکر پوری طرح جھلکتا ، چھلکتا اور اُبلتا ہے۔ کاش وزیراعظم میاں نوازشریف اس موقع پر یہ بات نہ کہتے۔ وزیر اعظم کو نیب کی حرکتوں پراب جاکر تکلیف ہوئی ،جب معاملہ اُن کے اپنے حلقہ انتخاب یعنی صوبہ پنجاب تک جا پہنچا ہے۔ اُن کے ادوارِ اقتدار میں ہمیشہ دوسرے صوبے نیب کا نشانہ بنتے رہے۔ اس دورِ اقتدار میں بھی یہی ماجرا
ہے۔ کاروباری حلقے چیخ رہے ہیں ، ابھی دوروز پہلے کی بات ہے کہ سراج قاسم تیلی نے کہا کہ کیا سب کچھ کراچی میں خراب ہے، کیا سارے قوانین صرف کراچی کے لئے ہیں؟ تب شیر لسی پی کر اونگھ رہا تھا۔ کبھی اہلِ پنجاب نے غور ہی نہیں کیا کہ نوازشریف جب وفاق میں کوس لمن الملک بجاتے ہیں تو کراچی کے سرمایہ کار پریشان کیوں رہتے ہیں؟ ایف بی آر کا سارا دباؤ صرف کراچی کے کاروباری حلقوں پر ہی کیوں ہوتا ہے؟اس ضمن میں مایوسی اس قدر پھیل گئی ہے کہ نہایت سنجیدہ اور ایماندار کاروباری افراد بھی اب ملک میں رہنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ کچھ ہفتوں سے مسلسل ایسے افراد کے ساتھ ملاقاتوں میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ نوازشریف اور اُن کے سمدھی اسحاق ڈار کے اقدامات کو دوسرے صوبوں کے ساتھ تعصبات کی بھیانک مثالیں دے کر دیکھتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ وہ دو جمع دو چارکی طرح کے واقعات اور مثالیں دیتے ہیں۔ جن سے انکار کی خواہش کے باوجود انکار ممکن نہیں ہوتا۔
نوازشریف کو نیب سے شکایات ہیں مگر ایف آئی اے ملک میں اور خاص طور پر کراچی میں کیا کرتی پھر رہی ہے؟ کبھی وزیراعظم نوازشریف اور اُن کے’’ ایماندار‘‘وزیر داخلہ نے اس پر غور بھی کیا ہے۔ آصف علی زرداری کی طرف سے اُٹھائے گئے ڈاکٹر عاصم کے معاملے کو ایک طرف رکھیے، اس میں کچھ اور کھلاڑی بھی ملوث ہیں۔ مگر بول کے معاملے میں اس حکومت نے کیا کیا ہے؟ ایک ہی الزام میں کراچی اور اسلام آباد میں یکساں مقدمات درج ہوئے ، اب سات ماہ سے اوپر ہوتے ہیں ، ایف آئی اے نے مذکورہ ملزمان کے خلاف فردِ جرم تک عائد نہیں کی۔ مگر اس سے زیادہ بھیانک بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں درج مقدمے کے ملزمان کو ضمانتیں دے دی گئیں۔ اور اُسی مقدمے میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ملزمان کو ضمانتیں نہیں مل رہیں۔ ریاست کے پاس ایک ہی الزام پرمبنی ایک ہی مقدمے میں ایک شہر کے ملزمان کو ضمانت دینے اور دوسرے شہر کے ملزمان کو ضمانتیں نہ ملنے کا کوئی اخلاقی جواز تو ہونا چاہئے۔ اگر نہیں تو پھر تعصبات کے دیو دھمالیں ڈالتے رہیں گے۔ ایف آئی اے کو قرار پھر بھی نہیں آرہا۔ اب اُس نے ایک دوسرا مقدمہ اے کے ڈی سیکورٹیز کے حوالے سے قائم کیا ہے جو اپنی نوعیت میں صرف پاکستان نہیں پوری دنیا کا منفرد مقدمہ ہے۔ ایف آئی اے اس میں بھی شہادتوں اور ثبوتوں کی حصولیابی میں ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد اب ملزمان کو جیل میں پھنسائے رکھنے اور کچھ حکومت کے’’ دوستوں‘‘کو خوش رکھنے میں مصروف نظر آتی ہے۔ ان دونوں مقدمات میں اٹارنی جنرل کا دفتر انصاف کی راہ میں رکاؤٹ بن کرکھڑا ہے۔ کیا وزیراعظم نوازشریف کو یہ چیزیں پریشان نہیں کرتیں؟ کیا یہ سب کچھ کسی اور ملک میں ہو رہا ہے؟ حیرت تو یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے ’’ایماندار‘‘ وزیرداخلہ کوبھی پریس کانفرنسوں میں اپنی راست بازی کے تقریریں جھاڑنے کے علاوہ اور کسی چیز کی فکر نہیں۔ مگر اس ناہموار اور طاقت پر استوارمتعصبانہ اور جانبدارانہ طرزِعمل کو پاکستان کے موجودہ حالات میں کب تک جاری رکھا جاسکے گا؟ جبکہ سیاسی جماعتیں اپنے خلاف جائز احتسابی عمل کو بھی صوبائیت کا مسئلہ بنادیتی ہے۔ جبکہ عام کاروباری افراد کے احتساب میں تمام ناجائز حربوں کے لئے سرکاری اداروں کے استعمال پر ذرا بھی نہیں ہچکچاتی۔ مورخ لارڈ ایکٹن نے ان حالات کو سمجھ کر ایک نتیجہ بیان کیا ہے کہ
’’حکومتوں کی طرف سے قانونی ذمہ داری پورے کرنے میں کمی پھر تاریخی ذمہ داری پوری کرکے کرنا پڑتی ہے۔‘‘
کیا پاکستان تاریخی ذمہ داری پوری کرنے کے دور میں داخل ہورہا ہے۔وزیراعظم کی چیئرمین نیب کو متعصبانہ سرزنش اسی کی نشاندہی کرتی ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف نیا توشہ خانہ ریفرنس دائر کر دیا۔ نیب کے تفتیشی افسر محسن ہارون اور کیس افسر وقار الحسن نے احتساب عدالت اسلام آباد میں ریفرنس دائر کیا، نیب کی جانب سے دائر نیا توشہ خانہ ریفرنس دو والیم پر مشتمل ہے۔ نیب ک...
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو غیر قانونی لائسنس اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق نیب ذرائع نے بتایا کہ نیب ہیڈ کوارٹر نے نیب لاہور کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی گرفتاری کے لیے 15 دن کا وقت دے...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر منظور وسان پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کی انکوائری شواہد نہ ملنے کے باعث بند کر دی۔ آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق کیس میں نیب پراسیکیوٹر نے سندھ ہائیکورٹ میں تحریری جواب جمع کرایا جس میں بتایا کہ منظور وسان کے...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ پاک فوج کا سربراہ محترم ہیں، پاکستانی فوج کا سربراہ ایسا شخص ہونا چاہئے جو ہر قسم کے داغ سے پاک ہو، نقل کے عادی شخص کو فوج کے آئینی دائرے میں رہ کرکام کرنے سے تکلیف ہے، مخلوط حکومت مختصر وقت میں فیصلے نہیں کرسکتی ،موجودہ حالا...